قولِ فیصل - ٹائپ شدہ مواد۔ ص 1 تا 22

ابو کاشان

محفلین
قولِ فیصل، 141 صفحات پر مشتمل یہ کتاب جس کو 69 صفحات پر اسکین کیا گیا ہے۔
میں اس کتاب پر کام شروع کر رہا ہوں۔ کتاب کے صفحہ 1 سے صفحہ 43 جو کہ اسکین کے 20 صفحات بنے ہیں اس وقت میرے قبضہ کمپیوٹر میں ہیں۔
 

ابو کاشان

محفلین
صفحہ 2
آزادی ہم نے حاصل کر لی ہے۔ لیکن آزادی کا صحیح طور پر کام میں لانا ابھی باقی ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ اپنی ساری قوتیں اس دوسرے کام کے لئے وقف کر دیں۔
امن، اتحاد، باہمی اعتماد، اور حب الوطنی کے بغیر یہ مہم سر نہیں کی جا سکتی۔
ابو الکلام آزاد


صفحہ 3
کلکتہ کی عدالت میں
مولانا ابُوالکلام آزاد کا تحریری بیان

قولِ فیصل
مکتبہ جمال
تھرڈ فلور، حسن مارکیٹ، اردو بازار، لاہور
فون: 7232731​
 

ابو کاشان

محفلین
صفحہ 4​
جملہ حقوق محفوظ ہیں
نام کتاب : قولِ فیصل​
نام مصنف : مولانا ابو الکلام آزاد​
اہتمام : میاں غلام مرتضیٰ
ناشر : مکتبہ جمال، لاہور
کمپوزنگ : حبیب الرحمٰن
مطبع : اصغر پریس۔ لاہور
سنِ اشاعت : 2004 ء
ہدیہ : 90 روپے
ملنے کا پتہ :
مکتبہ جمال
تھرڈ فلور، حسن مارکیٹ، اردو بازار، لاہور
فون: 7232731
صفحہ 5​
انہ لقول فصل و ما ھو بالھزل o​
قولِ فیصل​
یعنی​
مولانا ابوالکلام مدظلّہ کا بیان جو انہون نے گورنمنٹ کے​
استغاثہ کے جواب میں تحریر کیا اور جو​
تحریک خلافت و سوراگ کے اسباب و مقاصد اور ملک کے قومی و مذہبی​
فرائض پر سب سے بہتر اور مستند بیان ہے​
معہ روداد گرفتاری و مقدمہ​
0-0-0​
"اسلام کسی حال میں بھی جائز نہیں رکھتا کہ مسلمان آزادی کھو کر زندگی بسر کریں۔​
انہیں مر جانا چاہیے یا آذاد رہنا چاہیے۔ تیسری راہ اسلام میں کوئی نہیں"​
0-0-0​
 

ابو کاشان

محفلین

صفحہ 6
و من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ

ابو الکلام آزاد

تاریخ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔

ابو الکلام آزاد

صفحہ 7

فہرست مضامین

(بعد از تکمیلِ متن، معذرت )

 

ابو کاشان

محفلین

صفحہ 10
فہرست مضامین

(بعد از تکمیلِ متن، معذرت )
صفحہ 11
سقراط کے بعد
عبقریت اور عزیمت، اب دونوں کو اگر کسی شضصیت میں مجسم دیکھنا ہو تو میں ابو الکلام آزاد کا نام لوں گا۔ پھر کوئی شخص اگر ابو الکلام آزاد کو دیکھنا چاہے تو میں بغیر کسی تردّد کے ان کی دو تحریریں پیچ کر دوں گا: ایک "غبارِ خاطر" کا وہ مکتوب جو انہوں نے اپنی اہلیہ کی وفات پر لکھا اور دوسری "قولِ فیصل" کے نام سے ان کا بیان جو انہوں نے عدالت میں دیا ہے۔ انسانی تاریخ میں سقراط کے بعد ابو الکلام آزاد کا یہی بیان ہے۔ جس کے پیگمبرانہ اسلوب میں ہوحنا و مسیح کا اذغان بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ حسن و صدات اور عظمت کو الفاظ کا یہ پیرہن ابو الکالم کے قلم ہی میں ظاہر کوئی ہے، اس کی بظیر اگر دنیا میں ہے تو بقول اقبال:
قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں​
ابوالکلام کا یہ بیان اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ شائع ہو چکا ہے۔ اب ہمارے دوست مختار احمد صاحب اسے مکتبہ جمال سے شائع کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اور برادرم اصغر نیازی کی خواہش تھی کہ آزاد کے بارے میں بھی کچھ لکھ دوں۔ یہ چند حرف اسی خواہش کی تکمیل مین لکھے گئے ہیں۔
جاوید احمد غامدی​
المورد، لاہور
29 جنوری 2000ء
 

ابو کاشان

محفلین
عرض ناشر
صفحہ 12
خالی ہے۔

صفحہ 13
مشہور حدیث ہے، جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کے بر سرِ عدالت بیان "قولِ فیصل" کا ایک ایک لفظ گواہ ہے کہ انہوں نے کلمل حق کہنے کا حق ادا کر دیا۔ حق تو یہ ہے کہ مولانا آزاد نے نہ صرف جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہا بلکہ سلاطینِ وقت کے جبر کے سیلِ رواں کے سامنے کوہ گراں بن کر ڈٹ گئے۔ وہ اپنے دور میں کلمہ حق کہنے والوں کے کارواں کے سالارِ اعظم تھے۔ لاریب وہ ایک طلسماتی اور تخیلاتی تھے، اس لیے محض آدرش بن کر رہ گئے۔ کاش! ہم اقتداء کی نظر سے بھی ان کی طرف دیکھ سکتے۔
ہمیں فخر ہے کہ ہم کلکتہ کہ عدالت میں سئے گئے مولانا آزاد کے اس بیان کو ایک بار پھر عامہ المسلمین کے سامنے پیش کر رہے ہیں تا کہ انہیں یہ آحساس رہے کہ تحریکِ آزادی نے کیسے کیسے آزاد پیدا کئے کہ جن کے کلماتِ حق نے انہیں ابوالکلام بنا دیا۔ ان کا یہ بیان، ان کے نام کی طرح زندہ اور جاعید رہے گا، بار ہا دفعہ چھپ چکا ہے اور اب بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حق و صداقت کے متوالوں اور علمبرداروں کے لیے مینارہ نور کی طرح فروزاں ہے۔ دنیا کی عدالتی تاریخ کے کٹہروں میں اتنے وقار اور شکوہ سے شاید ہی کوئی بول سکا ہو۔
بول کے لب آزاد ہیں تیرے​
مکتبہ جمال کی یہ کوشش ہے کہ حضرت آزاد کے جواہر پارون کو عوام تک پہنچایا جائے۔اگر اللہ نے چاہا تو ہم بتدریج اس مشن میں خوش آئند کامیابیاں حاصل کریں گے۔
قولِ فیصل کے موجودہ ایڈیشن مین مندرجہ ذیل ترامیم اور اضافے کئے گئے ہیں۔ پہلے ہمارے پیشِ نظر جو نسخہ تھا اور نامکمل تھا۔ محترم پروفیسر افضل قریشی صاحب کی شفقت اور رہنمائی میسر آئی تو ان سے اصل نسخہ حاصل کیا۔ تقابل کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ متن میں کہیں
 

ابو کاشان

محفلین
صفحہ 14
کہیں فرق ہے۔ مہاتما گاندھی کا وہ تبصرہ شامل نہیں ہے جو عدالت کا فیصلہ سن کر انہوں نے تحریر کیا اور نہ ہی مولانا کی رفیقہ حیات کا تار ہے جو عدالت کا فیصلہ سننے کے بعد انہوں نے مہاتما گاندھی کے نام بھیجا۔ موجودہ ایڈیشن میں نہ صرف یہ دونوں تحریریں شامل کر لی گئی ہیں بلکہ سابقہ ایڈیشن کی خامیوں کو بھی ہر ممکنہ حد تک درست کرنے کی سعی کی ہے۔
آخر میں میں اپنے ان اہلِ علم و قلم کرم فرماؤں کا شکر گزار ہوں۔ جنہوں نے میری اس کام کی رہنمائی فرمائی۔ خاص طور پر اپنے دوست اصغر نیازی صاحب کا میں بہت ممنون ہوں۔
میاں مختار احمد کھٹانہ​


صفحہ 15

بہ بد مستی سزدگر متّہم سازدمرا ساقی
ہنوز از بایہ پارینہ ام پیمانہ بودارد! ؂1

بنگال کے ایک مشہور ہندو جرنلسٹ اور پولیٹیکل رہنما نے وائداد کے انگریزی ایڈیشن کے لیے جو تحریر بطور دیباچہ کے لکھی ہے، اسی کا ترجمہ یہاں بطور دیباچہ کے درج کیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
مولانا ابو الکلام آزاد کی گرفتاری اور مقدمہ کی یہ مختصر روئداد ہے، جو ملک کے اصرار و طلب سے سرسری طور پر مرتب کر کے شائع کی جاتی ہے۔ مقدمہ کی روئداد زیادہ تر مقامی اخبارات کی رپورٹوں اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے تاروں سے نقل کی گئی ہے۔ بہت سی تفصیلات بخوف طوالت نظر انداز کر دی گئیں۔ اثناء مقدمہ میں عدالت سے باہر جو واقعات ظہور میں آئے اور جن میں سے اکثر ایسے ہیں جو مولانا کی گرفتاری سے بہت قریبی تعلق رکھتے تھے، ان کی بھی کچھ ذکر نہیں کیا گیا، کیونکہ روئداد مقدمہ کے موضوع سے خارج تھے۔
فہرست مضامین:
اس مجموعہ میں سب سے پہلے وہ "پیغام" درج ہے جو گرفتاری سے دو دن پہلے مولانا نے لکھ کر اپنے کاغذات میں رکھ دیا تھا اور گرفتاری کے بعد شائع ہوا۔ اس کے بعد گرفتاری کی مختصر کیفیت درج ہے۔ پھر تاریخ اور تمام پیشیوں کی ووئداد دی گئی ہے۔ اس کے بعد مولانا کا بیان ہے، جو انہوں نے عدالت کے لیے لکھا۔ فی الحقیقت اصل مقصود اس رسالہ کی ترتیب سے اسی کی اشاعت ہے۔ آخر میں بطور ضمیمہ کے مولانا کا وہ مضمون بھی شامل کر دیا گیا ہے، جو کلکتہ
--------------------------------------
؂1 حضرت مولانا نے اپنے بیان کا عنوان اسی شعر کو رکھا ہے جیسا کہ ان کے مسوّدے میں ہے لیکن چونکہ بیان اس لیے لکھا گیا تھا کہ اس کا انگریزی ترجمہ عدالت میں داخل کیا جائے، اس لیے ترجمہ کے وقت نکال دیا گیا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قولِ فیصل، 141 صفحات پر مشتمل یہ کتاب جس کو 69 صفحات پر اسکین کیا گیا ہے۔
میں اس کتاب پر کام شروع کر رہا ہوں۔ کتاب کے صفحہ 1 سے صفحہ 43 جو کہ اسکین کے 20 صفحات بنے ہیں اس وقت میرے قبضہ کمپیوٹر میں ہیں۔

نوٹ : پیشگی اطلاع کے ان صفحات پر کام کرنے کی صورت میں وقت کے ضیاع کی ذمہ داری خود "محنتی" پر ہو گی۔ شکریہ

ابو کاشان بھائی ،

آپ ان تمام صفحات اور کچھ مزید صفحات پر بھی کام کر سکتے ہیں ۔ صفحات کی نشاندہی ذپ میں کر دی ہے آپ چیک کر لیں ۔ مزید اپڈیٹ کے لیے آپ فرحت سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں ۔
 

ابو کاشان

محفلین
صفحہ ١٦
پہنچ کر انہوں نے پیغام میں شائع کیا تھا اور جس میں گورنمنٹ کے تازہ جبر و تشدد کے جواب میں ایک نئی مدافوانہ خرکت کی اپیل کی گئی تھی۔ ملک نے اس اپیل کا جس جوش و مستعدی کے ساتھ جواب دیا اور خصوصاً بنگال میں جیسی یادگار اور غیر مسخر دفاعی پیش قدمی شروع وئی ، وہ موجودہ تحریک کی تاریخ کا سب سے زیادہ شاندار اور پر فخر کارنامہ ہے۔ اگر بد قسمتی سے اس فتح مندی کے تمام ثمرات ضائع نہ کر دیئے جاتے تو فی الحقیقت ملک نے میدان ل پہلا مرحلہ جیت لیا تھا ور قریب تھا ایک نیا کامیاب در شروع ہو جائے، چونکہ مولانا کی گرفتاری ہی اس نئی حرکت کا سلسلہ شروع ہوا، اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ یہ مضمون روئداد میں شامل کر دیا جائے۔ پہلی دسمبر ١٩٢١ سے ١١ فروری تک ملک نے جو فتح مند دفاع کیا ہے وہ گویا اسی دعوت کا عملی جواب تھا۔



صفحہ ١٧

[مولانا کی گرفتاری اور اس کی نوعیت

ملک کے مسلمہ لیڈروں میں سب سے آخری گرفتاری مولانا اور مسٹر سی آر داس کی ہوئی۔ مسٹر داس کی گرفتاری بنگال کے مقامی حالات کا نتیجہ تھی، لیکن مولانا کا معاملہ ان سے بالکل مختلف تھا۔ اگر ١٧ نومبر کے بعد کے حالات پیش نہ آتے جب بھی ان کی گرفتاری اٹل تھی اور ہر صبح و شام متوقع تھی۔ گذشتہ ایک سال کے اندر شاید ہی کسی نے اس قدر صاف صاف اور بے پردہ چیلنج گورنمنٹ کو دیا ہو گا، جیسا کہ مولانا نے دیا۔ مسئلہ خلافت اور سوراج سے قطع نظر، خاص طور پر بھی وہ برابر گورنمنٹ کو اپنی گرفتاری کے لیے دعوت دیتے رہے اور ان کا طرزِ عمل ہمیشہ (Uncompromising) رہا۔

گرفتاری کے لیے مسلسل دعوت
مارچ ١٩٢١ء میں مہاتما گاندھی کے ہمراہ مولانا نے پنجاب کا تیسرا دورہ کیا۔ اس وقت ضلع لاہور اور امرتسر میں سٹاریشن سیکٹ نافذ تھا۔ یعنی نہ تو کوئی پبلک جلسہ ہو سکتا تھا، نہ پبلک تقریر کی جا سکتی تھی۔ اِس لیے مہاتما جی نے بھی گونجرانوالہ جا کر تقریر کی۔ لاہور اور امرتسر میں کوئی تقریر نہیں کی۔ کیونکہ اس وقت تک قانونی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ لیکن مولانا نے صاف صاف کہہ دیا کہ ااگرچہ اس قوت قانون کی خلاف ورزی کرنے کا عام طور پر حکم نہیں دیا گیا ہے، لیکن میرے لیے افضلیت (عزیمت) اسی میں ہے کہ خلاف ورزی کروں اور سچائی کے اعلان سے باز نہ رہوں۔ جب میں افضل بات پر عمل کر سکتا ہوں تو کم مرتبہ طریقہ کے دامن میں کیوں پناہ لوں؟ چنانچہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ جمعہ
 

ابو کاشان

محفلین
صفحہ 18
کے دن شاہی مسجد میں بیان کریں گے۔ بعض وزرائے حکومت پنجاب نے مہاتما جی سے شکایت کی کہ مولانا کا طرزِ عمل آپ کے خلاف ہے لیکن مہاتما جی نے کہا “بلا شبہ میں عام طور پر سول ڈس اوبیدینس کی اجازت کا مخالف ہوں، لیکن ایسے ذمہ دار افراد کے لیے، جیسے مولانا ہیں، ہر وقت اس کا دروازہ کھلا ہے۔“ چناچہ جمعہ کے دن انہوں نے پہلے جمعہ کا خطبہ دیا۔ اس کا موضوع بھی وقت ہی کے مسائل تھے۔ پھر نماز کے بعد صحن مسجد میں ترکِ موالات پر ایسی دل ہلا دینے والی تقریر کی جو ہمیشہ اہل لاہور کو یاد رہے گی۔ لاہور کے نیم سرکاری اینگلو انڈین آرگن “سول اینڈ ملٹری“ نے اس پر لکھا تھا کہ اس کاروائی کے ذریعہ علانیہ اہل پنجاب کو قانون شکنی کی دعوت دی گئی ہے۔ مسٹر گاندھی اپنے رفیق کو اس سے باز رکھنا ضروری نہیں سمجھتے۔ اگر گورنمنٹ پنجاب نے اس پر فوری کاروائی نہیں کی تو پنجاب کے نان کوآپریٹرز کی جراتیں بہت بڑھ جائیں گی۔ یہ بھی لکھا تھا کہ مارشل لاء کے حکام نے شاہی مسضد کو اس مجبوری سے بند کر دیا تھا۔ اب سول حکام کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے۔ اس نوٹ کی سرخی “صحن مسجد میں باغیانہ لیکچر“ تھا۔
ایک ہفتہ بعد وہ امرتسر آئے۔ یہاں بھی تقریر ممنوع تھی۔ لیکن جامع مسجد میں ونہوں نے خطبہ دیا اور نماز کے بعد مکرر تقریر کی۔ اسی وقت وہ میل ٹرین سے لکھنؤ جا رہے تھے۔ اس لیے دس پندرہ منٹ سے زائد نہ بول سکے۔ تا ہم انہوں نے صرف اس لیے تقریر نہیں کی تھی کہ گورنمنٹ پنجاب کو یہ کہنے کا موقع باقی نہ رہے کہ جمعہ کا خطبہ معمولی تقریر نہیں ہے، جس کے ارتکاب سے سر کاری آرڈر کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔ پس عام بول چال کے مطابق جس تقریر کو پولیٹیکل تقریر کہہ سکتے ہیں۔ وہ بھی انہوں نے نماز کے بعد کر دی اور گورنمنٹ کے لیے کسی حیلے حوالے کی گنجائش باقی نہ چھوڑی! مگر گورنمنٹ پنجاب نے بالکل تغافل کیا۔ گرفتار کرنے کی جرات نہ کر سکی۔ مولانا نے یہ واقعہ خود مجھ سے بیان کیا تھا۔
اس کے بعد کراچی خلافت کانفرنس کے ریزولیوشن کی بناء پر علی برادرز اور دیگر اصحاب کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اس موقع پر تو مولانا نے اپنی گرفتاری کیلیے یکے بعد دیگرے ایسے

صفحہ 19
شجاعانہ بلاوے دئے، کہ شاید ہی کوئی نظیر اس کی مل سکے۔ علی برادران ١٤ اگست کو گرفتار کئے گئے، لیکن کلکتہ میں ١٨ کی صبح کو خبر پہنچی۔ انہوں نے اسی وقت ہالیڈے پارک میں جلسہ کے انعقاد کا اشتہار دیا اور چام کو بیس ہزار سے زائد کے مجمع میں تقریر کی۔ انہوں نے کہا تھا
“جس ریزولیوشن کی بناء پر علی برادران گرفتار کئے گئے ہیں، وہ اسلام کا ایک مانا ہوا اور مشہور و معروف مسئلہ ہے۔ اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس کا اعلان کرے۔ وہ ریزولیوشن دراصل میرا ہی تیار کیا ہوا ہے اور میری ہی صدارت میں سب سے پہلے اسی کلکتہ ٹاؤن میں منظور ہوا ہے۔ میں اس سے بھی زیادہ تفصیل اور صفائی کے ساتھ اس وقت اس کے مضمون کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ سی۔آئی۔ڈی کے رپورٹر بیٹھے ہیں اور میں انہیں کہتا ہوں کہ حرف بحرف قلم بند کر لیں۔ اگر جرم ہے تو گورنمنٹ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا ارتکاب ہمیشہ جاری رہے گا۔“
اس کے بعد دہلی میں مر کزی جمعیت العلماء اور خالفت کمیٹی کا جلسہ ہوا۔ ان دونوں جلسوں میں بھی انہوں نے کراچی ریزولیوشن کو زیادہ صاف اور واضح لفظوں میں پیش کیا۔ نیز ایک تجویز اس مضمون کی بھی پیش کی کہ “چونکہ گورنمنٹ نے اس اسلامی حکم کی تبلیغ کو جرم قرار دے دیا ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اب اس کے اعلان میں اپنی جان لڑا سے، اور ہر مقام پر اس غرض کے لیے جلسے منعقد کئے جائیں۔“
چناچہ تمام ملک میں جلسوں کت انعقد اور کراچی ریزولیوشن کی تصدیق کا سلسلہ شروع ہو گیا اور گورنمنٹ حیران اور درماندہ ہو کر رہ گئی!
پھر کراچی، بمبئی، آگرہ، لاہور وغیرہ کے مقامات میں بھی وہ برابر اس کا اعلان کرتے رہے۔ ببئی۔ آگرہ اور لاہور کانفرنسوں کے صدر بھی وہی تھے۔ آگرہ کی پراونشل خلافت کانفرس میں کراچی ریزولیوشن پیش کرتے ہوئے انہوں نے جس طرح گورنمنٹ کو چیلنج دیا، اسے سن کر بڑے بڑے باہمت اشخاص بھی دم بخود ہو گئے تھے اور فیصلہ کر دیا تھا کہ صبح سے
 

ابو کاشان

محفلین
دگنی نہیں تگنی۔ پہلے پڑھتا ہوں، پھر لکھتا ہوں، پھر دوبارہ پڑھتا ہوں، پھر اگلی سطر پہ جاتا ہوں۔:(
یہ پوسٹیں میں بعد میں آپ سے حذف کروا لونگا۔:cool:
 

ابو کاشان

محفلین
صفحہ 20

پہلے ہی وہ گرفتار کر لیے جائیں گے!
علی برادرز کی گرفتاری کے بعد مہاتما گاندھی جی نے ہندو مسلمان لیڈروں کو بمبئی میں جمع کر کے ایک مینوفسٹو شائع کیا تھا۔ اس میں کراچی ریزعلیوشن کی اس بناء پر تائید کی تھی کہ موجودہ حالت میں سرکار کی سول اورفوجی ملازمت کو ملکی غیرت کے خلاف کہنا کوئی جرم نہیں ہے اور ایسا کہنا ایک جائز فعل ہے۔ اس پر اخبار ٹائمز آف انڈیا نے لکھا تھا کہ گورنمنٹ اس مینوفسٹو پر دستخط کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔ کیونکہ صرف اس خیال کو زبان سے ظاہر کر دینا یا شائع کرنا جرم نہیں ہے۔ بلکہ عملاً سپاہیوں کو ورغلانا اور ان کو ترک ملازمت کی دعوت دینا جرم اور سازش ہے۔ کراچی کا مقدمہ عملی اقدام کی بناء پر کیا گیا ہے۔ مجرد ریزولیوشن پاس کر دینے کی بناء پر نہیں ہے۔
یہ بات بہت سے کمزور دلوں کے لیے ایک حیلہ بن گئی۔ وہ کراچی ریزولیوشن کا اعلان کرتے مگر "ایسا کروں گا" اور "ایسا نہ ہونا چاہیے"۔ وغیرہ کے الفاظ ساتھ بولتے۔ بالفعل عمل کرنے پر زور نہ دیتے، نہ اپنے عمل کرنت کا اظہار کرتے۔ لیکن مولانا نے یہ تسمیہ بھی لگا نہ رکھا۔ انہوں نے بمبئی، آگرہ، لاہور وغیرہ کی تقریروں اور اپنے تحریری اعلانات میں صاف صاف کہہ دیا کہ یہ صرف میرا اعتقاد یا زبانی اعلان نہیں ہے اور نہ لیدروں کے مینوفسٹو کی طرح صرف اس بات کے جواز کا مدعی ہوں۔ بلکہ دو سال سے اس پر عمل بھی کر رہا ہوں۔ آئندہ بھی کروں گا اور ہر شخص سے کہتا ہوں کہ وہ بھی ایسا ہی کرے۔ میں پوری جدوجہد کروں گا کہ ہر سپاہی تک اس پیغام حق کو پہنچا دوں۔
بمبئی کی اس میٹنگ میں، میں بھی شریک تھا۔ مولانا نے میٹنگ میں بھی اپنی رائے ظاہر کر دی تھی کہ مینوفسٹو کا مضمون ناکافی ہے اور صرف ایسا کہنے کے "جواز" کا اظہار کرنا حصولِ مقصد کے لیے سودمند نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں نے عملاً ایسا کیا ہے اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔
 

ابو کاشان

محفلین
صفحہ 21

ابتداء میں گورنمنٹ نے علی برادران اور ان کے ساتھیوں کےبرخلاف صرف کراچی ریزولیوشن کا الزام لگایا تھا۔ لیکن مولانا نے بار بار اعلان کیا کہ کراچی ریزولیوشن خلافت اور جمعیۃ العلماء کی گذشتہ تجویزوں کا صرف اعادہ ہے۔ ورنہ سب سے پہلے خود انہوں نے 29 فروری 1920 کو خلافت کانفرنس کلکتہ میں اس کا اعلان کیا تھا، تو پھر گورنمنٹ بھی چونکی اور جونہی مقدمہ سیشن کورٹ میں شروع ہو، سرکاری وکیل نے دعوے میں ترمیم کر کے کلکتہ کانفنس کا ریزولیوشن بھی شامل کر دیا۔ اس پر مولانا نے ایک برقی بیان فوراً تمام اخبارات میںشائع کرایا تھا، جس کی بےباک شجاعانہ اسپرٹ نہایت ہی عجیب و گریب تھی اور ہمیشہ ہندوستان کی تاریخ میں یادگار رہے گی۔ اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ صرف اتنی ہی ترمیم سے سرکاری دعویٰ مکمل نہیں ہوسکتا اور مرحلے بھی ابھی باقی ہیں:

"سب سے ہیلے کلکتہ کانفرنس کے لیے یہ ریزولیوشن میں نے تیار کیا۔ خود اپنے قلم سے لکھا اور میری ہی صدارت میں منظور ہوا۔ اس کے بعد دہلی میں جمعیۃ العلماء کا جلسہ ہوا اور میں نے اس ریزولیوشن پر بصورت فتویٰ کے دستخط کیا۔ پھر بریلی میں جمعیۃ کا جلسہ ہوا۔ اس کا بھی میں ہی صدر تھا اور صدارت کی طرف سے اس ریزولیوشن کو پیش کر کے منظور کرایا تھا۔ علاوہ بریں رسالہ "خلافت" میں ایک خاص باب اس موضوع پر لکھ چکا ہوں اور اس کی بےشمار کاپیاں تقسیم ہو چکی ہیں۔ پھر کلکتہ، دہلی، کراچی، بمبئی وگیرہ میں بھی میں نے ایسا ہی بیان کیا ہے۔ میںاس کا بھی اقرار کرتا ہوں کہ یہ صرف میرا زبانی اظہار ہی نہ تھا بلکہ میں نے اس پر عمل بھی کیا ہے اور ہمیشہ لوگوں کو کہتا رہا ہوں کہ اس کی تنلیغ کرتے رہیں۔ اگر یہ "سازش" اور "اغوا" ہے تو مجھے اس کے ارتکاب کا ایک ہزار مرتبہ اقرار ہے۔ گورنمنٹ کو چاہیے تھا کہ علی برادرز سے پہلے (جنہوں نے صرف نقل و اعادہ کیا ہے) مجھ پر مقدمہ چلاتی"۔

30 ستمبر 1921 کو یہ بیان ملک کے تمام انگریزی اور اردو اخبارات مین شائع ہو گیا،
 

ابو کاشان

محفلین
صفحہ 22

مگر گورنمنٹ کی جانب سے بالکل اغماض کیا گیا اور کوئی کارروائی ان کے بر خلاف نہ کی گئی۔ یہ امر واقعہ ہے کہ تمام ملک کو اس پر سخت تعجب اور حیرانی ہوئی تھی۔ جیسا کہ انہوں نے اپنے "بیان" کی دفعہ2 میں اشارہ کیا ہے۔

یہ واقعہ علاوہ ان بےشمار تقریروں اور کارروائیوں کے ہے، جن میں وہ برابر بلا کسی ادنیٰ تزلزل کے یکساں قول وفعل کے ساتھ مشغول رہے۔

پس ان حالات میں اگر اس قدر توقف اور پس و پیش کے بعد گورنمنت نے انہیں گرفتار کیا، تو جیسا کہ انہوں نے کہا ہے، فی الحقیقت یہ کوئی خلافِ توقع بات نہیں ہے اور ان کی طرح ہمیں بھی اس پر کوئی اعتراض نہین کرنا چاہیے۔

آخری دفاعی معرکہ:

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی حکمت ان کی گرفتاری سے بروقت ایک خاص کام لینا چاہتی تھی۔ اس لیے تعجب انگیز طور پر ان کی گرفتاری برابر ملتوی ہوتی رہی اور پھر ٹھیک اسی وقت ہوئی، جبکہ تحریک کی نئی زندگی کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ اگر یہی واقعہ دسمبر سے پہلے ظہور میں آ جاتا تو وہ نتائج کیونکر حاصل ہوتے جو دسمبر کے بعد کے حالات ہی میں وجود پزیر ہو سکتے تھے؟

17 نومبر کے بعد اچانک قومی تحریک جن حالات میں گھر گئی تھی، اس کا صرف انہی لوگوں کو اندازہ ہے جع تحریک کے اندرونی نظم و نسق میں دخل رکھتے ہیں۔ یہ وہ موقع تھا کہ ملک نہایت نے چینی کے ساتھ کسی نئے اقدام کا انتظار کر رہا تھا۔ سال کے اختتام میں جو (نان کواپریشن پروگرام کے نفاذ کی مجوزہ مدت تھی) صرف دو ماہ باقی رہ گئے تھے اور ساری امیدوں کا مرکز مہاتما گاندھی جی کا یہ اعلان تھا کہ پہلی دسمبر سے وہ بردولی تعلقہ میں اجتماعی سول نافرمانی شروع کر دیں گے۔ لیکن یکایک بمبئی میں پرنس آف ویلز کے دورہ کے موقع پر شورش نمودار ہوئی اور اس سے مہاتما گاندھی جی کے ذکی الحس قلب پر ایسا اثر پرا کہ انہوں نے نہ صرف بردولی کا کام ملتوی کر دیا، بلکہ پے در پے تین بیانات شائع کر کے اعلان کر دیا کہ موجودہ حالات میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ 6​
و من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ​
ابو الکلام آزاد​
تاریخ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔​
ابو الکلام آزاد​
صفحہ 7​
فہرست مضامین
(بعد از تکمیلِ متن، معذرت )​


CCF13122008_00002.jpg
 

الف عین

لائبریرین
فہرست کو برقیانا ہے شگف؟ میں تو اس کو پہلے ہی حذف کر دیتا ہوں، ورڈ میں کام کرتا ہوں تو ورڈ سے خود کار طریقے پر بن جاتی ہے فہرست مضامین۔ جس میں درست صفحہ نمبر بھی ہوں گے۔ کتاب کے مطابق فہرست ٹائپ کرنے کی ضرورت؟؟؟
 
Top