قومی زبان اردو کے خلاف افسر شاہی کی سازشیں

پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے، اس کے قیام میں جو دو بنیادی عوامل کار فرما تھے، وہ تھے دین اسلام اور اردو زبان۔ ظاہر ہے اس نئے اور نو آزاد ملک کا نظام تعلیم انہی دونوں بنیادوں پر استوار ہونا تھا۔ اسی لئے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد بارہا علانیہ کہا تھا کہ ملکی نظام قرآن مجید اور اسلام کے اصولوں پر مبنی ہو گا۔ علاوہ ازیں قائداعظم شعوری طور پر جانتے تھے کہ اس نظریاتی ملک میں ایک قومی زبان کا نفاذ ضروری ہے اور یہ کھلی حقیقت ہے کہ کوئی زبان اس وقت تک قومی اور سرکاری زبان نہیں بن سکتی جب تک وہ ذریعہ تعلیم نہ ہو۔ اسی لئے جب ملک کے مشرقی بازو میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کی آوازیں اٹھیں تو قائداعظم نے خرابی صحت کے باوجود ڈکوٹا طیارے میں طویل سفر کر کے ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ ’’پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہو گی‘‘۔ اس کے مطابق اردو کو جلد از جلد تعلیمی و سرکاری زبان بن جانا چاہئے تھے مگر عملاً ایسا نہ ہو سکا۔ مذکورہ اعلان کے چھ ماہ بعد قائداعظم وفات پا گئے جبکہ ان کے جانشین کمزور نظریاتی سوچ کے مالک تھے اور ملکی بیورو کریسی یعنی سول و فوجی افسر شاہی تو سراسر لارڈ میکالے کی معنوی اولاد تھی جس نے 1838ء میں وزیر ہند کی حیثیت سے انگریزی کو برطانوی ہند کی تعلیمی و دفتری زبان بنانے کا بل یہ کہہ کر پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا کہ ’’ہمیں اس وقت پوری پوری کوشش کرنی چاہئے کہ (ہندوستان میں) لوگوں کا ایک ایسا طبقہ وجود میں لایا جائے جو خون اور رنگ میں ہندوستانی ہو، مگر ذوق، آرائ، اخلاق اور فکر میں انگریز ہو‘‘۔
ملکی بیورو کریسی کی ذہنی تشکیل تمام ترلارڈ میکالے کی اسکیم کے تحت ہوئی تھی۔ قائداعظم کے بعد جلد ہی یہ افسر شاہی ملکی معاملات پر حاوی ہو گئی۔ ملک غلام محمد (تیسرے گورنر جنرل)، سکندر مرزا (پہلے صدر مملکت)، جنرل ایوب خان (پہلے پاکستانی مسلم آرمی چیف)، سید فدا حسین (چیف سیکرٹری)، ایم ایم احمد (قادیانی چیئرمین پلاننگ کمیشن)، قربان علی خاں آئی جی پولیس، محمد منیر (چیف جسٹس)، عزیز احمد (سیکرٹری دفاع)، محمد شعیب (ایوبی دور کے وزیر خزانہ)، زیڈ اے بخاری (ڈی جی ریڈیو پاکستان اور پہلے ڈائریکٹر جنرل پی ٹی وی)، جنرل یحییٰ خان (دوسرے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر) سب عرف عام میں ’’گورے انگریز‘‘ تھے جو پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرتے رہے۔ افسر شاہی نے سازش کے تحت آئین 1956ء اور 1962ء میں دو قومی زبانیں اردو اور بنگالی تو تسلیم کیں مگر عملاً انگریزی کو تعلیمی و دفتری زبان بنائے رکھا۔ ملکی سطح پر ایک قومی زبان بطور ذریعہ تعلیم و دفتری زبان نہ ہونے کے باعث وطن عزیز کے مشرقی اور مغربی بازوئوں میں جو ایک دوسرے سے ایک ہزار میل دور تھے، ہم آہنگی اور یک جہتی پیدا نہ ہو سکی اور اہل بنگال ذہنی طور پر مغربی پاکستان سے دور ہوتے چلے گئے جبکہ وہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی فوجی و سول افسر شاہی اور اس کے ہمنوا سیاستدان زیڈ اے بھٹو سے بہت بدگمان اور نالاں تھے، اس کا نتیجہ دسمبر 1971ء میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کی صورت میں نکلا۔
بنگلہ دیش کے آزاد ملک بنتے ہی وہاں بنگالی زبان کو تعلیمی و دفتری زبان بنا لیا گیا مگر بقیہ پاکستان میں بدستور انگریزی کا سکہ چلتا رہا۔ اگرچہ آئین 1973ء میں اردو کو بطور قومی زبان تسلیم کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ پندرہ سال کے اندر اندر اسے دفتری و سرکاری زبان بنا لیا جائے گا مگر بدنیتی سے اس پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آنے دی گئی۔ افسر شاہی نے عہد ایوبی (1958-69ئ) میں اردو کی ہیئت بدلنے کے لئے سازش کی تھی کہ اس کا عربی فارسی رسم الخط بدل کر لاطینی کر دیا جائے مگر اس وقت مولانا صلاح الدین احمد (وفات 1964ئ) اور ڈاکٹر سید عبداللہ جیسی ہستیاں موجود تھیں جن کی شدید مخالفت کے باعث لاطینی رسم الخط کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ یہ ترکی زبان کے لاطینی رسم الخط کا شاخسانہ ہے کہ ترک وزیر خارجہ کا اسلامی نام ترجمے میں ’’اہمت داووت اوگلو‘‘ بن جاتا ہے، حالانکہ ان کا نام ’’احمد دائود اوگلو‘‘ ہے۔ غنیمت ہے اردو اس کا یا پلٹ سے محفوظ رہی۔
اردو کے خلاف اپنے فرنگی آقائوں کے ایماء پر افسر شاہی کی سازشیں جاری رہیں۔ صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1979ء کی تعلیمی پالیسی ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر وحید قریشی اور ڈاکٹر پریشان خٹک جیسے محبان اردو کی مشاورت سے وضع کی گئی تھی جس میں یہ طے پایا تھا کہ 1989ء کے بعد ملک میں دسویں جماعت کا امتحان انگریزی میں نہیں ہو گا بلکہ تمام پرچے اردو یا علاقائی زبان میں تیار ہوں گے۔ یہ ایک بہت بڑا انقلابی فیصلہ تھا جو آئین 1973ء کے تقاضے کے عین مطابق تھا۔ اس کی پیروی میں انگلش میڈیم مشنری سکولوں نے بھی اپنے ہاں اردو میڈیم کی کلاسیں جاری کردیں لیکن گورے انگریز کہاں نچلے بیٹھنے والے تھے۔ بعض انگلش میڈیم ادارے اس پالیسی کو ناکام بنانے کی کوشش میں رہے۔ ان میں طلبہ کو ایک درخواست تھما کر کہا جاتا کہ وہ اس پر اپنے والدین یا سرپرست سے دستخط کروا کر لائیں کہ ان کے بچوں کو اردو کے بجائے انگلش میڈیم میں تعلیم دی جائے۔ اگرچہ وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر محمد افضل، وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق، وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق اور خود صدر مملکت یقین دلاتے رہے کہ حکومت اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے عہد پر کاربند ہے، مگر پھر غیر ملکی سفارتوں اور مشنری اداروں کا انگلش میڈیم جاری رکھنے کے لئے دبائو اس قدر بڑھا کہ 1984ء میں وفاقی حکومت نے ایک ترمیمی حکم جاری کر دیا کہ جو ادارے غیر ملکی امتحانات کی تیاری کراتے ہیں وہ انگلش میڈیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس ایک آرڈر نے پوری تعلیمی پالیسی الٹا دی۔ اینگلو سیکسن مغرب کی آلہ کار افسر شاہی کی مراد بر آئی۔ اس کے بعد پورے ملک میں انگلش میڈیم اسکول کھمبیوں کی طرح اگ آئے۔
آئین پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 251 (1) کے مطابق 14اگست 1988ء تک حکومت پاکستان کا فرض تھا کہ وہ انگریزی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان بنا دیتی لیکن یہ کام اردو ذریعہ تعلیم کے نفاذ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس لئے سازشیوں نے قومی زبان کا نفاذ روکنے کے لئے انگلش میڈیم جاری رکھنے کا فیصلہ کروا لیا۔ دسمبر 1988ء میں بے نظیر حکومت برسر اقتدار آئی اور اس انگلش میڈیم بی بی نے مئی 1989ء میں پہلی جماعت سے انگریزی بطور لازمی مضمون پڑھانے کی منظوری دے دی۔ سندھ میں اس پر فوری عمل شروع ہو گیا تاہم پنجاب میں منظور وٹو اور پی پی پی کی مخلوط حکومت (1993-95ئ) نے پرائمری اسکولوں میں انگریزی کو لازمی مضمون قرار دیا۔ دریں اثناء اکتوبر 1989ء میں چودھری احمد خاں علیگ سابق ڈپٹی اکائونٹنٹ جنرل پنجاب نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی کہ اردو کو سرکاری، دفتری، عدالتی، ذریعہ تعلیم، امتحانات مقابلہ میں ذریعہ اظہار و ذریعہ گفتگو اور سرکاری گزٹ کی زبان بنا کر نفاذ اردو کی تکمیل کی جائے۔ اگرچہ اس دوران میں آئین کے آرٹیکل 251 کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی تھی مگر انگلش میڈیم عدالت عظمی نے خاصی تاخیر کے بعد 22 مئی 1990ء کو درخواست کا فیصلہ تو سنا دیا مگر ساتھ ہی فیصلہ نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ اردو پر اس عدالتی کرفیو کی مثال دنیا میں بھلا اور کہاں ملے گی!
اب حکومت پنجاب نے 2009ء سے تین مرحلوں میں صوبے کے تمام سرکاری اسکول جبراً انگلش میڈیم بنا دیے ہیں۔ اس سے پہلے صوبے کے مختلف اضلاع میں انگلش میڈیم دانش اسکول کھولنے کا آغاز کیا گیا، حالانکہ دنیا میں کسی قوم نے غیر زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر ترقی نہیں کی۔ یہ پاکستان کی نئی نسلوں کو اردو اور اسلام سے کاٹ ڈالنے کی صلیبی و صہیونی سازش ہے جس پرعمل درآمد میں ’’خادم پنجاب‘‘ میاں شہباز شریف آلۂ کار ثابت ہوئے ہیں۔ یہ اردو یا پنجابی بولنے والے بچوں پر ظلم عظیم ہے۔ در حقیقت عربی کے بعد اسلامی تعلیمات کا سب سے بڑا ذخیرہ اردو میں ہے لہٰذا اس خطے میں اردو اسلام دشمنوں کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ محکمہ تعلیم پنجاب میں ایک برطانوی گورا خطیر مشاہرے پر لابٹھایا گیا ہے اور وہ انگریزی کی عملداری مستحکم کرنے کے اس پروگرام کی نگرانی کر رہا ہے۔ ادھر صوبہ سرحد میں جرمنی سے درآمدہ اردو نصابی کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں، جبکہ سندھ حکومت نے سکولوں میں چینی زبان پڑھانے کا افلاطونی حکم جاری کردیا ہے۔ صدر ضیاء الحق کے دور سے مڈل سکولوں میں عربی لازمی اور تمام تعلیمی اداروں میں اسلامیات لازمی اور مطالعہ پاکستان لازمی کے مضامین متعارف کرائے گئے تھے لیکن مشرف زرداری حکومت نے اسلامیات سے جہاد کی آیات خارج کرنے اور عربی اور مطالعہ پاکستان کی لازمی حیثیت ختم کرنے کے قوم دشمن اقدامات کئے ہیں۔ اگرچہ محتسب پنجاب خالد محمود صاحب نے پرائمری و مڈل لیول کے 50 ہزار طلبہ دستخطوں سے دائر کردہ ایک درخواست پر محکمہ تعلیم پنجاب کو حکم دیا ہے کہ وہ بچوں کا اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے کا حق بحال کریں مگر جب تک حکومت پرائمری سکولوں کو انگلش میڈیم بنانے کا حکم واپس نہیں لیتی، تمام دینی و سیاسی جماعتوں اور محب وطن تنظیموں پر لازم ہے کہ وہ اغیار کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے متحد ہو کر دبائو بڑھائیں تاکہ حکومت قومی مفادات کے صریحاً خلاف اپنے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔

بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام،،، علی اوڈراجپوت
ali oadrajput
 
تعلیم اور جدید تہذیبی چیلنج
مسلمان معاشرے اس وقت جس تہذیبی چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔
متشدد کفرنے مسلم دنیا پر ہمہ پہلو یلغار کر رکھی ہے۔
اسلامی تہذیب اصولی و فکری طور پر مضبوط اور روحانی و اخلاقی اعتبار سے مستحکم ہے لیکن اس وقت مادی و عسکری اور سائنسی و معاشی لحاظ سے کمزور ہے۔ مسلمانوں کی اصل قوت ان کا عقیدہ اور اخلاقی طاقت ہے۔ اسے مستحکم رکھ کر مادی و سائنسی اور عسکری و دفاعی میدانوں میں { وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ } پر عمل پیرا ہو کر برتری حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن اس ادراک کے لیے تعلیمی شعور کی ضرورت ہے۔ اسی شعور کی بیداری کی خاطر شعبہ تعلیم سے وابستہ لوگوں کے لیے چند سطور پیشِ خدمت ہیں
۔
اسلامی تہذیب
:
اسلامی تہذیب کی اساس اگرچہ ایمان ہے۔ انسان اور کائنات کے بارے میں اسلامی تہذیب کا اساسی نقطہ یہ ہے کہ ان دونوں کی تخلیق میں ایک مقصدیت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ قرآن کا اعلان ہے(المومنون:۵۱۱)
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمھیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمھیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے۔‘‘
اور نہ ہی کائنات کی تخلیق و تنظیم بے سبب اور بے کار ہے۔ کائنات کے بارے میں قرآن کہتا ہے: [ الدخان : ۸۳، ۹۳ ]
’’اور ہم نے آسمانوں اور زمینوں کو اور جو کچھ ان میں ہے اُن کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا۔ ان کو ہم نے تدبیر سے پیدا کیا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
مسلم معاشرے کی تہذیبی اقدار میں تین بنیادی امتیازات ہیں۔
1:الٰہی ماخذ و مصدر۔ وحی الٰہی جس کا مظہر قرآن مجید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے :
2:ہمہ گیر اسلامی و قانونی رہنمائی۔
3:مستقل اقدار جو ناقابل تغیر ہیں۔ یہ مستقل اقدار اسلامی تہذیب کی پہچان ہیں۔ جیسے حلال و حرام، نیکی و بدی، حیا و بے شرمی، پاکبازی و بدکرداری، صدق و کذب، عدل و ظلم، عفو و درگزر، صبر و استقامت وغیرہ۔
شریعتِ اسلامیہ نے ان اقدار کی حفاظت کی ہے اور اسلامی تہذیب ان اقتدار کی وجہ سے ایک ممتاز تہذیب ہے مسلمانوں کا نظامِ تعلیم ان قدروں پر مبنی ہونا چاہیے۔
یہ تصور اسلامی تہذیب کی جان اور اس کی پہچان ہے۔ بقول اقبال:
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

جدید تہذیب (مغربی تہذیب):

