فرخ منظور
لائبریرین
قیامت مجھ پہ سب اس کا ترحم اور تظلم تھا
کبھی تھیں گالیاں منھ پر کبھی لب پر تبسم تھا
یہ سب اپنے خیالِ خام تھے تم تھے پرے سب سے
جو کچھ سمجھے تھے ہم تم کو یہ سب اپنا توہّم تھا
اب اُلٹے ہم ہی اِس کے حکم میں رہنے لگے ناصح
وہ دفتر ہی گیا جو اپنا اِس دل پر تحکم تھا
تمھیں بھی یاد آتے ہیں کبھی وے دن کہ کوئی دن
ہمارے حال پر کیا کیا تفضّل اور ترحّم تھا
شب اُس مطرب پسر کے یاں حسن تھی زور ہی صحبت
اِدھر تو نالۂ دل تھا اُدھر اس کا ترنم تھا
(میر حسنؔ)
کبھی تھیں گالیاں منھ پر کبھی لب پر تبسم تھا
یہ سب اپنے خیالِ خام تھے تم تھے پرے سب سے
جو کچھ سمجھے تھے ہم تم کو یہ سب اپنا توہّم تھا
اب اُلٹے ہم ہی اِس کے حکم میں رہنے لگے ناصح
وہ دفتر ہی گیا جو اپنا اِس دل پر تحکم تھا
تمھیں بھی یاد آتے ہیں کبھی وے دن کہ کوئی دن
ہمارے حال پر کیا کیا تفضّل اور ترحّم تھا
شب اُس مطرب پسر کے یاں حسن تھی زور ہی صحبت
اِدھر تو نالۂ دل تھا اُدھر اس کا ترنم تھا
(میر حسنؔ)