حسیب نذیر گِل
محفلین
راج پال لاہور کا ایک کتب فروش تھا‘ یہ ہندوئوں کی متعصب جماعت آریہ سماج کا ممبر تھا‘ آریہ سماج 1875ء میں بمبئی میں بنی‘ اس کا بانی سوامی دیا نند سرسوتی تھا۔
یہ قدیم ویدیوں کو دنیا کے تمام مذاہب کا ماخذ قرار دیتا تھا‘ اس کا نعرہ تھا ’’ ہندوستان صرف ہندوئوں کا‘‘ چنانچہ یہ عیسائیوں اور مسلمانوں دونوں کو ہندوستان سے نکالنا چاہتا تھا‘ اس نے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی کوششیں بھی شروع کر دیں‘ یہ اس کوشش کو ’’شدھی‘‘ کہتا تھا‘ دیانند اور اس کے شاگردوں نے مسلم علماء سے مناظروں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جس نے ہندوستان کی سماجی زندگی میں ابال پیدا کر دیا۔
آریہ سماج ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی لاہور پہنچی اور دیانند نے اس شہر کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیا‘ پنجاب مسلم اکثریت کا صوبہ تھا‘ اس صوبے کے دارالحکومت میں آریہ سماج کے قیام سے لاہور میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو گیا‘ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات ہونے لگے ‘ انگریز انتظامیہ کو یہ فسادات روکنے کے لیے بڑے جتن کرنا پڑتے تھے‘ دیانند سرسوتی نے ’’ سیتارتھ پرکاش‘‘ کے نام سے ایک متنازعہ کتاب بھی لکھی۔
اس کتاب کا چودھواں باب عیسائیت اور اسلام کے خلاف تھا‘ آج کا لبرل سے لبرل مسلمان بھی یہ باب پڑھتے ہوئے اپنے جذبات قابو میں نہیں رکھ سکتا‘ راج پال اس متعصب تنظیم کا فعال رکن تھا‘ یہ لاہور میں کتابیں بیچتا تھا لیکن اس کا زیادہ تر وقت مسلمانوں کے خلاف شرانگیزی میں گزرتا تھا‘ 1925-26ء میں اس کے ذہن میں شیطانی خیال آیا‘ اس نے متنازعہ اسلامی کتب سے مختلف واقعات اور ضعیف احادیث جمع کیں۔
ان میں اضافہ اور کمی کی‘ ان کو ان کے پس منظر سے الگ کیا‘ انھیں کتابی شکل دی اور 1928ء میں رنگیلا رسول (نعوذباللہ) کے نام سے انتہائی واہیات اور گستاخانہ کتاب شایع کر دی‘ آریہ سماج کے کارکنوں نے یہ کتاب چند دن میں ہندوستان بھر میں پھیلا دی‘ مسلمانوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا‘ ہندوئوں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا اور یوں فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور مولانا ظفر علی خان ؒ سمیت اس وقت کے عظیم سیاسی اور مذہبی رہنمائوں نے راج پال کے خلاف جلسے اور جلوس شروع کر دیے‘ لاہور کی فضا مکدر ہو گئی چنانچہ پولیس نے راج پال کو گرفتار کر لیا‘ انگریز سماجی لحاظ سے توہین رسالت‘ توہین مذہب اور توہین خدا کا قائل نہیں چنانچہ یہ مذہبی توہینوں کے خلاف قانون نہیں بناتا۔
یہ مذہب کو ذاتی فعل سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے انسان کو ہر قسم کی مذہبی آزادی ہونی چاہیے لیکن انگریز ہمیشہ یہ بھول جاتا ہے مذہب کا دائرہ واحد ایسا دائرہ ہے جس میں غیر مذہب کا پائوں آنے پر انسان انسان کو قتل کردیتا ہے اور مسلمان اللہ تعالیٰ‘ نبی اکرمؐ اور قرآن مجید کی حرمت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں‘ مسلمان ہربات‘ ہر چیز پر سمجھوتہ کر لے گا لیکن برے سے برا مسلمان بھی نبی رسالتؐ کی حرمت پر کبھی کمپرومائز نہیں کرتا‘ عشق رسولؐ مسلمان کی وہ دکھتی رگ ہے جسے چھیڑنے والے کو یہ کبھی معاف نہیں کرتا‘ ہم 1926ء میں واپس آتے ہیں۔
پولیس نے نقص امن کے جرم میں راج پال کو گرفتار کر لیا لیکن مقدمہ عدالت میں پہنچا تو معلوم ہوا انڈین ایکٹ میں مذہبی جذبات کی توہین کے بارے میں کوئی دفعہ ہی نہیں ہے چنانچہ راج پال کے وکیل نے دلائل دیے اور جج نے راج پال کی رہائی کا حکم دے دیا‘ راج پال کی رہائی لاہور کے مسلمانوں کے زخمی دلوں پر نمک کی بارش ثابت ہوئی اور یہ سسکیاں لے لے کر رونے لگے جب کہ ہندوئوں نے خوشی کے شادیانے بجانا شروع کر دیے۔
ہندوئوں کا خیال تھا‘ یہ فیصلہ ہندوستان میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو گا اور ہندو اب کھل کر نبی رسالتؐ کے خلاف گستاخی کر سکیں گے اور کوئی قانون اب انھیں روک نہیں سکے گا کیونکہ ان کے پاس عدالت کا حکم نامہ موجود ہے‘ اس ساری صورتحال نے ایک غریب ترکھان کو عالم اسلام کی عظیم شخصیت بنا دیا‘ اس شخص کا نام علم دین تھا‘ یہ دھیاڑی دار ترکھان تھا‘ یہ اوزار لے کر روز گھر سے نکلتا تھا۔
دن کو ایک آدھ روپے کی مزدوری مل جاتی تھی تو کر لیتا تھا ورنہ دوسری صورت میں خالی ہاتھ گھر واپس چلا جاتا تھا‘ یہ 6ستمبر 1929 ء کو مزدوری کے لیے گھر سے نکلا‘ راستے میں امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ظفر علی خان راجپال کی گستاخانہ حرکت کے خلاف تقریر کر رہے تھے‘ علم دین تقریر سننے کے لیے رک گیا‘ خطاب کے چند فقروں نے اس کی ذات میں طلاطم برپا کر دیا‘ اس نے اسی وقت بازار سے چاقو خریدا‘ سیدھا راج پال کی دکان پر گیا‘ راج پال کو اطمینان سے قتل کیا اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیا اور تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غازی علم دین شہید کے نام سے روشن ہو گیا۔
غازی علم دین شہید کے خلاف مقدمہ چلا اور انھیں 31 اکتوبر 1929ء کو میانوالی جیل میں پھانسی دے دی گئی‘ غازی علم دین شہید پھانسی پا گئے لیکن عشق رسولؐ آج تک زندہ ہے اور یہ قیامت تک زندہ رہے گا۔
ہم اگر آج 2012ء میں بیٹھ کر اس واقعے کا تجزیہ کریں تو تین چیزیں سامنے آتی ہیں۔ اول‘ راجہ پال 1929ء کا جنونی‘ شدت پسند اور دہشت گرد تھا‘ اس کی متعصبانہ‘ جنونیت سے بھرپور اور دہشت گردانہ سوچ نے پورے ہندوستان میں فسادات شروع کرا دیے اور ان فسادات میں اس سمیت بے شمار لوگ مارے گئے۔ دوم‘ انگریز سرکار نے توہین رسالت‘ مذہبی توہین اور نظریاتی چھیڑ چھاڑ کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا تھا۔
قانون کی اس کمی نے راج پال جیسے لوگوں کو شہ دی‘ اس نے کتاب لکھی‘ گرفتار ہوا اور بعد ازاں قانون کی کمی کی وجہ سے رہا ہو گیا‘ راج پال کی رہائی نے جلتی پر تیل کا کام کیا‘ انگریز حکومت اگر اس مسئلے کو حقیقی مسئلہ سمجھتی‘ یہ توہین رسالت کے خلاف سخت قانون بناتی اور اس پر سختی سے عمل کرواتی تو راج پال کو ایسی کتاب لکھنے کی جرأت ہوتی‘ یہ جیل سے رہا ہوتا اور نہ ہی یہ عبرت ناک انجام کو پہنچتا اور سوم‘ رسول اللہ ﷺ ایسی بابرکت ذات ہیں جن کے بارے میں توہین اسلامی دنیا کا عام سا مزدور بھی برداشت نہیں کرتا اور یہ توہین اسے چند لمحوں میں غازی علم دین شہید بنا دیتی ہے۔