جدید تہذیب مغرب کے تہذیبی تجربے کا تسلسل ہے۔ مغربی تہذیب کے مورخ بتاتے ہیں کہ اس تہذیب کے چار عناصر ہیں۔ (1) یونانی فلسفہ (2) رومی قانون و سیاست (3) عیسائی مذہب (4) یورپین قبائل کے رسوم و رواجات۔
یونان اور روم دونوں اپنی حقیقت میں مشرکانہ کلچر پر مبنی معاشرے تھے۔ رومی معاشرہ بنیادی طور پر ایک مادہ پرست معاشرہ تھا اور رومی سلطنت اس تصور پر مبنی تھی کہ فتوحات کے ذریعہ سے دوسری قوموں کا استحصال کرکے مادرِ وطن کی خوشحالی کا اہتمام کیا جائے۔ گویا کہ زندگی کا تعیش ہی مقصود تھا۔
عیسائیت نے روحانیت اور مابعد الطبیعات کے عناصر متعارف کرائے لیکن مسیحی علمِ کلام اور یونانی فلسفہ کی تاثیر سے ایک ناقابلِ وضاحت عقیدہ تثلیث کی اُلجھن کا شکار ہوگیا۔
یورپین قبائل کے مقامی رسم و رواج خالصتاً قومی اور توہماتی تھے جو مغرب کے معاشرتی مظاہر میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ مظاہرِ فطرت کی پرستش اور شیطانی قوتوں سے توسل ان کے ہاں رائج تھا۔ موجودہ مغربی معاشرے میں بہت سی رسموں، میلوں اور تقریبات کا تعلق انہی جاہلی تصورات سے ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں مغرب کی جدید تہذیب نے نشوونما پائی ہے۔
مغرب کی مادیت دراصل عیسائیت کے روحانی تشدد کا انتقام ہے مغرب کے تہذیبی تجربے میں بعض تحریکیں اور واقعات بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور موجودہ تہذیب کی فکری اور تمدنی تشکیل میں ان کا بنیادی کردار ہے۔ مثلاً:
نشاۃِ ثانیہ تحریک اصلاح مذہب ،تحریک تنویر اور تحریک رومانویت، انقلابِ فرانس اور صنعتی انقلاب وغیرہ۔
مغرب کی تمام فکری تحریکیں، فلسفے، سیاسی و معاشی نظام اور معاشرتی رویے انہی تجربوں کا نتیجہ ہیں۔ مغرب کی تمام تر موجودہ گمراہیاں انہی کی پیدا کردہ ہیں۔
سترھویں صدی سے بیسویں صدی تک مغرب میں جو فلسفی پیدا ہوئے انھوں نے مابعد الطبیعاتی اساس کے انکار، عقل اور انسانی جبلتوں کی مؤثر حیثیت، مادیت ، ثبوتیت مذہب و ریاست اور مادہ و روح کی ثنویت کے استحکام پر بھرپور کام کیا۔
ڈے کارٹ سے لے کر رَسل تک، ہیگل سے لے کر مارکس تک اور ڈارون سے لے کر فرائڈ اور یونگ تک اور نیوٹن سے لے کر آئن سٹائن تک ہر ایک نے جدید تہذیب کی لادینیت اور مادیت کو مستحکم کیا اور نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
پھر اس کے بعد انقلابِ فرانس نے جمہوریت کی بنیاد فراہم کی اور صنعتی انقلاب نے سرمایہ دارانہ نظام کو استحکام دیا۔ اس طرح سرمایہ داری کا وہ ظالمانہ نظام غالب آنا شروع ہوا جس نے نہایت سفاکی کے ساتھ انسانیت کی روح کو کچل کر رکھ دیا۔
بقول اقبال:
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
رہے نہ رُوح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
ضمیر پاک و خیال بلند زوق لطیف
(کلیات اقبال: 694)
خلاصہ کلام یہ کہ جدید تہذیب ایک لادین اور کافرانہ تہذیب ہے۔ اسے غالب کرنے کے لیے مغرب نے تعلیم، میڈیا، معاشی قوت اور عسکری طاقت کو خوب استعمال کیا ہے۔ جمہوری جماعتیں استعمار کی ایجنٹ ہیں۔ عالمی استعمار کے ایجنڈے کا اہم ہدف قومی ریاستوں کی بے وقاری ہے۔ محکوم قوموں کی قیادتیں بے بصیرت ہیں کہ وہ عالمی میڈیا کی دی ہوئی اصطلاحات بے سوچے سمجھے دہراتی ہیں اور بغیر جانے بوجھے ان کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جو قومی غیرت کے خلاف ہوتی ہیں۔ اقوام اور معاشروں کو رام کرنے کے پروگرام کے دو حصے ہیں۔
ایک دھونس اور دوسرا فکری اور نفسیاتی طور پر مطیع کرنے کا ہے۔ پہلے کے لیے جدید ترین اسلحہ کا استعمال ہوتا ہے اور دوسرے کے لیے تعلیم اور میڈیا استعمال ہوتا ہے۔
عالمی استعمار تعلیم کو مکمل طور پر مغربی ماڈل پر استوار کرنے کے اصول پر کام کر رہا ہے۔ یہ ماڈل (Euro Contract Model) ہے۔ تعلیم میں تمام حقائق، واقعات اور تجزیوں کا تعلق مغرب سے ہے۔ طلبہ جو کچھ پڑھتے ہیں ان کا تعلق طلبہ کے ماحول سے نہیں ہوتا بلکہ دور دراز مغربی ماحول سے ہوتا ہے۔

چیلنج کی نوعیت
:
اس چیلنج کی نوعیت ہمہ گیر ہے۔ یہ فکری ارتداد و الحاد اور عملی کفر کا ایک مکمل پروگرام ہے۔ اے اربابِ دانش و بصیرت یہ چیلنج فکری بھی ہے اور عملی بھی۔ انفرادی بھی اور اجتماعی بھی۔ معاشی بھی اور معاشرتی و سماجی بھی۔ درسگاہیں اور تعلیمی ادارے میدان جنگ اور تعلیمی نظام اور ذرائع ابلاغ بڑا اسلحہ ہیں اور نشانے پر ہے امت مسلمہ کا بچہ۔ اگر آپ اس چیلنج کی نوعیت کو سمجھ پائے ہیں۔ اگر آپ اس فیصلہ کن تہذیبی حملے اور گہرے ترین گھاؤ کا ادراک کرپائے ہیں اور اگر اپنی اگلی نسلوں کو مغربی تہذیب کی کٹھالی میں پگھلنے سے بچانے کا عزمِ صمیم کرپائے ہیں تو پھر مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے بچوں کو:
|کیمبرج اور اکسفورڈ کے مشرب سے پانی نہیں پلائیں گے۔
|کمپیوٹر اور نیٹ کے بہانے ہالی، بالی اور لالی وڈ نہیں دکھائیں گے۔
|ادب کے نام پر بے اَدبی اور آرٹ کے نام پر فحاشی نہیں سکھائیں گے۔
|ٹیبلو کے نام پر ڈانس اور روح کی غذا کے نام پر میوزک نہیں سکھائیں گے۔
|انگریزی زبان کے نام پر انگریزی تہذیب کا دلدادہ نہیں بنائیں گے
۔
کامرس اور
ACCA
| کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا نوکر نہیں بنائیں گے۔
|لادین سائنس پڑھوا کر ڈاکٹر اور انجینئر کے نام پر ڈاکو نہیں بنائیں گے۔
|پولیٹیکل سائنس کے نام پر خونخوار بھیڑیوں کی تاریخ نہیں پڑھائیں گے۔
الغرض ! مشرکانہ، مادہ پرستانہ، غلامانہ، لادین اور دین و دنیا کے خانوں میں بٹے ہوئے نظامِ تعلیم کو یکسر مسترد کرکے اپنے جگر گوشوں کے لیے اسلامی نظامِ تعلیم کے حامل اداروں کا انتخاب کرتے ہوئے صدیوں بعد پھر ایک ایسی نسل تیار کرنے کے راستے پر گامزن ہوں گے۔
جس کا نصاب قرآن و حدیث ہے۔ جس کا معلم اللہ کا آخری رسولﷺ ہے۔ جس کی منزل رضائے الٰہی اور جنت کا حصول ہے۔ گویا آپ ایسی نسل تیار کرنے جارہے ہیں جس کا نقشہ اقبال نے کچھ یوں کھینچا:
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحان ہمارا

بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام،،، علی اوڈراجپوت
ali oadrajput

 
جماعۃ الدعوۃ کی تعلیمی کانفرنس، بارش کا پہلا قطرہ

24
جون کو مرکز القادسیہ میں جماعۃ الدعوۃ کی تعلیمی کانفرنس بخیر و خوبی و کامیابی سے منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں ملک کے نامور، قابل اور ذہین ترین اسکالرز، دانشور حضرات اور ماہرین تعلیم نے متفقہ طور پر کہا کہ نظام تعلیم قومی زبان اردو میں ہو۔ نصاب کی بنیاد اسلام اور عربی ہو اور نصاب آسان ہو۔
پاکستان میں 1988ء میں بے نظیر بھٹو حکومت نے انگری کو اول جماعت سے لازمی کیا تھا۔ زبان کی حد تک تو معاملہ درست ہے لیکن اب اسے باقاعدہ نظام تعلیم اور میڈیم بنا دینا مافوق الفطرت بات ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی آج جاپان اور چین نے کی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ بتایا جائے وہاں کتنی انگریزی پڑھائی اور سیکھی سیکھائی جاتی ہے جبکہ مسلم دنیا میں پہلے ملائشیا اور آج کل ترکی کا بہت شور اور ہنگامہ ہے۔ دونوں ممالک میں انگریزی کا نام و نشان نہیں۔ یورپ کے تقریباً سبھی ممالک میں اپنی اپنی زبانیں بولی، پڑھی لکھی اور سکھائی جاتی ہیں۔ دنیا میں محض 5 ممالک کی مکمل زبان انگریزی ہے لیکن ہمارے ہاں معاملہ الگ ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ انگریز کے غلاموں کی حکومت ہے اس لئے انہیں وہی نظر آتا ہے کہ جس رنگ کی انہیں انگریز عینک لگا دیتے ہیں۔ ان کے کہنے پر اسلامیات کا معمولی سا حصہ بھی مزید انتہائی کم کیا جاتا ہے۔ مطالعہ پاکستان کو کانٹ چھانٹ کر ایسا بنایا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کی قربانیوں کا تذکرہ بھی نہ رہ جائے اور اس کا حصہ بھی انتہائی قلیل ہے۔ بنیادی طور پر یہ سب کچھ صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق شہید کا کارنامہ ہے جو آج تک ہمارے کاٹھے انگریزوں کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے ان کے بس کی بات ہو تو یہ ہمیں مکمل ان جیسا بنا دیں۔ شہباز شریف نے سارا نظام انگلش میڈیم کیا، نصاب سے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان نکالے گئے۔ ہر طرف مکمل خاموشی دیکھنے کو ملی۔ اب جماعۃ الدعوۃ نے ایک بڑی کانفرنس منعقد کر کے بے شمار سازشوں کے پول کھول کر حقائق آشکار کر دیئے ہیں۔ اب یہ سلسلہ آگے بڑھنا چاہئے۔ جس طرح ختم نبوت کی تحریک چلی۔ ناموس رسالت اور حرمت رسولﷺ کی تحریک چلی۔ اب دفاع پاکستان کی تحریک انتہائی کامیابی سے چل رہی ہے۔ اسی طرز پر اس تحریک کو بھی کامیابی سے چلانے اور کامیابی کے مراحل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور آگے بڑھ کر ملک و ملت کے دفاع کے لئے قربانی پیش کرنا ہو گی۔
 

وشال احمد

محفلین
1969 - 70 میں کراچی کے کچھ اردو دوست حضرات نے اردو کو اس کا جائز حق دلانے کیلئے ایک تحریک کا آغاز کیا تھا۔ معروف شاعرڈاکٹر یاور عباس مرحوم، سید آل رضا مرحوم اور تحریک آزادی کے نامور کارکن اور اپنے عہد کے ایک بڑے شاعر نیر مدنی نے متحدہ اردو محاذ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ متحدہ اردو محاذ کا نعرہ ' گھر گھر تعلیم، ہر گھر اردو' تھا اور اسکے لٹریچر پر ' اردو لکھئے، اردو پڑھئے، اردو بولئے' کی تحریر کے ساتھ یہ شعر بھی موجود ہوتا تھا
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزئ پروانہ ہے
اسی تنظیم کے زیر اہتمام ایک ماہانہ ادبی پرچہ جام جم کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ اپنی تحریک کو سیاسی پلیٹ فارم سے تقویت پہنچانے کی غرض سے 1970 کے انتخابات میں ڈاکٹر سید یاور عباس نے صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے انتخابات میں بھی حصہ لیا۔ بدقسمتی سے وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ متحدہ اردو محاذ کے زیر اہتمام کئی مذاکرے، مشاعرے اور دیگر تقریبات منعقد ہوتی رہیں۔ تاہم بعد میں یہ تنظیم کئی اہم شخصیات کی رحلت اور کئی دیگر وجوہات کے باعث غیر فعال ہوگئی۔ آج ایسی ہی کسی تنظیم کی ضرورت ہے جو اردو کو نہ صرف دفتری زبان بلکہ ایک عوامی زبان بنانے کیلئے کام کرے۔ اس وقت بھی اس تنظیم کا وجود کچھ کاغذی کارروایئوں تک محدود ہے۔
 

وشال احمد

محفلین
جماعۃ الدعوۃ کی تعلیمی کانفرنس، بارش کا پہلا قطرہ

24
جون کو مرکز القادسیہ میں جماعۃ الدعوۃ کی تعلیمی کانفرنس بخیر و خوبی و کامیابی سے منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں ملک کے نامور، قابل اور ذہین ترین اسکالرز، دانشور حضرات اور ماہرین تعلیم نے متفقہ طور پر کہا کہ نظام تعلیم قومی زبان اردو میں ہو۔ نصاب کی بنیاد اسلام اور عربی ہو اور نصاب آسان ہو۔
پاکستان میں 1988ء میں بے نظیر بھٹو حکومت نے انگری کو اول جماعت سے لازمی کیا تھا۔ زبان کی حد تک تو معاملہ درست ہے لیکن اب اسے باقاعدہ نظام تعلیم اور میڈیم بنا دینا مافوق الفطرت بات ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی آج جاپان اور چین نے کی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ بتایا جائے وہاں کتنی انگریزی پڑھائی اور سیکھی سیکھائی جاتی ہے جبکہ مسلم دنیا میں پہلے ملائشیا اور آج کل ترکی کا بہت شور اور ہنگامہ ہے۔ دونوں ممالک میں انگریزی کا نام و نشان نہیں۔ یورپ کے تقریباً سبھی ممالک میں اپنی اپنی زبانیں بولی، پڑھی لکھی اور سکھائی جاتی ہیں۔ دنیا میں محض 5 ممالک کی مکمل زبان انگریزی ہے لیکن ہمارے ہاں معاملہ الگ ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ انگریز کے غلاموں کی حکومت ہے اس لئے انہیں وہی نظر آتا ہے کہ جس رنگ کی انہیں انگریز عینک لگا دیتے ہیں۔ ان کے کہنے پر اسلامیات کا معمولی سا حصہ بھی مزید انتہائی کم کیا جاتا ہے۔ مطالعہ پاکستان کو کانٹ چھانٹ کر ایسا بنایا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کی قربانیوں کا تذکرہ بھی نہ رہ جائے اور اس کا حصہ بھی انتہائی قلیل ہے۔ بنیادی طور پر یہ سب کچھ صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق شہید کا کارنامہ ہے جو آج تک ہمارے کاٹھے انگریزوں کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے ان کے بس کی بات ہو تو یہ ہمیں مکمل ان جیسا بنا دیں۔ شہباز شریف نے سارا نظام انگلش میڈیم کیا، نصاب سے اسلامیات اور مطالعہ پاکستان نکالے گئے۔ ہر طرف مکمل خاموشی دیکھنے کو ملی۔ اب جماعۃ الدعوۃ نے ایک بڑی کانفرنس منعقد کر کے بے شمار سازشوں کے پول کھول کر حقائق آشکار کر دیئے ہیں۔ اب یہ سلسلہ آگے بڑھنا چاہئے۔ جس طرح ختم نبوت کی تحریک چلی۔ ناموس رسالت اور حرمت رسولﷺ کی تحریک چلی۔ اب دفاع پاکستان کی تحریک انتہائی کامیابی سے چل رہی ہے۔ اسی طرز پر اس تحریک کو بھی کامیابی سے چلانے اور کامیابی کے مراحل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور آگے بڑھ کر ملک و ملت کے دفاع کے لئے قربانی پیش کرنا ہو گی۔
جماعت الدعوۃ جیسی تنظیم کے تحت ایسی کسی بھی کوشش پر جو بظاہر کتنی ہی اخلاص پر مبنی نظر آتی ہو یقین نہیں کیا جا سکتا۔
 
Top