حکومت نے آئندہ مالی سال 2009-10ء کا 24کھرب 82 ارب روپے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین او رمسلح افواج کے اہلکاروں کی پنشن میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں صوبوں سمیت کل اخراجات کا تخمینہ2897.4 ارب روپے اور محصولات کا تخمینہ 2174.9 ارب روپے لگایا گیا ہے اس طرح 722.5 ارب روپے کا خسارہ ہو گا جو مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد ہے یہ خسارہ 264.9 ارب روپے کے بیرونی قرضوں اور 457.6 ارب روپے کے ملکی قرضوں سے پورا کیاجائے گا۔ وفاقی حکومت کے محصولات کا تخمینہ 1377.5 لگایا گیا ہے ‘ ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ783.1 ارب روپے ہے جو گزشتہ سال سے 85فیصد زیادہ ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی میں 0.6 فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس سے ٹیکس اور جی ڈی پی کی شرح 9.6فیصد ہو جائے گی۔ کیپیٹل ویلیو ٹیکس جاری رہے گا جبکہ این ایف سی کے فیصلے تک بہت سی سروسز کو ایکسائز کے دائرے میںلا کر ٹیکسائز کیا جائے گا۔ آئندہ مالی سال کےلئے افراط زر کی شرح کا ہدف 9.5 مقرر کیا گیا ہے ۔ مالی سال 2009-10کے دوران محصولات جی ڈی پی کے 14.7 فیصد اور مالی سال 2010-11کے دوران 15.1 فیصد تک ہو جائیں گے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے مختص رقم 22 ارب روپے سے بڑھا کر 70 ارب روپے کر دی گئی ہے جس سے 50لاکھ خاندانوں کو فائدہ پہنچے گا۔ پیپلز ورکس پروگرام کےلئے 28 ارب روپے ‘ صحت ‘ تعلیم اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ترقیاتی منصوبوں کےلئے 10.8 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ۔ غریب افراد کے بچوں کی شادی کیلئے امداد 50ہزار سے بڑھا کر 70 ہزار فی کس اور کوٹہ ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ زرعی شعبے کےلئے مختص رقم 25فیصد اضافے کے ساتھ 18 ارب کر دی جائے گی ‘پانی کے شعبے کےلئے 60 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے اور ہر صوبے میں8 چھوٹے اور درمیانے ڈیم بنائے جائیں گے۔ آبی وسائل کےلئے 47 ارب روپے ‘ زرعی منصوبوں کےلئے 50کروڑ اور آئندہ 2 برسوں میں بے نظیر ٹریکٹر سکیم کے لئے 4 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ لائیو سٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ کے لئے بہت سے منصوبوں کا اعلا ن کیا گیا ہے جن پر اربوں روپے خرچ ہوں گے۔ مالی سال 2009-10ءکو صنعتی شعبے کی بحالی کا سال قرار دینے کی تجویز ہے اس میں 40 ارب روپے کا ایکسپورٹ انوسٹمنٹ سپورٹ فنڈ قائم ہو گا جبکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کےلئے 10 ارب روپے کا فنڈ قائم ہو گا۔ وزارت صنعت کےلئے مختص فنڈ میں 333فیصد اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے لئے فنڈ میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ آٹو موبائل فیکچررز کےلئے سی کے ڈی پر ایکسائز ڈیوٹی میں 5فیصد کمی ‘ سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی پر 200 روپے فی ٹن کمی کی تجویز ہے ۔ سیلولر سروس پرووائیڈرز کیلئے مختلف مراعات کا اعلا ن کیاگیا ہے‘ بجلی اور گیس کے نرخوں پر سبسڈی بتدریج کم کی جائے گی۔ این ایچ اے کےلئے مختص رقم 36 ارب سے بڑھا کر 40.2 ارب روپے جبکہ پاکستان ریلوے کےلئے مختص رقم 6.6ا رب روپے سے بڑھا کر 12.7 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔ پولٹری ‘ ڈیری ‘ فش پروسیسنگ اور فارماسوٹیکلز جیسے شعبوں کےلئے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز ہے ۔ بجلی کےلئے مختص فنڈ میں 100 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور حکومت اس شعبے کے بہت سے واجبات اپنے ذمے لے رہی ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کےلئے 4 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات پر پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کو خصوصی کاربن سرچارج سے تبدیل کیا جا رہا ہے جبکہ غیر روایتی طریقوں سے توانائی حاصل کرنے کے بہت سے منصوبے تیار کئے گئے ہیں۔ ماحولیات تحفظ کےلئے مختص بجٹ 2.96ارب روپے کر دیا گیا ہے خواتین سے متعلق مخصوص اخراجات کےلئے مختص فنڈ 7.7 ارب روپے سے بڑھا کر 44.7 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ نیشنل انٹرن شپ پروگرام کے تحت 30ہزار پوسٹ گریجویٹ نوجوانوں کو انٹرن شپ کی پیشکش کی جائے گی جس کےلئے 3.6ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ثقافتی ترقی کےلئے 450ملین اور کھیلوں کے لئے مختص رقم 140 سے بڑھا کر 583ملین روپے کرنے کی تجویز ہے۔ مرد ملازمین کے لئے ٹیکس سے مستثنیٰ آمدن کی حد ایک لاکھ 80 لاکھ سے بڑھا کر 2 لاکھ اور خواتین کی آمدن کی حد2لاکھ 40ہزار سے بڑھا کر 2لاکھ 60ہزار روپے کر دی ہے۔ بزرگ شہریوں کو ساڑھے 7لاکھ تک آمدن تک 50فیصد رعایت حاصل ہو گی۔ خصوصی گرانٹس میں صوبوں کا موجودہ حصہ 47.5 سے بڑھا کر 49 فیصد کیا جارہا ہے جس کے تحت صوبوں کو گزشتہ سال کے 6 سو ارب روپے کے مقابلے میں 18 فیصد اضافے کے ساتھ708.1 ارب روپے ملیں گے۔ سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس میں اضافے کی تجویز ہے جبکہ بنکنگ سروسز پر فیس ‘ امپورٹ کارگو پر فیس ‘ سٹاک بروکرز کی فیس‘ انشورنس کمپنیو ں کی فیس اور ایڈورٹائزنگ کیلئے الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے وصول کی جانے والی فیس کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے دائرے میںلانے کی تجویز ہے۔ تجارتی اشیاءکی درآمد پر عائد وود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 2 سے بڑھا کر 4 فیصد اور جائیداد پر کیپیٹل ویلیو ٹیکس کی شرح بھی 2 سے بڑھا کر 4 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ بے گھر افرا دکی مدد کےلئے سالانہ 10لاکھ روپے سے زائد آمدن والے افراد پر ایک سال کےلئے 5 فیصد ٹیکس اور کارپوریٹ سیکٹر میں 10لاکھ سے زائد تنخواہ والے افراد کے بونسز پر 30 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ اندازے کی بنیاد پر ٹیکسوں کی ادائیگی کے نظام کو ختم کرنے کا عمل جاری رہے گا اور بہت سے شعبوں کو دستاویزی شکل دی جائے گی۔