نبی اکرمؐ کی ذات بابرکت پر جان دینے اور جان لینے کے لیے کسی مسلمان کا عالم‘ حافظ یا پرہیز گار ہونا ضروری نہیں‘ لبرل سے لبرل‘ ماڈرن سے ماڈرن‘ پڑھے لکھے سے پڑھا لکھا اور گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی توہین رسالت پر تڑپ اٹھتا ہے اور یہ یورپ‘ امریکا‘ کینیڈا اور جاپان جیسے ماڈرن ممالک میں رہنے کے باوجود گستاخوں کو قتل کرنے کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوتا ہے اور اس کے بعد سلمان رشدی ہو‘سام باسیل یا پھر ٹیری جونز ہو‘ ان لوگوں کو جان بچانے کے لیے حلیہ بھی بدلنا پڑتا ہے‘ مکان اور شہر بھی تبدیل کرنا پڑتے ہیں اور اپنا نام بھی چینج کرنا پڑتا ہے۔
یورپ اور امریکا کے دانشور ہمیشہ یہ سوال کرتے ہیں اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر ایمن الظواہری جیسے ماڈرن‘ تعلیم یافتہ اور شہزادے عالمی دہشت گرد کیسے بن جاتے ہیں‘ یہ آج تک اس بات پر بھی حیران ہیں کہ نائن الیون میں شامل 19 نوجوانوں میں سے کسی کی داڑھی نہیں تھی‘ ان میں سے کوئی شخص کسی اسلامی مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں تھا‘ یہ تمام نوجوان جدید تعلیم یافتہ تھے اور ان میں سے چند کے بارے میں یہ اطلاعات بھی ملی تھیں کہ یہ شراب خانوں میں بھی دکھائی دیتے تھے اور ڈسکوز میں بھی لیکن دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی کا ذریعہ بن گئے۔
یورپ اور امریکا کے دانشور دہائیوں سے وہ جذبہ‘ وہ چیز تلاش کر رہے ہیں جو عام سے مسلمان کو غازی علم دین شہید اور سعودی شہزادے کو اسامہ بن لادن بنا دیتی ہے‘ وہ چیز‘ وہ جذبہ نبی اکرمؐ کی ذات سے محبت ہے‘ یہ محبت وہ عمل انگیز ہے جو عام گنہگار مسلمان کو غازی اور شہید کے مرتبے پر فائز کر دیتی ہے‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ ’’ انو سینس آف مسلمز‘‘ جیسی متنازعہ اور بدبودار فلم کے چند ٹریلرز کے بعد پوری دنیا میں ہونے والے واقعات کی فلم دیکھ لیں‘ بن غازی سے لے کر قاہرہ اور کینیڈا سے لے کر کراچی تک کیا ہو رہا ہے؟
مسلمان سڑکوں پر کیوں ہیں اور امریکا اپنے سفارتکاروں کی حفاظت کے لیے مسلم ممالک میں فوج کیوں بھجوا رہا ہے؟ اور آپ احتجاج میں شامل لوگوں کو بھی دیکھئے‘ آپ کو ان میں مدارس کے بچے کم اور لبرل مسلمان زیادہ ملیں گے‘ یہ تمام لوگ غازی علم دین شہید ہیں اور یہ اس بدبودار فلم کے خالق ماڈرن راج پال کو تلاش کر رہے ہیں۔
یہ لوگ جس دن اس راج پال تک پہنچ گئے یہ اس کا وہی حشر کریں گے جو غازی علم دین شہید نے 1929ء میں راج پال کا کیا تھا چنانچہ آپ اگر مستقبل میں نائن الیون اور نئے اسامہ بن لادن سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنے اپنے راج پالوں کے خلاف قانون سازی کر لیں ورنہ دوسری صورت میں صلیبی جنگوں کا ایک ایسا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا جس کا ہر دن نائن الیون ہو گا اور ہر سپاہی غازی علم دین شہید اور اسامہ بن لادن
بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس