طارق شاہ
محفلین
غزل
قِصّے ہیں خموشی میں نِہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غَمِ دِل کے بَیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کُچھ بات، کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپئے جاں اور طرح کے
اے را ہروِ راہِ وفا ! دیکھ کے چلنا
اِس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے
کھٹکا ہے جُدائی کا ، نہ ملنے کی تمنّا
دِل کو ہیں مِرے وہم و گُماں اور طرح کے
پر سال تو کلیاں ہی جَھڑی تھیں ،مگر اب کے
گُلشن میں ہیں آثارِ خِزاں اور طرح کے
دُنیا کو نہیں تاب مِرے درد کی یارب !
دے مجھ کو اسالیبِ فُغاں اور طرح کے
ہستی کا بَھرم کھول دِیا ایک نظر نے
اب اپنی نظر میں ہیں جَہاں اور طرح کے
لشکر ہے نہ پرچم ہے، نہ دولت ہے نہ ثروت !
ہیں خاک نشینوں کے نِشاں اور طرح کے
مرتا نہیں اب کوئی کسی کے لیے ناصؔر
تھے اپنے زمانے کے جواں اور طرح کے
ناصؔر کاظمی
آخری تدوین: