ناصر علی مرزا
معطل
لارڈمیکالے کا نظام تعلیم اور اس کے اثرات ونتائج
ربط
برصغیر پاک وہند میں انگریزوں کی آمد نے جہاں نظام سیاست کے ساتھ ساتھ کم وبیش زندگی کا ہر شعبہ تہہ وبالا کردیا تھا‘ وہاں تعلیم کے شعبہ کا متاثر ہونا ایک لازمی بات تھی‘ تاہم یہ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ نئی روشنی کے علمبردار اس موضوع پر بھی اپنی رعایا سے وہ بدترین انتقام لیں گے جس کی مثال صدیوں میں بھی نہیں ملے گی۔
بقول ڈاکٹر احسن اقبال:
”انگریزوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ ہندوستانی باشندے زیادہ سے زیادہ جاہل رہیں۔ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرکے یہ لوگ ہمارے اقتدار کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔ اس لئے اگر تعلیم کا نظم کیا بھی تو وہ محض عیسائیت کے لئے‘ ورنہ اعلیٰ تعلیم کا ہندوستانی باشندوں کے لئے کوئی نظم نہ تھا“۔(۱)
دراصل انگریز اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر برصغیر میں مغربی طرز کے تعلیمی ادارے کھولے گئے تو اس سے عوام میں بیداری آئے گی اور جس طرح امریکہ وغیرہ میں جدید علوم کی درسگاہیں قائم ہوجانے کے بعد ہمیں امریکیوں کو آزادی دینی پڑ گئی تھی‘ اسی طرح برصغیر جوکہ سونے کی چڑیا سے کم نہیں ہے‘ اگر ہم نے یہاں پر جدید تعلیمی ادارے قائم کردیئے تو ایک نہ ایک دن ہمیں یہاں سے لازماً بوریا بستر گول کرنا پڑے گا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رکھا جائے۔ (۲)
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنی رائے بدلنی پڑی‘ چنانچہ وائسرائے ہند لارڈمنٹونے اس مقصد کے لئے ایک طویل یادداشت کورٹ آف ڈائریکٹر ان کو بھیجی کہ علم کا روز بروز زوال ہورہا ہے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی مذہبی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے دروغ حلفی اور جعل سازی کے جرائم بڑھ رہے ہیں‘ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم وتربیت پر زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ کیاجائے اور کالج وغیرہ کھولے جائیں۔ آخر بڑی تگ ودو کے بعد ہندوستانیوں کو تعلیم دینے کے لئے ایک کمیٹی قائم ہوئی‘ جس کی سفارش پر تعلیم دینے کے لئے ایک لاکھ روپیہ کی سالانہ گرانٹ منظور کی گئی۔ تاہم اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ چارلس گرانٹ کی طرح عیسائی مبلغین کو پہنچا جو برصغیر کو بحیثیت مجموعی عیسائی بنانے کی آرزو رکھتے تھے۔ اس طرح حکومتی سرپرستی میں کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے جہاں انگریزی کی آڑ میں عیسائیت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مثلاً کلکتہ کا اینگلوانڈین کالج (۱۸-۱۸۱۷ء)‘ بنارس کا جے نرائن کالج (۱۸۲۱ء) اور آگرہ کالج (۱۸۲۳ء) وغیرہ وغیرہ۔(۳)
۱۸۳۳ء میں جب اتفاق سے یہی چارلس گرانٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کے صدر منتخب ہوئے تو برطانوی دارالعوام میں ہندوستان کی مذہبی اور اخلاقی ترقی کے متعلق ان کی تجویز کثرت رائے سے منظور ہوگئی۔ اس طرح برصغیر میں پادریوں کی آمد اور عیسائیت کی نشر واشاعت کے لئے گویا وہ پورا پھاٹک ہی کھل گیا ،جس کی پہلے صرف ایک کھڑکی کھلی تھی۔ (۴)
ان پادری حضرات نے اہل ہند کے مذاہب خاص کر دین اسلام پر تابڑ توڑ حملے کرکے پورے ملک کو فرقہ وارانہ مناظروں کی آگ میں جھونک دیا‘ جس کے نتیجے میں مولانا محمد قاسم نانوتوی‘ مولانا رحمت اللہ کیرانوی‘ مولانا منصور علی خان اور ڈاکٹر وزیر خان کی طرح علماء حق نے میدان میں آکر اہل باطل کا مقابلہ کیا اور اسلام کی حقانیت پر عیسائیوں اور ہندوؤں سے فیصلہ کن مناظرے کرکے دنیا کو وہ علمی سرمایہ فراہم کیا جو اپنی مثال آپ ہے اور ہماری ملی تاریخ کا جلی عنوان ہے۔ (۵)
دوسری طرف یہ استعماری تعصب اس وقت مزید نمایاں ہوکر سامنے آیا جب ہندوستانیوں کے لئے ذریعہ تعلیم کا مسئلہ طے کیا جانے لگا اور برصغیر کے مستقبل کے متعلق اس اہم موضوع پر دو مختلف نظریات کے حامل افراد سامنے آئے۔ ایک وہ جو انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بناکر ایک ایسا نظام تعلیم رائج کرنا چاہتا تھا جس کی جڑیں اس ملک کے عوام میں نہیں تھی اور دوسرا وہ جو مشرقی علوم کو برقرار رکھ کر اس میں مغربی سائنس کی پیوندکاری کے حق میں تھا۔ مؤخر الذکر گروہ کے پر جوش حامی پر نسپ صاحب سیکریٹری ایشاٹک سوسائٹی تھے جو ایک معتدل سوچ رکھنے والی شخصیت تھے‘ جب کہ اول الذکر گروہ کے سرخیل لارڈمیکالے (T.B Macaulay)تھے جو نہ صرف یہ کہ انگریزی علوم کے زبردست حامی اور مؤید تھے بلکہ اس حوالے سے خاصے متعصب بھی تھے اور مشرقی علوم وفنون کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
اس کی اس متعصبانہ ذہنیت کا اندازہ ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے جو اس نے ایک یادداشت کی شکل میں ۳/فروری ۱۸۳۵ء کو بیرک پور (کلکة) کے مقام پر گورنر جنرل ہند لارڈ ولیم بینٹنک کو پیش کی‘ جس پر مباحثہ کے لئے جنرل کمیٹی برائے پبلک انسٹرکشن کا اجلاس ۷/مارچ ۱۸۳۵ء کو منعقد ہوا۔ وہ کہتے ہیں:
”ہمارے پاس ایک رقم (ایک لاکھ روپیہ) ہے ،جسے گورنمنٹ کے حسب ہدایت اس ملک کے لوگوں کی ذہنی تعلیم وتربیت پر صرف کیا جاتا ہے‘ یہ ایک سادہ سا سوال ہے کہ اس کا مفید ترین مصرف کیا ہے؟ کمیٹی کے پچاس فیصداراکین مصر ہیں کہ یہ زبان انگریزی ہے‘ باقی نصف اراکین نے اس مقصد کے لئے کوئی ایسا شخص نہیں پایا ہے جو اس حقیقت سے انکار کرسکے کہ یورپ کی کسی اچھی لائبریری کی الماری میں ایک تختے پر رکھی ہوئی کتابیں ہندوستان اور عرب کے مجموعی علمی سرمایہ پر بھاری ہیں۔ پھر مغربی تخلیقات ادب کی منفرد عظمت کے کما حقہ معترف تو کمیٹی کے وہ اراکین بھی ہیں جو مشرقی زبانوں میں تعلیم کے منصوبے کی حمایت میں گرم گفتار ہیں․․․․“۔
”ہمیں ایک ایسی قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جسے فی الحال اپنی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہمیں انہیں لازماً کسی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا ہوگی‘ اس میں ہماری اپنی مادری زبان کے استحقاق کا اعادہ تحصیل حاصل ہے‘ ہماری زبان تو یورپ بھر کی زبانوں میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے‘ یہ زبان قوت متخیلہ کے گراں بہا خزانوں کی امین ہے․․․ انگریزی زبان سے جسے بھی واقفیت ہے اسے اس وسیع فکری اثاثے تک ہمہ وقت رسائی حاصل ہے جسے روئے زمین کی دانشور ترین قوموں نے باہم مل کرتخلیق کیا ہے اور گزشتہ نوے سال سے بکمال خوبی محفوظ کیا ہے۔ یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ اس زبان میں موجود ادب اس تمام سرمایہ ادبیات سے کہیں گراں تر ہے جو آج سے تین سوسال پہلے دنیا کی تمام زبانوں میں مجموعی طور پر مہیا تھا“۔(۶)
”اب ہمارے سامنے ایک سیدھا سادا سوال ہے کہ جب ہمیں انگریزی زبان پڑھنے کا اختیار ہے تو پھر بھی ہم ان زبانوں کی تدریس کی ذمہ داری قبول کریں گے جن کے بارے میں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان میں سے کسی موضوع پر بھی کوئی کتاب اس معیار کی نہیں ہوگی کہ اس کا ہماری کتابوں سے موازنہ کیا جاسکے‘ آیا جب ہم یورپئین سائنس کی تدریس کا انتظام کرسکتے ہیں تو کیا ہم ان علوم کی بھی تعلیم دیں جن کے بارے عمومی اعتراف ہے کہ جہاں ان علوم میں اور ہمارے علوم میں فرق ہے تو اس صورت میں ان علوم ہی کا پایہ ثقاہت پست ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ آیا جب ہم پختہ فکر‘ فلسفہ اور مستند تاریخ کی سرپرستی کرسکتے ہیں تو پھر بھی ہم سرکاری خرچ پر ان طبی اصولوں کی تدریس کا ذمہ لیں جنہیں پڑھانے میں ایک انگریز سلوتری بھی خفت محسوس کرے․․․․ ایسا علم فلکیات پڑھائیں جن کا انگریزی اقامتی اداروں کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی مذاق اڑائیں“۔(۷)
”بچے جو گاؤں کے مدرسے میں استاد سے حروف تہجی یا تھوڑی بہت ریاضی سیکھتے ہیں‘ انہیں استاد کو بھی کچھ نہیں ادا کرنا پڑتا‘ استاد کو پڑھانے کی تنخواہ ملتی ہے تو پھر جو لوگ سنسکرت اور عربی پڑھتے ہیں‘ انہیں مالی اعانت دینے کا کیا جواز ہے؟“۔
”․․․․عربی کالج اور سنسکرت کالج پر ہم جو خرچ کررہے ہیں‘ یہ حق ہے‘ بلکہ غلط کاروں کی پرورش وتربیت کے لئے بے دریغ کی جانے والی اعانت ہے‘ اس مصرف سے ہم ایسی عافیت گاہیں تعمیر کررہے ہیں جن میں نہ صرف بے یارو مددگار‘ بے ٹھکانہ لوگ پناہ لیتے ہیں‘ بلکہ ان میں تعصبات اور ذاتی مفادات کے مارے وہ تنگ نظر لوگ بھی پل رہے ہیں جو اپنے ذاتی فائدوں اور گروہی عصبیتوں کے سبب تعلیمی اصلاح کی ہر تجویز کے خلاف ہر زہ دراہوں گے‘ اگر میری سفارش کردہ تبدیلی کے خلاف ہندوستانیوں میں احتجاج ہوا تو اس کا سبب ہمارا اپنا نظام اور طریق کار ہوگا۔ علم مخالفت بلند کرنے والوں کے قائدین وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ہمارے وظائف پر پرورش پائی ہوگی․․․․“ (۸)
”․․․․․عربی اور سنسکرت کی اہمیت کے سلسلے میں ایک اور دلیل بھی دی جاتی ہے جو اس سے بھی زیادہ کمزور اور غیر مستحکم ہے‘ بیان کیا جاتا ہے کہ عربی اور سنسکرت وہ زبانیں ہیں جن میں کروڑوں انسانوں کی مقدس کتابیں محفوظ ہیں اور اس لئے یہ زبانیں خصوصی حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں۔ یقینا حکومت برطانیہ کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان کے تمام مذہبی مسائل میں روا دار اور غیر جانبدار رہے‘ لیکن ایک ایسے ادب کی تحصیل کی حوصلہ افزائی کرتے چلے جانا جو مسلمہ طور پر معمولی قدر وقیمت کا حامل ہے اور محض اس لئے کہ وہ ادب اہم ترین موضوعات پر غلط ترین معلومات ذہن نشین کراتا ہے‘ ایک ایسا رویہ ہے جس کی موافقت نہ تو عقل کرتی ہے نہ اخلاق․․․․جو لوگ ہندوستانیوں کو حلقہ بگوش مسیحیت کرنے کے کام میں مصروف ہیں‘ ہم ان کی سرکاری طور پر ہمت افزائی سے اجتناب کر تے رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی مجتنب رہیں گے۔ جب عیسائیت کے بارے میں ہمارا یہ رویہ ہے تو کیا مناسب اور درست ہوگا کہ ہم سرکاری خزانے سے رشوت دے کر لوگوں کو اس امر پر مستعد کریں کہ وہ اپنی جوان نسل کی زندگیاں یہ جاننے میں برباد کر دیں کہ گدھے کو چھونے کے بعد وہ اپنے آپ کو کس طرح پاک کر سکتے ہیں یا وید کے کن اشلوکوں کو پڑھنے سے ایک بکرا مار دینے کا کفارہ ادا ہوجاتا ہے“۔(۹)
”․․․․میرا خیال ہے کہ ایک بات واضح ہے کہ ہم پارلیمنٹ ایکٹ ۱۸۱۳ء کے پابند نہیں ہیں‘ نہ ہی کسی ایسے معاہدے کے جو ہم نے اس خصوص میں صراحتاً کیا ہو یا کنایةً اور یہ کہ ہم زیر بحث رقوم کو اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرنے میں آزاد ہیں اور یہ کہ ہمیں اس فنڈ کو اس علم کے حصول میں صرف کرنا چاہئے جو بہترین طور پر شایان مطالعہ ہو اور یہ کہ انگریزی زبان‘ عربی اور سنسکرت کے مقابلے میں مطالعہ کے لئے موزوں تر ہے اور یہ کہ خود ہندوستانی لوگ انگریزی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہیں‘ انہیں عربی اور سنسکرت سیکھنے کے لئے کوئی طلب نہیں اور یہ کہ نہ تو قانونی زبان کی حیثیت سے اور نہ مذہبی زبان کے لحاظ سے سنسکرت یا عربی زبان کو ہماری خصوصی ہمت افزائی کا کوئی استحقاق ہے“۔(۱۰)”․․․․․میں اس نظام ناکارہ کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتاہوں جسے ہم نے ابھی تک سینے سے چمٹا رکھا ہے‘ میں فی الفور عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی طباعت روک دوں گا۔ میں کلکة کے مدرسہ اور سنسکرت کالج کو ختم کر دوں گا۔ بنارس برہمنی تعلیم کا بڑا مرکز ہے اور دلی عربی تعلیم کا‘ اگر ہم ان دونوں ہی کو جاری رکھیں تو السنہ الشرقیہ کے فروغ کے لئے کافی ہوگا بلکہ میرے خیال میں کافی سے زیادہ ہے‘ اگر بنارس اور دلی کے کالجوں کو برقرار رکھنا ہے تو میری کم سے کم یہ سفارش ہوگی کہ ان میں داخلہ لینے والے کسی طالب علم کو وظیفہ نہ دیا جائے۔ (۱۱)
وہ اس نظریہ تعلیم کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”․․․․فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرض وجود میں لانے کے لئے وقف ہونی چاہئیں جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین جن پرہم حکومت کررہے ہیں‘ ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو لیکن ذوق ‘ ذہن‘ اخلاق اور فہم وفراست کے اعتبار سے انگریز ہو ․․․․“۔(۱۲)
تاریخ کا یہ عجیب المیہ ہے کہ آخر میں جب اس تجویز پر رائے شماری کا مرحلہ آیا تو اتفاق سے اس کے حامی اور مخالف اراکین کی تعداد برابر برابر تھی اور کوئی فیصلہ نہیں ہو پار ہا تھا‘ تب لارڈمیکالے نے ہی اس تجویز کے حق میں اپنا ووٹ ڈال کر بزعم خویش برصغیر میں انگریزی زبان کے اجراء کا راستہ ہمیشہ کے لئے ہموار کردیا۔(۱۳)
ثمرات ونتائج
بالعموم ملک کے روشن خیال طبقہ کی طرف سے اس فیصلہ کی تعریف میں بڑے گن گائے جاتے ہیں کہ موصوف نے اس فیصلہ کے ذریعے دراصل ہندوستان کو آزادی کا پروانہ عطا کیا تھا یعنی اس نظام نے علی گڑھ تحریک کو جنم دیا اور علی گڑھ تحریک نے پاکستان کو جنم دیا۔
بقول صلاح الدین احمد:
”آج ہم اس مملکت میں ایک باوقار اور آزاد زندگی اس طرح بسر کررہے ہیں‘ گویا یہ ہمارا پیدائشی حق ہے۔ لیکن یاد رکھئے کہ اگر سرسید قومی وحدت اور قومی ہستی کی وہ بنیاد استوار نہ کرتے جس پر تحریک علی گڑھ کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی اور قومی احساس اور روشن خیالی کی وہ شمع روشن نہ کرتے جو آج سے کم وبیش پون صدی پیشتر انہوں نے روشن کی اور ہمیں ملا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلا کر زندگی کے صحیح انداز سے روشناس نہ کراتے تو آج ظلمستان ہند میں اسی طرح ٹھوکریں کھاتے پھرتے جس طرح نیم وحشی قبائل وسطی ہند کے جنگلوں میں اب بھی کرتے ہیں“۔ (۱۴)
حالانکہ یہ بات بدیہی طور پر غلط ہی نہیں‘ گمراہ کن بھی ہے۔ بلاشبہ قیام پاکستان کے حوالے سے علی گڑھ کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام‘ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے توسط سے علی گڑھ سے جا ملتا ہے‘ لیکن کیا محض اس وجہ سے علماء ہند اور ان ہزاروں مسلمانوں کی جد وجہد آزادی سے بیک جنبش قلم انکار کردیا جائے جو مسلم لیگ کے شریک سفر نہ تھے یا بالفاظ دیگر تحریک علی گڑھ سے وابستہ نہ تھے‘ جس نے بقول ان کے مسلمانان ہند کو ملا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلاکر زندگی کی صحیح اقدار سے روشناس کرایا۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی تاریخ نہ تو عدل وانصاف پر مبنی قرار دی جاسکتی ہے اور نہ ہی تحقیقی نکتہ نگاہ سے اس کی تائید کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آزادی کی اس تحریک میں ہندو ومسلم سب اقوام نے مل کر حصہ لیا تھا جس میں مسلمانوں کی قربانیاں برصغیر کے باقی مذاہب کے لوگوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ پھر مسلمانوں میں بھی علماء ہند کی جد وجہد آزادی کی ایک طویل تاریخ ہے جس کی دلخراش داستانیں کالاپانی (خلیج بنگال) سے لے کر مالٹا (بحیرہ روم) تک کے قیدخانوں سے مرتب کی جاسکتی ہیں۔ جب کہ بدقسمتی سے مسلم لیگ کا دامنِ تاریخ اس قسم کی قربانیوں سے تقریباً خالی ہے‘
رہی موصوف کی یہ بات کہ” سرسید کی تحریک نے ہمیں ملا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلا کر زندگی کی صحیح اقدار سے روشناس کرایا‘ ورنہ ہم لوگ ظلمستان ہند میں اسی طرح ٹھوکریں کھاتے پھرتے جس طرح نیم وحشی قبائل وسطی ہند کے جنگلوں میں اب بھی کرتے ہیں“
تو اس کا جواب صرف یہی دیا جاسکتا ہے کہ امت کے سواد اعظم نے سلف صالحین کا دامن پکڑتے ہوئے سرسید کی مذہبی تعبیرات کو قطعاً رد کردیا ہے۔ جو بقول مولانا ابو الکلام آزاد:
”یہ منزل مذہب کی طرف لے جانے والی نہیں‘ بلکہ مذہب سے انکار کی ایک نرم اور ملائم صورت ہے“۔ (۱۵)
اب اگر کوئی روشن خیال سلف سے روگردانی کرتے ہوئے سرسید کی ان تعبیرات کو اپنانا چاہتا ہے تو اسے مبارک ہو۔
۲- اس فیصلہ کی وجہ سے برصغیر کا فارسی خواں طبقہ جو زیادہ تر مسلمان تھا‘ پس منظر میں چلاگیا اور انگریزی کے نئے مقام کی وجہ سے ایک قسم کا ناخواندہ شمار ہونے لگا ،جب کہ ہندوؤں نے اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کے لئے زبردست جد وجہد کی ،جس کا اثر سرکاری ملازمتوں کے حصول پر بھی پڑا ،جیساکہ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپریل ۱۸۷۱ء میں صرف بنگال میں سرکاری ملازمتوں کی تقسیم کا جو نقشہ پیش کیا ہے‘ نہایت ہی مایوس کن ہے۔ واضح رہے کہ یہ فہرست صرف ان گزیٹیڈ ملازمتوں کی ہے جن پر ہندو‘ مسلمان اور انگریز سب فائز ہوسکتے ہیں‘ اس کے مطابق کل ۲۱۱۱ آسامیوں میں یورپئین کی تعداد ۱۳۳۸‘ ہندو ۶۸۱ اور مسلمان فقط ۹۲ ہیں۔ (۱۶)
ہائی کورٹ کے وکلاء کی فہرست جن کا درجہ بیرسٹروں سے ذرا کم ہے اور بھی زیادہ عبرتناک ہے اور یہ وہ شعبہ تھا جو تمام کا تمام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ ۱۸۵۱ء تک کل دوسو چالیس ہندوستانی داخل کئے گئے جن میں فقط ایک ہی مسلمان تھا۔
(۱۷)ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر مزید لکھتاہے کہ:
”حقیقت یہ ہے کہ ہمارا طریقہ تعلیم جس نے ہندوؤں کو ان کی صدیوں کی نیند سے جگایا اور ان کے کاہل عوام میں قومیت کے شریفانہ جذبات پیدا کردیئے ہیں‘ مسلمانوں کی روایات کے بالکل خلاف اور ان کی ضروریات کے بالکل غیر مطابق ہے‘ بلکہ ان کے مذہب کی تحقیر ہے‘ ہندو اسلامی حکومت میں بھی اپنی قسمت پر ایسے ہی مطمئن تھے جیسے کہ اب ہماری حکومت میں۔ آج کل ترجیح صرف اس شخص کو دی جاتی ہے جو انگریزی زبان جانتا ہو اور ہندو انگریزی خوب سیکھتے ہیں‘ اس سے پہلے ترجیح اس شخص کو دی جاتی تھی جو فارسی زبان جانتا تھا“۔(۱۸)
۳- سرسید احمد خان نے برصغیر پاک وہند میں لارڈمیکالے کے نظام تعلیم کو جس دلجمعی اور اخلاص سے متعارف کرانے کی کوشش کی‘ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے‘ جیساکہ آپ لارڈمیکالے صاحب کی تعریف میں رطب اللسان ہیں:”․․․․ہم صاف صاف کہنا چاہتے ہیں کہ ہم کو مشرقی علوم کی ترقی کے پھندے میں پھنسانا ہندوستانیوں کے ساتھ نیکی کرنا نہیں ہے‘ بلکہ دھوکہ میں ڈالنا ہے۔ ہم لارڈمیکالے کو دعا دیتے ہیں کہ خدا اس کو بہشت نصیب کرے کہ اس نے اس دھوکہ کی ٹٹی کو اٹھادیا تھا“۔ (۱۹)
علی گڑھ کالج کے مقاصد تعلیم اس ادارے کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کچھ یوں بیان کئے گئے ہیں:
”․․․․․ہم کو اس بات کی امید ہوتی ہے کہ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان جو اتحاد ہوا ہے وہ مدت دراز تک قائم رہے گا۔ پس اپنے ہم وطنوں کے دلوں پر ان باتوں کا روشن کرنا اور ان کو اس پر تعلیم دینا کہ وہ ان برکتوں کی قدر شناسی کرسکیں اور زمانہ سلف کے دھوکہ دینے والے خیالات کو باطل کرنا کہ جو ہماری ترقی کے مانع ہوتے ہیں․․․․ اور ہندوستان کے مسلمانوں کو سلطنت انگریزی کے لائق وکار آمد رعایا بنانا اور ان کی طبیعتوں میں اس قسم کی خیر خواہی پیدا کرنا جو ایک غیر سلطنت کی غلامانہ اطاعت سے نہیں‘ بلکہ عمدہ گورنمنٹ کی اصلی قدر شناسی سے پیدا ہوتی ہے․․․․“۔(۲۰)
بدقسمتی سے آج کی طرح اس دور میں بھی مسلمانوں کی تنزلی کا واحد علاج انگریزی کے حصول میں سمجھ لیا گیا تھا۔ بقول شیخ اکرام:
”․․․․․مسلمانوں کے مصائب اگر تمام تر اقتصادی ہوتے تب بھی ان کا حل آسان نہ تھا لیکن اس زمانے میں انہیں جو نئے مسائل پیش آرہے تھے‘ وہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تھے۔ اقتصادی اور ذہنی پستی کی اصلاح کے لئے ضروری تھا کہ مسلمان انگریزی تعلیم حاصل کریں اور وہ اس سے بدکتے تھے․․․․“۔ (۲۱)
اور مشکلات کا یہ ہفت خوان سرسید احمد خان نے سرکیا جس میں حکومت برطانیہ نے دامے درمے سخنے ان کی مکمل مددکی۔ لارڈناتھ بروک وائسرائے وگورنر جنرل ہند نے اپنی جیب سے دس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا‘
سرولیم میور نے (یوپی کے گورنر جس نے ذات اقدس ا پر رکیک حملے کئے تھے) ایک ہزار دیا اور دوسرے انگریز افسروں نے بھی مدد کی‘ اس طرح بالآخر ۸/جنوری ۱۸۷۷ء کو لارڈلٹن کے ہاتھوں ایم اے او کالج علی گڑھ کا افتتاح ہوا۔(۲۲)
جاری
حوالہ جات وحواشی
____________________________________
۱- اقبال حسن خان‘ ”شیخ الہند مولانا محمود حسن‘ حیات اور علمی کارنامے“ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ۱۹۷۳ء ص:۳۹۔
۲- منگلوری‘ طفیل احمد‘ سید‘ ”مسلمانوں کا روشن مستقبل“ حماد الکتبی شیش محل روڈ لاہور (س ن) ص:۱۶۲-۱۶۴۔
۳- ایضاً ص:۱۶۸-۱۶۹۔۴- ایضاً ص:۱۷۰۔
۵- الف: رضوی‘ سید محبوب‘ ”مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند“ میرمحمد کتب خانہ مرکز علم وادب آرام باغ کراچی جلد۱‘ص:۱۱۷-۱۲۰۔
ب۔ الحسنی ‘ سید محمد‘ ”سیرت مولانا محمد علی مونگیری“ مجلس نشریات اسلام کراچی (س ن) ص:۴۵-۶۹۔
۶- بخاری‘ سید شبیر‘ ”میکالے اور برصغیر کا نظام تعلیم“ آئینہ ادب چوک مینار‘ انارکلی لاہور ۱۹۸۶ء ص:۳۰-۳۳۔
۷- ایضاً ص:۳۳-۳۴۔ ایضاً ص:۳۷-۴۰۔ ۹-ایضاً ص:۴۲-۴۳۔
۱۰- ایضاً ص:۴۴-۴۵۔۱۱- ایضاًص:۴۶۔۱۲- ایضاً ص:۴۵۔
۱۳- مسلمانوں کا روشن مستقبل ص:۱۷۰-۱۷۱
۱۴- حالی‘ الطاف حسین‘ مولانا ”حیات جاوید“ آئینہ ادب چوک مینار انار کلی لاہور‘ ۱۹۶۶ء سرسید احمد خان پر ایک نظر ص:۴۶-۴۷
۱۵- ملیح آبادی‘ عبد الرزاق‘ ”ذکر آزاد“ مکتبہ جمال اردو بازار لاہور ۲۰۰۶ء ص:۱۵۲۔
۱۶- ہنٹر ‘ ڈبلیو ڈبلیو‘ آئی سی ایس بنگال‘ ”ہمارے ہندوستانی مسلمان“ مترجم ڈاکٹر صادق حسین دفتر اقبال اکیڈیمی ظفر منزل تاج پورہ لاہور ۱۹۴۴ء ص:۲۳۴-۲۳۵۔
۱۷- ایضاً ص:۲۳۸-۲۳۹۔ایضاً ص:۲۴۵۔ ۱۹-حیات جاوید ص:۴۰۲۔
۲۰- زبیری ‘ محمد امین‘ مولوی‘ ”تذکرہ سرسید“ پبلشر زیونائیٹڈ انار کلی لاہور (س ن) ص:۶۴-۶۵۔
۲۱- اکرام‘ شیخ محمد‘ ”موج کوثر“ ادارہ ٴ ثقافت اسلامیہ لاہور ۱۹۹۲ء ص:۷۷
۲۲- ایضاً ص:۸۸-۱۹
ربط
برصغیر پاک وہند میں انگریزوں کی آمد نے جہاں نظام سیاست کے ساتھ ساتھ کم وبیش زندگی کا ہر شعبہ تہہ وبالا کردیا تھا‘ وہاں تعلیم کے شعبہ کا متاثر ہونا ایک لازمی بات تھی‘ تاہم یہ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ نئی روشنی کے علمبردار اس موضوع پر بھی اپنی رعایا سے وہ بدترین انتقام لیں گے جس کی مثال صدیوں میں بھی نہیں ملے گی۔
بقول ڈاکٹر احسن اقبال:
”انگریزوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ ہندوستانی باشندے زیادہ سے زیادہ جاہل رہیں۔ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرکے یہ لوگ ہمارے اقتدار کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔ اس لئے اگر تعلیم کا نظم کیا بھی تو وہ محض عیسائیت کے لئے‘ ورنہ اعلیٰ تعلیم کا ہندوستانی باشندوں کے لئے کوئی نظم نہ تھا“۔(۱)
دراصل انگریز اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر برصغیر میں مغربی طرز کے تعلیمی ادارے کھولے گئے تو اس سے عوام میں بیداری آئے گی اور جس طرح امریکہ وغیرہ میں جدید علوم کی درسگاہیں قائم ہوجانے کے بعد ہمیں امریکیوں کو آزادی دینی پڑ گئی تھی‘ اسی طرح برصغیر جوکہ سونے کی چڑیا سے کم نہیں ہے‘ اگر ہم نے یہاں پر جدید تعلیمی ادارے قائم کردیئے تو ایک نہ ایک دن ہمیں یہاں سے لازماً بوریا بستر گول کرنا پڑے گا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رکھا جائے۔ (۲)
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنی رائے بدلنی پڑی‘ چنانچہ وائسرائے ہند لارڈمنٹونے اس مقصد کے لئے ایک طویل یادداشت کورٹ آف ڈائریکٹر ان کو بھیجی کہ علم کا روز بروز زوال ہورہا ہے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی مذہبی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے دروغ حلفی اور جعل سازی کے جرائم بڑھ رہے ہیں‘ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم وتربیت پر زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ کیاجائے اور کالج وغیرہ کھولے جائیں۔ آخر بڑی تگ ودو کے بعد ہندوستانیوں کو تعلیم دینے کے لئے ایک کمیٹی قائم ہوئی‘ جس کی سفارش پر تعلیم دینے کے لئے ایک لاکھ روپیہ کی سالانہ گرانٹ منظور کی گئی۔ تاہم اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ چارلس گرانٹ کی طرح عیسائی مبلغین کو پہنچا جو برصغیر کو بحیثیت مجموعی عیسائی بنانے کی آرزو رکھتے تھے۔ اس طرح حکومتی سرپرستی میں کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے جہاں انگریزی کی آڑ میں عیسائیت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مثلاً کلکتہ کا اینگلوانڈین کالج (۱۸-۱۸۱۷ء)‘ بنارس کا جے نرائن کالج (۱۸۲۱ء) اور آگرہ کالج (۱۸۲۳ء) وغیرہ وغیرہ۔(۳)
۱۸۳۳ء میں جب اتفاق سے یہی چارلس گرانٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کے صدر منتخب ہوئے تو برطانوی دارالعوام میں ہندوستان کی مذہبی اور اخلاقی ترقی کے متعلق ان کی تجویز کثرت رائے سے منظور ہوگئی۔ اس طرح برصغیر میں پادریوں کی آمد اور عیسائیت کی نشر واشاعت کے لئے گویا وہ پورا پھاٹک ہی کھل گیا ،جس کی پہلے صرف ایک کھڑکی کھلی تھی۔ (۴)
ان پادری حضرات نے اہل ہند کے مذاہب خاص کر دین اسلام پر تابڑ توڑ حملے کرکے پورے ملک کو فرقہ وارانہ مناظروں کی آگ میں جھونک دیا‘ جس کے نتیجے میں مولانا محمد قاسم نانوتوی‘ مولانا رحمت اللہ کیرانوی‘ مولانا منصور علی خان اور ڈاکٹر وزیر خان کی طرح علماء حق نے میدان میں آکر اہل باطل کا مقابلہ کیا اور اسلام کی حقانیت پر عیسائیوں اور ہندوؤں سے فیصلہ کن مناظرے کرکے دنیا کو وہ علمی سرمایہ فراہم کیا جو اپنی مثال آپ ہے اور ہماری ملی تاریخ کا جلی عنوان ہے۔ (۵)
دوسری طرف یہ استعماری تعصب اس وقت مزید نمایاں ہوکر سامنے آیا جب ہندوستانیوں کے لئے ذریعہ تعلیم کا مسئلہ طے کیا جانے لگا اور برصغیر کے مستقبل کے متعلق اس اہم موضوع پر دو مختلف نظریات کے حامل افراد سامنے آئے۔ ایک وہ جو انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بناکر ایک ایسا نظام تعلیم رائج کرنا چاہتا تھا جس کی جڑیں اس ملک کے عوام میں نہیں تھی اور دوسرا وہ جو مشرقی علوم کو برقرار رکھ کر اس میں مغربی سائنس کی پیوندکاری کے حق میں تھا۔ مؤخر الذکر گروہ کے پر جوش حامی پر نسپ صاحب سیکریٹری ایشاٹک سوسائٹی تھے جو ایک معتدل سوچ رکھنے والی شخصیت تھے‘ جب کہ اول الذکر گروہ کے سرخیل لارڈمیکالے (T.B Macaulay)تھے جو نہ صرف یہ کہ انگریزی علوم کے زبردست حامی اور مؤید تھے بلکہ اس حوالے سے خاصے متعصب بھی تھے اور مشرقی علوم وفنون کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
اس کی اس متعصبانہ ذہنیت کا اندازہ ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے جو اس نے ایک یادداشت کی شکل میں ۳/فروری ۱۸۳۵ء کو بیرک پور (کلکة) کے مقام پر گورنر جنرل ہند لارڈ ولیم بینٹنک کو پیش کی‘ جس پر مباحثہ کے لئے جنرل کمیٹی برائے پبلک انسٹرکشن کا اجلاس ۷/مارچ ۱۸۳۵ء کو منعقد ہوا۔ وہ کہتے ہیں:
”ہمارے پاس ایک رقم (ایک لاکھ روپیہ) ہے ،جسے گورنمنٹ کے حسب ہدایت اس ملک کے لوگوں کی ذہنی تعلیم وتربیت پر صرف کیا جاتا ہے‘ یہ ایک سادہ سا سوال ہے کہ اس کا مفید ترین مصرف کیا ہے؟ کمیٹی کے پچاس فیصداراکین مصر ہیں کہ یہ زبان انگریزی ہے‘ باقی نصف اراکین نے اس مقصد کے لئے کوئی ایسا شخص نہیں پایا ہے جو اس حقیقت سے انکار کرسکے کہ یورپ کی کسی اچھی لائبریری کی الماری میں ایک تختے پر رکھی ہوئی کتابیں ہندوستان اور عرب کے مجموعی علمی سرمایہ پر بھاری ہیں۔ پھر مغربی تخلیقات ادب کی منفرد عظمت کے کما حقہ معترف تو کمیٹی کے وہ اراکین بھی ہیں جو مشرقی زبانوں میں تعلیم کے منصوبے کی حمایت میں گرم گفتار ہیں․․․․“۔
”ہمیں ایک ایسی قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جسے فی الحال اپنی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہمیں انہیں لازماً کسی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا ہوگی‘ اس میں ہماری اپنی مادری زبان کے استحقاق کا اعادہ تحصیل حاصل ہے‘ ہماری زبان تو یورپ بھر کی زبانوں میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے‘ یہ زبان قوت متخیلہ کے گراں بہا خزانوں کی امین ہے․․․ انگریزی زبان سے جسے بھی واقفیت ہے اسے اس وسیع فکری اثاثے تک ہمہ وقت رسائی حاصل ہے جسے روئے زمین کی دانشور ترین قوموں نے باہم مل کرتخلیق کیا ہے اور گزشتہ نوے سال سے بکمال خوبی محفوظ کیا ہے۔ یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ اس زبان میں موجود ادب اس تمام سرمایہ ادبیات سے کہیں گراں تر ہے جو آج سے تین سوسال پہلے دنیا کی تمام زبانوں میں مجموعی طور پر مہیا تھا“۔(۶)
”اب ہمارے سامنے ایک سیدھا سادا سوال ہے کہ جب ہمیں انگریزی زبان پڑھنے کا اختیار ہے تو پھر بھی ہم ان زبانوں کی تدریس کی ذمہ داری قبول کریں گے جن کے بارے میں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان میں سے کسی موضوع پر بھی کوئی کتاب اس معیار کی نہیں ہوگی کہ اس کا ہماری کتابوں سے موازنہ کیا جاسکے‘ آیا جب ہم یورپئین سائنس کی تدریس کا انتظام کرسکتے ہیں تو کیا ہم ان علوم کی بھی تعلیم دیں جن کے بارے عمومی اعتراف ہے کہ جہاں ان علوم میں اور ہمارے علوم میں فرق ہے تو اس صورت میں ان علوم ہی کا پایہ ثقاہت پست ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ آیا جب ہم پختہ فکر‘ فلسفہ اور مستند تاریخ کی سرپرستی کرسکتے ہیں تو پھر بھی ہم سرکاری خرچ پر ان طبی اصولوں کی تدریس کا ذمہ لیں جنہیں پڑھانے میں ایک انگریز سلوتری بھی خفت محسوس کرے․․․․ ایسا علم فلکیات پڑھائیں جن کا انگریزی اقامتی اداروں کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی مذاق اڑائیں“۔(۷)
”بچے جو گاؤں کے مدرسے میں استاد سے حروف تہجی یا تھوڑی بہت ریاضی سیکھتے ہیں‘ انہیں استاد کو بھی کچھ نہیں ادا کرنا پڑتا‘ استاد کو پڑھانے کی تنخواہ ملتی ہے تو پھر جو لوگ سنسکرت اور عربی پڑھتے ہیں‘ انہیں مالی اعانت دینے کا کیا جواز ہے؟“۔
”․․․․عربی کالج اور سنسکرت کالج پر ہم جو خرچ کررہے ہیں‘ یہ حق ہے‘ بلکہ غلط کاروں کی پرورش وتربیت کے لئے بے دریغ کی جانے والی اعانت ہے‘ اس مصرف سے ہم ایسی عافیت گاہیں تعمیر کررہے ہیں جن میں نہ صرف بے یارو مددگار‘ بے ٹھکانہ لوگ پناہ لیتے ہیں‘ بلکہ ان میں تعصبات اور ذاتی مفادات کے مارے وہ تنگ نظر لوگ بھی پل رہے ہیں جو اپنے ذاتی فائدوں اور گروہی عصبیتوں کے سبب تعلیمی اصلاح کی ہر تجویز کے خلاف ہر زہ دراہوں گے‘ اگر میری سفارش کردہ تبدیلی کے خلاف ہندوستانیوں میں احتجاج ہوا تو اس کا سبب ہمارا اپنا نظام اور طریق کار ہوگا۔ علم مخالفت بلند کرنے والوں کے قائدین وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ہمارے وظائف پر پرورش پائی ہوگی․․․․“ (۸)
”․․․․․عربی اور سنسکرت کی اہمیت کے سلسلے میں ایک اور دلیل بھی دی جاتی ہے جو اس سے بھی زیادہ کمزور اور غیر مستحکم ہے‘ بیان کیا جاتا ہے کہ عربی اور سنسکرت وہ زبانیں ہیں جن میں کروڑوں انسانوں کی مقدس کتابیں محفوظ ہیں اور اس لئے یہ زبانیں خصوصی حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں۔ یقینا حکومت برطانیہ کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان کے تمام مذہبی مسائل میں روا دار اور غیر جانبدار رہے‘ لیکن ایک ایسے ادب کی تحصیل کی حوصلہ افزائی کرتے چلے جانا جو مسلمہ طور پر معمولی قدر وقیمت کا حامل ہے اور محض اس لئے کہ وہ ادب اہم ترین موضوعات پر غلط ترین معلومات ذہن نشین کراتا ہے‘ ایک ایسا رویہ ہے جس کی موافقت نہ تو عقل کرتی ہے نہ اخلاق․․․․جو لوگ ہندوستانیوں کو حلقہ بگوش مسیحیت کرنے کے کام میں مصروف ہیں‘ ہم ان کی سرکاری طور پر ہمت افزائی سے اجتناب کر تے رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی مجتنب رہیں گے۔ جب عیسائیت کے بارے میں ہمارا یہ رویہ ہے تو کیا مناسب اور درست ہوگا کہ ہم سرکاری خزانے سے رشوت دے کر لوگوں کو اس امر پر مستعد کریں کہ وہ اپنی جوان نسل کی زندگیاں یہ جاننے میں برباد کر دیں کہ گدھے کو چھونے کے بعد وہ اپنے آپ کو کس طرح پاک کر سکتے ہیں یا وید کے کن اشلوکوں کو پڑھنے سے ایک بکرا مار دینے کا کفارہ ادا ہوجاتا ہے“۔(۹)
”․․․․میرا خیال ہے کہ ایک بات واضح ہے کہ ہم پارلیمنٹ ایکٹ ۱۸۱۳ء کے پابند نہیں ہیں‘ نہ ہی کسی ایسے معاہدے کے جو ہم نے اس خصوص میں صراحتاً کیا ہو یا کنایةً اور یہ کہ ہم زیر بحث رقوم کو اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرنے میں آزاد ہیں اور یہ کہ ہمیں اس فنڈ کو اس علم کے حصول میں صرف کرنا چاہئے جو بہترین طور پر شایان مطالعہ ہو اور یہ کہ انگریزی زبان‘ عربی اور سنسکرت کے مقابلے میں مطالعہ کے لئے موزوں تر ہے اور یہ کہ خود ہندوستانی لوگ انگریزی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہیں‘ انہیں عربی اور سنسکرت سیکھنے کے لئے کوئی طلب نہیں اور یہ کہ نہ تو قانونی زبان کی حیثیت سے اور نہ مذہبی زبان کے لحاظ سے سنسکرت یا عربی زبان کو ہماری خصوصی ہمت افزائی کا کوئی استحقاق ہے“۔(۱۰)”․․․․․میں اس نظام ناکارہ کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتاہوں جسے ہم نے ابھی تک سینے سے چمٹا رکھا ہے‘ میں فی الفور عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی طباعت روک دوں گا۔ میں کلکة کے مدرسہ اور سنسکرت کالج کو ختم کر دوں گا۔ بنارس برہمنی تعلیم کا بڑا مرکز ہے اور دلی عربی تعلیم کا‘ اگر ہم ان دونوں ہی کو جاری رکھیں تو السنہ الشرقیہ کے فروغ کے لئے کافی ہوگا بلکہ میرے خیال میں کافی سے زیادہ ہے‘ اگر بنارس اور دلی کے کالجوں کو برقرار رکھنا ہے تو میری کم سے کم یہ سفارش ہوگی کہ ان میں داخلہ لینے والے کسی طالب علم کو وظیفہ نہ دیا جائے۔ (۱۱)
وہ اس نظریہ تعلیم کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”․․․․فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرض وجود میں لانے کے لئے وقف ہونی چاہئیں جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین جن پرہم حکومت کررہے ہیں‘ ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو لیکن ذوق ‘ ذہن‘ اخلاق اور فہم وفراست کے اعتبار سے انگریز ہو ․․․․“۔(۱۲)
تاریخ کا یہ عجیب المیہ ہے کہ آخر میں جب اس تجویز پر رائے شماری کا مرحلہ آیا تو اتفاق سے اس کے حامی اور مخالف اراکین کی تعداد برابر برابر تھی اور کوئی فیصلہ نہیں ہو پار ہا تھا‘ تب لارڈمیکالے نے ہی اس تجویز کے حق میں اپنا ووٹ ڈال کر بزعم خویش برصغیر میں انگریزی زبان کے اجراء کا راستہ ہمیشہ کے لئے ہموار کردیا۔(۱۳)
ثمرات ونتائج
بالعموم ملک کے روشن خیال طبقہ کی طرف سے اس فیصلہ کی تعریف میں بڑے گن گائے جاتے ہیں کہ موصوف نے اس فیصلہ کے ذریعے دراصل ہندوستان کو آزادی کا پروانہ عطا کیا تھا یعنی اس نظام نے علی گڑھ تحریک کو جنم دیا اور علی گڑھ تحریک نے پاکستان کو جنم دیا۔
بقول صلاح الدین احمد:
”آج ہم اس مملکت میں ایک باوقار اور آزاد زندگی اس طرح بسر کررہے ہیں‘ گویا یہ ہمارا پیدائشی حق ہے۔ لیکن یاد رکھئے کہ اگر سرسید قومی وحدت اور قومی ہستی کی وہ بنیاد استوار نہ کرتے جس پر تحریک علی گڑھ کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی اور قومی احساس اور روشن خیالی کی وہ شمع روشن نہ کرتے جو آج سے کم وبیش پون صدی پیشتر انہوں نے روشن کی اور ہمیں ملا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلا کر زندگی کے صحیح انداز سے روشناس نہ کراتے تو آج ظلمستان ہند میں اسی طرح ٹھوکریں کھاتے پھرتے جس طرح نیم وحشی قبائل وسطی ہند کے جنگلوں میں اب بھی کرتے ہیں“۔ (۱۴)
حالانکہ یہ بات بدیہی طور پر غلط ہی نہیں‘ گمراہ کن بھی ہے۔ بلاشبہ قیام پاکستان کے حوالے سے علی گڑھ کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام‘ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے توسط سے علی گڑھ سے جا ملتا ہے‘ لیکن کیا محض اس وجہ سے علماء ہند اور ان ہزاروں مسلمانوں کی جد وجہد آزادی سے بیک جنبش قلم انکار کردیا جائے جو مسلم لیگ کے شریک سفر نہ تھے یا بالفاظ دیگر تحریک علی گڑھ سے وابستہ نہ تھے‘ جس نے بقول ان کے مسلمانان ہند کو ملا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلاکر زندگی کی صحیح اقدار سے روشناس کرایا۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی تاریخ نہ تو عدل وانصاف پر مبنی قرار دی جاسکتی ہے اور نہ ہی تحقیقی نکتہ نگاہ سے اس کی تائید کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آزادی کی اس تحریک میں ہندو ومسلم سب اقوام نے مل کر حصہ لیا تھا جس میں مسلمانوں کی قربانیاں برصغیر کے باقی مذاہب کے لوگوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ پھر مسلمانوں میں بھی علماء ہند کی جد وجہد آزادی کی ایک طویل تاریخ ہے جس کی دلخراش داستانیں کالاپانی (خلیج بنگال) سے لے کر مالٹا (بحیرہ روم) تک کے قیدخانوں سے مرتب کی جاسکتی ہیں۔ جب کہ بدقسمتی سے مسلم لیگ کا دامنِ تاریخ اس قسم کی قربانیوں سے تقریباً خالی ہے‘
رہی موصوف کی یہ بات کہ” سرسید کی تحریک نے ہمیں ملا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلا کر زندگی کی صحیح اقدار سے روشناس کرایا‘ ورنہ ہم لوگ ظلمستان ہند میں اسی طرح ٹھوکریں کھاتے پھرتے جس طرح نیم وحشی قبائل وسطی ہند کے جنگلوں میں اب بھی کرتے ہیں“
تو اس کا جواب صرف یہی دیا جاسکتا ہے کہ امت کے سواد اعظم نے سلف صالحین کا دامن پکڑتے ہوئے سرسید کی مذہبی تعبیرات کو قطعاً رد کردیا ہے۔ جو بقول مولانا ابو الکلام آزاد:
”یہ منزل مذہب کی طرف لے جانے والی نہیں‘ بلکہ مذہب سے انکار کی ایک نرم اور ملائم صورت ہے“۔ (۱۵)
اب اگر کوئی روشن خیال سلف سے روگردانی کرتے ہوئے سرسید کی ان تعبیرات کو اپنانا چاہتا ہے تو اسے مبارک ہو۔
۲- اس فیصلہ کی وجہ سے برصغیر کا فارسی خواں طبقہ جو زیادہ تر مسلمان تھا‘ پس منظر میں چلاگیا اور انگریزی کے نئے مقام کی وجہ سے ایک قسم کا ناخواندہ شمار ہونے لگا ،جب کہ ہندوؤں نے اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کے لئے زبردست جد وجہد کی ،جس کا اثر سرکاری ملازمتوں کے حصول پر بھی پڑا ،جیساکہ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپریل ۱۸۷۱ء میں صرف بنگال میں سرکاری ملازمتوں کی تقسیم کا جو نقشہ پیش کیا ہے‘ نہایت ہی مایوس کن ہے۔ واضح رہے کہ یہ فہرست صرف ان گزیٹیڈ ملازمتوں کی ہے جن پر ہندو‘ مسلمان اور انگریز سب فائز ہوسکتے ہیں‘ اس کے مطابق کل ۲۱۱۱ آسامیوں میں یورپئین کی تعداد ۱۳۳۸‘ ہندو ۶۸۱ اور مسلمان فقط ۹۲ ہیں۔ (۱۶)
ہائی کورٹ کے وکلاء کی فہرست جن کا درجہ بیرسٹروں سے ذرا کم ہے اور بھی زیادہ عبرتناک ہے اور یہ وہ شعبہ تھا جو تمام کا تمام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ ۱۸۵۱ء تک کل دوسو چالیس ہندوستانی داخل کئے گئے جن میں فقط ایک ہی مسلمان تھا۔
(۱۷)ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر مزید لکھتاہے کہ:
”حقیقت یہ ہے کہ ہمارا طریقہ تعلیم جس نے ہندوؤں کو ان کی صدیوں کی نیند سے جگایا اور ان کے کاہل عوام میں قومیت کے شریفانہ جذبات پیدا کردیئے ہیں‘ مسلمانوں کی روایات کے بالکل خلاف اور ان کی ضروریات کے بالکل غیر مطابق ہے‘ بلکہ ان کے مذہب کی تحقیر ہے‘ ہندو اسلامی حکومت میں بھی اپنی قسمت پر ایسے ہی مطمئن تھے جیسے کہ اب ہماری حکومت میں۔ آج کل ترجیح صرف اس شخص کو دی جاتی ہے جو انگریزی زبان جانتا ہو اور ہندو انگریزی خوب سیکھتے ہیں‘ اس سے پہلے ترجیح اس شخص کو دی جاتی تھی جو فارسی زبان جانتا تھا“۔(۱۸)
۳- سرسید احمد خان نے برصغیر پاک وہند میں لارڈمیکالے کے نظام تعلیم کو جس دلجمعی اور اخلاص سے متعارف کرانے کی کوشش کی‘ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے‘ جیساکہ آپ لارڈمیکالے صاحب کی تعریف میں رطب اللسان ہیں:”․․․․ہم صاف صاف کہنا چاہتے ہیں کہ ہم کو مشرقی علوم کی ترقی کے پھندے میں پھنسانا ہندوستانیوں کے ساتھ نیکی کرنا نہیں ہے‘ بلکہ دھوکہ میں ڈالنا ہے۔ ہم لارڈمیکالے کو دعا دیتے ہیں کہ خدا اس کو بہشت نصیب کرے کہ اس نے اس دھوکہ کی ٹٹی کو اٹھادیا تھا“۔ (۱۹)
علی گڑھ کالج کے مقاصد تعلیم اس ادارے کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کچھ یوں بیان کئے گئے ہیں:
”․․․․․ہم کو اس بات کی امید ہوتی ہے کہ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان جو اتحاد ہوا ہے وہ مدت دراز تک قائم رہے گا۔ پس اپنے ہم وطنوں کے دلوں پر ان باتوں کا روشن کرنا اور ان کو اس پر تعلیم دینا کہ وہ ان برکتوں کی قدر شناسی کرسکیں اور زمانہ سلف کے دھوکہ دینے والے خیالات کو باطل کرنا کہ جو ہماری ترقی کے مانع ہوتے ہیں․․․․ اور ہندوستان کے مسلمانوں کو سلطنت انگریزی کے لائق وکار آمد رعایا بنانا اور ان کی طبیعتوں میں اس قسم کی خیر خواہی پیدا کرنا جو ایک غیر سلطنت کی غلامانہ اطاعت سے نہیں‘ بلکہ عمدہ گورنمنٹ کی اصلی قدر شناسی سے پیدا ہوتی ہے․․․․“۔(۲۰)
بدقسمتی سے آج کی طرح اس دور میں بھی مسلمانوں کی تنزلی کا واحد علاج انگریزی کے حصول میں سمجھ لیا گیا تھا۔ بقول شیخ اکرام:
”․․․․․مسلمانوں کے مصائب اگر تمام تر اقتصادی ہوتے تب بھی ان کا حل آسان نہ تھا لیکن اس زمانے میں انہیں جو نئے مسائل پیش آرہے تھے‘ وہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تھے۔ اقتصادی اور ذہنی پستی کی اصلاح کے لئے ضروری تھا کہ مسلمان انگریزی تعلیم حاصل کریں اور وہ اس سے بدکتے تھے․․․․“۔ (۲۱)
اور مشکلات کا یہ ہفت خوان سرسید احمد خان نے سرکیا جس میں حکومت برطانیہ نے دامے درمے سخنے ان کی مکمل مددکی۔ لارڈناتھ بروک وائسرائے وگورنر جنرل ہند نے اپنی جیب سے دس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا‘
سرولیم میور نے (یوپی کے گورنر جس نے ذات اقدس ا پر رکیک حملے کئے تھے) ایک ہزار دیا اور دوسرے انگریز افسروں نے بھی مدد کی‘ اس طرح بالآخر ۸/جنوری ۱۸۷۷ء کو لارڈلٹن کے ہاتھوں ایم اے او کالج علی گڑھ کا افتتاح ہوا۔(۲۲)
جاری
حوالہ جات وحواشی
____________________________________
۱- اقبال حسن خان‘ ”شیخ الہند مولانا محمود حسن‘ حیات اور علمی کارنامے“ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ۱۹۷۳ء ص:۳۹۔
۲- منگلوری‘ طفیل احمد‘ سید‘ ”مسلمانوں کا روشن مستقبل“ حماد الکتبی شیش محل روڈ لاہور (س ن) ص:۱۶۲-۱۶۴۔
۳- ایضاً ص:۱۶۸-۱۶۹۔۴- ایضاً ص:۱۷۰۔
۵- الف: رضوی‘ سید محبوب‘ ”مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند“ میرمحمد کتب خانہ مرکز علم وادب آرام باغ کراچی جلد۱‘ص:۱۱۷-۱۲۰۔
ب۔ الحسنی ‘ سید محمد‘ ”سیرت مولانا محمد علی مونگیری“ مجلس نشریات اسلام کراچی (س ن) ص:۴۵-۶۹۔
۶- بخاری‘ سید شبیر‘ ”میکالے اور برصغیر کا نظام تعلیم“ آئینہ ادب چوک مینار‘ انارکلی لاہور ۱۹۸۶ء ص:۳۰-۳۳۔
۷- ایضاً ص:۳۳-۳۴۔ ایضاً ص:۳۷-۴۰۔ ۹-ایضاً ص:۴۲-۴۳۔
۱۰- ایضاً ص:۴۴-۴۵۔۱۱- ایضاًص:۴۶۔۱۲- ایضاً ص:۴۵۔
۱۳- مسلمانوں کا روشن مستقبل ص:۱۷۰-۱۷۱
۱۴- حالی‘ الطاف حسین‘ مولانا ”حیات جاوید“ آئینہ ادب چوک مینار انار کلی لاہور‘ ۱۹۶۶ء سرسید احمد خان پر ایک نظر ص:۴۶-۴۷
۱۵- ملیح آبادی‘ عبد الرزاق‘ ”ذکر آزاد“ مکتبہ جمال اردو بازار لاہور ۲۰۰۶ء ص:۱۵۲۔
۱۶- ہنٹر ‘ ڈبلیو ڈبلیو‘ آئی سی ایس بنگال‘ ”ہمارے ہندوستانی مسلمان“ مترجم ڈاکٹر صادق حسین دفتر اقبال اکیڈیمی ظفر منزل تاج پورہ لاہور ۱۹۴۴ء ص:۲۳۴-۲۳۵۔
۱۷- ایضاً ص:۲۳۸-۲۳۹۔ایضاً ص:۲۴۵۔ ۱۹-حیات جاوید ص:۴۰۲۔
۲۰- زبیری ‘ محمد امین‘ مولوی‘ ”تذکرہ سرسید“ پبلشر زیونائیٹڈ انار کلی لاہور (س ن) ص:۶۴-۶۵۔
۲۱- اکرام‘ شیخ محمد‘ ”موج کوثر“ ادارہ ٴ ثقافت اسلامیہ لاہور ۱۹۹۲ء ص:۷۷
۲۲- ایضاً ص:۸۸-۱۹