قندَ وفا برائے اصلاح

الف عین
افاعیل---- مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قندِ وفا ملا رہا ہوں نفرتوں کے زہر میں
ڈوبے ہوئے ہیں لوگ اپنی حسرتوں کے بحر میں
--------------------
مقصد فقط ہے بندگی جیسے بھی تم سے ہو سکے
ہم تو اُلجھ کے رہ گئے ہیں بس خفی اور جہر میں
---------------------
میرا خدا تو جانتا ہے جو کسی کے دل میں ہے
کرتا ہوں دل کی بات راتوں کو اُٹھ کر سحر میں
------------------------
آنسو رُکے ہیں آنکھ میںروؤں تو یا رب کس طرح
کوئی نہیں ہے پونچھنے والا تو پورے شہر میں
----------------------
تیرے خدا نے جو دیا وہ خوب ہے تیرے لئے
جو مطمئن اس پر نہیں تو جا کے ڈوبے نہر میں
-----------------------
ارشد کبھی بھی اس طرح کی بات کرتا ہی نہیں
کرتا ہے ایسی بات جب ہوتا ہے اپنی لہر میں
---------------------
 

الف عین

لائبریرین
مزا نہیں آیا اس زمین کا
قندِ وفا ملا رہا ہوں نفرتوں کے زہر میں
ڈوبے ہوئے ہیں لوگ اپنی حسرتوں کے بحر میں
--------------------' ملا رہا' مستفعلن نہیں ہو سکتا مفہوم کے اعتبار سے بھی دو لخت ہے

مقصد فقط ہے بندگی جیسے بھی تم سے ہو سکے
ہم تو اُلجھ کے رہ گئے ہیں بس خفی اور جہر میں
--------------------- کس چیز کے خفی اور جہر میں، یہ واضح نہیں ۔ سر اور جہر کا تضاد ہوتا ہے

میرا خدا تو جانتا ہے جو کسی کے دل میں ہے
کرتا ہوں دل کی بات راتوں کو اُٹھ کر سحر میں
------------------------ سحر، ح ساکن بمعنی جادو، سحر ح پر زبر بمعنی صبح سَحَر قافیہ نہیں ہو سکتا

آنسو رُکے ہیں آنکھ میںروؤں تو یا رب کس طرح
کوئی نہیں ہے پونچھنے والا تو پورے شہر میں
---------------------- روؤں تو یا.. . غیر ضروری ہے 'بہتے نہیں ہیں اس لیے' کہو تو مفہوم نکلے

تیرے خدا نے جو دیا وہ خوب ہے تیرے لئے
جو مطمئن اس پر نہیں تو جا کے ڈوبے نہر میں
----------------------- زبردستی کا شعر ہے

ارشد کبھی بھی اس طرح کی بات کرتا ہی نہیں
کرتا ہے ایسی بات جب ہوتا ہے اپنی لہر میں
--------------- کس طرح کی بات؟
 
Top