ایم اسلم اوڈ
محفلین
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے، اس کے قیام میں جو دو بنیادی عوامل کار فرما تھے، وہ تھے دین اسلام اور اردو زبان۔ ظاہر ہے اس نئے اور نو آزاد ملک کا نظام تعلیم انہی دونوں بنیادوں پر استوار ہونا تھا۔ اسی لئے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد بارہا علانیہ کہا تھا کہ ملکی نظام قرآن مجید اور اسلام کے اصولوں پر مبنی ہو گا۔ علاوہ ازیں قائداعظم شعوری طور پر جانتے تھے کہ اس نظریاتی ملک میں ایک قومی زبان کا نفاذ ضروری ہے اور یہ کھلی حقیقت ہے کہ کوئی زبان اس وقت تک قومی اور سرکاری زبان نہیں بن سکتی جب تک وہ ذریعہ تعلیم نہ ہو۔ اسی لئے جب ملک کے مشرقی بازو میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کی آوازیں اٹھیں تو قائداعظم نے خرابی صحت کے باوجود ڈکوٹا طیارے میں طویل سفر کر کے ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ ’’پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہو گی‘‘۔ اس کے مطابق اردو کو جلد از جلد تعلیمی و سرکاری زبان بن جانا چاہئے تھے مگر عملاً ایسا نہ ہو سکا۔ مذکورہ اعلان کے چھ ماہ بعد قائداعظم وفات پا گئے جبکہ ان کے جانشین کمزور نظریاتی سوچ کے مالک تھے اور ملکی بیورو کریسی یعنی سول و فوجی افسر شاہی تو سراسر لارڈ میکالے کی معنوی اولاد تھی جس نے 1838ء میں وزیر ہند کی حیثیت سے انگریزی کو برطانوی ہند کی تعلیمی و دفتری زبان بنانے کا بل یہ کہہ کر پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا کہ ’’ہمیں اس وقت پوری پوری کوشش کرنی چاہئے کہ (ہندوستان میں) لوگوں کا ایک ایسا طبقہ وجود میں لایا جائے جو خون اور رنگ میں ہندوستانی ہو، مگر ذوق، آرائ، اخلاق اور فکر میں انگریز ہو‘‘۔
ملکی بیورو کریسی کی ذہنی تشکیل تمام ترلارڈ میکالے کی اسکیم کے تحت ہوئی تھی۔ قائداعظم کے بعد جلد ہی یہ افسر شاہی ملکی معاملات پر حاوی ہو گئی۔ ملک غلام محمد (تیسرے گورنر جنرل)، سکندر مرزا (پہلے صدر مملکت)، جنرل ایوب خان (پہلے پاکستانی مسلم آرمی چیف)، سید فدا حسین (چیف سیکرٹری)، ایم ایم احمد (قادیانی چیئرمین پلاننگ کمیشن)، قربان علی خاں آئی جی پولیس، محمد منیر (چیف جسٹس)، عزیز احمد (سیکرٹری دفاع)، محمد شعیب (ایوبی دور کے وزیر خزانہ)، زیڈ اے بخاری (ڈی جی ریڈیو پاکستان اور پہلے ڈائریکٹر جنرل پی ٹی وی)، جنرل یحییٰ خان (دوسرے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر) سب عرف عام میں ’’گورے انگریز‘‘ تھے جو پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرتے رہے۔ افسر شاہی نے سازش کے تحت آئین 1956ء اور 1962ء میں دو قومی زبانیں اردو اور بنگالی تو تسلیم کیں مگر عملاً انگریزی کو تعلیمی و دفتری زبان بنائے رکھا۔ ملکی سطح پر ایک قومی زبان بطور ذریعہ تعلیم و دفتری زبان نہ ہونے کے باعث وطن عزیز کے مشرقی اور مغربی بازوئوں میں جو ایک دوسرے سے ایک ہزار میل دور تھے، ہم آہنگی اور یک جہتی پیدا نہ ہو سکی اور اہل بنگال ذہنی طور پر مغربی پاکستان سے دور ہوتے چلے گئے جبکہ وہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی فوجی و سول افسر شاہی اور اس کے ہمنوا سیاستدان زیڈ اے بھٹو سے بہت بدگمان اور نالاں تھے، اس کا نتیجہ دسمبر 1971ء میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کی صورت میں نکلا۔
بنگلہ دیش کے آزاد ملک بنتے ہی وہاں بنگالی زبان کو تعلیمی و دفتری زبان بنا لیا گیا مگر بقیہ پاکستان میں بدستور انگریزی کا سکہ چلتا رہا۔ اگرچہ آئین 1973ء میں اردو کو بطور قومی زبان تسلیم کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ پندرہ سال کے اندر اندر اسے دفتری و سرکاری زبان بنا لیا جائے گا مگر بدنیتی سے اس پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آنے دی گئی۔ افسر شاہی نے عہد ایوبی (1958-69ئ) میں اردو کی ہیئت بدلنے کے لئے سازش کی تھی کہ اس کا عربی فارسی رسم الخط بدل کر لاطینی کر دیا جائے مگر اس وقت مولانا صلاح الدین احمد (وفات 1964ئ) اور ڈاکٹر سید عبداللہ جیسی ہستیاں موجود تھیں جن کی شدید مخالفت کے باعث لاطینی رسم الخط کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ یہ ترکی زبان کے لاطینی رسم الخط کا شاخسانہ ہے کہ ترک وزیر خارجہ کا اسلامی نام ترجمے میں ’’اہمت داووت اوگلو‘‘ بن جاتا ہے، حالانکہ ان کا نام ’’احمد دائود اوگلو‘‘ ہے۔ غنیمت ہے اردو اس کا یا پلٹ سے محفوظ رہی۔
اردو کے خلاف اپنے فرنگی آقائوں کے ایماء پر افسر شاہی کی سازشیں جاری رہیں۔ صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1979ء کی تعلیمی پالیسی ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر وحید قریشی اور ڈاکٹر پریشان خٹک جیسے محبان اردو کی مشاورت سے وضع کی گئی تھی جس میں یہ طے پایا تھا کہ 1989ء کے بعد ملک میں دسویں جماعت کا امتحان انگریزی میں نہیں ہو گا بلکہ تمام پرچے اردو یا علاقائی زبان میں تیار ہوں گے۔ یہ ایک بہت بڑا انقلابی فیصلہ تھا جو آئین 1973ء کے تقاضے کے عین مطابق تھا۔ اس کی پیروی میں انگلش میڈیم مشنری سکولوں نے بھی اپنے ہاں اردو میڈیم کی کلاسیں جاری کردیں لیکن گورے انگریز کہاں نچلے بیٹھنے والے تھے۔ بعض انگلش میڈیم ادارے اس پالیسی کو ناکام بنانے کی کوشش میں رہے۔ ان میں طلبہ کو ایک درخواست تھما کر کہا جاتا کہ وہ اس پر اپنے والدین یا سرپرست سے دستخط کروا کر لائیں کہ ان کے بچوں کو اردو کے بجائے انگلش میڈیم میں تعلیم دی جائے۔ اگرچہ وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر محمد افضل، وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق، وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق اور خود صدر مملکت یقین دلاتے رہے کہ حکومت اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے عہد پر کاربند ہے، مگر پھر غیر ملکی سفارتوں اور مشنری اداروں کا انگلش میڈیم جاری رکھنے کے لئے دبائو اس قدر بڑھا کہ 1984ء میں وفاقی حکومت نے ایک ترمیمی حکم جاری کر دیا کہ جو ادارے غیر ملکی امتحانات کی تیاری کراتے ہیں وہ انگلش میڈیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس ایک آرڈر نے پوری تعلیمی پالیسی الٹا دی۔ اینگلو سیکسن مغرب کی آلہ کار افسر شاہی کی مراد بر آئی۔ اس کے بعد پورے ملک میں انگلش میڈیم اسکول کھمبیوں کی طرح اگ آئے۔
آئین پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 251 (1) کے مطابق 14اگست 1988ء تک حکومت پاکستان کا فرض تھا کہ وہ انگریزی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان بنا دیتی لیکن یہ کام اردو ذریعہ تعلیم کے نفاذ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس لئے سازشیوں نے قومی زبان کا نفاذ روکنے کے لئے انگلش میڈیم جاری رکھنے کا فیصلہ کروا لیا۔ دسمبر 1988ء میں بے نظیر حکومت برسر اقتدار آئی اور اس انگلش میڈیم بی بی نے مئی 1989ء میں پہلی جماعت سے انگریزی بطور لازمی مضمون پڑھانے کی منظوری دے دی۔ سندھ میں اس پر فوری عمل شروع ہو گیا تاہم پنجاب میں منظور وٹو اور پی پی پی کی مخلوط حکومت (1993-95ئ) نے پرائمری اسکولوں میں انگریزی کو لازمی مضمون قرار دیا۔ دریں اثناء اکتوبر 1989ء میں چودھری احمد خاں علیگ سابق ڈپٹی اکائونٹنٹ جنرل پنجاب نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی کہ اردو کو سرکاری، دفتری، عدالتی، ذریعہ تعلیم، امتحانات مقابلہ میں ذریعہ اظہار و ذریعہ گفتگو اور سرکاری گزٹ کی زبان بنا کر نفاذ اردو کی تکمیل کی جائے۔ اگرچہ اس دوران میں آئین کے آرٹیکل 251 کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی تھی مگر انگلش میڈیم عدالت عظمی نے خاصی تاخیر کے بعد 22 مئی 1990ء کو درخواست کا فیصلہ تو سنا دیا مگر ساتھ ہی فیصلہ نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ اردو پر اس عدالتی کرفیو کی مثال دنیا میں بھلا اور کہاں ملے گی!
اب حکومت پنجاب نے 2009ء سے تین مرحلوں میں صوبے کے تمام سرکاری اسکول جبراً انگلش میڈیم بنا دیے ہیں۔ اس سے پہلے صوبے کے مختلف اضلاع میں انگلش میڈیم دانش اسکول کھولنے کا آغاز کیا گیا، حالانکہ دنیا میں کسی قوم نے غیر زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر ترقی نہیں کی۔ یہ پاکستان کی نئی نسلوں کو اردو اور اسلام سے کاٹ ڈالنے کی صلیبی و صہیونی سازش ہے جس پرعمل درآمد میں ’’خادم پنجاب‘‘ میاں شہباز شریف آلۂ کار ثابت ہوئے ہیں۔ یہ اردو یا پنجابی بولنے والے بچوں پر ظلم عظیم ہے۔ در حقیقت عربی کے بعد اسلامی تعلیمات کا سب سے بڑا ذخیرہ اردو میں ہے لہٰذا اس خطے میں اردو اسلام دشمنوں کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ محکمہ تعلیم پنجاب میں ایک برطانوی گورا خطیر مشاہرے پر لابٹھایا گیا ہے اور وہ انگریزی کی عملداری مستحکم کرنے کے اس پروگرام کی نگرانی کر رہا ہے۔ ادھر صوبہ سرحد میں جرمنی سے درآمدہ اردو نصابی کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں، جبکہ سندھ حکومت نے سکولوں میں چینی زبان پڑھانے کا افلاطونی حکم جاری کردیا ہے۔ صدر ضیاء الحق کے دور سے مڈل سکولوں میں عربی لازمی اور تمام تعلیمی اداروں میں اسلامیات لازمی اور مطالعہ پاکستان لازمی کے مضامین متعارف کرائے گئے تھے لیکن مشرف زرداری حکومت نے اسلامیات سے جہاد کی آیات خارج کرنے اور عربی اور مطالعہ پاکستان کی لازمی حیثیت ختم کرنے کے قوم دشمن اقدامات کئے ہیں۔ اگرچہ محتسب پنجاب خالد محمود صاحب نے پرائمری و مڈل لیول کے 50 ہزار طلبہ دستخطوں سے دائر کردہ ایک درخواست پر محکمہ تعلیم پنجاب کو حکم دیا ہے کہ وہ بچوں کا اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے کا حق بحال کریں مگر جب تک حکومت پرائمری سکولوں کو انگلش میڈیم بنانے کا حکم واپس نہیں لیتی، تمام دینی و سیاسی جماعتوں اور محب وطن تنظیموں پر لازم ہے کہ وہ اغیار کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے متحد ہو کر دبائو بڑھائیں تاکہ حکومت قومی مفادات کے صریحاً خلاف اپنے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام،،، علی اوڈراجپوت
ali oadrajput
ملکی بیورو کریسی کی ذہنی تشکیل تمام ترلارڈ میکالے کی اسکیم کے تحت ہوئی تھی۔ قائداعظم کے بعد جلد ہی یہ افسر شاہی ملکی معاملات پر حاوی ہو گئی۔ ملک غلام محمد (تیسرے گورنر جنرل)، سکندر مرزا (پہلے صدر مملکت)، جنرل ایوب خان (پہلے پاکستانی مسلم آرمی چیف)، سید فدا حسین (چیف سیکرٹری)، ایم ایم احمد (قادیانی چیئرمین پلاننگ کمیشن)، قربان علی خاں آئی جی پولیس، محمد منیر (چیف جسٹس)، عزیز احمد (سیکرٹری دفاع)، محمد شعیب (ایوبی دور کے وزیر خزانہ)، زیڈ اے بخاری (ڈی جی ریڈیو پاکستان اور پہلے ڈائریکٹر جنرل پی ٹی وی)، جنرل یحییٰ خان (دوسرے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر) سب عرف عام میں ’’گورے انگریز‘‘ تھے جو پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کرتے رہے۔ افسر شاہی نے سازش کے تحت آئین 1956ء اور 1962ء میں دو قومی زبانیں اردو اور بنگالی تو تسلیم کیں مگر عملاً انگریزی کو تعلیمی و دفتری زبان بنائے رکھا۔ ملکی سطح پر ایک قومی زبان بطور ذریعہ تعلیم و دفتری زبان نہ ہونے کے باعث وطن عزیز کے مشرقی اور مغربی بازوئوں میں جو ایک دوسرے سے ایک ہزار میل دور تھے، ہم آہنگی اور یک جہتی پیدا نہ ہو سکی اور اہل بنگال ذہنی طور پر مغربی پاکستان سے دور ہوتے چلے گئے جبکہ وہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی فوجی و سول افسر شاہی اور اس کے ہمنوا سیاستدان زیڈ اے بھٹو سے بہت بدگمان اور نالاں تھے، اس کا نتیجہ دسمبر 1971ء میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کی صورت میں نکلا۔
بنگلہ دیش کے آزاد ملک بنتے ہی وہاں بنگالی زبان کو تعلیمی و دفتری زبان بنا لیا گیا مگر بقیہ پاکستان میں بدستور انگریزی کا سکہ چلتا رہا۔ اگرچہ آئین 1973ء میں اردو کو بطور قومی زبان تسلیم کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ پندرہ سال کے اندر اندر اسے دفتری و سرکاری زبان بنا لیا جائے گا مگر بدنیتی سے اس پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آنے دی گئی۔ افسر شاہی نے عہد ایوبی (1958-69ئ) میں اردو کی ہیئت بدلنے کے لئے سازش کی تھی کہ اس کا عربی فارسی رسم الخط بدل کر لاطینی کر دیا جائے مگر اس وقت مولانا صلاح الدین احمد (وفات 1964ئ) اور ڈاکٹر سید عبداللہ جیسی ہستیاں موجود تھیں جن کی شدید مخالفت کے باعث لاطینی رسم الخط کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ یہ ترکی زبان کے لاطینی رسم الخط کا شاخسانہ ہے کہ ترک وزیر خارجہ کا اسلامی نام ترجمے میں ’’اہمت داووت اوگلو‘‘ بن جاتا ہے، حالانکہ ان کا نام ’’احمد دائود اوگلو‘‘ ہے۔ غنیمت ہے اردو اس کا یا پلٹ سے محفوظ رہی۔
اردو کے خلاف اپنے فرنگی آقائوں کے ایماء پر افسر شاہی کی سازشیں جاری رہیں۔ صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1979ء کی تعلیمی پالیسی ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر وحید قریشی اور ڈاکٹر پریشان خٹک جیسے محبان اردو کی مشاورت سے وضع کی گئی تھی جس میں یہ طے پایا تھا کہ 1989ء کے بعد ملک میں دسویں جماعت کا امتحان انگریزی میں نہیں ہو گا بلکہ تمام پرچے اردو یا علاقائی زبان میں تیار ہوں گے۔ یہ ایک بہت بڑا انقلابی فیصلہ تھا جو آئین 1973ء کے تقاضے کے عین مطابق تھا۔ اس کی پیروی میں انگلش میڈیم مشنری سکولوں نے بھی اپنے ہاں اردو میڈیم کی کلاسیں جاری کردیں لیکن گورے انگریز کہاں نچلے بیٹھنے والے تھے۔ بعض انگلش میڈیم ادارے اس پالیسی کو ناکام بنانے کی کوشش میں رہے۔ ان میں طلبہ کو ایک درخواست تھما کر کہا جاتا کہ وہ اس پر اپنے والدین یا سرپرست سے دستخط کروا کر لائیں کہ ان کے بچوں کو اردو کے بجائے انگلش میڈیم میں تعلیم دی جائے۔ اگرچہ وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر محمد افضل، وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق، وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق اور خود صدر مملکت یقین دلاتے رہے کہ حکومت اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے عہد پر کاربند ہے، مگر پھر غیر ملکی سفارتوں اور مشنری اداروں کا انگلش میڈیم جاری رکھنے کے لئے دبائو اس قدر بڑھا کہ 1984ء میں وفاقی حکومت نے ایک ترمیمی حکم جاری کر دیا کہ جو ادارے غیر ملکی امتحانات کی تیاری کراتے ہیں وہ انگلش میڈیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس ایک آرڈر نے پوری تعلیمی پالیسی الٹا دی۔ اینگلو سیکسن مغرب کی آلہ کار افسر شاہی کی مراد بر آئی۔ اس کے بعد پورے ملک میں انگلش میڈیم اسکول کھمبیوں کی طرح اگ آئے۔
آئین پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 251 (1) کے مطابق 14اگست 1988ء تک حکومت پاکستان کا فرض تھا کہ وہ انگریزی کی جگہ اردو کو سرکاری زبان بنا دیتی لیکن یہ کام اردو ذریعہ تعلیم کے نفاذ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس لئے سازشیوں نے قومی زبان کا نفاذ روکنے کے لئے انگلش میڈیم جاری رکھنے کا فیصلہ کروا لیا۔ دسمبر 1988ء میں بے نظیر حکومت برسر اقتدار آئی اور اس انگلش میڈیم بی بی نے مئی 1989ء میں پہلی جماعت سے انگریزی بطور لازمی مضمون پڑھانے کی منظوری دے دی۔ سندھ میں اس پر فوری عمل شروع ہو گیا تاہم پنجاب میں منظور وٹو اور پی پی پی کی مخلوط حکومت (1993-95ئ) نے پرائمری اسکولوں میں انگریزی کو لازمی مضمون قرار دیا۔ دریں اثناء اکتوبر 1989ء میں چودھری احمد خاں علیگ سابق ڈپٹی اکائونٹنٹ جنرل پنجاب نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی کہ اردو کو سرکاری، دفتری، عدالتی، ذریعہ تعلیم، امتحانات مقابلہ میں ذریعہ اظہار و ذریعہ گفتگو اور سرکاری گزٹ کی زبان بنا کر نفاذ اردو کی تکمیل کی جائے۔ اگرچہ اس دوران میں آئین کے آرٹیکل 251 کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی تھی مگر انگلش میڈیم عدالت عظمی نے خاصی تاخیر کے بعد 22 مئی 1990ء کو درخواست کا فیصلہ تو سنا دیا مگر ساتھ ہی فیصلہ نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ اردو پر اس عدالتی کرفیو کی مثال دنیا میں بھلا اور کہاں ملے گی!
اب حکومت پنجاب نے 2009ء سے تین مرحلوں میں صوبے کے تمام سرکاری اسکول جبراً انگلش میڈیم بنا دیے ہیں۔ اس سے پہلے صوبے کے مختلف اضلاع میں انگلش میڈیم دانش اسکول کھولنے کا آغاز کیا گیا، حالانکہ دنیا میں کسی قوم نے غیر زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر ترقی نہیں کی۔ یہ پاکستان کی نئی نسلوں کو اردو اور اسلام سے کاٹ ڈالنے کی صلیبی و صہیونی سازش ہے جس پرعمل درآمد میں ’’خادم پنجاب‘‘ میاں شہباز شریف آلۂ کار ثابت ہوئے ہیں۔ یہ اردو یا پنجابی بولنے والے بچوں پر ظلم عظیم ہے۔ در حقیقت عربی کے بعد اسلامی تعلیمات کا سب سے بڑا ذخیرہ اردو میں ہے لہٰذا اس خطے میں اردو اسلام دشمنوں کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ محکمہ تعلیم پنجاب میں ایک برطانوی گورا خطیر مشاہرے پر لابٹھایا گیا ہے اور وہ انگریزی کی عملداری مستحکم کرنے کے اس پروگرام کی نگرانی کر رہا ہے۔ ادھر صوبہ سرحد میں جرمنی سے درآمدہ اردو نصابی کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں، جبکہ سندھ حکومت نے سکولوں میں چینی زبان پڑھانے کا افلاطونی حکم جاری کردیا ہے۔ صدر ضیاء الحق کے دور سے مڈل سکولوں میں عربی لازمی اور تمام تعلیمی اداروں میں اسلامیات لازمی اور مطالعہ پاکستان لازمی کے مضامین متعارف کرائے گئے تھے لیکن مشرف زرداری حکومت نے اسلامیات سے جہاد کی آیات خارج کرنے اور عربی اور مطالعہ پاکستان کی لازمی حیثیت ختم کرنے کے قوم دشمن اقدامات کئے ہیں۔ اگرچہ محتسب پنجاب خالد محمود صاحب نے پرائمری و مڈل لیول کے 50 ہزار طلبہ دستخطوں سے دائر کردہ ایک درخواست پر محکمہ تعلیم پنجاب کو حکم دیا ہے کہ وہ بچوں کا اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے کا حق بحال کریں مگر جب تک حکومت پرائمری سکولوں کو انگلش میڈیم بنانے کا حکم واپس نہیں لیتی، تمام دینی و سیاسی جماعتوں اور محب وطن تنظیموں پر لازم ہے کہ وہ اغیار کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے متحد ہو کر دبائو بڑھائیں تاکہ حکومت قومی مفادات کے صریحاً خلاف اپنے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام،،، علی اوڈراجپوت
ali oadrajput