ام اویس
محفلین
اسماء سورة
اس سورة کا مشہور نام “سورة النبا”ہے۔ یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی۔ النباء کے علاوہ اسے “سورة التساول”، “عم”، “ عمّ یتساءلون” اور سورة المعصرات بھی کہتے ہیں۔
روابط
سورة النبا کا ماقبل سورة یعنی سورة المرسلات سے لفظی ربط بھی ہے اور معنوی بھی۔
لفظی ربط تو یہ ہے کہ اس سورة کے الفاظ پچھلی سورة سے ملتے جُلتے ہیں اور معنوی ربط یہ ہے کہ سورة المرسلات میں قیامت کے آنے کا امکان ظاہر کیا گیا اور قیامت کا انکار کرنے والوں کی جزا و سزا کا بیان ہے۔ اب سورة النبا میں بھی انہی مضامین کی تفصیلات بیان کی گئیں ہیں۔
شانِ نزول
الله سبحانہ وتعالی نے انسانوں کو کفر وشرک کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو نبوت عطا فرمائی ۔ جب آپ نے مکہ والوں کو دنیا میں کیے گئے کاموں کی جزاء و سزا کے متعلق بتایا اور قیامت کے آنے کی خبر دی تو انہیں بہت حیرت ہوئی ۔ وہ حیران ہوکر آپس میں ایک دوسرے سے اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم و صحابہ کرام سے قیامت اور حساب کتاب کے متعلق پوچھنے لگے۔ کیونکہ وہ الله پر اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اس لیے ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ ہوگا ؟
اس پر الله تعالی نے سورة النبا نازل فرمائی جس میں قیامت کی حقیقت اور اس کے واقع ہونے کے متعلق تفصیل بیان کی گئی ہے۔ کافروں کے انکار اور ہنسی مذاق کو مختلف طریقوں سے رد کرکے قیامت اور اس میں پیش آنے والے واقعات کو دلائل سے ثابت کیا گیا ہے۔
عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ (1)
یہ (کافر) لوگ کس چیز کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں ؟
————-
سورة کی ابتدا ایک سوال کی شکل میں ہے۔ سوال کسی چیز کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ کیونکہ الله سبحانہ تعالی سے کائنات کی کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں اس لیے قرآن مجید میں کسی چیز کی عظمت ، اہمیت یا ہولناکی کو بیان کرنا ہو تو الله تعالی کی طرف سے سوال کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی سوال کا مقصد قیامت کی ہولناکی بیان کرنا ہے۔
جب نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے کفار و مشرکینِ مکہ کو قیامت کے متعلق آیات سنائیں تو وہ اپنی محفلوں میں بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگے، ہر جگہ ، چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے ، آپس میں یہی گفتگو کرتے ، کوئی اسے سچ کہتا اور کوئی اس کا انکار کرتا ، کوئی مذاق کرتا اور مختلف اندازے لگاتا ۔ چنانچہ اس سورة کی پہلی آیت میں ان کا یہ حال بیان کیا گیا ہے۔
سوال : سوال کرنے والے کون تھے اور کس سے سوال کرتے تھے؟
جواب : اس میں مفسرین کے تین قول ہیں ۔
اس سے مراد کافر و مشرکین ہیں جو حیران ہو کر ایک دوسرے سے سوال کرتے تھے۔۔
کفار مکہ اور مشرکین مسلمانوں سے سوال کرتے تھے کہ تمہارے نبی یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟
سوال کرنے والوں سے کافر اور مسلمان دونوں مراد ہیں ۔ دونوں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے۔ مسلمان تو اس لیے پوچھتے تھے کہ ان کا ایمان مضبوط ہو اور کافر انکار کرنے اور مذاق اڑانے کے لیے سوال کرتے تھے۔
