قومی اسمبلی میں24کھرب،82ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش

فخرنوید

محفلین
hina_rabani.gif

مالی سال10-2009 کے لیے2 ہزار چار سو82 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کردیا گیا ہے۔ بجٹ میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں15 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جب کہ آیندہ مالی سال معاشی ترقی کا ہدف3.3 فیصد اور مہنگائی کی شرح10 فیصد سے کم کی سطح پر لانے کے اقدامات شامل ہیں۔وزیرِمملکت برائے خزانہ اور اقتصادی امور حنا ربانی کھر نے قومی اسمبلی میں مالی سال10-2009 کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ترقیاتی پروگرام کے لیے646 ارب روپے، دفاع کے لیے343 ارب روپے، تعلیم کے لیے31 ارب60 کروڑ روپے، صحت کے لیے ساڑھے چھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت70 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جو50 لاکھ ضرورت مندافراد میں تقسیم کیے جائیں گے۔ سوات کے25 لاکھ متاثرین کی امداد کے لیے50 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نوجوانوں کو نیشنل انٹرشپ پروگرام کے تحت تربیت فراہم کرنے کے لیے تین ارب60 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت اگلے ایک سال کے دوران30 ہزار نوجوانوں کو ان کے متعلقہ شعبوں میں پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جائے گی۔حنا ربانی کھر نے مزید بتایا کہ ، آیندہ مالی سال ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف15.7 فیصد اضافے کے ساتھ ایک ہزار377 ارب50 کروڑ روپے رکھا گیا ہے، جب کہ باقی رقم بیرونی امداد اور قرضوں سے حاصل کی جائے گی۔ فرینڈز آف پاکستان کنسورشیم کے تحت178 ارب روپے موصول ہونے کی توقع ہے۔ اگلے مالی سال کے لیے مالی خسارہ4.9 فیصد رہنے کی توقع ہے۔حنا ربانی کھر نے بجٹ تقریر میں اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یکم جولائی2009 سے31 دسمبر2009 تک حاضر سروس اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں15 فیصد عبوری اضافہ کیا جائے گا، جب کہ یکم جنوری2010 سے یہ اضافہ مستقل ہوجائے گا۔ مسلح افواج کے ملازمین کی تنخواہوں میں ایک ماہ کی بنیادی تنخواہ کے مساوی اضافہ کیا جائے گا۔

تفصیل خبر : بشکریہ وائس آف پاکستان
 

فخرنوید

محفلین
صحت کے لئے حکومت نا مراد نے بس صحت کے لیے ساڑھے چھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں
جو کہ سب ضروری چیز ہے ۔ جبکہ ہمارے صدر کے زیر عتاب اتنے کی تو بس گاڑیاں ہوں گی۔
 

زین

لائبریرین
حکومت نے آئندہ مالی سال 2009-10ء کا 24کھرب 82 ارب روپے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین او رمسلح افواج کے اہلکاروں کی پنشن میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں صوبوں سمیت کل اخراجات کا تخمینہ2897.4 ارب روپے اور محصولات کا تخمینہ 2174.9 ارب روپے لگایا گیا ہے اس طرح 722.5 ارب روپے کا خسارہ ہو گا جو مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد ہے یہ خسارہ 264.9 ارب روپے کے بیرونی قرضوں اور 457.6 ارب روپے کے ملکی قرضوں سے پورا کیاجائے گا۔ وفاقی حکومت کے محصولات کا تخمینہ 1377.5 لگایا گیا ہے ‘ ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ783.1 ارب روپے ہے جو گزشتہ سال سے 85فیصد زیادہ ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی میں 0.6 فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس سے ٹیکس اور جی ڈی پی کی شرح 9.6فیصد ہو جائے گی۔ کیپیٹل ویلیو ٹیکس جاری رہے گا جبکہ این ایف سی کے فیصلے تک بہت سی سروسز کو ایکسائز کے دائرے میںلا کر ٹیکسائز کیا جائے گا۔ آئندہ مالی سال کےلئے افراط زر کی شرح کا ہدف 9.5 مقرر کیا گیا ہے ۔ مالی سال 2009-10کے دوران محصولات جی ڈی پی کے 14.7 فیصد اور مالی سال 2010-11کے دوران 15.1 فیصد تک ہو جائیں گے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے مختص رقم 22 ارب روپے سے بڑھا کر 70 ارب روپے کر دی گئی ہے جس سے 50لاکھ خاندانوں کو فائدہ پہنچے گا۔ پیپلز ورکس پروگرام کےلئے 28 ارب روپے ‘ صحت ‘ تعلیم اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ترقیاتی منصوبوں کےلئے 10.8 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ۔ غریب افراد کے بچوں کی شادی کیلئے امداد 50ہزار سے بڑھا کر 70 ہزار فی کس اور کوٹہ ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ زرعی شعبے کےلئے مختص رقم 25فیصد اضافے کے ساتھ 18 ارب کر دی جائے گی ‘پانی کے شعبے کےلئے 60 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے اور ہر صوبے میں8 چھوٹے اور درمیانے ڈیم بنائے جائیں گے۔ آبی وسائل کےلئے 47 ارب روپے ‘ زرعی منصوبوں کےلئے 50کروڑ اور آئندہ 2 برسوں میں بے نظیر ٹریکٹر سکیم کے لئے 4 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ لائیو سٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ کے لئے بہت سے منصوبوں کا اعلا ن کیا گیا ہے جن پر اربوں روپے خرچ ہوں گے۔ مالی سال 2009-10ءکو صنعتی شعبے کی بحالی کا سال قرار دینے کی تجویز ہے اس میں 40 ارب روپے کا ایکسپورٹ انوسٹمنٹ سپورٹ فنڈ قائم ہو گا جبکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کےلئے 10 ارب روپے کا فنڈ قائم ہو گا۔ وزارت صنعت کےلئے مختص فنڈ میں 333فیصد اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے لئے فنڈ میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ آٹو موبائل فیکچررز کےلئے سی کے ڈی پر ایکسائز ڈیوٹی میں 5فیصد کمی ‘ سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی پر 200 روپے فی ٹن کمی کی تجویز ہے ۔ سیلولر سروس پرووائیڈرز کیلئے مختلف مراعات کا اعلا ن کیاگیا ہے‘ بجلی اور گیس کے نرخوں پر سبسڈی بتدریج کم کی جائے گی۔ این ایچ اے کےلئے مختص رقم 36 ارب سے بڑھا کر 40.2 ارب روپے جبکہ پاکستان ریلوے کےلئے مختص رقم 6.6ا رب روپے سے بڑھا کر 12.7 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔ پولٹری ‘ ڈیری ‘ فش پروسیسنگ اور فارماسوٹیکلز جیسے شعبوں کےلئے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز ہے ۔ بجلی کےلئے مختص فنڈ میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور حکومت اس شعبے کے بہت سے واجبات اپنے ذمے لے رہی ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کےلئے 4 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات پر پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کو خصوصی کاربن سرچارج سے تبدیل کیا جا رہا ہے جبکہ غیر روایتی طریقوں سے توانائی حاصل کرنے کے بہت سے منصوبے تیار کئے گئے ہیں۔ ماحولیات تحفظ کےلئے مختص بجٹ 2.96ارب روپے کر دیا گیا ہے خواتین سے متعلق مخصوص اخراجات کےلئے مختص فنڈ 7.7 ارب روپے سے بڑھا کر 44.7 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ نیشنل انٹرن شپ پروگرام کے تحت 30ہزار پوسٹ گریجویٹ نوجوانوں کو انٹرن شپ کی پیشکش کی جائے گی جس کےلئے 3.6ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ثقافتی ترقی کےلئے 450ملین اور کھیلوں کے لئے مختص رقم 140 سے بڑھا کر 583ملین روپے کرنے کی تجویز ہے۔ مرد ملازمین کے لئے ٹیکس سے مستثنیٰ آمدن کی حد ایک لاکھ 80 لاکھ سے بڑھا کر 2 لاکھ اور خواتین کی آمدن کی حد2لاکھ 40ہزار سے بڑھا کر 2لاکھ 60ہزار روپے کر دی ہے۔ بزرگ شہریوں کو ساڑھے 7لاکھ تک آمدن تک 50فیصد رعایت حاصل ہو گی۔ خصوصی گرانٹس میں صوبوں کا موجودہ حصہ 47.5 سے بڑھا کر 49 فیصد کیا جارہا ہے جس کے تحت صوبوں کو گزشتہ سال کے 6 سو ارب روپے کے مقابلے میں 18 فیصد اضافے کے ساتھ708.1 ارب روپے ملیں گے۔ سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں اضافے کی تجویز ہے جبکہ بنکنگ سروسز پر فیس ‘ امپورٹ کارگو پر فیس ‘ سٹاک بروکرز کی فیس‘ انشورنس کمپنیو ں کی فیس اور ایڈورٹائزنگ کیلئے الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے وصول کی جانے والی فیس کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے دائرے میںلانے کی تجویز ہے۔ تجارتی اشیاءکی درآمد پر عائد وود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 2 سے بڑھا کر 4 فیصد اور جائیداد پر کیپیٹل ویلیو ٹیکس کی شرح بھی 2 سے بڑھا کر 4 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ بے گھر افرا دکی مدد کےلئے سالانہ 10لاکھ روپے سے زائد آمدن والے افراد پر ایک سال کےلئے 5 فیصد ٹیکس اور کارپوریٹ سیکٹر میں 10لاکھ سے زائد تنخواہ والے افراد کے بونسز پر 30 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ اندازے کی بنیاد پر ٹیکسوں کی ادائیگی کے نظام کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا اور بہت سے شعبوں کو دستاویزی شکل دی جائے گی۔
 

