قومی ترقیاتی کونسل میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو شامل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

جاسم محمد

محفلین
قومی ترقیاتی کونسل میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو شامل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
سحر بلوچ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
  • 19 جون 2019
_107451595_mediaitem107451594.jpg

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER/@PTIOFFICIAL
Image captionبارہ رکنی قومی ترقیاتی کونسل کی سربراہی وزیرِ اعظم عمران خان کریں گے

وفاقی کابینہ کے گذشتہ روز ہونے والے اجلاس میں ملک کی معاشی صورتحال کے تناظر میں قومی ترقیاتی کونسل تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا اور حیران کن طور پر اس میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے کابینہ ڈویژن کی جانب سے اعلامیہ بھی جاری کیا جا چکا ہے۔ قومی سلامتی کونسل کے بعد یہ دوسرا ادارہ ہے جس میں فوج کے سربراہ کو شامل کیا گیا ہے۔ پچھلے کچھ روز سے اس بارے میں مقامی ذرائع ابلاغ میں بحث بھی جاری تھی۔

جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق اس کونسل کو تشکیل دینے کا مقصد خطے میں تعاون سے متعلق فیصلے لینے کے علاوہ پاکستان کی روز بروز بگڑتی ہوئی معیشت کو بہتر بنانے کے حوالے سے اقدامات لینا ہے۔

اس 12 رکنی کونسل کی سربراہی وزیرِ اعظم عمران خان کریں گے جس میں چاروں وزراِ اعلی کے ساتھ ساتھ تجارت، خزانہ، خارجہ کے علاوہ منصوبہ بندی کے وزرا بھی شامل ہوں گے۔
_107451659_whatsappimage2019-06-18at4.01.20pm.jpg

تصویر کے کاپی رائٹCABINET DIVISION
Image captionوفاقی کابینہ کے اجلاس میں ملک کی معاشی صورتحال کے تناظر میں قومی ترقیاتی کونسل تشکیل دینے کا فیصلہ لیا گیا ہے

اس کونسل کی تشکیل کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ اس میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شامل ہیں، جس پر اب تک حزبِ اختلاف کی جانب سے کوئی خاص ردِّعمل دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

اس کونسل کی تشکیل کے حوالے سے کئی سوالات سامنے آ رہے ہیں تاہم اب تک مقامی ذرائع ابلاغ میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کی جا رہی ہے۔

کونسل بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
نوٹیفیکیشن کے مطابق اس کونسل کا مقصد علاقائی سطح پر فیصلے، اقتصادی ترقی، معاشی سطح پر پہلے سے جاری اور آئندہ بننے والے پراجیکٹ کی منصوبہ بندی اور خطے میں باہمی تعاون کے لیے ہدایات دینا ہوگا۔ ساتھ ہی ترقیاتی امور پر حکمتِ عملی بنانا اس کونسل کے فرائص میں شامل ہے۔

اس بارے میں بی بی سی نے مالیاتی وزارت کے ترجمان خاقان نجیب سے بات کرنے کے لیے سوالات بھیجے لیکن اب تک ان کا جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

اس کے علاوہ حکومتی ارکان کی طرف سے آج وفاقی کابینہ کے اجلاس میں لیے گئے اس فیصلے کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں کی گئی جبکہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بعد معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اسلام آباد میں پریس سے خطاب بھی کیا، لیکن حزبِ اختلاف کی جانب سے بجٹ پر کی جانے والی تنقید کا جواب دینے اور کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے علاوہ انھوں نے کونسل کی تشکیل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
_107451665_mediaitem107451664.jpg

تصویر کے کاپی رائٹAFP
Image caption’پاکستان اور چین کے درمیان بننے والی اقتصادی راہداری سے حکومت کا دھیان ہٹتا ہوا نظر آرہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی فوج کے سربراہ کو اس کونسل میں شامل کیا گیا ہے‘

اس کونسل میں فوج کا کیا کام؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کونسل کے ذریعے جامع طور پر فوج کو پالیسی سازی کا حصہ بنایا گیا ہے جس سے ان کی حیثیت مزید مضبوط ہوگی۔ قومی سلامتی کونسل کے بعد یہ دوسرا ادارہ ہے جس میں فوج کے سربراہ کو شامل کیا گیا ہے۔

اس بارے میں بین الاقوامی اخبار فائننشل ٹائمز کے اسلام آباد میں موجود نمائندے فرحان بخاری نے بی بی سی کو بتایا کہ 'یہ واضح طور پر فوج کو وفاقی و خارجی فیصلوں میں شامل کرنے کا ایک جامع طریقہ ہے۔'

انھوں نے کہا کہ کئی روز سے یہ کہا جارہا تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان بننے والی اقتصادی راہداری سے حکومت کا دھیان ہٹتا ہوا نظر آرہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی فوج کے سربراہ کو اس کونسل میں شامل کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'پہلے بھی کئی فیصلوں میں کافی واضح تاثر ملتا رہا ہے کہ یہ فیصلے کون کررہا ہے۔ لیکن یہ فیصلہ لے کر ان تمام شبہات کو عمل میں لایا گیا ہے۔'

اس ادارے کی آئینی حیثیت کیا ہوگی؟
یاد رہے کہ آئین میں پہلے ہی مشترکہ مفادات کی کونسل اور قومی مالیاتی کمیشن جیسے ادارے موجود ہیں۔

فرحان بخاری نے کہا کہ 'کابینہ کے اجلاس میں نوٹیفیکیشن جاری ہونے کا مقصد اس کونسل کی آئینی حیثیت کو بھی واضح اور مضبوط کرنا ہے تاکہ مستقبل کے فیصلے لینے میں کوئی دقّت نہ پیش آئے اور یہ پیغام دیا جاسکے کہ فوج اور سویلین حکومت ایک صفحے پر ہیں۔'
_107451663_mediaitem107451662.jpg

تصویر کے کاپی رائٹTWITTER/@BETTERPAKISTAN
Image captionاحسن اقبال کے مطابق ’ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت فوج کو تنازعات میں دھکیل رہی ہے’

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے کوئی ردِّعمل؟

اس حوالے سے سابق وزیر برائے داخلہ اور منصوبہ بندی احسن اقبال نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’کیا قومی ترقیاتی کونسل قومی معاشی کونسل کی جگہ لےگا جو کہ ایک آئینی فورم ہے؟ کیا فوج باضابطہ طور پر معاشی انتظام سنبھالنے کا کریڈٹ یا الزام خود پر لے گی؟ ایک شہری ہونے کے ناطے میرے کچھ خدشات ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت فوج کو تنازعات میں دھکیل رہی ہے۔‘

تاہم اس کے علاوہ اب تک حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں سے کسی نے بھی اس بارے میں اپنی رائے نہیں دی ہے۔

اس سے تاثر یہی مل رہا ہے کہ پہلے لیے جانے والے فیصلوں کی طرح اس بار بھی اس کونسل کی تشکیل اور اس کو فعل کرنے کے لیے راہ ہموار کی جاچکی ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
جنرل باجوہ کی اس کونسل میں شمولیت مصر طرز کی حکومت کی کاپی ہے۔
جنرل باجوہ کی اس کونسل میں شمولیت پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین کی بالادستی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جنرل باجوہ کی اس کونسل میں شمولیت مصر طرز کی حکومت کی کاپی ہے۔
جنرل باجوہ کی اس کونسل میں شمولیت پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین کی بالادستی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
اگر آئین بھی فوج سے ہی لکھوا لیتے تو یہ سویلین بالا دستی والا مسئلہ کبھی شروع نہ ہوتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
جنرل باجوہ کی اس کونسل میں شمولیت مصر طرز کی حکومت کی کاپی ہے۔
جنرل باجوہ کی اس کونسل میں شمولیت پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین کی بالادستی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا قومی ترقیاتی کونسل میں آرمی چیف کو شامل کرنے پر اعتراض
اسٹاف رپورٹر 2 گھنٹے پہلے
1712900-khaqanx-1561059970-660-640x480.jpg

پہلے سے موجود نیشنل سیکورٹی کونسل میں سیویلین اور فوجی ادارے موجود ہیں جس میں معاشی معاملات پر بات ہوتی ہے (فوٹو : فائل)

کراچی: مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل عوام سے مذاق اور اپنی ناکامی کا اعتراف ہے جب کہ عسکری قیادت کی اس کونسل میں شمولیت سمجھ سے بالاتر ہے۔

یہ بات انہوں نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ ان کے ساتھ سابق گورنر سندھ محمد زبیر، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، شاہ محمد شاہ اور دیگر بھی موجود تھے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سمجھ نہیں آرہا حالانکہ نیشنل سیکورٹی کونسل موجود ہے جس میں ملک کے تمام معاشی مسائل پر گفتگو ہوتی ہے اور اس کونسل میں سیویلین اور فوجی ادارے موجود ہیں، نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل کے بھی وہی ممبر ہیں جو ایکنک کے بھی ہیں اب اس میں عسکری قیادت کو کیوں شامل کیا گیا؟ اس کی سمجھ نہیں آتی کیونکہ ان کی تجاویز تو نیشنل سیکیورٹی کونسل سے بھی ملتی ہے، موجودہ حالات میں اکنامک سیکورٹی اور نیشنل سیکورٹی ایک ہی چیز ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نواز شریف سے اچانک پارٹی ورکرز کے ملنے پر پابندی لگادی گئی، اہل خانہ میں سے بھی صرف چند افراد کو ملنے کی اجازت دی گئی ہے حکومت انتقام کی سیاست کررہی ہے۔

خاقان عباسی نے کہا کہ ہمارے دور میں مہنگائی 4 فیصد جب کہ رواں مالی 13 فیصد ہوچکی ہے، ترقی کی شرح 5 فیصد سے بھی بڑھ گئی تھی اور اس سال شرح نمو 3 فیصد سے بھی نیچے رہے گی، بجٹ خسارہ 2226 ارب روپے سے بڑھ کر 3200 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے، جو حکومت 4 ہزار ارب جمع نہ کرسکی وہ 5550 ارب روپے کیسے جمع کرے گی؟

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے انکم ٹیکس سلیب کو آسان کرکے 10 لاکھ افراد کو فائدہ پہنچایا تھا، اب 50 ہزار روپے کمانے والا بھی انکم ٹیکس دے گا، یعنی ایک طرف غریب عوام پر مہنگائی کا بوجھ لاد دیا گیا تو دوسری طرف ان کا ٹیکس سلیب بھی بڑھا دیا گیا ہے اگر انکم ٹیکس کی کم از کم حد ایک لاکھ برقرار رکھی جاتی تو صرف 7 سے 8 ارب روپے کا نقصان ہوتا، اب ٹیکس بڑھاکر جینا بھی مشکل بنادیا گیا ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ قرضوں کی جانچ پڑتال کرنے والا کمیشن پتا نہیں کس بات کی تحقیقات کرے گا؟ قرضہ کیسے لیا کس سے لیا اس کی تفصیل تو آدھے گھنٹے میں محکہ خزانہ سے بھی مل سکتی ہے، جو ادارے اس کمیشن میں شامل ہیں انہیں معاشی حقائق کا علم نہیں، وہ تو سیکھنا شروع کریں گے اور ایک ایسی رپورٹ پیش کریں گے جس کا سر ہوگا نہ پیر، یہ وہ جے آئی کی رپورٹ ہوگی جو پہلے بھی آتی رہی ہیں۔

ایک سوال پر شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ مجھے گرفتار کرنا ہے تو کرلیں میں تیار ہوں، لوگ نیب کو بھی جانتے ہیں اور مجھے بھی جانتے ہیں، مریم نواز نائب صدر ہیں وہ کسی سے بھی مل سکتی ہیں اسے کوئی اور رنگ نہ دیا جائے، ہم نہیں چاہتے تھے عوام سڑکوں پر ہوں اور گاڑیاں جلاتے پھریں

مسلم لیگی رہنما نے مزید کہا کہ ان ہاؤس تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کراچی میں 20 لاکھ افراد اب دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھاسکتے بعض کے لیے تو ایک وقت کی روٹی کھانا مشکل بنادیا گیا ہے، ہم نے ایمنسٹی اسکیم پیسے جمع کرنے کے لیے نہیں لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے متعارف کرائی تھی مگر پھر بھی (ن) لیگ کے دور میں 124 ارب روپے جمع ہوئے تھے مگر موجودہ حکومت کی ایمنسٹی میں اب تک صرف 48 کروڑ روپے جمع ہوئے ہیں اور عوام پر 1600 ارب روپے کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ادارے متنازع ہو جائیں تو شنید ہے کہ عوام اُن پر اعتماد کھونے لگ جاتے ہیں۔ یہ غیر دانش مندانہ فیصلہ ہے۔ جب کوئی سول حکومت فوج کو ایسے معاملات میں شامل کر لیتی ہے تو بعد ازاں اُنہیں ان معاملات سے 'باہر رکھنا' آسان نہیں رہتا ہے۔ یقینی طور پر، یہ اقدام جنرل باجوہ کی مرضی سے ہی اٹھایا گیا ہو گا۔ اس کا ایک واضح مطلب ہے کہ افواج پاکستان اس غیر دانش مندانہ فیصلے میں شریک ہیں۔ شاید ہمیں حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہمیں ان 'سیانوں' سے ایسی ہی توقع رہتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ادارے متنازع ہو جائیں تو شنید ہے کہ عوام اُن پر اعتماد کھونے لگ جاتے ہیں۔ یہ غیر دانش مندانہ فیصلہ ہے۔ جب کوئی سول حکومت فوج کو ایسے معاملات میں شامل کر لیتی ہے تو بعد ازاں اُنہیں ان معاملات سے 'باہر رکھنا' آسان نہیں رہتا ہے۔ یقینی طور پر، یہ اقدام جنرل باجوہ کی مرضی سے ہی اٹھایا گیا ہو گا۔ اس کا ایک واضح مطلب ہے کہ افواج پاکستان اس غیر دانش مندانہ فیصلے میں شریک ہیں۔ شاید ہمیں حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہمیں ان 'سیانوں' سے ایسی ہی توقع رہتی ہے۔
ویسے آرمی چیف کا ترقیاتی کونسل میں شمولیت کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ماضی کی طرح اپنی مرضی کا دفاعی بجٹ نہ ملنے پر جمہوری حکومت کا بوریا بستر گول کرنے والی عسکری روایت دم توڑ جائے گی۔
 