پہلا قول راجح ہے۔
عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ .(2)
اس زبردست واقعے کے بارے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی کفار ایک بہت بڑی خبر کے بارے میں سوال کر رہے ہیں ۔ ان کے دل کفر کے اندھیروں سے سیاہ ہو چکے ہیں۔ اگران میں ایمان کی روشنی موجود ہوتی تو اس خبر کی عظمت ان کے دلوں پر ایسا اثر کرتی کہ وہ بغیر کسی سوال و جواب کے اسے مان لیتے۔
سوال : نبا عظیم سے کیا مراد ہے؟
جواب : اس میں تین قول ہیں ۔
قیامت مراد ہے ۔
سیعلمون سے دھمکی دینے کا انداز ظاہر ہو رہا ہے کہ جب قیامت آئے گی وہ اسے دیکھ کر یقین کر لیں گے۔
اگلی آیات میں قدرت کاملہ کے دلائل دئیے گئے ہیں، جن سے الله تعالی کا قیامت برپا کرنے پر قادر ہونا ثابت ہوتا ہے۔
کیونکہ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر العظیم کا لفظ قیامت کے لیے آیا ہے۔
2۔قرآن مجید مراد ہے۔
کیونکہ قرآن مجید بھی ایک بڑی خبر ہے اور وہ قرآن مجید کے متعلق بھی سوال کرتے رہتے تھے کہ یہ قرآن جادو، یا شاعری یا پہلوں کے قصے کہانیاں ہے۔
.3 نبوت مراد ہے۔
کیونکہ نبوت بھی عظیم الشان چیز ہے جس نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور پرانے رسم و رواج ختم کر دئیے۔ حکومتیں مٹا دیں اور نئے قوانین جاری کردئیے۔
الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْ۔تَلِفُوْنَ (3)
جس میں خود ان کی باتیں مختلف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور قیامت کے واقع ہونے کے متعلق ہر فرقے کا مختلف عقیدہ تھا۔
عرب کے اکثر لوگ قیامت کے دن کو نہیں مانتے تھے اور حیران ہو کر کہتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو دوبارہ کیسے زندہ ہوں گے۔
اسی طرح نصارٰی کے خیال میں جسم مٹ جائیں گے صرف روحیں لوٹائی جائیں گی ۔ اب بھی اکثر کا یہی عقیدہ ہے ۔
یہودیوں کے بعض فرقے بھی قیامت کے سخت منکر تھے ۔ بعض کہتے تھے دوبارہ جسم کے ساتھ زندہ ہونا ناممک ہے۔ مر کر انسان کی روح جنوں یا فرشتوں میں مل جاتی ہے اور اسی کا نام قیامت ہے۔
غرض مر کر زندہ ہونے کے معاملے میں سب کی رائے ایک دوسرے سے مختلف تھی۔
كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ (4)
خبردار ! انہیں بہت جلد پتہ لگ جائے گا۔
ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ (5)
دوبارہ خبردار ! انہیں بہت جلد پتہ لگ جائے گا۔
———-
کلا جہاں بھی آئے اس سے دو معنی مراد ہوتے ہیں۔
- پچھلی بات کو رد کرنے یعنی انکار کے لیے
- اگلی بات کو ثابت کرنے کے لیے یعنی بمعنی حقاً اور یقیناً
اور اگر معنی “حقا” ہو یعنی “ یقینا “ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کا واقع ہونا حق اور یقینی بات ہے۔ عنقریب کفار اس سچ کو جان لیں گے۔ جب قیامت واقع ہوجائے گی اور قیامت کی ہولناکیاں اور واقعات ان کے سامنے آئیں گے اس وقت ان کو اس بڑی خبر کی حقیقت سمجھ آ جائے گی۔
سوال : یہاں کلا سیعلمون اور ثم کلا سیعلمون ۔ کا تکرار کیوں ہے؟
جواب: یہ تکرار تاکید اورمضمون کی صداقت ثابت کرنے کے لیے ہے۔
- پہلے ”کلا سیعلمون“ کا مقصد ہے کفار پر جب موت آئے گی اس وقت جان لیں گے۔ یعنی اس کا تعلق مرنے سے ہے۔
- دوسرے سیعلمون کا مقصد یہ ہے کہ کفار جب مرنے کے بعد زندہ ہوں گے اس وقت اپنا انجام جان لیں گے۔ یعنی اس کا تعلق قیامت سے ہے۔
- یا اس سے مراد کافر اور مؤمن دونوں ہیں کہ کافر اپنے انکار کا اور مؤمن اپنی تصدیق اور ایمان کا حال جان لیں گے اور سزا و جزا پائیں گے۔
پچھلی آیات میں کفار مکہ کے سوال و جواب کا ذکر تھا۔ موت کے بعد زندہ ہونے اور انکارِ قیامت کا بیان تھا۔ اب اگلی آیات میں الله جل شانہ نے اپنی عظیم الشان نشانیوں کا ذکر فرمایا اور نو دلائل سے اپنی قدرت کے عجیب و غریب مناظر پیش کیے۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ الله سبحانہ و تعالی کے لیے قطعا مشکل نہیں کہ وہ اس سارے عالم کو فنا کرکے دوبارہ پیدا کر دیں۔ اس کے علاوہ الله تعالی نے انعامات کا ذکر فرما کر توجہ دلائی ہے کہ ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو اور اس کی توحید کا اقرار کرو۔
الله جل جلالہ کی حکمت و صنعت کے نو مناظر:
۱- اَ لَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًا (6)
کیا ہم نے زمین کو ایک بچھونا نہیں بنایا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
المھاد کا مطلب ہے ہموار اور درست کی ہوئی زمین۔ الله تعالی فرماتے ہیں: کہ ہم نے زمین کو تمہارے چلنے پھرنے ، اٹھنے ، بیٹھنے اور لیٹنے کے لیے بالکل مناسب اور درست بنایا ہے۔ جہاں چاہو بیٹھ جاؤ۔ جہاں چاہو لیٹ جاؤ۔ اگر زمین ہوا کی طرح ہلکی یا پانی کی طرح نرم یا آگ کی طرح گرم ہوتی تو تم اس پر کس طرح چل پھر سکتے؟
یہ الله تعالی کی عظیم نعمت ہے جس میں کافر و مسلمان سب برابر کے شریک ہیں۔ اس نعمت کا تقاضا ہے کہ تم اس کا شکر ادا کرو اس کی توحید کا اقرار کرو۔ جس ذات نے اتنی بڑی زمین کو قدموں کے نیچے ہموار اور درست بچھونے کی صورت میں بچھا دیا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ زندہ کرنا بالکل مشکل نہیں۔
۲-۔ وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا (7)
اور پہاڑوں کو (زمین میں گڑی ہوئی) میخیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب الله سبحانہ وتعالی نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہلنے اور ڈگمگانے لگی۔ الله تعالی نے اس پر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دئیے گویا زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں جس سے وہ ساکن ہوگئی۔ یہ بھی الله تعالی کی نعمت ہے اور جو ذات اتنے بڑے بڑے پہاڑ پیدا کر سکتی ہے وہ انسان کو دوبارا پیدا کرنے پر بھی قادر ہے ۔
۳-۔ وَّخَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا( 8 )
اور تمہیں (مرد و عورت کے) جوڑوں کی شکل میں ہم نے پید ا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الله تعالی کا فرمان ہے کہ ہم نے زمین کو پیدا کرکے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس پر تمہیں جوڑا جوڑا بنا کر پیدا کیا تاکہ نسل انسانی بڑھ سکے۔ یہ بھی الله تعالی کی قدرت کا بیان ہے کہ ایک انسانی جوڑے سے کروڑوں، اربوں جوڑے پیدا کیے اور ہر ایک کی شکل دوسرے سے مختلف ہے ۔ جو الله ایک بار بنا سکتا ہے اس کے لیے دوبارہ زندہ کرنا بھی مشکل نہیں ۔
۴-۔ وَّجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (9)
اور تمہاری نیند کو تھکن دور کرنے کا ذریعہ ہم نے بنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔
سُبات سبت سے مشتق ہے جس کا مطلب موندنے یا کاٹ دینے کے ہیں، نیند کو اللہ تعالی نے ایسی راحت بنایا ہے کہ وہ انسان کے تمام غم ، رنج، فکر اور خیالات کو کاٹ کر اس کے دل و دماغ کو ایسی راحت دیتی ہے کہ دنیا کی کوئی نعمت اس کا بدل نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے سبات کا ترجمہ راحت بھی کیا جاتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو نیند الله تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو بادشاہ ، فقیر ، امیر و غریب سب کو مفت حاصل ہے بلکہ امیروں کی بجائے غریبوں کو یہ نعمت زیادہ میسر ہے۔ انسان کے اعضاء کاروبارِ زندگی میں مصروف رہنے سے تھک جاتے ہیں۔ اس تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے الله تعالی نے نیند کی نعمت عطا فرمائی جس سے انسان دوبارہ تروتازہ ہوجاتا ہے۔ مزید غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیند زبردستی طاری کی جاتی ہے ۔ اگر کوئی شخص رات کو مسلسل کام کرنا بھی چاہے تو رحمت باری تعالی اس پر زبردستی نیند مسلط کر دیتی ہے اور انسان نیند کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔ نیند کی یہ نعمت کافر ہو یا مسلمان سب کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ نیند موت سے مشابہ ہے گویا الله تعالی انسان کو اس عارضی موت سے زندہ کر دیتا ہے تو مرنے کے بعد زندہ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔
۵-۔ وَّجَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاسًا (10)
اور رات کو پردے کا سبب ہم نے بنایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے نیند کو تمہاری راحت و آرام کا سبب بنایا، نیند کے لیے جن چیزوں کی ضرورت تھی یعنی اندھیرا اور خاموشی اس کا ماحول تیار کر دیا چنانچہ رات کی تاریکی تمہیں لباس کی طرح ہر طرف سے ڈھانپ لیتی ہے اور سب ایک ہی وقت میں تھک کر سو جاتے ہیں۔
۶- وَّجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا (11)
اور دن کو روزی حاصل کرنے کا وقت ہم نے قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔
الله تعالی فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہاری راحت کو مکمل کرنے کے لیے صرف رات اور اس کی تاریکی ہی نہیں بنائی بلکہ ایک روشن دن بھی دیا جس میں تم کاروبار کرکے اپنی معاشی ضروریات اور سامانِ زندگی حاصل کر سکو۔
۷-۔ وَّبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا(12)
اور ہم نے ہی تمہارے اوپر سات مضبوط وجود (آسمان) تعمیر کیے۔
۔۔۔۔
اس کے بعد انسان کی اس راحت کا ذکر ہے جو آسمان سے متعلق ہے، الله تعالی فرماتے ہیں ہم نے تمہارے لیے سات مضبوط آسمان بنا دئیے۔ آسمان کی یہ چھت الله تعالی کی عظیم الشان نعمت ہے جو بغیر کسی ستون کے مدت سے قائم ہے۔ لاکھوں کروڑوں سال گزرنے کے باوجود نہ تو پرانی ہوئی ، نہ اس میں کہیں کوئی سوراخ ہوا ۔
سوال : آسمان سقف یعنی چھت ہے اس کے لیے بنینا کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا؟
جواب : اگرچہ آسمان چھت ہے لیکن مضبوطی میں بنیاد کی طرح پائیدار ہے اسی لیے اسے بنیاد سے تشبیہ دی گئی ہے۔
۸- وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا (13)
اور ہم نے ہی ایک دہکتا ہوا چراغ (سورج) پیدا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آیت میں الله تعالی اپنی نعمت و قدرت کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے لیے جگمگاتا ہوا سورج بنا دیا تاکہ تم اس کی روشنی میں اپنی ضروریات کا انتظام کر سکو۔ اگر سورج نہ ہوتا تو اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ۔ پھر سورج میں روشنی کے ساتھ گرمی بھی موجود ہے۔ سورج کی روشنی اور حرارت زندگی کی علامت ہے۔ یہ الله تعالی کی قدرت کی نشانی ہے کہ تمام انسانوں کو خواہ وہ کافر ہوں یا مسلمان ہزاروں میل کی دوری سے دن کو سورج روشنی اور حرارت دیتا ہے اور رات کو چاند روشنی مہیا کرتا ہے۔
۹-۔ وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْ۔۔صِرٰتِ مَاۗءً ثَجَّاجًا (14)
اور ہم نے ہی بھرے ہوئے بادلوں سے موسلا دھار پانی برسایا۔
لِّنُخْرِجَ بِهٖ حَبًّا وَّنَبَاتًا (15)
تاکہ اس سے غلہ اور دوسری سبزیاں بھی اگائیں۔
وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا (16)
اور گھنے باغات بھی۔
۔۔۔۔
پھر آسمان کے نیچے جو چیزیں انسان کی راحت کے لیے پیدا فرمائیں ان میں سب سے اہم چیز پانی برسانے والے بادل ہیں۔ الله تعالی اپنی قدرت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے لیے رزق کا انتظام اس طرح کیا کہ بادلوں سے بارش برسائی ۔ اس بارش سے غلہ اگایا جو تمہارے کھانے کے لیے ہے، پھر گھاس اور جڑی بوٹیاں پیدا کیں جو تمہارے جانوروں کی خوراک ہے اور گھنے باغات پیدا کیے جن کے پھل تم کھاتے ہو ۔ یہ الله تعالی کا تم پر بہت بڑا انعام ہے ۔ دیکھو اس کی قدرت کتنی زبردست ہے کہ بارش عجیب طریقے سے نازل کی ، کبھی مسلسل چھوٹی چھوٹی بوندیں ، کبھی موسلا دھار بڑے بڑے قطرے۔ پھر اس ایک ہی پانی سے مختلف رنگ اور ذائقے کی چیزیں پیدا کیں۔ ایسی قدرت والی ذات تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔
سوال : یہاں الله تعالی نے فرمایا ہم نے بادلوں سے پانی نازل کیا دوسری آیت میں ہے و انزلنا من السماء ماء ہم نے آسمان سے پانی نازل کیا ۔ بظاہر دونوں آیات میں تضاد ہے؟
جواب : کوئی تضاد نہیں ۔ سماء اوپر والی فضا کو کہتے ہیں ۔ بادل کو بھی سماء کہا گیا ہے بارش بادل سے ہی نازل ہوتی ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں ممکن ہے کبھی آسمان سے بارش نازل ہوتی ہو کبھی بادل سے ۔ انکار کی کوئی وجہ نہیں۔
ایک خاص بات ؛ الله تعالی نے پہلے حبا کو بیان کیا پھر نباتا کو اور اس کے بعد جنات الفافا کو ۔ اس ترتیب کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ غلے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ ہر شخص کو اس کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اس کو پہلے ذکر کیا۔ دوسرے نمبر پر نباتات یعنی جانوروں کی خوراک ضروری ہے اور پھل کو ذائقے کی وجہ سے کھایا جاتا بطورِ غذا نہیں اگرچہ اس میں بھی غذائیت ہوتی ہے ۔
ربط آیات ۔ 17 تا30
گذشتہ آیات میں نو دلائل سے الله تعالی کی قدرت کو ثابت کیا گیا ۔ معلوم ہوا کہ الله تعالی کے لیے مُردوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور میدانِ حشر میں حساب کتاب کے لیے جمع کرنا بالکل بھی مشکل نہیں۔ چنانچہ قیامت کے دن تم سب ضرور اس کے سامنے حاضر کیے جاؤ گے۔
اب اگلی آیات میں قیامت کے حالات بیان کیے جا رہے ہیں۔
اِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيْقَاتًا (17)
یقین جانو فیصلے کا دن ایک متعین وقت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کافر سوال کرتے تھے کہ اگر قیامت کا آنا یقینی ہے تو پھر تاخیر کیوں ہورہی ہے، ابھی کیوں نہیں آتی ۔ الله تعالی نے فرمایا قیامت ضرور آئے گی۔ کب آئے گی اس کا علم صرف الله تعالی کو ہے ۔ قیامت کا ایک وقت مقرر ہے جس میں نہ تقدیم ہو سکتی ہے نہ تاخیر اس لیے تمہارے کہنے سے ابھی نہیں آئے گی۔
قیامت واقع ہونے کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں ۔
- روح کا جسموں سے تعلق ختم ہوجائے ۔
- دنیا کا کارخانہ درہم برہم ہوجائے۔ اس فانی گھر کی چھت ، فرش اور سامان رزق جس سے تمام مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے ختم کر دئیے جائیں۔
- تمام روحیں اس جہان سے فائدہ اٹھا لیں ۔
يَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا ( 18 )
وہ دن جب صور پھونکا جائے گا تو تم سب فوج در فوج چلے آؤ گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آیت میں دوسری بارصور پھونکنے کا حال بیان کیا جا رہا ہے۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام پہلی بار صور پھونکیں گے تو تمام عالم فنا ہوجائے گا دوسری بار صور پھونکیں گے تو لوگ زندہ ہوجائیں گے اور گروہوں کی شکل میں الله کے سامنے حاضر ہوں گے۔
حضرت ابوذر غفاری رضی الله عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (اردو مفہوم) جب لوگ قبروں سے نکل کر دربارِ خداوندی میں جائیں گے تو ان کے تین گروہ ہوں گے۔
- بعض پیٹ بھرے، اچھے لباس پہنے سواریوں پر سوار ہوکر جائیں گے۔
- بعض پیدل چل کر جائیں گے۔
- بعض منہ کے بل گھسیٹ کر لائے جائیں گے۔
وَّفُتِحَتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا (19)
اور آسمان کھول دیا جائے گا تو اس کے دروازے ہی دروازے بن جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آیة میں پہلی بار صور پھونکنے کا ذکر ہے۔ جب اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو آسمان کھول دیا جائے گا اور اس میں دروازے ہی دروازے بن جائیں گے۔
ابوابا کے متعلق دو قول ہیں۔
- صور پھونکنے سے آسمان میں دراڑیں پڑ جائیں گی۔ جس طرح کسی مضبوط چھت کے گرنے سے پڑجاتی ہیں۔ ان دراڑوں کو ابواب کہا گیا ہے۔
- جب صور پھونکا جائے گا تو آسمان میں بہت سے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ ان دروازوں سے فرشتوں کے گروہ نکلیں گے جو زمین کی ہر چیز کو فنا کر دیں گے۔
اور پہاڑوں کو چلایا جائے گا تو وہ ریت کے سراب کی شکل اختیار کرلیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سراب کے لفظی معنی ذھاب یعنی چلے جانے کے ہیں، صحرا کی وہ ریت جو دور سے چمکتا ہوا پانی نظر آتا ہے اسے سراب اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ قریب جاتے ہی وہ نظر سے غائب ہو جاتا ہے۔ جب صور پھونکا جائے گا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر ریت کے ذرات کی طرح اڑتے پھریں گے۔ اور زمین ایک سیدھا صاف میدان بن جائے گی جس پر نہ کوئی درخت ہوگا ، نہ کوئی پہاڑ ۔ پہاڑوں کو پہلے ریزہ ریزہ کیا جائے گا، پھر روئی کی طرح نرم کر دیا جائے گا، پھر ان ذرات کو ہوا میں غبار کی طرح اُڑا دیا جائے گا، یعنی پہاڑ بالکل مٹ جائیں گے اور ان کی جگہ سراب جیسی ہو جائے گی۔