فاطمہ شیخ
محفلین
ہوا کے گھوڑے پر سواروہ آگے بڑھتی جا رہی تھی۔تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے وہ آگے بڑھتی جا رہی تھی۔راستےمیں کبھی دشوار گزارجنگل آئے،تو کبھی اس کا سامنا تپتے صحراوؑں سے ہوا۔کبھی دیو قامت ہیبت ناک پہاڑ اس کے مقابل تھے۔تو کبھی اس نے آگ کے سمندر کو اپنا منتظر پایا۔لیکن وہ ہر سختی کو روندتے ہوئےآگے بڑھتی جا رہی تھی۔راستے میں بارہا جنت نظیر نخلستان اسے چند لمحے سستانے کی دعوت دیتے رہے،اور وہ شانِ بے نیازی سےآگے بڑھتی جا رہی تھی۔اس سفر میں مسلسل اسکے پیاروں کے چہرے،اسے بہت کچھ کہتے سنائی دیتے رہے۔لیکن وہ کسی بھی آواز پر کان دھرے بغیر،آگے بڑھتی جا رہی تھی۔
بالاخروہ وقت کی سرحدوں کو توڑتے ہوئے،ایسے مقام پر پہنچ گئی۔جہاں بہت تیز روشنی تھی۔اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔وہ بہت تیزی سے پلکیں جھپکانے لگی۔یہاں تک کہ اس کی آنکھیں دیکھنے کے قابل ہو گئیں۔اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور اچانک اس کی نظریں ایک صلیب سے جا ٹکرائیں۔ریڑھ کی ہڈی میں جیسےسرد لہر دوڑ گئی۔چاہنے کے باوجود بھی،وہ اپنی
نظریں صلیب سے ہٹا نہیں پا رہی تھی۔صلیب پر جلّی حروف میں لکھا ہوا اس کا نام،بہت واضح دکھائی دے رہا تھا۔
بنتِ حوّا
وہ بہت تیزی سے سوچنے لگی۔اب کیا کیا جانا چاہیے۔کیا اسے پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہیے۔شاید واپسی کا کوئی راستہ موجود ہو۔اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
پیچھے گھپ اندھیرا تھا۔اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔اس کے آنسو بہنے لگے۔
اس نے اندھیرے سے پوچھا ” کوئی ہے“
یکایک ایک کھڑکی کھلی۔اسے اپنے پیاروں کے چہرے دکھائی دینے لگے۔وہ بہت خوش تھے۔زندگی سے بھر پور حسین چہرے،
اس کے آنسو بہتے رہے۔اس نے کسی کو نہیں پکارا۔وہ جانتی تھی کوئی اس کی آواز پر کان نہیں دھرے گا۔اس نے آنکھیں موند لیں اور اس کے آنسو بہتے رہے۔
اچانک اسے اپنے شانے پرایک سرد ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔
اس نے پھر پیچھے مڑ کر دیکھا۔
صلیب
ہو بہو اس کے جیسی صلیب،اس کی منتظر تھی۔
اس نے آہستگی سے آگے بڑھ کر صلیب کو گلے سے لگا لیا۔