ظفری

لائبریرین
ترقیاتی ، تعلیمی اور صحت سے متعلق اگر اس بجٹ کا 50 فیصد حصہ بھی قوم پر خرچ ہوگیا تو ملک و قوم کی حالت میں بڑی حد تک مثبت تبدیلیاں متوقع ہوسکتیں ہیں ‌۔
مگر ایسا ہونا کسی معجزے کی امید کرنا ہے جو اب اس دور میں ممکن نہیں ۔
 

قمراحمد

محفلین
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں15 فیصد اضافہ، بینکاری و انشورنس خدمات، سگریٹ،ایس ایم ایس مہنگے

اسلام آباد(نمائندگان جنگ، ٹی وی رپورٹ ،ایجنسیاں) حکومت نے فنانس بل 2009-10ء میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 15 فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے جبکہ مختلف ٹیکسوں میں ردوبدل تجویز کیا گیا ہے ،جس کے تحت بینکاری، انشورنش خدمات، ڈیجیٹل کیمرہ ،،سگریٹ اور ایس ایم ایس پیغامات مہنگے کر دیئے گئے ہیں جبکہ موبائل فون سیٹ، سیمنٹ، کاریں اور دوائیں سستی کردی گئی ہیں۔ 29 کھرب کے بجٹ میں 7 کھرب 22 ارب روپے کے خسارے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔وزیر مملکت برائے خزانہ حناربانی کھر نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا ہے کہ بجلی اور گیس پر سبسڈی مرحلہ وار ختم کردی جائے گی۔نئے فنانس بل کے تحت ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 8 روپے فی لٹر، پیٹرول پر 10 روپے فی لٹر اور سی این جی پر 6 روپے فی کلو کے حساب سے پی ایل ڈی ختم کرکے کاربن سرچارج عائد کر دیا گیا ہے،کاربن ٹیکس کے ساتھ16 فیصد سیلز ٹیکس اور پٹرولیم درآمدت پر 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی بھی موجود رہے گی۔ اسٹاک بروکرز پر نیا ویلیو ایڈڈ ٹیکس لگایا گیا ہے جبکہ درآمدپر ود ہولڈنگ اور جائیداد پر سی وی ٹی دگنا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ٹریکٹروں کی در آمد پر ٹیکس کی چھوٹ جاری رہے گی،رکشوں کی کٹس کی برآمد پر ڈیوٹی 35 فیصد سے کم کرکے 20 فیصد کر دی گئی ہے۔ سینیٹری مصنوعات پر ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافہ کیا گیا ہے ، صنعتی یاتجارتی مقاصد کیلئے برآمدات پرٹیکس کی شرح4 فیصد کردی گئی ہے ،پری فیبریکیٹڈ اسٹیل بلڈنگ کے خام مال پرڈیوٹی 5 فیصد کم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ قالین پر ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافہ کیاگیا ہے، موٹر سائیکل کے4 اہم پارٹس پر32.5 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے ، شمسی توانائی کے آلات پر کسٹم ڈیوٹی کا خاتمہ کردیا گیا ہے ، ڈیری و لائیو اسٹاک کی تر قی کیلئے 20 فیصد ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے، ڈبل کمپریسر اےئر کنڈیشن پر ریگولیٹری ڈیوٹی 35 فیصد کردی گئی ہے جبکہ ایل سی ڈی ، پلازما ٹی وی کی کٹوں پر 5 فیصد ڈیوٹی برقرار رہے گی۔سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 200 روپے میٹرک ٹن، گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 5 فیصد، ٹیلی کمیونیکیشن خدمات پر 2 فیصد، موبائل فون کنکشنز کے ایکٹیویشن چارجز میں 250 روپے، ایف ای ڈی میں 2 فیصد کمی تجویز کی گئی ہے جبکہ سگریٹ پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کے ساتھ ساتھ اسٹاک بروکرز ، بینکاری اور انشورنس خدمات پر 16 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے اور ریئل اسٹیٹ پر کیپیٹل ویلیو ٹیکس میں 2 فیصد اضافہ ہو گا۔ گاڑیوں پر بھی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 5 فیصد کمی کی گئی ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن خدمات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو 21 فیصد سے کم کر کے 19 فیصد جبکہ موبائل فون کنکشنز کے ایکٹیویشن چارجز 500 روپے سے کم کر کے 250 روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ فی ایس ایم ایس 20 پیسے کا ٹیکس لگایا جائے گا۔ فنانس بل کے مطابق آلو اور پیاز کی درآمد پر ٹیکس کی چھوٹ واپس لے لی جائے گی جس سے مقامی کاشتکاروں کو فائدہ حاصل ہو گا۔ سگریٹ پر عائد ٹیکس کو عالمی معیار سے ہم آہنگ بنانے کیلئے ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جا رہا ہے جس سے ریونیو میں 14 سے 15 ارب روپے کا اضافہ متوقع ہے۔ فنانس بل کے مطابق 10 روپے والی 10 سگریٹ کے پیکٹ پر 4.75 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد ہو گی، 10 سے 19.50 روپے والے پیکٹ پر 4.75 روپے اور 10 روپے سے زائد ہر روپے پر 70 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا جبکہ 19.50 روپے سے زائد قیمت والے سگریٹ پر ہر روپے پر 64 فیصد ایکسائز ڈیوٹی عائد ہو گی۔ اس کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کی طرح پرنٹ میڈیا، اشتہاری بورڈز پر 16 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا جو ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کے ذریعہ وصول کیا جائے گا، اس مد میں ایک ارب روپے تک کی آمدنی متوقع ہے۔ اسٹاک بروکرز پر عائد 0.02 فیصد کیپیٹل ویلیو ٹیکس کو ختم کر کے سروس چارجز یا کمیشن پر 16 فیصد ٹیکس بطور ویلیو ایڈیشن ٹیکس عائد کیا جائے گا اس سے بھی ایک ارب روپے تک آمدنی ہونے کی توقع ہے۔ فنانس بل کے مطابق انشورنس خدمات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 10 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد اور بینکاری خدمات پر 16 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جا رہی ہے جو وی اے ٹی موڈ میں نافذ ہو گی۔ بندرگاہوں اور ٹرمینل آپریٹرز بشمول وہارفیج پر وی اے ٹی موڈ میں 16 فیصد ایکسائز ڈیوٹی نافذ کی جائے گی۔ فنانس بل کے ذریعہ ڈیفالٹ سرچارج کی شرح کو بینکوں کے شرح سود سے زیادہ رکھنے کیلئے کائیبور جمع 3 فیصد کا فارمولا متعارف کرایا جا رہا ہے۔ فنانس بل 2009-10ء میں انکم ٹیکس کے حوالہ سے کئے جانے والے فیصلوں کے تحت قابل ٹیکس آمدنی ایک لاکھ 80 ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ روپے کرنے کی تجویز ہے جبکہ خواتین کیلئے یہ حد 2 لاکھ 40 ہزار سے بڑھا کر 2 لاکھ 60 ہزار کی تجویز ہے۔

اس وقت بزرگ شہریوں کو قابل ٹیکس آمدنی جو 5 لاکھ روپے سے زیادہ نہ ہو، پر 50 فیصد ریلیف دیا جا رہا ہے، آئندہ مالی سال میں یہ حد 7 لاکھ 50 ہزار روپے تک بڑھائی جائے گی۔ سگریٹ اور ادویات کے ڈسٹری بیوٹرز کے کم منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ٹیکس دہندگان پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 3.5 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد تک لائی گئی ہے۔ رضا کارانہ پنشن اسکیم کے تحت حاصل ہونے والی آمدنی کا 25 فیصد ٹیکس سے مستثنیٰ ہے جسے بڑھا کر 50 فیصد کیا جائے گا۔ تاخیر سے ریفنڈ جاری کرنے پر ٹیکس دہندگان کو 6 فیصد کی شرح سے زرتلافی ادا کیا جاتا ہے جسے بڑھا کر کائیبور کے برابر کر دیا گیا ہے، کائیبور کی شرح کا تعین ہر سہ ماہی کے پہلے دن کی قدر کے مطابق کیا جائے گا۔ اس وقت تجارتی اور صنعتی صارفین سے ماہانہ بنیادوں پر بجلی کے بلوں کے ساتھ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور اسے حتمی تصور کیا جاتا ہے، ایک ترمیم کے ذریعہ 30 ہزار روپے سے زائد بجلی کے بلوں پر وصول کیا جانے والا ٹیکس ریفنڈ کیا جا سکے گا۔ گذشتہ برس ایک ترمیم کے ذریعہ بینکوں کو غیر موثر قرضوں کی مد میں ملنے والی چھوٹ ختم کر دی گئی تھی جسے بحال کیا جا رہا ہے۔ انکم ٹیکس کی مد میں ہونے والی وصولیوں کو بڑھانے کیلئے صنعتی یا تجارتی مقاصد کیلئے کی جانے والی برآمدات پر ٹیکس کی شرح 2 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ ان ڈینٹنگ کمیشن پر عائد ایک فیصد انکم ٹیکس کو بڑھا کر 5 فیصد کیا جا رہا ہے۔ کاروں اور جیپوں کی خریداری پر وصول کئے جانے والے ایڈوانس ٹیکس کا دائرہ کار تمام گاڑیوں تک بڑھایا جائے گا۔ سوات، دیر اور بونیر سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی کیلئے فنڈ جمع کرنے کے مقصد سے ان افراد پر 5 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جن کی آمدنی 10 لاکھ روپے سے زائد ہو جبکہ تجارتی شعبہ میں ایگزیکٹوز کو دیئے جانے والے بونس پر 30 فیصد کی شرح سے آئی ڈی پیز چارجز عائد کئے جانے کی بھی تجویز ہے۔ اس وقت ٹیکس کی مقررہ تاریخ کے بعد ادائیگی پر 12 فیصد سالانہ کی شرح سے اضافی سرچارج وصول کیا جا رہا ہے جسے کائیبور کے برابر کرنے کی تجویز ہے۔ بڑے تجارتی اداروں کی برآمدات اور مصنوعات کی فروخت پر دی گئی ٹیکس چھوٹ کو بھی ختم کرنے کی تجویز ہے۔ فنانس بل 2009-10ء میں رئیل اسٹیٹ شعبہ پر عائد 2 فیصد کیپیٹل ویلیو ٹیکس کو بڑھا کر 4 فیصد کرنے کی تجویز ہے جس سے 15 ارب روپے حاصل ہو سکیں گے۔ اس تجویز کے تحت شہری علاقوں میں جائیداد کی خرید و فروخت پر 4 فیصد ٹیکس عائد ہو گا، علاوہ ازیں سی وی ٹی کے تحت 500 گز تک کی اراضی کو حاصل چھوٹ بھی ختم کی جائے گی۔ فنانس بل کے تحت 32 لاکھ رجسٹرڈ نیشنل ٹیکس نمبر صارفین کیلئے مالیاتی گوشوارے جمع کرانا لازمی ہو گا تاکہ ٹیکس چوری کے عمل کو روکا جا سکے۔ جائیداد کی خرید و فروخت، صنعتی و تجارتی مقاصد کیلئے گیس اور بجلی کے کنکشنز حاصل کرنے اور بینک اکاؤنٹ کھلوانے کیلئے این ٹی این نمبر فراہم کرنا لازمی قرار دینے کی بھی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ 1000 ہزار سی سی گاڑیوں کے مالکان، 500 مربع گز پر بنے ہوئے مکان یا 2000 مربع فٹ کے فلیٹ کے مالکان کیلئے بھی مالیاتی گوشوارے جمع کرانا لازمی ہو گا۔ اس حوالہ سے ٹیکس افسران کو ٹیکس چوری کے کیسز پر فوری فیصلے کرنے کا اختیار بھی دیا جائے گا۔ تجارتی شعبہ کی دستاویز بندی کی حوصلہ افزائی کیلئے مینوفیکچررز کو 2.5 فیصد ٹیکس کریڈٹ دی جائے گی اگر وہ اپنی مصنوعات کا 90 فیصد سیلز ٹیکس رجسٹرڈ افراد کو فروخت کریں۔ فنانس بل 2009-10ء کے تحت کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں ریلیف اقدامات، مقامی صنعتوں کے تحفظ، ٹیرف کی شرح کو بہتر بنانے اور انتظامی اصلاحات کا چار نکاتی ایجنڈا تیار کیا گیا ہے۔ نئے فنانس بل میں دوا سازی کے خام مال کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینے، موبائل فون پر عائد ڈیوٹی 500 روپے سے کم کر کے 250 روپے کرنے اور 250 روپے فی سیٹ ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔ ڈیری اور لائیو اسٹاک کی صنعتوں کے فروغ کیلئے بچھڑوں کو دودھ کی جگہ دی جانے والی غذا، چارے میں استعمال ہونے والے غذائی اجزاء پر عائد 20 فیصد ڈیوٹی ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔ پری فیبریکیٹڈ اسٹیل کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد اور فور اسٹروک رکشہ کی برآمد کی جانے والی کٹس پر ڈیوٹی 32.5 فیصد سے کم کر کے 20 فیصد کرنے کی تجاویز بھی بل میں شامل ہیں۔

زرعی مقاصد کیلئے استعمال ہونے والے ٹریکٹروں کی درآمد اور کسٹم ٹیرف کے باب 99 میں شامل ریلیف اشیاء پر ٹیکس کی چھوٹ جاری رہے گی۔ مقامی صنعتوں کے تحفظ کیلئے ہائیڈروجن پر آکسائیڈ پر ڈیوٹی 5 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد، ڈبل کمپریسر ایئرکنڈیشن پر ریگولیٹری ڈیوٹی 10 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد ، اسٹیل کے ویلڈڈ پائپوں پر کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ مقامی صنعتوں کے تحفظ کیلئے ایل پی جی اور سی این جی ڈسپینسر اور توانائی کی بچت کرنے والے دروازے اور کھڑکیاں تیار کرنے والوں کو مراعات دینے جبکہ ٹن پلیٹ تیار کرنے والوں کیلئے سی آر سی بلیک پلیٹ پر کسٹم ڈیوٹی 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے کی تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔ اسکے علاوہ ٹرانسفارمرز اور کنٹرول پینلز کے خام مال پر ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ اسپارک پلگ اور وائر کنڈینسر کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی 5 فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ برآمد کی جانے والی پلاسٹک سینیٹری مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی 20 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد اور ایل سی ڈی اور پلازما ٹی وی کی کٹوں پر 5 فیصد ڈیوٹی برقرار رکھنے، ٹفٹڈ قالینوں پر ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافہ کرنے جبکہ انجینئرنگ سیکٹر کے خام مال کو ڈیوٹی سے مستثنیٰ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ فنانس بل 2009-10ء میں مختلف صنعتی اشیاء اور مصنوعات پر ڈیوٹی کی شرح کو بہتر بنانے کی تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ کسٹم ڈیوٹی میں 7 سے 8 ارب روپے کے اضافہ کو یقینی بنانے کیلئے انتظامی اصلاحات بھی تجویز کی گئی ہیں۔ ایف بی آر کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے تحت ٹریول ایجنٹس شپنگ ایجنسیز ، ٹیلی کمیونیکیشن سروسز ، بینکنگ اور نان بینکنگ سروسز ، پورٹ اینڈ ٹرمینل آپریٹرز ، نیز اسٹاک بروکرز پربھی16 فیصد شرح سے ایکسائز ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔
 

قمراحمد

محفلین
دفاعی بجٹ میں46 ازب روپے اضافہ343ارب رروپے مختص

اسلام آباد :روزنامہ جنگ (ٹی وی رپورٹ) حکومت نے دفاعی بجٹ میں 46 ارب روپے اضافہ کرنے کی تجویز ایوان میں پیش کر دی ہے حنا ربانی وزیر مملکت اقتصادی امور نے تقریر میں بتایا کہ اگلے مالی سال میں دفاعی شعبہ کیلئے 342 ارب 90 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ اس میں ریٹائرڈ فوجیوں کے پینشن کی رقم اس میں شامل نہیں ہے۔ رواں سال میں دفاع کے لیے دو سو چھیانوے ارب روپے رکھے گئے لیکن اصل اخراجات تین سو گیارہ ارب تیس کروڑ روپے کیے گئے۔ آن لائن کے مطابق وزارت دفاع کا مجموعی بجٹ 3کھرب 47ارب سے زائد ہوگا۔ جس میں سے دفاعی پیداوار کیلئے 46کروڑ 38لاکھ اور دفاع ڈویژن کیلئے 84کروڑ روپے سے زائد مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ دستاویز کے مطابق دفاعی بجٹ رواں مالی سال کے مقابلے میں پندرہ فیصد زیادہ ہے اور اس میں اضافہ افراط زر کی شرح میں اضافے مشرقی و مغربی سرحدوں کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیاگیا ہے۔

10لاکھ روپے سے زائد کی آمدنی والوں پرایک سال کے لئے5 فیصد ٹیکس

اسلام آباد : روزنامہ جنگ(ٹی وی رپورٹ) سوات اورمالاکنڈ میںآ پریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کی مدد کیلئے سالانہ 10 لاکھ روپے سے زائد آمدنی والے افراد پر 5فیصد کی شرح سے معمولی ٹیکس ایک سال کے لیے عائد کرنے کی تجویز ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں 10 لاکھ روپے سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنے والے افراد کے بونسز پر 30فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔

کھیلوں کے لئے رقم140ملین سے بڑھا کر583 ملین کر دی گئی

اسلام آباد :روزنامہ جنگ(ٹی وی رپورٹ،جنگ نیوز) حکومت ملک میں کھیلوں کے فروغ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ مالی سال 2009-10 کے psdp میں کھیلوں کے لیے 583 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ مالی سال 2008-09 میں یہ رقم 140 ملین روپے تھی۔ حکومت نجی شعبے کی شمولیت سے کھیلوں کو فروغ دینے کی خواہش مند ہے تاکہ بچوں اور نوجوانوں کو صحت مند تفریح اور کھیلوں سے متعلق روزگار کے مواقع فراہم ہو سکیں۔
 
Top