مہوش علی
لائبریرین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے مانا کہ تغافل تو نہ کرو گے لیکن۔
لیکن میری قوم نے پھر بہت دیر کر دی اپنی یہ خاموشی توڑتے توڑتے۔ یہ خاموش اکثریت کی وہ خاموشی تھی جس کی وجہ سے آج حالات یہاں تک پہنچے کہ تیس لاکھ افراد خود اپنے ملک میں بے گھر ہیں۔ اور اسکا واحد [بلکہ واحد نہیں، سب سے بڑا] ملزم میڈیا میں موجود یہ رائیٹ ونگ حضرات ہیں جو طالبان کے ہر جرم کے بعد قوم کو اسلام اور بیرونی سازشیوں کی لوری سنا کر تھپتھپا کر سلاتے رہے۔
اس رائیٹ ونگ میڈیا کے بعد دوسرا بڑا دشمن ہمارے سیاستدان ہیں جن میں اتنی ہمت نہ تھی کہ آگے آ کر طالبان کی فتنے کو فتنہ کہتے، اس پر احتجاج کرتے۔ انہیں اپنی شہرت اور اپنی سیاست پیاری ہے کہ جس سیاست کو چمکانے میں فتنوں سے ہاتھ ملایا جاتا ہے، ان کا صفایا نہیں کیا جاتا۔
”بے گناہوں کو مارنے والے مسلمان ہیں‘ نہ انسان۔ وطن کی خاطر جان دینے والے قوم کے محسن اور شہید ہیں۔ شدت پسندی سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا اور ہم جگ ہنسائی کا نمونہ بن رہے ہیں۔“ یہ میرے کسی کالم کا اقتباس نہیں۔ ملک کے مقبول عوامی لیڈر نوازشریف کے الفاظ ہیں‘ جو انہوں نے لاہور کے دھماکے میں شہید ہونے والے پولیس اہلکار غلام مصطفی کی رہائش کے سامنے ورثاء میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب میں ادا کئے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ میں نے یہ خبر اس اخبار میں پڑھی‘ جو نوازشریف کا حامی بلکہ ترجمان تصور کیا جاتا ہے۔ سرخی میں نوازشریف‘ وطن کی خاطر جان دینے والوں کو قوم کے محسن اور شہید قرار دیتے ہیں۔ لیکن خبرنگار نے متن میں حسب روایت انہیں ”جاں بحق“ ہی لکھا۔ درحقیقت میڈیا کا بڑا حصہ‘ دہشت گردوں سے اس قدر خائف ہے کہ وہ وطن کی خاطر لڑنے والوں کو شہید لکھتے ہوئے یا بولتے ہوئے بھی ڈرتا ہے اور باغیوں کی ہلاکت کو ہلاکت قرار دینے کا بھی اسے حوصلہ نہیں پڑتا۔ جان بچانے کے لئے دونوں طرف کے جانی نقصان کے لئے ایک ہی ترکیب رکھ دی گئی ہے‘ جو ملک کی حاکمیت اور قانون کے خلاف بغاوت کے جرم میں‘ موت کے منہ میں جائے‘ وہ بھی جاں بحق اور جو وطن پر اپنی جان نچھاور کرے‘ وہ بھی جاں بحق۔ یہ رائے عامہ کو گمراہ کرنے کا ایسا طریقہ ہے جو پیشہ ورانہ تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ دنیا میں شاید ہی کسی ملک کا میڈیا‘ اپنے وطن کی خاطر جان دینے والوں کو شہید لکھنے سے کتراتا ہو۔ اس پر اظہار افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
خودکشی کی مسلسل وارداتوں‘ معصوم شہریوں کی جائیدادوں کی تباہی‘ سکولوں اور ہسپتالوں کی عمارتیں بموں سے اڑانے کی وارداتوں‘ شہریوں کے سامنے نافرمانی کرنے والوں کو کوڑے لگانے کے کرتبوں‘ گردنیں کاٹنے کے بہیمانہ مظاہروں‘ زندہ انسانوں کو چوراہوں میں پھانسیاں لگانے کے دہشت ناک جرائم اور اغوا برائے تاوان کی غیرانسانی حرکات کے نتیجے میں‘ نام نہاد طالبان کا وہ بھرم تیزی سے ٹوٹ رہا ہے‘ جو انہوں نے بعض سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے اسلام کے نام پر قائم کر رکھا تھا۔ مسلمان اسلام سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ طالبان چونکہ اسلام کے نعرے لگاتے اور شرعی قوانین کی بات کرتے ہیں اور اپنے ہر جرم پر بھی اسلام کا لیبل لگاتے ہیں۔ اس لئے سادہ لوح مسلمانوں کی اکثریت یہی سمجھتی تھی کہ وہ نفاذ اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جبکہ ان کے خلاف کارروائی کرنے والے امریکہ کے اتحادی ہیں۔ مگر ان کے مسلسل مظالم اور انسان دشمن کارروائیوں کو دیکھ کر عوام کی رائے تیزی سے بدلنے لگی ہے۔ پاکستان کا کوئی شہر ایسا نہیں‘ جہاں ان کے مظالم سے متاثر ہونے والے موجود نہ ہوں۔ رہی سہی کسر سوات کے متاثرین نے نکال دی ہے۔ وہ کم و بیش پاکستان کے ہر شہر میں پھیل گئے ہیں۔ کہیں کم‘ کہیں زیادہ۔ اور جو کہانیاں وہ اور ان کے بچے بیان کرتے ہیں۔ انہیں سن کر طالبان سے ہمدردی رکھنے والے بھی کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کرتے ہیں۔ جو کوئی بھی ان متاثرین کی باتیں سنتا ہے۔ اس کا خون کھولنے لگتا ہے اور دل انسانیت کے دشمنوں کے خلاف نفرت سے بھر جاتا ہے۔
طالبان سے ہمدردیاں رکھنے اور ان کے حق میں ملک بھر کے اندر مہم چلانے والے عمران خان کی سابق اہلیہ گزشتہ روز پاکستان آئیں۔ عمران خان کے گھر میں ہی قیام کیا۔ وہ خاندان کی مہمان تھیں۔ ان کے بچے پاکستانی ہیں۔ گویا ان کا دل پاکستان میں ہے۔ وہ انتہائی دردمند خاتون ہیں۔ سوات کے متاثرین کی مدد کر رہی ہیں۔ ان کے حالات دیکھنے کے لئے انہوں نے متاثرین کے کیمپوں کے دورے بھی کئے۔ اپنے مشاہدات میں انہوں نے ایک جگہ لکھا ”کیمپ میں موجود ایک استاد (ٹیچر) نے بتایا کہ یہاں کا ہر بچہ بھرے مجمعے میں انسانی گردنیں کٹنے کا مشاہدہ کر چکا ہے۔ آٹھ سالہ بچی آمنہ نے پردے کے پیچھے کھڑی ہو کر آہستہ سے اپنے استاد کو بتایا کہ اس کے چچا کا پیٹ چیر کر کس طرح ان کی انتڑیوں اور اوجڑی کو طالبان نے باہر کھینچا۔ ایک اور لڑکی نے بتایا کہ اس کی والدہ کو صرف اس لئے گولی مار دی گئی کہ اس نے نقاب نہیں پہنا تھا اور ایک اور خاتون کو اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ کرفیو کے دوران گھر سے باہر نکلی۔ سات سال کی بسما نے بتایا کہ اس نے اپنے خاندان کے تمام چھوٹے بڑے مردوں کو خونی چوک میں پھانسی چڑھتے ہوئے دیکھا۔“ یہ بچی بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ صرف اشاروں میں بات کرتی ہے اور اس کی درد بھری کہانی وہ لوگ بیان کرتے ہیں‘ جو اس کی حقیقت جانتے ہیں۔ یہ متاثرین ابھی تک طالبان کے خوف کے زیراثر ہیں۔ کیونکہ یہاں پر میڈیا اور طالبان کے ہمدرد ان خبروں کو دباتے ہیں‘ جن میں طالبان کی پسپائی اور فوج کی کامیابیوں کا ذکر ہوتا ہے۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد کس طرح سے اپنے زیرکنٹرول علاقوں میں عوام کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ طالبان کی ہمدردی میں‘ ان کی پسپائی اور فوج کی کامیابی کو نمایاں نہ کرنے والے‘ ظالموں کو کس قدر طاقت پہنچا رہے ہیں؟ اس کا اندازہ متاثرین کے کیمپوں میں طاری خوف سے کیا جا سکتا ہے اور سوچا جا سکتا ہے کہ جو لوگ ابھی تک متاثرہ علاقوں میں بیٹھے ہیں‘ وہ خوف کی کس کیفیت میں ہوں گے؟ ان کی بھاری اکثریت ابھی تک یہ سوچ رہی ہو گی کہ نہ جانے کب فوج واپس چلی جائے اور طالبان پھر سے آ کر انہیں انتقام کا نشانہ بنائیں۔ پاک فوج سے ہمدردی کرنے والے کو‘ طالبان جاسوس قرار دے کر بھرے مجمعے میں ان کی گردن کاٹتے ہیں تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔ آپ نے اس ڈرائیور کی خبر پڑھی ہو گی۔ جس نے ایک پولیس والے کو ٹھنڈا پانی پلا دیا تھا۔ طالبان نے اس جرم میں اسے پیڑ سے باندھ کر کوڑے لگائے۔ وہ مشکل سے فرار ہو کر اسلام آباد پہنچا۔ میں نے یہ کالم نوازشریف کے الفاظ سے اس لئے شروع کیا کہ وہ لوگ جو اسلام کی وجہ سے طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں‘ جان لیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ نوازشریف کی اسلام سے محبت پر کسی کو شک نہیں ہو سکتا اور جب تک انہیں یقین کامل نہیں ہو گیا کہ نام نہاد طالبان ”مسلمان ہیں نہ انسان“ وہ ان کے خلاف نہیں بولے۔ عام مسلمانوں کی طرح وہ بھی اسلام کے نام کی وجہ سے طالبان کا لحاظ کرتے رہے۔ لیکن وہ ایک دردمند انسان ہیں۔ نام نہاد طالبان کے مظالم کی تفصیل سن کر ان کا دل بھی پھٹ گیا ہو گا اور کونسا انسان ہے جو اپنے ہی ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کو بموں سے اڑا کر اسلام سے محبت کا دعویٰ کر سکے؟ ایسے لوگ ایک دن بہرطور بے نقاب ہوتے ہیں۔ طالبان کی حقیقت سامنے آنے لگی ہے۔ ان کی بھرپور حمایت کرنے والے بھی‘ اب ان کی وکالت کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور جو لوگ نوازشریف کی ہمدردانہ خاموشی کو طالبان کی حمایت سمجھ کر ‘ان کے حق میں قصیدے لکھتے نہیں تھکتے تھے۔ اب وہ کس طرح رخ بدلیں گے؟ یہ جاننا مشکل نہیں۔ وہ اسی طرح بدلیں گے‘ جیسے ان کے کئی ساتھی پہلے ہی بدل چکے ہیں۔ میں تو انہیں پڑھ کر ہمیشہ یہ جان لیتا ہوں کہ آبپارہ میں ہوا کا رخ کدھر کو ہے؟ آخر میں تمام اہل وطن سے گزارش کروں گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کو متحد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جو دہشت گرد ہمیں قتل کر رہے ہیں۔ ہمارے اثاثے برباد کر رہے ہیں۔ ہماری معیشت تباہ کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے دشمن ہیں اور جو جنگ اپنے دشمنوں کے خلاف کی جائے‘ وہ اپنی جنگ ہوتی ہے ۔ کسی اور کی جنگ نہیں۔ اگر اس جنگ میں امریکہ سے مدد ملتی ہے۔ تو حاصل کرنا چاہیے۔ ایران نے بھی جنگ کے دوران اسرائیل سے ہتھیار خریدنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا تھا۔
لیکن میری قوم نے پھر بہت دیر کر دی اپنی یہ خاموشی توڑتے توڑتے۔ یہ خاموش اکثریت کی وہ خاموشی تھی جس کی وجہ سے آج حالات یہاں تک پہنچے کہ تیس لاکھ افراد خود اپنے ملک میں بے گھر ہیں۔ اور اسکا واحد [بلکہ واحد نہیں، سب سے بڑا] ملزم میڈیا میں موجود یہ رائیٹ ونگ حضرات ہیں جو طالبان کے ہر جرم کے بعد قوم کو اسلام اور بیرونی سازشیوں کی لوری سنا کر تھپتھپا کر سلاتے رہے۔
اس رائیٹ ونگ میڈیا کے بعد دوسرا بڑا دشمن ہمارے سیاستدان ہیں جن میں اتنی ہمت نہ تھی کہ آگے آ کر طالبان کی فتنے کو فتنہ کہتے، اس پر احتجاج کرتے۔ انہیں اپنی شہرت اور اپنی سیاست پیاری ہے کہ جس سیاست کو چمکانے میں فتنوں سے ہاتھ ملایا جاتا ہے، ان کا صفایا نہیں کیا جاتا۔
خودکشی کی مسلسل وارداتوں‘ معصوم شہریوں کی جائیدادوں کی تباہی‘ سکولوں اور ہسپتالوں کی عمارتیں بموں سے اڑانے کی وارداتوں‘ شہریوں کے سامنے نافرمانی کرنے والوں کو کوڑے لگانے کے کرتبوں‘ گردنیں کاٹنے کے بہیمانہ مظاہروں‘ زندہ انسانوں کو چوراہوں میں پھانسیاں لگانے کے دہشت ناک جرائم اور اغوا برائے تاوان کی غیرانسانی حرکات کے نتیجے میں‘ نام نہاد طالبان کا وہ بھرم تیزی سے ٹوٹ رہا ہے‘ جو انہوں نے بعض سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے اسلام کے نام پر قائم کر رکھا تھا۔ مسلمان اسلام سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ طالبان چونکہ اسلام کے نعرے لگاتے اور شرعی قوانین کی بات کرتے ہیں اور اپنے ہر جرم پر بھی اسلام کا لیبل لگاتے ہیں۔ اس لئے سادہ لوح مسلمانوں کی اکثریت یہی سمجھتی تھی کہ وہ نفاذ اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جبکہ ان کے خلاف کارروائی کرنے والے امریکہ کے اتحادی ہیں۔ مگر ان کے مسلسل مظالم اور انسان دشمن کارروائیوں کو دیکھ کر عوام کی رائے تیزی سے بدلنے لگی ہے۔ پاکستان کا کوئی شہر ایسا نہیں‘ جہاں ان کے مظالم سے متاثر ہونے والے موجود نہ ہوں۔ رہی سہی کسر سوات کے متاثرین نے نکال دی ہے۔ وہ کم و بیش پاکستان کے ہر شہر میں پھیل گئے ہیں۔ کہیں کم‘ کہیں زیادہ۔ اور جو کہانیاں وہ اور ان کے بچے بیان کرتے ہیں۔ انہیں سن کر طالبان سے ہمدردی رکھنے والے بھی کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کرتے ہیں۔ جو کوئی بھی ان متاثرین کی باتیں سنتا ہے۔ اس کا خون کھولنے لگتا ہے اور دل انسانیت کے دشمنوں کے خلاف نفرت سے بھر جاتا ہے۔
طالبان سے ہمدردیاں رکھنے اور ان کے حق میں ملک بھر کے اندر مہم چلانے والے عمران خان کی سابق اہلیہ گزشتہ روز پاکستان آئیں۔ عمران خان کے گھر میں ہی قیام کیا۔ وہ خاندان کی مہمان تھیں۔ ان کے بچے پاکستانی ہیں۔ گویا ان کا دل پاکستان میں ہے۔ وہ انتہائی دردمند خاتون ہیں۔ سوات کے متاثرین کی مدد کر رہی ہیں۔ ان کے حالات دیکھنے کے لئے انہوں نے متاثرین کے کیمپوں کے دورے بھی کئے۔ اپنے مشاہدات میں انہوں نے ایک جگہ لکھا ”کیمپ میں موجود ایک استاد (ٹیچر) نے بتایا کہ یہاں کا ہر بچہ بھرے مجمعے میں انسانی گردنیں کٹنے کا مشاہدہ کر چکا ہے۔ آٹھ سالہ بچی آمنہ نے پردے کے پیچھے کھڑی ہو کر آہستہ سے اپنے استاد کو بتایا کہ اس کے چچا کا پیٹ چیر کر کس طرح ان کی انتڑیوں اور اوجڑی کو طالبان نے باہر کھینچا۔ ایک اور لڑکی نے بتایا کہ اس کی والدہ کو صرف اس لئے گولی مار دی گئی کہ اس نے نقاب نہیں پہنا تھا اور ایک اور خاتون کو اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ کرفیو کے دوران گھر سے باہر نکلی۔ سات سال کی بسما نے بتایا کہ اس نے اپنے خاندان کے تمام چھوٹے بڑے مردوں کو خونی چوک میں پھانسی چڑھتے ہوئے دیکھا۔“ یہ بچی بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ صرف اشاروں میں بات کرتی ہے اور اس کی درد بھری کہانی وہ لوگ بیان کرتے ہیں‘ جو اس کی حقیقت جانتے ہیں۔ یہ متاثرین ابھی تک طالبان کے خوف کے زیراثر ہیں۔ کیونکہ یہاں پر میڈیا اور طالبان کے ہمدرد ان خبروں کو دباتے ہیں‘ جن میں طالبان کی پسپائی اور فوج کی کامیابیوں کا ذکر ہوتا ہے۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد کس طرح سے اپنے زیرکنٹرول علاقوں میں عوام کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ طالبان کی ہمدردی میں‘ ان کی پسپائی اور فوج کی کامیابی کو نمایاں نہ کرنے والے‘ ظالموں کو کس قدر طاقت پہنچا رہے ہیں؟ اس کا اندازہ متاثرین کے کیمپوں میں طاری خوف سے کیا جا سکتا ہے اور سوچا جا سکتا ہے کہ جو لوگ ابھی تک متاثرہ علاقوں میں بیٹھے ہیں‘ وہ خوف کی کس کیفیت میں ہوں گے؟ ان کی بھاری اکثریت ابھی تک یہ سوچ رہی ہو گی کہ نہ جانے کب فوج واپس چلی جائے اور طالبان پھر سے آ کر انہیں انتقام کا نشانہ بنائیں۔ پاک فوج سے ہمدردی کرنے والے کو‘ طالبان جاسوس قرار دے کر بھرے مجمعے میں ان کی گردن کاٹتے ہیں تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔ آپ نے اس ڈرائیور کی خبر پڑھی ہو گی۔ جس نے ایک پولیس والے کو ٹھنڈا پانی پلا دیا تھا۔ طالبان نے اس جرم میں اسے پیڑ سے باندھ کر کوڑے لگائے۔ وہ مشکل سے فرار ہو کر اسلام آباد پہنچا۔ میں نے یہ کالم نوازشریف کے الفاظ سے اس لئے شروع کیا کہ وہ لوگ جو اسلام کی وجہ سے طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں‘ جان لیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ نوازشریف کی اسلام سے محبت پر کسی کو شک نہیں ہو سکتا اور جب تک انہیں یقین کامل نہیں ہو گیا کہ نام نہاد طالبان ”مسلمان ہیں نہ انسان“ وہ ان کے خلاف نہیں بولے۔ عام مسلمانوں کی طرح وہ بھی اسلام کے نام کی وجہ سے طالبان کا لحاظ کرتے رہے۔ لیکن وہ ایک دردمند انسان ہیں۔ نام نہاد طالبان کے مظالم کی تفصیل سن کر ان کا دل بھی پھٹ گیا ہو گا اور کونسا انسان ہے جو اپنے ہی ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کو بموں سے اڑا کر اسلام سے محبت کا دعویٰ کر سکے؟ ایسے لوگ ایک دن بہرطور بے نقاب ہوتے ہیں۔ طالبان کی حقیقت سامنے آنے لگی ہے۔ ان کی بھرپور حمایت کرنے والے بھی‘ اب ان کی وکالت کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور جو لوگ نوازشریف کی ہمدردانہ خاموشی کو طالبان کی حمایت سمجھ کر ‘ان کے حق میں قصیدے لکھتے نہیں تھکتے تھے۔ اب وہ کس طرح رخ بدلیں گے؟ یہ جاننا مشکل نہیں۔ وہ اسی طرح بدلیں گے‘ جیسے ان کے کئی ساتھی پہلے ہی بدل چکے ہیں۔ میں تو انہیں پڑھ کر ہمیشہ یہ جان لیتا ہوں کہ آبپارہ میں ہوا کا رخ کدھر کو ہے؟ آخر میں تمام اہل وطن سے گزارش کروں گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کو متحد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جو دہشت گرد ہمیں قتل کر رہے ہیں۔ ہمارے اثاثے برباد کر رہے ہیں۔ ہماری معیشت تباہ کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے دشمن ہیں اور جو جنگ اپنے دشمنوں کے خلاف کی جائے‘ وہ اپنی جنگ ہوتی ہے ۔ کسی اور کی جنگ نہیں۔ اگر اس جنگ میں امریکہ سے مدد ملتی ہے۔ تو حاصل کرنا چاہیے۔ ایران نے بھی جنگ کے دوران اسرائیل سے ہتھیار خریدنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا تھا۔