dxbgraphics

محفلین
ادارے متنازع ہو جائیں تو شنید ہے کہ عوام اُن پر اعتماد کھونے لگ جاتے ہیں۔ یہ غیر دانش مندانہ فیصلہ ہے۔ جب کوئی سول حکومت فوج کو ایسے معاملات میں شامل کر لیتی ہے تو بعد ازاں اُنہیں ان معاملات سے 'باہر رکھنا' آسان نہیں رہتا ہے۔ یقینی طور پر، یہ اقدام جنرل باجوہ کی مرضی سے ہی اٹھایا گیا ہو گا۔ اس کا ایک واضح مطلب ہے کہ افواج پاکستان اس غیر دانش مندانہ فیصلے میں شریک ہیں۔ شاید ہمیں حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہمیں ان 'سیانوں' سے ایسی ہی توقع رہتی ہے۔
ادارے متنازع ہو جائیں تو شنید ہے کہ عوام اُن پر اعتماد کھونے لگ جاتے ہیں۔ یہ غیر دانش مندانہ فیصلہ ہے۔ جب کوئی سول حکومت فوج کو ایسے معاملات میں شامل کر لیتی ہے تو بعد ازاں اُنہیں ان معاملات سے 'باہر رکھنا' آسان نہیں رہتا ہے۔ یقینی طور پر، یہ اقدام جنرل باجوہ کی مرضی سے ہی اٹھایا گیا ہو گا۔ اس کا ایک واضح مطلب ہے کہ افواج پاکستان اس غیر دانش مندانہ فیصلے میں شریک ہیں۔ شاید ہمیں حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہمیں ان 'سیانوں' سے ایسی ہی توقع رہتی ہے۔
افواج پاکستان پر چند جرنیلوں نے اپنا تسلط قائم کیا ہوا ہے جن کو ہم اسٹیبلشمنٹ کے نام سے جانتے ہیں جن کی وجہ سے فوج کا ادارہ متنازع بن سکتا ہے۔ اور اسٹیبلشمنٹ ہی پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی قائم ہونے میں آڑے آرہی ہے۔
اس وقت اسٹیبلشمنٹ اگر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے تو اسے صحابہ اور انبیاء کرام کے بارے میں مغلظات کہنے والے جعلی وزیر اعظم کو برطرف کرنا ہوگا۔ جیسے جیسے اسے ہٹانے میں اسٹیبلشمنٹ تاخیر کرے گی اتنا ہی ان کی ساکھ زیادہ متاثر ہوگی۔ کیوں کہ پوری سپورٹ ہونے کے باوجود بھی نیازی ڈیلیور کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ اور اب تک تقریا تبدیلی کے سپورٹرز کے اپنے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے ۔ میرے احباب میں سے تقریبا 80 فیصد تبدیلی کے سپورٹرز آج خود نیازی پر انگلی اٹھانے اور اعتراض کرنے میں دیر نہیں کرتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس وقت اسٹیبلشمنٹ اگر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے تو اسے صحابہ اور انبیاء کرام کے بارے میں مغلظات کہنے والے جعلی وزیر اعظم کو برطرف کرنا ہوگا۔ جیسے جیسے اسے ہٹانے میں اسٹیبلشمنٹ تاخیر کرے گی اتنا ہی ان کی ساکھ زیادہ متاثر ہوگی۔ کیوں کہ پوری سپورٹ ہونے کے باوجود بھی نیازی ڈیلیور کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ اور اب تک تقریا تبدیلی کے سپورٹرز کے اپنے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے ۔ میرے احباب میں سے تقریبا 80 فیصد تبدیلی کے سپورٹرز آج خود نیازی پر انگلی اٹھانے اور اعتراض کرنے میں دیر نہیں کرتے۔
یہ قوم آج بھی چڑھتے سورج کی پجاری ہے۔ جب ضیا نے بھٹو اور مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا تھا توان جمہوری لیڈران کو دو تہائی اکثریت سے کامیاب کر وانے والی عوام ایسے غائب ہوئی تھی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
اب عوام کی خواہش ہے کہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ عمران خان کا بوریا بستر گول کر دے تاکہ وہ سیاست کے نئے چڑھتے سورج بلاول اور چاند مریم کو ووٹ دے کر اپنے سروں پر بٹھائیں۔ اور پھر اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ترلے کر کے ان دونوں کو بھی نیچے اتاریں۔ یہ گول دائرہ میں گھومنے والی غلام فطرت قوم سدھرنے والی نہیں۔
 
Top