لاش کے سوال

عثمان غازی

محفلین
۔
تحریرعثمان غازی

اس کو قبرمیں بند ہوئے آج تیسراروزتھا ۔ ۔ ۔ کوئی فرشتہ نہیں آیا، وہ سوال وجواب کا بے چینی سے منتظرتھا
طرح طرح کے اندیشے اس کے ذہن میں نمو پارہے تھے!
اس سے قبرمیں پوچھ گچھ کیوں نہیں ہورہی ۔ ۔ ۔ کیا سوال جواب کے فرشتے ہڑتال پر ہیں
اچانک ایک خیال نے اس کو جکڑلیا ۔ ۔ ۔ فرشتوں کا نا آنا اس کے زندہ ہونے کی دلیل تونہیں ہے ۔ ۔ نہیں ایسانہیں ہوسکتا، وہ مرچکاہے، اس نے اپنے خیال کو جھٹلایا
اورکتناانتظارکرائیں گے، اس نے فرشتوں کی جانب سے ممکنہ طورپرکئے جانے والے سوالوں کے جواب کو ایک دفعہ پھر رٹتے ہوئے سوچا
کہیں وہ اپنی موت کے معین وقت سے پہلے تو نہیں مرگیا، اس کی روح نہیں تھی مگر روح فرساخیال اس کو اب بھی آتے تھے
اس نے اپنی موت کے بارے میں پھر سوچناشروع کردیا، وہ کتے کی موت ماراگیاتھا، اس کے قاتل انجان تھے، وہ کراچی کی ایک گرم دوپہر میں ٹھنڈی موت مراتھا
فرشتوں کے تین سوالوں کے جواب تو اس کے پاس تھے مگر کیافرشتوں کے پاس بھی اس کے سوالوں کے جواب ہوں گے
جب اس کاجرم نہیں تھاتو وہ کیوں ماراگیا، ہوگا اس سوال کاجواب فرشتوں کے پاس
کیاکراچی کا شہری ہونے کاجرم گرم دوپہروں کی ٹھنڈی اموات ہیں، ہوگا اس سوال کاجواب فرشتوں کے پاس
فرشتے مجھ سے کیاسوال کریں گے، وہ تین روزپرانی لاش ہنسنے لگی، اس کے پاس تو خود سوالوں کا انبارتھا
 

نایاب

لائبریرین
زندہ ضمیر والوں کو یونہی پاگل تو نہیں کہا جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی پر نوحہ پڑھتی تقدیر کے فلسفے کو اک نئی جہت مائل بہ پرواز کرتی تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب محترم غازی بھائی
 

عمراعظم

محفلین
حقیقت یہی ہے کہ بے گناہ اور معصوم لوگوں کو اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ اُن کو کیوں نشانہ بنایا گیا ہے۔ اور اکثر اوقات تو مارنے والوں کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیوں کسی کی جان لے رہے ہیں چونکہ وہ تو جن کے گماشتے ہیں اُن کے حکم کی تعمیل کر رہے ہوتے ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ہمیں تو ہر سوال کا جواب پہلے ہی دے دیا گیا ہے۔۔۔ اب نہ ہم سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں، نہ ہمیں کوئی بتائے گا۔۔۔
مارنے والے کو خبر نہ ہوگی اس نے کیوں مارا اور مرنے والے کو پتہ نہ ہوگا کہ اسے کیوں مارا گیا۔۔۔ ۔یہ تو پیش گوئی ہے۔۔۔
فرشتوں کاکام تو سوال پوچھنا ہے ، جواب دینا نہیں۔۔۔ سو وہ کوئی جواب نہیں دیں گے۔۔۔
اور جب انسان مر جاتا ہے تو اس کی لاش کے سامنے اس کے کیے ہوئے اعمال کی فلم خودبخود چلنے لگتی ہے۔۔۔ وہ اسے بتاتی ہے کہ تم نے پوری زندگی میں کیا کیا گل کھلائے تھے۔۔۔ کون کون سی نیکیاں کی تھیں جن کے سبب تمہیں نجات کی آس لگانے کا حق حاصل ہے اور کون کون سی برائیاں کی تھیں جن کی پاداش میں تم قتل کیے گئے ۔۔۔
قرآن بڑی عجیب سی بات کرتا ہے۔۔ سورۃ التکویر، آیت نمبر 8 اور 9 میں لکھا ہے:
وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ ﴿٨﴾بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ ﴿٩﴾
اور جب زنده گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا کہ کس گناه کی وجہ سے وه قتل کی گئی؟ (8-9)
اب آپ ہی بتائیے ۔۔۔ خدا جسے سب کچھ معلوم ہے، وہ پوچھ رہا ہے۔۔۔ ۔کہ اے زندہ گاڑی ہوئی لڑکی۔۔۔ تو کس گناہ کی وجہ سے قتل کی گئی؟
اس کی تفسیر میں لکھا ہے: اس طرح دراصل قاتل کو سرزنش کی جائے گی کیونکہ اصل مجرم تو وہی ہو گا نہ کہ موءدۃ‌جس سے بظاہر سوال ہوگا۔
تو قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا تو خدا کی ذمہ داری ہوئی۔۔۔ لیکن لاش کا یہ سوچنا کہ میں فرشتوں سے پوچھوں اور فرشتے مجھے جواب دیں۔۔۔ بعید از عقل بات ہے۔۔۔ ایسے وقت میں انسان کا دل چاہتا ہے سوال خدا سے کیا جائے لیکن خدا تو پیدا کرنے والا ہے۔۔۔ اس سے کون پوچھے ؟ وہ ہر سوال کا جواب جانتا ہے اور جواب مل کر رہے گا۔۔۔۔ یہ بھی ایک وعدہ ہے جو ہم سے کیا گیا۔۔۔
بحوالہ:
http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=21667
 
موت سے انسان کتنا ہی کیوں نا بھاگے بچ نہیں سکتا اسے تو صرف بہانا چاہئے وہ بہانا بادام کو لیکر ہو یا یا محض ایک ہلکی سی ٹھیس ۔
 
Top