ناعمہ عزیز
لائبریرین
قندیل بلوچ نام ہے ایک سچائی کا، ڈنکے کی چوٹ پر ایک منافقت بھرے معاشرے میں جینے کا، واقعتاً ایک کھلی کتاب کا، جی ہاں قندیل بلوچ یا فوزیہ عظیم نام ہے ایک باغی کا، مردوں کے معاشرے میں بےباک مرد بن کر جینے والی ایک عورت کا جو کہ مردوں سے برداشت نا ہو سکی. وہ بولتی تھی تو مردوں کی عزت تار تار کر دیتی تھی اور اس صاف ظاہر تھا کہ اسے اتنی چھوٹی سی عمر میں کیسے کیسے خبیث ملے ہوں گے. میں کن لفظوں میں اظہار افسوس کروں جس دن سے وہ مری ہے میں سوچ سوچ کر تھک گئی ہوں. وہ لڑکی نہیں ایک ڈر تھی اور ہر اس شخص کے لیے تھی جو اس پر تنقید کرتا تھا.مذہب، معاشرتی اقدار، اخلاقیات کوئی بھی ایک انسان کو ایسے بے بس کر مارنے کی اجازت نہیں دیتا. اس کا بھائی اسے نشہ آور دوا نا کھلانا تو وہی قندیل اسکا منہ نوچ لیتی مگر بھائی... بھائی ہی کیونکر.... اسے کے پاس غلط یا صحیح کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں تھی بس جو دل میں آتا تھا وہی کرتی تھی، ہم لوگ گھٹ گھٹ کر جیتے ہیں معاشرے کی اقدار و روایات مذہب کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہیں یہاں تک کہ کچھ کہنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں سننے والے کو برا تو نہیں لگ جائے گا، جو کہا جا رہا ہے اس کا کیا مطلب لیا جائے گا! وغیرہ وغیرہ
قندیل کی مثال ایسی ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے. وہ جو بھی کر رہی تھی اس پر عوام کا عمومی رویہ یہ تھا کہ یہ مرے گی اور مر گئی تب بھی گندی ذہنیت کے لوگ مری ہوئی لڑکی کے لیے ایسے ایسے فقرے استعمال کر رہے تھے کہ میں سوچ رہی تھی یہ فرعون اپنے آپ کو موسی کیوں سمجھتے ہیں. لوگوں نے کہا وہ پاکستان کا نام بدنام کر رہی تھی واہ یہ کہنے والے فرشتے کیا آسمان سے اترے تھے!!!
مجھے اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی اسکی موت کا یقین نہیں ہوا ہر روز میں اسکا کوئی انٹرویو نکال کر دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کاش یہ وہم ہو حالانکہ میرا اس سے کوئی خونی رشتہ نہیں. اس نے کسی کو تکلیف نہیں دی، نقصان نہیں پہنچایا، پھر بھی وہ ماری گئی یہاں بندہ مارنے والے درندے آزاد گھومتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں..
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں یہ غیرت کے نام پر عورتوں کو قتل کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ بے غیرتی دراصل ہوتی کیا ہے.....چھ بھائیوں کے ہوتے ایک بیٹی کا اپنے ماں باپ کے اخراجات اٹھانا اس پر اسے غیرت نا آئی اور اس بات پر اس نے خودکشی کیوں نا کر لی بہن کو مارنے سے پہلے...
اور اگر وہی بہن اپنے چھ بھائیوں کے ہر ہر کرتوت سے واقف ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ ان میں سے کوئی بھی دودھ کا دھلا نا نکلتا.. اور اگر غیرت کے نام پر عورتوں نے بھی ایسے ہی قتل کرنا شروع کر دیے اور بقول مردوں کے وہ سب بے حیائی اور فحاشی جس کی وجہ سے قندیل بلوچ ماری گئی ان مردوں کی زندگیوں سے بھی ختم ہو جائے گی...
کب تک آخر کب تک ہم عورت کے عورت ہونے کی وجہ سے غلامی کا طوق اتار کر انسان کا درجہ دینے سے قاصر رہیں گے.. کب تک عورت پاؤں کی جوتی بنی رہے گی کب تک عورت غیرت کے نام پر قتل ہوتی رہے گی..!!!!
قندیل کی مثال ایسی ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے. وہ جو بھی کر رہی تھی اس پر عوام کا عمومی رویہ یہ تھا کہ یہ مرے گی اور مر گئی تب بھی گندی ذہنیت کے لوگ مری ہوئی لڑکی کے لیے ایسے ایسے فقرے استعمال کر رہے تھے کہ میں سوچ رہی تھی یہ فرعون اپنے آپ کو موسی کیوں سمجھتے ہیں. لوگوں نے کہا وہ پاکستان کا نام بدنام کر رہی تھی واہ یہ کہنے والے فرشتے کیا آسمان سے اترے تھے!!!
مجھے اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی اسکی موت کا یقین نہیں ہوا ہر روز میں اسکا کوئی انٹرویو نکال کر دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کاش یہ وہم ہو حالانکہ میرا اس سے کوئی خونی رشتہ نہیں. اس نے کسی کو تکلیف نہیں دی، نقصان نہیں پہنچایا، پھر بھی وہ ماری گئی یہاں بندہ مارنے والے درندے آزاد گھومتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں..
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں یہ غیرت کے نام پر عورتوں کو قتل کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ بے غیرتی دراصل ہوتی کیا ہے.....چھ بھائیوں کے ہوتے ایک بیٹی کا اپنے ماں باپ کے اخراجات اٹھانا اس پر اسے غیرت نا آئی اور اس بات پر اس نے خودکشی کیوں نا کر لی بہن کو مارنے سے پہلے...
اور اگر وہی بہن اپنے چھ بھائیوں کے ہر ہر کرتوت سے واقف ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ ان میں سے کوئی بھی دودھ کا دھلا نا نکلتا.. اور اگر غیرت کے نام پر عورتوں نے بھی ایسے ہی قتل کرنا شروع کر دیے اور بقول مردوں کے وہ سب بے حیائی اور فحاشی جس کی وجہ سے قندیل بلوچ ماری گئی ان مردوں کی زندگیوں سے بھی ختم ہو جائے گی...
کب تک آخر کب تک ہم عورت کے عورت ہونے کی وجہ سے غلامی کا طوق اتار کر انسان کا درجہ دینے سے قاصر رہیں گے.. کب تک عورت پاؤں کی جوتی بنی رہے گی کب تک عورت غیرت کے نام پر قتل ہوتی رہے گی..!!!!
آخری تدوین: