منزلیں حوصلوں سے ملتی ہیں ...صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=157111
گبن سے لے کر ٹائین بی تک تمام ثقہ مورخین متفق ہیں کہ زوال پذیر معاشروں کی سب سے واضح علامتیں سوچ، فکر، قومی اعتماد اور قومی خودی میں زوال ہوتی ہیں اور جب قوموں کی فکر زوال کا شکار ہوتی ہے تو اس کی پہلی علامت یوں ظاہر ہوتی ہے کہ قومیں اپنی فتوحات، اپنے کارناموں اور اپنے مشاہیر کو یا تو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیتی ہیں اور اپنے مخالفوں کی تعریف میں رطب اللسان ہو جاتی ہیں یا پھر اپنے کارناموں اور قومی ہیروز کا قد گھٹانے میں لذت محسوس کرنے لگتی ہیں۔ آپ اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالیں اور یاد کریں کہ تقسیم ہند کے نتیجے کے طور پر قیام پاکستان کو عالمی سطح پر ایک تاریخی معجزہ قرار دیا گیا تھا کیونکہ اس سے قبل عالمی تاریخ میں اس طرح کی مثال موجود نہیں تھی اور قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک عظیم لیڈر قرار دیتے ہوئے ان الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا تھا: ’’عالمی تاریخ میں صرف چند حضرات نے تاریخ کا دھارا بدلا، صرف چند نے دنیا کا نقشہ بدلا، قومی ریاست کے قیام کا کریڈٹ بمشکل ہی کسی کو دیا جا سکتا ہے۔ محمد علی جناح قائد اعظم نے بیک وقت تینوں کارنامے سر انجام دیئے۔ ‘‘ (سٹینلے والپرٹ، جناح آف پاکستان) گویا اس امریکی مورخ کا کہنا ہے کہ عالمی تاریخ میں جناح کے علاوہ اور کوئی مثال نہیں ملتی جہاں کسی لیڈر نے بیک وقت یہ تینوں کارنامے سر انجام دیئے ہوں جبکہ ہم قائد اعظم کا قدوقامت گھٹانے کی مہم میں شریک ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا قائد اعظم قوم کی حمایت کے بغیر یہ تاریخی کرامت یا ’’معجزہ‘‘ سر انجام دے سکتے تھے؟ جواب سادہ سا ہے کہ ہرگز نہیں۔ مطلب یہ کہ قوم نے انہیں تقریباً نصف صدی تک دیکھا، پرکھا، سمجھا اور تب کہیں دوسرے لیڈروں سے تائب ہو کر قائد اعظم کی قیادت پر ’’ایمان‘‘ لائی۔ قائد اعظم نے نصف صدی کی سیاسی زندگی میں ثابت کیا اور پھر قوم اس حقیقت کی قائل ہوئی کہ جناح بصیرت، کردار، انداز سیاست اور ویژن کے حوالے سے تمام مسلمان لیڈروں سے کہیں بڑا لیڈر ہے۔ تب قوم نے قائد اعظم کو نجات دہندہ تسلیم کیا اور اس کی زبان نہ سمجھنے کے باوجود اس کے پیچھے صف آرا ہو گئی۔ قوم کے اندھے اعتماد نے، جسے قائد اعظم نے نصف صدی کی محنت اور کارکردگی سے جیتا تھا، 1945-46 کے انتخابات میں رنگ دکھایا اور مسلم لیگ نے مرکزی قانون ساز اسمبلی کی تمام مسلمان نشستیں جیت لیں۔ ذرا غور کیجئے کہ نیشنلسٹ مسلمان امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں، یہ تھا جوش و خروش اور جذبہ پاکستان کے لئے کیونکہ یہ انتخابات پاکستان کے نعرے پر لڑے گئے تھے۔ دوسرے الفاظ میں یہ تھا مسلمانوں کا اعتماد قائد اعظم کی قیادت اور ذات پر۔ ایثار کا یہ عالم کہ اقلیتی صوبوں کے مسلمان جنہیں علم تھا کہ وہ کبھی بھی ہندو کی غلامی سے آزاد نہیں ہو سکیں گے انہوں نے بھی اپنے بھائیوں کی اکثریت کی آزادی کے لئے قیام پاکستان کے حق میں ووٹ دیئے۔ مسلمانانِ ہند کے اس کارنامے کو تاریخ نے معجزہ قرار دیا لیکن آج 66برس بعد ہمارے دانشور اس معجزے پر تشکیک کا اظہار کر کے اور شرمندگی کا تاثر دے کر نہ صرف اپنے قومی کارنامے کو گہنارہے ہیں، اپنے بزرگوں کے دامن پر سیاہی کے چھینٹے ’’چھڑک‘‘ رہے ہیں بلکہ قائد اعظم کی قیادت اور ویژن پر بھی اپنی کم فہمی اور مایوسی کے تیر برسا رہے ہیں۔ اس کا ایک آسان سا طریقہ ہے کہ وہ لیڈران جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی، قائد اعظم سے دشمنی کرتے رہے اور مسلمانان ہند و پاکستان کے ہاتھوں بری طرح شکست کھا کر کچلے گئے اُن کی مخالفانہ تحریروں اور تقریروں کے حوالے دے کر ان کی عظمت کے گن گائو اور اپنے قائد اور اپنے قومی کارنامے پر شرمندگی کا اظہار کرو۔ نوجوان نسل جس نے نہ ہند ذہنیت کے چرکے کھائے، نہ پاکستان بنتے دیکھا اور نہ ہی قائد اعظم کی عظمت کو جگمگاتے دیکھا اسے نہ صرف پاکستان سے بدظن کر دو بلکہ اپنے عظیم قائد کی بصیرت اور ویژن کے بارے میں بھی مشکوک کر دو جس کی قائدانہ صلاحیتوں اور بصیرت کی گواہی عالمی تاریخ دیتی ہے۔ قائداعظم بھی سیاسی زندگی کے آغاز میں ہندو مسلم اتحاد کے مخلص داعی تھے، آل انڈیا کانگریس کی صف اول میں کھڑے تھے لیکن ہندو ذہنیت کے آشکارہ ہونے کے بعد اور کانگریس کے سیاسی عزائم سمجھ کر وہ کانگریس سے الگ ہوئے اور مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد اور منظم کرنے کے لئے زندگی وقف کر دی۔ کیا آپ کو علم ہے کہ قائد اعظم نے علیحدگی کا فیصلہ کتنے سوچ بچار اور کتنے طویل سفر کے بعد کیا؟ قائد اعظم نے کانگریس اور ہندوئوں کے ساتھ تقریباً پچیس (25) برس گزارنے کے بعد علیحدگی کا فیصلہ کیا جب وہ پوری طرح اس حقیقت کے قائل ہوگئے کہ ہندو اکثریت مسلمانوں کے حقوق کو بہرحال پامال کرے گی اور مسلمانوں سے شودروں سا سلوک کرے گی۔ دیکھ لیجیے ہندوستان کو آزاد ہوئے 66برس گزر گئے، مسلمان ہندوستان کی آبادی کا تقریباً چودہ فیصد ہیں لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کا انڈین سول سروس میں حصہ چار فیصد پولیس سروس میں نمائندگی دو فیصد کے لگ بھگ، فنانس بینکنگ میں ایک فیصد سے تھوڑی سی زیادہ اور تعلیم میں حصہ کسمپرسی کی دردناک داستان ہے۔ آئے دن فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کا قتل معمول کی بات ہے اور ان پر قومی زندگی میں آگے بڑھنے کی راہیں مسدود ہیں۔ ہندوستان کی کتنی ہی فرقہ وارانہ جماعتیں اور سماجی تحریکیں مسلمانوں کے وجود سے نفرت کرتیں اور انہیں مٹا دینا چاہتی ہیں۔ کبھی غور کیجئے کہ آپ کو جو معدودے چند مسلمان اعلیٰ پوزیشنوں پر نظر آئیں گے ان کی اکثریت ہندو کلچر میں رچی بسی ہے اور یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ ہندوستان کی ترقی کے لشکارے دکھا کر ہمارے نوجوانوں کو چکا چوند کرنے والے کبھی اس پر بھی غور کریں کہ ہندوستان کی معاشی، عسکری، سیاسی اور سماجی ترقی میں مسلمانوں کا حصہ کتنا ہے؟ مسلمانوں کی اکثریت آج بھی غربت، بیروزگاری اور جہالت کا شکار ہے۔ جن حضرات کو یہ حسن ظن ہے کہ پاکستان نہ بننے کی صورت میں مسلمان ہندوستان میں چالیس پچاس کروڑ ہوتے اور ہندوستان کی کل آبادی کا تہائی حصہ ہوتے جو تقسیم ہند کے وقت تھے وہ یقین رکھیں کہ پچاس کروڑ مسلمانوں کا بھی وہی حشر ہونا تھا جو آج ہندوستان میں پندرہ سولہ کروڑ مسلمانوں کا ہو رہا ہے۔ وقت ملے تو سیچررپورٹ کا مطالعہ کیجئے جو ہندو ذہنیت اور مسلمان دشمنی کی ہوشربا داستان ہے۔
