غالب لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور - غالب

مون

محفلین
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘
مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور

تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور

تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور

مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور

گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب‘
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
(غالب)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ مون! یہ غزل غالب نے اپنے بھتیجے کے انتقال پر کہی تھی - انکی چونکہ کوئی اولادِ نرینہ نہی تھی اس لیے عارف اپنے بھتیجے کو گود لے رکھا تھا- لیکن افسوس غالب کے کلکتہ کے قیام کے دوران اسکا بھی انتقال ہو گیا - اسی تناظر میں یہ غزل کہی گئی- "لازم تھا کہ دیکھو میرا رستہ کوئی دن اور"
 
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘
مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور

تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور

تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور

مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور

گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب‘
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
(غالب)

بہت خوب ۔ ۔
 

جیہ

لائبریرین
بہت شکریہ مون! یہ غزل غالب نے اپنے بھتیجے کے انتقال پر کہی تھی - انکی چونکہ کوئی اولادِ نرینہ نہی تھی اس لیے عارف اپنے بھتیجے کو گود لے رکھا تھا- لیکن افسوس غالب کے کلکتہ کے قیام کے دوران اسکا بھی انتقال ہو گیا - اسی تناظر میں یہ غزل کہی گئی- "لازم تھا کہ دیکھو میرا رستہ کوئی دن اور"

اس غزل کا شمار اردو کے بہترین مرثیوں میں ہوتا ہے۔ زین العابدین عارف غالب کے بھتیجے نہیں بلکہ غالب کی بیگم امراؤ بیگم کے بھانجے تھے۔ عارف کی وفات کے بعد غالب نے عارف کے دو بیٹوں کو گود لیا تھا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ جویریہ! آپ نے میرے علم میں اضافہ کیا، اور یقینا" یہ اردو ادب کا ایک بہترین مرثیہ ہے -
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اس غزل کا شمار اردو کے بہترین مرثیوں میں ہوتا ہے۔ زین العابدین عارف غالب کے بھتیجے نہیں بلکہ غالب کی بیگم امراؤ بیگم کے بھانجے تھے۔ عارف کی وفات کے بعد غالب نے عارف کے دو بیٹوں کو گود لیا تھا۔


جی بہت خوب میری معلومات میں بھی اضافہ ہوا شکریہ جیہ باجی
 

جیہ

لائبریرین
ب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ی؟؟؟؟؟؟؟:mad::eek::confused::(

کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
 
جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
بہت خوب!​
جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
بہت ہی خوب!
 
Top