قمرجلال آبادی - " یہ دردِ ہجر اور اُس پر سحر نہیں ہوتی"

طارق شاہ

محفلین

غزلِ
قمر جلال آبادی

یہ دردِ ہجر اور اُس پر سحر نہیں ہوتی
کہیں اُدھر کی تو دنیا اِدھر نہیں ہوتی

نہ ہو رہائی قفس سے، اگر نہیں ہوتی
نگاہِ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی

ستائے جاؤ نہیں کوئی پوچھنے والا
مٹائے جاؤ کسی کو خبر نہیں ہوتی

نگاہِ برق عِلاوہ مِرے نشیمن کے
چمن کی اور کسی شاخ پر نہیں ہوتی

قفس میں، خوف ہے صیّاد کا نہ برق کا ڈر
کبھی یہ بات نصیب اپنے گھر نہیں ہوتی

منانے آئے ہو دنیا، میں جب سے رُوٹھ گیا
یہ ایسی بات ہے جو درگُزر نہیں ہوتی

پِھروں گا حشْر میں کِس کِس سے پُوچھتا تم کو
وہاں کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوتی

کسی غریب کے نالے ہیں آپ کیوں چونْکے
حضُور شب کو اذانِ سحر نہیں ہوتی

یہ مانا آپ قسم کھا رہے ہیں وعدوں پر
دلِ حزیں کو تسلّی مگر نہیں ہوتی

تُمِھیں دُعائیں کرو کچھ مریضِ غم کے لئے
کہ اب کسی کی دعُا کارگر نہیں ہوتی

بس آج رات کو تیماردار سو جائیں
مریض اب نہ کہے گا، سحر نہیں ہوتی

قمرؔ یہ شامِ فراق اوراضطرابِ سَحَر
ابھی تو چار پہر تک سحر نہیں ہوتی

قمر جلال آبادی
 
Top