مریم افتخار
محفلین
منظور قید و قتل جو ہو حکم دیجئیے
ہے یہ گنہگار بھی حاضر جواب میں
رات کا پچھلا پہر ہے۔ راہداری میں ایک قدرے مدھم بلب روشن ہے۔ اونگھتے ہوئے دو گارڈز اپنے اپنے سٹُولز پر براجمان ہیں اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے شکن زدہ سفید کُرتا شلوار میں ملبُوس وجُود سجدہ ریز ہے ، اسکی آنکھوں میں وہ اشک ہیں جو کبھی آنکھوں کی باڑ سے رہا نہ ہو پائے اور دل میں وہ رقّت ہے جو کبھی طاری نہ ہو سکی۔ مدھم روشنی اس وجود کے نقوش کو واضح کرنے سے قاصر سہی ، مگر دیکھنے والی آنکھ اسے 35 سال کے لگ بھگ بتائے گی۔ اُٹھی ہوئی ناک ، بال ایک پونی میں بندھے ہُوئے اور بڑھی ہوئی شیو ۔۔۔۔۔۔ اب وہ وجود ہاتھ اُٹھائے مانگ رہا تھا ، اُس دَر سے جہاں سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹایا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ رے میرے دِل کی تڑپ اضطراب میں
گھبرا کے کروٹیں لگے لینے وہ خواب میں
سر تا پا سفید چادر میں لپٹا وجُود صحن کے بِیچوں بِیچ پڑا ہے۔ گھر میں حشر برپا ہے۔ صحن میں عورتوں کا اتنا ہجوم ہے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ آخری دیدار کی خواہاں کسی خاتُون نے لاش کے چہرے سے کپڑا ہٹایا ہے۔ لمبی ناک ، زردی مائل سفید رنگت ، اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں ، چہرے پہ چند ایک مہاسوں کے نشان۔۔۔۔سب کچھ عام سا ہونے کے باعث بھی کچھ تھا اُس میں جو اُسے سینکڑوں کی بھیڑ میں ممتاز کرتا تھا اور وہ تھے اس کے انوکھے تاثرات۔۔۔۔ تمام عمر اس کے انوکھے اور مشفقانہ تاثرات اسکی شناخت رہے اور آج کچھ تھا اس چہرے پر جو کسی آنکھ نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ نعش کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے وہ ابھی بھی شدید مضطرب ہو اور کسی بھی پل اُٹھ بیٹھے گی اور پانی مانگے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے چار بھائی اس کے چہرے پر چادر درُست کرتے ہوئے اس کی چار پائی کے چاوں پایوں کو اُٹھانے کو جُھکے ،تو عورتوں کی دلخراش چیخوں نے آسمان سر پہ اُٹھا لِیا ہے۔ اس کے جنازے میں شرکت کے لئے اتنے لوگ جمع ہیں کہ اس چھوٹے سے گاؤں نے ایسا جنازہ پہلے کبھی نہ دیکھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاصد ہے قول و فعل کا کیا اُن کے اعتبار
پیغام کُچھ لِکھا ہے ، کہا کُچھ جواب میں
وہ جیل کی تنگ کوٹھڑی میں ، جس کی دیواریں سیلن زدہ ہیں، ایک خاکی کوَر والی ڈائری لِیے بیٹھا ہے ، جو اُس نے خاصی تگ و دو کے بعد حاصل کی تھی۔ روشن دان سے سورج کی روشنی چَھن چَھن کر اندر آرہی ہے۔ اس نے ڈائری کھولی تو پہلے ورق پر "بسمل سے پاس ہو نہ سکا اضطراب میں" لِکھا پایا۔ گویا وہ اس ڈائری کا عنوان ہو۔ روشنائی کے نقوش اس بات کی دلیل تھے کہ راقم بہترین لکھائی کا حامل تھا اور ڈائری لکھنے کی اُس کہ عادت نہیں تھی ، مگر کبھی کبھار زیست کے چند گِنے چُنے موقعوں پر اس کا قلم اس کے جذبات کو احاطہ تحریر میں لانے کے لئے دیوانہ ہو جاتا تھا۔ اس نے ڈائری کا پہلا ورق کھولا۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