آپ ذہین فطین اور عالم و فاضل ہی سہی لیکن اپنی بصیرت کا مقابلہ قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں سے نہیں کرسکتے جنہوں نے کئی دہائیوں تک ہندو اور کانگریسی لیڈر شپ کے قریب رہ کر خلوص نیت سے کام کیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کی فلاح، بہتری اور ترقی کا راز علیحدگی میں مضمر ہے۔ قائد اعظم اس کشتی کے واحد مسافر نہیں تھے بلکہ سچ یہ ہے کہ جنگ آزادی 1857کے کچھ برسوں بعد سے لے کر 1947کی آزادی تک تقریباً ہر بڑے مسلمان لیڈر نے کانگریس اور ہندو عزائم کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے بعد علیحدگی کی راہ اپنائی۔ یہ سلسلہ سرسید احمد خان سے لے کر اقبال سے ہوتے ہوئے جناح تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ راز اگر کسی کو سمجھ میں نہیں آیا تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد تھے یا مولانا حسین احمد مدنی تھے جو زندگی بھر ہندوئوں اور کانگریس کی زلف کے اسیر رہے۔ علامہ مشرقی یا مولانا مودودی کا معاملہ یکسر مختلف ہے کیونکہ یہ دونوں حضرات قیام پاکستان کے مخالف نہیں تھے بلکہ مسلم لیگ کے بوجوہ مخالف تھے۔ جماعت اسلامی نے نہ تحریک پاکستان کی مخالفت کی اور نہ حمایت۔ ان کا خیال تھا کہ مسلم لیگ اسلامی ریاست کا خواب دکھا رہی ہے لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ بہرحال میرا سوال صرف اتنا سا ہے کہ تاریخ میں سر سید، اقبال اور جناح کا کیا مقام ہے اور ان کے مقابلے میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کہاں کھڑے ہیں؟ میں جب عالمی سطح کے مورخین کی کتابوں میں جھانکتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مدنی کہیں نظر ہی نہیں آتے جبکہ اقبال و جناح عالمی سطح کے مفکرین و قائدین کی صف اول میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اسی لئے جب ہمارے دانشور ابوالکلام آزاد یا علامہ مشرقی کے وژن کا مقابلہ اقبال و جناح سے کرتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے اور صدمہ بھی۔ ہماری بدقسمتی کہ ہمارے لیڈروں کی نالائقیوں ، نااہلی اور کرپشن کے سبب ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا کہ ہمارے دانشور پاکستان و قائد اعظم مخالف لیڈروں کی تحریروں کے حوالے دے کر قوم کو شرمندہ اور نوجوانوں کو ملک سے بدظن کررہے ہیں جبکہ نوجوان معاشی بدحالی کے سبب پہلے ہی مایوسی کا شکار ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ دن بدل جائیں گے اور ہمیں رات کی تاریکی کے بعد دن کا اجالا دیکھنا نصیب ہو گا۔ حضرت علی ؓ کا یہ قول یاد رکھیں کہ ’’منزلیں حوصلوں سے ملتی ہیں‘‘ اس لئے عرض کرتا ہوں کہ جب حوصلے پست ہوجائیں تو منزلیں بھی پست ہو جاتی ہیں۔
اتنے ناداں بھی نہ تھے حد سے گزرنے والے
ناصحو، پند گرو راہگزر تو دیکھے
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=157111
گبن سے لے کر ٹائین بی تک تمام ثقہ مورخین متفق ہیں کہ زوال پذیر معاشروں کی سب سے واضح علامتیں سوچ، فکر، قومی اعتماد اور قومی خودی میں زوال ہوتی ہیں اور جب قوموں کی فکر زوال کا شکار ہوتی ہے تو اس کی پہلی علامت یوں ظاہر ہوتی ہے کہ قومیں اپنی فتوحات، اپنے کارناموں اور اپنے مشاہیر کو یا تو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیتی ہیں اور اپنے مخالفوں کی تعریف میں رطب اللسان ہو جاتی ہیں یا پھر اپنے کارناموں اور قومی ہیروز کا قد گھٹانے میں لذت محسوس کرنے لگتی ہیں۔ آپ اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالیں اور یاد کریں کہ تقسیم ہند کے نتیجے کے طور پر قیام پاکستان کو عالمی سطح پر ایک تاریخی معجزہ قرار دیا گیا تھا کیونکہ اس سے قبل عالمی تاریخ میں اس طرح کی مثال موجود نہیں تھی اور قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک عظیم لیڈر قرار دیتے ہوئے ان الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا تھا: ’’عالمی تاریخ میں صرف چند حضرات نے تاریخ کا دھارا بدلا، صرف چند نے دنیا کا نقشہ بدلا، قومی ریاست کے قیام کا کریڈٹ بمشکل ہی کسی کو دیا جا سکتا ہے۔ محمد علی جناح قائد اعظم نے بیک وقت تینوں کارنامے سر انجام دیئے۔ ‘‘ (سٹینلے والپرٹ، جناح آف پاکستان) گویا اس امریکی مورخ کا کہنا ہے کہ عالمی تاریخ میں جناح کے علاوہ اور کوئی مثال نہیں ملتی جہاں کسی لیڈر نے بیک وقت یہ تینوں کارنامے سر انجام دیئے ہوں جبکہ ہم قائد اعظم کا قدوقامت گھٹانے کی مہم میں شریک ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا قائد اعظم قوم کی حمایت کے بغیر یہ تاریخی کرامت یا ’’معجزہ‘‘ سر انجام دے سکتے تھے؟ جواب سادہ سا ہے کہ ہرگز نہیں۔ مطلب یہ کہ قوم نے انہیں تقریباً نصف صدی تک دیکھا، پرکھا، سمجھا اور تب کہیں دوسرے لیڈروں سے تائب ہو کر قائد اعظم کی قیادت پر ’’ایمان‘‘ لائی۔ قائد اعظم نے نصف صدی کی سیاسی زندگی میں ثابت کیا اور پھر قوم اس حقیقت کی قائل ہوئی کہ جناح بصیرت، کردار، انداز سیاست اور ویژن کے حوالے سے تمام مسلمان لیڈروں سے کہیں بڑا لیڈر ہے۔ تب قوم نے قائد اعظم کو نجات دہندہ تسلیم کیا اور اس کی زبان نہ سمجھنے کے باوجود اس کے پیچھے صف آرا ہو گئی۔ قوم کے اندھے اعتماد نے، جسے قائد اعظم نے نصف صدی کی محنت اور کارکردگی سے جیتا تھا، 1945-46 کے انتخابات میں رنگ دکھایا اور مسلم لیگ نے مرکزی قانون ساز اسمبلی کی تمام مسلمان نشستیں جیت لیں۔ ذرا غور کیجئے کہ نیشنلسٹ مسلمان امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں، یہ تھا جوش و خروش اور جذبہ پاکستان کے لئے کیونکہ یہ انتخابات پاکستان کے نعرے پر لڑے گئے تھے۔ دوسرے الفاظ میں یہ تھا مسلمانوں کا اعتماد قائد اعظم کی قیادت اور ذات پر۔ ایثار کا یہ عالم کہ اقلیتی صوبوں کے مسلمان جنہیں علم تھا کہ وہ کبھی بھی ہندو کی غلامی سے آزاد نہیں ہو سکیں گے انہوں نے بھی اپنے بھائیوں کی اکثریت کی آزادی کے لئے قیام پاکستان کے حق میں ووٹ دیئے۔ مسلمانانِ ہند کے اس کارنامے کو تاریخ نے معجزہ قرار دیا لیکن آج 66برس بعد ہمارے دانشور اس معجزے پر تشکیک کا اظہار کر کے اور شرمندگی کا تاثر دے کر نہ صرف اپنے قومی کارنامے کو گہنارہے ہیں، اپنے بزرگوں کے دامن پر سیاہی کے چھینٹے ’’چھڑک‘‘ رہے ہیں بلکہ قائد اعظم کی قیادت اور ویژن پر بھی اپنی کم فہمی اور مایوسی کے تیر برسا رہے ہیں۔ اس کا ایک آسان سا طریقہ ہے کہ وہ لیڈران جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی، قائد اعظم سے دشمنی کرتے رہے اور مسلمانان ہند و پاکستان کے ہاتھوں بری طرح شکست کھا کر کچلے گئے اُن کی مخالفانہ تحریروں اور تقریروں کے حوالے دے کر ان کی عظمت کے گن گائو اور اپنے قائد اور اپنے قومی کارنامے پر شرمندگی کا اظہار کرو۔ نوجوان نسل جس نے نہ ہند ذہنیت کے چرکے کھائے، نہ پاکستان بنتے دیکھا اور نہ ہی قائد اعظم کی عظمت کو جگمگاتے دیکھا اسے نہ صرف پاکستان سے بدظن کر دو بلکہ اپنے عظیم قائد کی بصیرت اور ویژن کے بارے میں بھی مشکوک کر دو جس کی قائدانہ صلاحیتوں اور بصیرت کی گواہی عالمی تاریخ دیتی ہے۔ قائداعظم بھی سیاسی زندگی کے آغاز میں ہندو مسلم اتحاد کے مخلص داعی تھے، آل انڈیا کانگریس کی صف اول میں کھڑے تھے لیکن ہندو ذہنیت کے آشکارہ ہونے کے بعد اور کانگریس کے سیاسی عزائم سمجھ کر وہ کانگریس سے الگ ہوئے اور مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد اور منظم کرنے کے لئے زندگی وقف کر دی۔ کیا آپ کو علم ہے کہ قائد اعظم نے علیحدگی کا فیصلہ کتنے سوچ بچار اور کتنے طویل سفر کے بعد کیا؟ قائد اعظم نے کانگریس اور ہندوئوں کے ساتھ تقریباً پچیس (25) برس گزارنے کے بعد علیحدگی کا فیصلہ کیا جب وہ پوری طرح اس حقیقت کے قائل ہوگئے کہ ہندو اکثریت مسلمانوں کے حقوق کو بہرحال پامال کرے گی اور مسلمانوں سے شودروں سا سلوک کرے گی۔ دیکھ لیجیے ہندوستان کو آزاد ہوئے 66برس گزر گئے، مسلمان ہندوستان کی آبادی کا تقریباً چودہ فیصد ہیں لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کا انڈین سول سروس میں حصہ چار فیصد پولیس سروس میں نمائندگی دو فیصد کے لگ بھگ، فنانس بینکنگ میں ایک فیصد سے تھوڑی سی زیادہ اور تعلیم میں حصہ کسمپرسی کی دردناک داستان ہے۔ آئے دن فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کا قتل معمول کی بات ہے اور ان پر قومی زندگی میں آگے بڑھنے کی راہیں مسدود ہیں۔ ہندوستان کی کتنی ہی فرقہ وارانہ جماعتیں اور سماجی تحریکیں مسلمانوں کے وجود سے نفرت کرتیں اور انہیں مٹا دینا چاہتی ہیں۔ کبھی غور کیجئے کہ آپ کو جو معدودے چند مسلمان اعلیٰ پوزیشنوں پر نظر آئیں گے ان کی اکثریت ہندو کلچر میں رچی بسی ہے اور یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ ہندوستان کی ترقی کے لشکارے دکھا کر ہمارے نوجوانوں کو چکا چوند کرنے والے کبھی اس پر بھی غور کریں کہ ہندوستان کی معاشی، عسکری، سیاسی اور سماجی ترقی میں مسلمانوں کا حصہ کتنا ہے؟ مسلمانوں کی اکثریت آج بھی غربت، بیروزگاری اور جہالت کا شکار ہے۔ جن حضرات کو یہ حسن ظن ہے کہ پاکستان نہ بننے کی صورت میں مسلمان ہندوستان میں چالیس پچاس کروڑ ہوتے اور ہندوستان کی کل آبادی کا تہائی حصہ ہوتے جو تقسیم ہند کے وقت تھے وہ یقین رکھیں کہ پچاس کروڑ مسلمانوں کا بھی وہی حشر ہونا تھا جو آج ہندوستان میں پندرہ سولہ کروڑ مسلمانوں کا ہو رہا ہے۔ وقت ملے تو سیچررپورٹ کا مطالعہ کیجئے جو ہندو ذہنیت اور مسلمان دشمنی کی ہوشربا داستان ہے۔
آپ ذہین فطین اور عالم و فاضل ہی سہی لیکن اپنی بصیرت کا مقابلہ قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں سے نہیں کرسکتے جنہوں نے کئی دہائیوں تک ہندو اور کانگریسی لیڈر شپ کے قریب رہ کر خلوص نیت سے کام کیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کی فلاح، بہتری اور ترقی کا راز علیحدگی میں مضمر ہے۔ قائد اعظم اس کشتی کے واحد مسافر نہیں تھے بلکہ سچ یہ ہے کہ جنگ آزادی 1857کے کچھ برسوں بعد سے لے کر 1947کی آزادی تک تقریباً ہر بڑے مسلمان لیڈر نے کانگریس اور ہندو عزائم کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے بعد علیحدگی کی راہ اپنائی۔ یہ سلسلہ سرسید احمد خان سے لے کر اقبال سے ہوتے ہوئے جناح تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ راز اگر کسی کو سمجھ میں نہیں آیا تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد تھے یا مولانا حسین احمد مدنی تھے جو زندگی بھر ہندوئوں اور کانگریس کی زلف کے اسیر رہے۔ علامہ مشرقی یا مولانا مودودی کا معاملہ یکسر مختلف ہے کیونکہ یہ دونوں حضرات قیام پاکستان کے مخالف نہیں تھے بلکہ مسلم لیگ کے بوجوہ مخالف تھے۔ جماعت اسلامی نے نہ تحریک پاکستان کی مخالفت کی اور نہ حمایت۔ ان کا خیال تھا کہ مسلم لیگ اسلامی ریاست کا خواب دکھا رہی ہے لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ بہرحال میرا سوال صرف اتنا سا ہے کہ تاریخ میں سر سید، اقبال اور جناح کا کیا مقام ہے اور ان کے مقابلے میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کہاں کھڑے ہیں؟ میں جب عالمی سطح کے مورخین کی کتابوں میں جھانکتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مدنی کہیں نظر ہی نہیں آتے جبکہ اقبال و جناح عالمی سطح کے مفکرین و قائدین کی صف اول میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اسی لئے جب ہمارے دانشور ابوالکلام آزاد یا علامہ مشرقی کے وژن کا مقابلہ اقبال و جناح سے کرتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے اور صدمہ بھی۔ ہماری بدقسمتی کہ ہمارے لیڈروں کی نالائقیوں ، نااہلی اور کرپشن کے سبب ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا کہ ہمارے دانشور پاکستان و قائد اعظم مخالف لیڈروں کی تحریروں کے حوالے دے کر قوم کو شرمندہ اور نوجوانوں کو ملک سے بدظن کررہے ہیں جبکہ نوجوان معاشی بدحالی کے سبب پہلے ہی مایوسی کا شکار ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ دن بدل جائیں گے اور ہمیں رات کی تاریکی کے بعد دن کا اجالا دیکھنا نصیب ہو گا۔ حضرت علی ؓ کا یہ قول یاد رکھیں کہ ’’منزلیں حوصلوں سے ملتی ہیں‘‘ اس لئے عرض کرتا ہوں کہ جب حوصلے پست ہوجائیں تو منزلیں بھی پست ہو جاتی ہیں۔
اتنے ناداں بھی نہ تھے حد سے گزرنے والے
ناصحو، پند گرو راہگزر تو دیکھے
آخری تدوین: