متلاشی
محفلین
قمر کو جس پہ ناز تھا وہ آسماں نہیں رہا
جو رشکِ آفتاب تھا وہ ضو فشاں نہیں رہا
چمن میں کیوں ہے خامشی ؟ اُداس کیوں ہے ہرکلی ؟
تھیں جس کے دم سے رونقیں وہ باغباں نہیں رہا
قدم قدم پہ شفقتیں ، نفس نفس عنایتیں
ملیں جہاں سے الفتیں ، وہ آستاں نہیں رہا
وہ جس کے دم سے ھر طرف بہار ہی بہارتھی
وہ پاسباں بچھڑ گیا ، وہ رازداں نہیں رہا
غضب ہوا کہ وہ جواں، عزیمتوں کا کارواں
صداقتوں کا پاسباں ، اب اس جہاں نہیں رہا
کرم کا تھا جو سائباں ، وہ مہرباں ، وہ قدر داں
جو سب کا تھا عزیزِ جاں ، انیسِ جاں نہیں رہا
فضا میں کیوں ہے سوگ سا ؟ زباں کوکیوں ہے چپ لگی؟
جو انجمن تھا ذات میں وہ پاسباں نہیں رہا
مری متاع تو لٹ گئی ، یہ زندگی اجڑ گئی
کہ جس کے دم سے تھا جہاں ، وہ مہرباں نہیں رہا
کہاں گئی وہ ربطگی ؟ کہاں ہے گم وہ چاشنی ؟
نصرؔ ہے تجھ کو کیا ہوا ؟ یہ وہ بیاں نہیں رہا
محمد ذیشان نصر
(۳ فروری ۲۰۱۳)