2 مئی 1997
ہے قصور ، لکھ دیا ہے گِلہ اضطراب میں
دیکھوں کہ کیاوہ لکھتےہیں خط کےجواب میں
گزشتہ چند برس میں بار ہا ایسے لمحات آئے ہیں کہ کبھی روٹی اور پانی سے روزہ افطار ہُوا اور لبھی سالن اتنی کم مقدار میں ہوا کرتا کہ خشک نوالے حلق سے گزرتے نہ تھے اور گھر کے ساتوں افراد اپنے نوالے تَر کر لیں ، ایسا ممکن نہ تھا شاید تین سال ہو گئے ہمیں کوئی نئی چیز خریدے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو کو جاب چھوڑے چند سال ہو گئے ہیں اور امی کے تبادلے کی وجہ سے ہمیں شہر شفٹ ہونا پڑا۔۔۔۔۔ ابو اچھے ہیں بہت اچھے۔۔۔۔بس ان کے فیکٹری مالکان بدل گئے اور ویسے بھی گھر میں جڑواں بچوں کو کون سنبھالے جب امی اور ابو دونوں جاب کریں۔۔۔۔ ابو ہمارا کتنا خیال کرتے ہیں، لیکن ابو امّی کی تنخواہ کہاں خرچ کرتے ہیں؟ اچھی خاصی تنخواہ میں سے آدھی یا بہت کم کیوں نکل پاتی ہے؟ باقی کہاں جاتی ہے؟ موٹر سائیکل چپکے سے بیچ کر کیا کِیا ہو گا ابو نے؟ شاید پھوپھو کی شادی کے قرضے ادا کیے ہوں گے۔۔۔۔ لیکن ہمارا گیس کا میٹر کیوں کٹ گیا ہے؟ اور ہم مکان کا کرایہ ایک سال سے کیوں نہیں دے پائے؟ شکر ہے مالک مکان انکل ہمیں کچھ بھی نہیں کہتے۔۔۔۔۔۔
شاہد ہماری روزی میں برکت نہیں ہے اور وہ جو لوگ کہتے ہیں نا ابو جعلی پیروں اور لاٹریوں کے پیچھے لگ گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنا پیسہ مانگیں ، دیتے ہیں ۔۔۔۔ اپنے سنہرے خوابوں کی تعبیر کیلئے۔۔۔۔ اور میرے ابو نفسیاتی مریض بنتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔۔وہ غلط کہتے ہیں۔۔۔۔میرے ابو تو اتنے اچھے ہیں۔۔۔۔بھلا وہ کوئی غلط کام کر سکتے ہیں؟ میں ان کو دبے لفظوں میں سمجھاتی ہوں نا۔۔۔۔لیکن وہ مجھے چھوٹی سمجھتے ہیں۔۔۔۔ حالانکہ اب میں سکول سے بھی نکلنے والی ہوں۔۔۔۔ پتا نہیں کیوں وہ چھت کو گُھورتے رہتے ہیں، صحن میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔ گھر کے کام کرتے ہیں اور سگریٹ کے کش پہ کش لگاتے جاتے ہیں ۔ پہلے وہ سگریٹ تو نہیں پیتے تھے، پھر اب کیوں؟ شاید اس لئے کیونکہ چاچو نے زمین کے لئےان پہ بندوق تانی ، اس چاچو نے جن کو انہوں نے پالا پوسا تھا اور ان کی شادی کی تھی۔ میں نے اپنے تمام خیالات جھٹکتے ہوئے ابو کو آج بہت لاڈ سے کہا: "ابو! نہ پیا کریں، ورنہ میں بھی پینے لگوں گی"۔ ان کی آواز ایک دم ایسے بڑھی کہ میرا دل اُچھل کر حلق میں آ گیا: ""بیٹی ہو تو بیٹی بن کہ رہو، میرا باپ بننے کی ضرورت نہیں!!!!!!!""
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
11 نومبر 1998
مہماں کے ساتھ کھانے کا ہوتا نہیں حساب
ہم تم کباب کھائیں، ڈبو کر شراب میں
اندر اور باہر ایک وسیع خلا ہے، پاتال میں گرتے ہوئے انسان کو کیا محسوس ہوتا ہوگا ، یہ مجھے آج محسوس ہوا۔ دماغی حالت اس وقت ایسی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دماغ سے کوئی سیال مائع بہہ رہا ہے اور اپنے گرد و نواح کو آلود کر رہا ہے۔ جانے کیوں میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ خوشی کی ایک چھٹانک کے ساتھ غم کے کئی ٹَن بخشیش ملتے ہیں۔ آج کا دن تمام عمر کا یومِ سیاہ ہے اور گزشتہ رات کی کالک میرے ذہن کے ہر گوشے پر کالا برش پھیرتی چلی گئی۔ آج میں نے زندگی میں پہلی بار رو رو کر التجا کی اور گڑگڑا گڑگڑا کر اللہ سے دعائیں مانگیں کہ یا اللہ مجھے بد صورت ترین بنا دے ، مجھے ایسی بنا دے کہ کسی کے ایمان میں خلل آنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو، میرے منہ پر لعنت برسے۔ آج مجھے پہلی بار اپنے آپ سے نفرت محسوس ہوئی۔
رات کی زلفیں بھیگ چکیہ ہیں اور قیدی اپنی بیوی کی ڈائری پڑھتے پڑھتے سو گیا ہے اور کوٹھڑی میں اس کے ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز ہے اور رات گئے چھپکلیوں کے بولنے کی اور سوئے ہوئے وجود کے سینے پہ ادھ کُھلی ڈائری دھری ہے جس میں ایک ایسی ان سُنی کہانی رقم ہے جِسے کسی ادیب نے نہیں گھڑا بلکہ جسے اللہ تبارک و تعالی نے اس کی بیوی کی زیست کے تختہ سیاہ پر لکھا ہے۔
(اگلی قسط ان شا اللہ جلد)
ہے یہ گنہگار بھی حاضر جواب میں
رات کا پچھلا پہر ہے۔ راہداری میں ایک قدرے مدھم بلب روشن ہے۔ اونگھتے ہوئے دو گارڈز اپنے اپنے سٹُولز پر براجمان ہیں اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے شکن زدہ سفید کُرتا شلوار میں ملبُوس وجُود سجدہ ریز ہے ، اسکی آنکھوں میں وہ اشک ہیں جو کبھی آنکھوں کی باڑ سے رہا نہ ہو پائے اور دل میں وہ رقّت ہے جو کبھی طاری نہ ہو سکی۔ مدھم روشنی اس وجود کے نقوش کو واضح کرنے سے قاصر سہی ، مگر دیکھنے والی آنکھ اسے 35 سال کے لگ بھگ بتائے گی۔ اُٹھی ہوئی ناک ، بال ایک پونی میں بندھے ہُوئے اور بڑھی ہوئی شیو ۔۔۔۔۔۔ اب وہ وجود ہاتھ اُٹھائے مانگ رہا تھا ، اُس دَر سے جہاں سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹایا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ رے میرے دِل کی تڑپ اضطراب میں
گھبرا کے کروٹیں لگے لینے وہ خواب میں
سر تا پا سفید چادر میں لپٹا وجُود صحن کے بِیچوں بِیچ پڑا ہے۔ گھر میں حشر برپا ہے۔ صحن میں عورتوں کا اتنا ہجوم ہے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ آخری دیدار کی خواہاں کسی خاتُون نے لاش کے چہرے سے کپڑا ہٹایا ہے۔ لمبی ناک ، زردی مائل سفید رنگت ، اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں ، چہرے پہ چند ایک مہاسوں کے نشان۔۔۔۔سب کچھ عام سا ہونے کے باعث بھی کچھ تھا اُس میں جو اُسے سینکڑوں کی بھیڑ میں ممتاز کرتا تھا اور وہ تھے اس کے انوکھے تاثرات۔۔۔۔ تمام عمر اس کے انوکھے اور مشفقانہ تاثرات اسکی شناخت رہے اور آج کچھ تھا اس چہرے پر جو کسی آنکھ نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ نعش کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے جیسے وہ ابھی بھی شدید مضطرب ہو اور کسی بھی پل اُٹھ بیٹھے گی اور پانی مانگے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے چار بھائی اس کے چہرے پر چادر درُست کرتے ہوئے اس کی چار پائی کے چاوں پایوں کو اُٹھانے کو جُھکے ،تو عورتوں کی دلخراش چیخوں نے آسمان سر پہ اُٹھا لِیا ہے۔ اس کے جنازے میں شرکت کے لئے اتنے لوگ جمع ہیں کہ اس چھوٹے سے گاؤں نے ایسا جنازہ پہلے کبھی نہ دیکھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاصد ہے قول و فعل کا کیا اُن کے اعتبار
پیغام کُچھ لِکھا ہے ، کہا کُچھ جواب میں
وہ جیل کی تنگ کوٹھڑی میں ، جس کی دیواریں سیلن زدہ ہیں، ایک خاکی کوَر والی ڈائری لِیے بیٹھا ہے ، جو اُس نے خاصی تگ و دو کے بعد حاصل کی تھی۔ روشن دان سے سورج کی روشنی چَھن چَھن کر اندر آرہی ہے۔ اس نے ڈائری کھولی تو پہلے ورق پر "بسمل سے پاس ہو نہ سکا اضطراب میں" لِکھا پایا۔ گویا وہ اس ڈائری کا عنوان ہو۔ روشنائی کے نقوش اس بات کی دلیل تھے کہ راقم بہترین لکھائی کا حامل تھا اور ڈائری لکھنے کی اُس کہ عادت نہیں تھی ، مگر کبھی کبھار زیست کے چند گِنے چُنے موقعوں پر اس کا قلم اس کے جذبات کو احاطہ تحریر میں لانے کے لئے دیوانہ ہو جاتا تھا۔ اس نے ڈائری کا پہلا ورق کھولا۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
2 مئی 1997
ہے قصور ، لکھ دیا ہے گِلہ اضطراب میں
دیکھوں کہ کیاوہ لکھتےہیں خط کےجواب میں
گزشتہ چند برس میں بار ہا ایسے لمحات آئے ہیں کہ کبھی روٹی اور پانی سے روزہ افطار ہُوا اور لبھی سالن اتنی کم مقدار میں ہوا کرتا کہ خشک نوالے حلق سے گزرتے نہ تھے اور گھر کے ساتوں افراد اپنے نوالے تَر کر لیں ، ایسا ممکن نہ تھا شاید تین سال ہو گئے ہمیں کوئی نئی چیز خریدے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو کو جاب چھوڑے چند سال ہو گئے ہیں اور امی کے تبادلے کی وجہ سے ہمیں شہر شفٹ ہونا پڑا۔۔۔۔۔ ابو اچھے ہیں بہت اچھے۔۔۔۔بس ان کے فیکٹری مالکان بدل گئے اور ویسے بھی گھر میں جڑواں بچوں کو کون سنبھالے جب امی اور ابو دونوں جاب کریں۔۔۔۔ ابو ہمارا کتنا خیال کرتے ہیں، لیکن ابو امّی کی تنخواہ کہاں خرچ کرتے ہیں؟ اچھی خاصی تنخواہ میں سے آدھی یا بہت کم کیوں نکل پاتی ہے؟ باقی کہاں جاتی ہے؟ موٹر سائیکل چپکے سے بیچ کر کیا کِیا ہو گا ابو نے؟ شاید پھوپھو کی شادی کے قرضے ادا کیے ہوں گے۔۔۔۔ لیکن ہمارا گیس کا میٹر کیوں کٹ گیا ہے؟ اور ہم مکان کا کرایہ ایک سال سے کیوں نہیں دے پائے؟ شکر ہے مالک مکان انکل ہمیں کچھ بھی نہیں کہتے۔۔۔۔۔۔
شاہد ہماری روزی میں برکت نہیں ہے اور وہ جو لوگ کہتے ہیں نا ابو جعلی پیروں اور لاٹریوں کے پیچھے لگ گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنا پیسہ مانگیں ، دیتے ہیں ۔۔۔۔ اپنے سنہرے خوابوں کی تعبیر کیلئے۔۔۔۔ اور میرے ابو نفسیاتی مریض بنتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔۔وہ غلط کہتے ہیں۔۔۔۔میرے ابو تو اتنے اچھے ہیں۔۔۔۔بھلا وہ کوئی غلط کام کر سکتے ہیں؟ میں ان کو دبے لفظوں میں سمجھاتی ہوں نا۔۔۔۔لیکن وہ مجھے چھوٹی سمجھتے ہیں۔۔۔۔ حالانکہ اب میں سکول سے بھی نکلنے والی ہوں۔۔۔۔ پتا نہیں کیوں وہ چھت کو گُھورتے رہتے ہیں، صحن میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔ گھر کے کام کرتے ہیں اور سگریٹ کے کش پہ کش لگاتے جاتے ہیں ۔ پہلے وہ سگریٹ تو نہیں پیتے تھے، پھر اب کیوں؟ شاید اس لئے کیونکہ چاچو نے زمین کے لئےان پہ بندوق تانی ، اس چاچو نے جن کو انہوں نے پالا پوسا تھا اور ان کی شادی کی تھی۔ میں نے اپنے تمام خیالات جھٹکتے ہوئے ابو کو آج بہت لاڈ سے کہا: "ابو! نہ پیا کریں، ورنہ میں بھی پینے لگوں گی"۔ ان کی آواز ایک دم ایسے بڑھی کہ میرا دل اُچھل کر حلق میں آ گیا: ""بیٹی ہو تو بیٹی بن کہ رہو، میرا باپ بننے کی ضرورت نہیں!!!!!!!""
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
11 نومبر 1998
مہماں کے ساتھ کھانے کا ہوتا نہیں حساب
ہم تم کباب کھائیں، ڈبو کر شراب میں
اندر اور باہر ایک وسیع خلا ہے، پاتال میں گرتے ہوئے انسان کو کیا محسوس ہوتا ہوگا ، یہ مجھے آج محسوس ہوا۔ دماغی حالت اس وقت ایسی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دماغ سے کوئی سیال مائع بہہ رہا ہے اور اپنے گرد و نواح کو آلود کر رہا ہے۔ جانے کیوں میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ خوشی کی ایک چھٹانک کے ساتھ غم کے کئی ٹَن بخشیش ملتے ہیں۔ آج کا دن تمام عمر کا یومِ سیاہ ہے اور گزشتہ رات کی کالک میرے ذہن کے ہر گوشے پر کالا برش پھیرتی چلی گئی۔ آج میں نے زندگی میں پہلی بار رو رو کر التجا کی اور گڑگڑا گڑگڑا کر اللہ سے دعائیں مانگیں کہ یا اللہ مجھے بد صورت ترین بنا دے ، مجھے ایسی بنا دے کہ کسی کے ایمان میں خلل آنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو، میرے منہ پر لعنت برسے۔ آج مجھے پہلی بار اپنے آپ سے نفرت محسوس ہوئی۔
رات کی زلفیں بھیگ چکیہ ہیں اور قیدی اپنی بیوی کی ڈائری پڑھتے پڑھتے سو گیا ہے اور کوٹھڑی میں اس کے ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز ہے اور رات گئے چھپکلیوں کے بولنے کی اور سوئے ہوئے وجود کے سینے پہ ادھ کُھلی ڈائری دھری ہے جس میں ایک ایسی ان سُنی کہانی رقم ہے جِسے کسی ادیب نے نہیں گھڑا بلکہ جسے اللہ تبارک و تعالی نے اس کی بیوی کی زیست کے تختہ سیاہ پر لکھا ہے۔
(اگلی قسط ان شا اللہ جلد)
آخری تدوین: