قیمتی ضمیر

ضیاء حیدری

محفلین
قیمتی ضمیر

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے علاوہ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ پاکستان کے سیاستدان اور ان کا ضمیر ہے۔ ان دو سہاروں کے ذریعہ ہم آج منزل تک پہنچے ہیں اورآئین میں چھبیس ترامیم کے بعد ستائیسویں کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ حکومت نے ایک آئینی مگر غیر نمائندہ ہوتے ہوئے جمہوریت کی خدمت کی ہے۔
الحمدللہ! یہ اسمبلیاں ، یہ سینٹ، یہ جمہوری ادارے ہمارے مستقبل کی امیدہیں، صبح کی نوید ہیں، یہ دور حاضر کی نقیب ہیں۔ ان سے قوم کو بڑی توقعات ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان اداروں کے ممبران قوم کی امید پرپورے اتریں گے اور کبھی بھی اپنے ضمیر کا سستا سودا نہیں کریں گے۔
ہمارے ایک دوست میرزا سقراطی، بڑے سیاست کے شوقین ہیں۔ کہتے ہیں، "بھئی، ضمیر بڑی اہم چیز ہے، ہر سیاستدان کے پاس ہونا چاہیے۔" میں نے کہا، "مرزا، ضمیر تو ہوتا ہی ہے، لیکن جاگتا کب ہے؟" کہنے لگے، "جب اگلی پارٹی کی بولی اونچی لگے، ضمیر اسی وقت انگڑائی لیتا ہے۔"

اب دیکھو، ایک پارٹی کا ممبر دوسری پارٹی میں جانے کو تیار بیٹھا ہے۔ پہلی پارٹی کہتی ہے، "لو، ہمارا لوٹا نکل گیا۔" دوسری پارٹی کہتی ہے، "واہ، ہم نے ایک اور وکٹ گرا لی۔" اور اس بیچ بیچارا ضمیر کہتا ہے، "ارے بھئی، میں تو کبھی سوتا ہی نہیں تھا، بس قیمت کا انتظار کر رہا تھا!"
سیاست میں اب یہی دستور ہے، جس کا ضمیر زیادہ جاگے، وہی زیادہ مالامال ہو۔ پہلے لوگ کچّی نیند میں ہوتے تھے، اب ضمیر ہر رات پلنگ پر جاگ رہا ہوتا ہے۔ ضمیر کا مقام بہت بلند ہے، اتنا بلند کہ سیاستدان اسے دیکھتے ہوئے خود بھی اونچے اونچے محلوں میں جا بسے ہیں۔

اب دیکھو، یہی ہے ہمارا سیاسی سسٹم، ضمیر بھی ساتھ ہے اور قیمت بھی۔ دونوں کا ہاتھ تھام کر چلنا ضروری ہے، ورنہ سیاست میں ناکامی کا سامنا ہے
 
Top