سیدہ شگفتہ
لائبریرین
لا حاصلی کا حاصل
شاعر: اختر ہوشیار پُوری
مگر کیوں لوٹ آتے ہیں
جہاں دن بھر سُلگتی جلتی تپتی دُھوپ میں ہنس ہنس کے رہتے ہیں
فضا کے راز سینے میں چُھپائے گُنگناتے ہیں
بہت تانیں اُڑاتے ہیں
وہاں شب کو بھی بسرام کرلیں
دو گھڑی مِنقارِ زیرِ پُر رہیں
آرام کر لیں
دھندلکے آخر اتنے جان لیوا تو نہیں ہوتے
اندھیرے منتقم کب ہیں
کہ دن کے سارے ہنگاموں کا شب کی سرد تنہائی سے بدلہ لیں
پرندوں کو تو اُڑنا ہے
درختوں کی گھنی شاخوں سے لے کر مقبروں کے اونچے گُنبد تک
انہیں اپنے پروں کو آزمانا ہے
اُجالے ہوں کہ تاریکی
انہیں تو چہچہانا ہے
دلوں کو گُدگُدانا ہے
ہوا سے باتیں کرنی ہیں
ہوا کے گیت گانا ہیں
پھر اِس کے بعد اُدھر اُس پار جب کوئی نہ ہو ان کو
کسی چلمن کے پہلو سے لپٹ کر شب کو سونا ہے
اندھیرے سے اُجالے کا خراجِ زیست لینا ہے
اور اپنی ناؤ کو خود اپنے آپ کھینا ہے
نہ جینا ہے نہ مرنا ہے
یُونہی جان سے گزرنا ہے
۔