کاشفی
محفلین
غزل
(صمد یار خاں ساغر چشتی نظامی سیمابی - علیگڑھ)
قوم کیوں اِس دَور میں آسودہء منزل نہیں
میں بتا دوں پہلے دل پہلو میں تھا، اب دل نہیں
وہ کرم جس میں ترا لطف ستم شامل نہیں
کیوں گوارا ہو کہ ہم رنگِ مذاقِ دل نہیں
رونقِ محفل اگر کچھ ہے تو پروانوں سے ہے
شمع کا جلنا فروغِ گرمیء محفل نہیں
ناشناسِ نفس کی کیا ابتدا، کیا انتہا
زندگی بے سود ہے، مرنے سے کچھ حاصل نہیں
ہوں بہت مجبور مجھ کو دے نہ الزام فغاں
میرے بس میں جذبہء بے اختیارِ دل نہیں
دیکھنے والے! ذرا اس کے کرم کی شان دیکھ
اُس سے تو غافل ہے لیکن تجھ سےوہ غافل نہیں
ہم نہ کہتے تھے اسیر گلستاں یاد آئے گا
صبر کر صیاد اب رونے سے کچھ حاصل نہیں
ناخدا پہنچے گی ساحل پر نہ کشتی ، کیا کہا؟
ناخدا ہی تو خدائے کشتی و ساحل نہیں
دیکھتا ہوں جس کو آتا ہے نظر قاتل مجھے
کیا خدائی میں کوئی میرے سوا بسمل نہیں؟
تجھ کو کیا معلوم انجامِ شکستِ آرزو
تو خدا رکھے ابھی فطرت شناس دل نہیں
شاکر تقدیر ہوں، کنج قفس میں شاد ہوں
گو قفس کی تیلیوں کا توڑنا مشکل نہیں
خوں چکا، غرقِ تمنا، زار سا، بیمار سا
آپ اس کو کیا بنا لائے ، یہ میرا دل نہیں
تم بلاؤ بھی تو کہنے حالِ دل آتا ہے کون؟
اب نیازِ عشق بزم ناز کے قابل نہیں
تجھ سے کچھ مانگا تو کیا مانگا، ملا تو کیا ملا
جو تجھ ہی کو مانگ لے ایسا کوئی سائل نہیں
ہم تو مل جل کر اگر چاہیں ہلادیں عرش کو
اتحادِ باہمی تو ہے مگر کامل نہیں
حل مشکل کا نہیں احساس اگر اُس کو، نہ ہو
یہ بھی کیا کم ہے کہ وہ ناواقف مشکل نہیں
وہ سوالِ لطف پر پتھر نہ برسائیں تو کیوں
اُن کو پروائے شکستِ کاسہء سائل نہیں
تن دہی نے کام کو کس درجہ آساں کردیا
ہم جسے مشکل سمجھے تھے وہ اب مشکل نہیں
تیرے گھر سے ہے غرض، کعبہ کی پھر تخصیص کیوں
کیا میسر میرے سجدوں کو حریم ِ دل نہیں؟
میں بھی اے ساغر نصیبوں کی طرح چکر میں ہوں
شمع ِمحفل ہی اسیرِ گردشِ محفل نہیں
(صمد یار خاں ساغر چشتی نظامی سیمابی - علیگڑھ)
قوم کیوں اِس دَور میں آسودہء منزل نہیں
میں بتا دوں پہلے دل پہلو میں تھا، اب دل نہیں
وہ کرم جس میں ترا لطف ستم شامل نہیں
کیوں گوارا ہو کہ ہم رنگِ مذاقِ دل نہیں
رونقِ محفل اگر کچھ ہے تو پروانوں سے ہے
شمع کا جلنا فروغِ گرمیء محفل نہیں
ناشناسِ نفس کی کیا ابتدا، کیا انتہا
زندگی بے سود ہے، مرنے سے کچھ حاصل نہیں
ہوں بہت مجبور مجھ کو دے نہ الزام فغاں
میرے بس میں جذبہء بے اختیارِ دل نہیں
دیکھنے والے! ذرا اس کے کرم کی شان دیکھ
اُس سے تو غافل ہے لیکن تجھ سےوہ غافل نہیں
ہم نہ کہتے تھے اسیر گلستاں یاد آئے گا
صبر کر صیاد اب رونے سے کچھ حاصل نہیں
ناخدا پہنچے گی ساحل پر نہ کشتی ، کیا کہا؟
ناخدا ہی تو خدائے کشتی و ساحل نہیں
دیکھتا ہوں جس کو آتا ہے نظر قاتل مجھے
کیا خدائی میں کوئی میرے سوا بسمل نہیں؟
تجھ کو کیا معلوم انجامِ شکستِ آرزو
تو خدا رکھے ابھی فطرت شناس دل نہیں
شاکر تقدیر ہوں، کنج قفس میں شاد ہوں
گو قفس کی تیلیوں کا توڑنا مشکل نہیں
خوں چکا، غرقِ تمنا، زار سا، بیمار سا
آپ اس کو کیا بنا لائے ، یہ میرا دل نہیں
تم بلاؤ بھی تو کہنے حالِ دل آتا ہے کون؟
اب نیازِ عشق بزم ناز کے قابل نہیں
تجھ سے کچھ مانگا تو کیا مانگا، ملا تو کیا ملا
جو تجھ ہی کو مانگ لے ایسا کوئی سائل نہیں
ہم تو مل جل کر اگر چاہیں ہلادیں عرش کو
اتحادِ باہمی تو ہے مگر کامل نہیں
حل مشکل کا نہیں احساس اگر اُس کو، نہ ہو
یہ بھی کیا کم ہے کہ وہ ناواقف مشکل نہیں
وہ سوالِ لطف پر پتھر نہ برسائیں تو کیوں
اُن کو پروائے شکستِ کاسہء سائل نہیں
تن دہی نے کام کو کس درجہ آساں کردیا
ہم جسے مشکل سمجھے تھے وہ اب مشکل نہیں
تیرے گھر سے ہے غرض، کعبہ کی پھر تخصیص کیوں
کیا میسر میرے سجدوں کو حریم ِ دل نہیں؟
میں بھی اے ساغر نصیبوں کی طرح چکر میں ہوں
شمع ِمحفل ہی اسیرِ گردشِ محفل نہیں