لالہ ! دیوالی ہے آئی

حیدرآبادی

محفلین
ہمارے وطن ہندوستان میں کل دیوالی منائی گئی۔ اس کا علم بھی اس سبب ہوا کہ آج یہاں کے ہندوستانی اسکولوں کو تعطیل ہے۔

دیوالی کو اردو اخبارات میں "روشنی کا تہوار" یا "جشنِ چراغاں" بھی کہا جاتا ہے۔

اس موقع پر نظیر اکبرآبادی کی وہ مشہور نظم "دیوالی" یاد آ گئی، جسے ہم نے اپنے بچپن میں پڑھا تھا۔

وہ دن بھی کیا دن تھے کہ محلے میں اپنے ہندو دوستوں کے گھر پٹاخوں کا تماشا دیکھنے جاتے تھے۔ عجیب عجیب سے رنگ برنگے نام تھے :

انار ، پھلجھڑی ، چکرم ، سانپ ، راکٹ ، چرخا ، پٹاخا بم ، بندر بم وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔

پھر لالہ جی چاچا سے قسم قسم کی رنگین مزیدار مٹھائیاں کھانے کو ملتیں جو ہم وہیں دروازے کے پاس جلدی جلدی کھا لیتے کہ گھر لے جاتے تو والدین سے ڈانٹ پڑتی تھی۔

کیا سنہرے دن تھے کہ فرقہ واریت اور تعصب کا بھوت کبھی محسوس نہ ہوا ۔۔۔ بچوں کو بھلا مذہبی اختلافات سے کیا مطلب ، وہ تو بس معصوم سی دوستی اور بےغرض پڑوسی تعلقات کو نبھانا جانتے تھے!

مگر آج وہ دن کہ ۔۔۔۔ ہمارے محلے میں شائد ہی ڈھونڈنے پر کسی ہندو کا کوئی گھر ملے ۔۔۔۔ برا ہو اس متعصب سیاست کا۔

اب تو شائد یہ بھی کم کسی کو یاد رہا ہے کہ دیوالی درحقیقت اُس دن کی یادگار ہے جب رام چندر جی چودہ برس کے بن باس کے بعد ایودھیا لوٹے تھے۔


بہرحال نظیر اکبرآبادی کی مشہور نظم "دیوالی" سے آپ بھی محظوظ ہوئیے گا۔ اہل علم وادب سے درخواست ہے کہ جہاں کہیں غلطی نظر آئے ، براہ مہربانی درستگی فرما دیں۔ کیونکہ ہم یہ نظم رومن اردو سے اصل اردو رسم الخط میں منتقل کر رہے ہیں۔


** دیوالی **


ہر ایک مکاں میں جلا پھر دیا دیوالی کا

ہر ایک طرف کو اجالا ہوا دیوالی کا

سبھی کے دل میں سماں بھا گیا دیوالی کا

کسی کے دل کو مزہ خوش لگا دیوالی کا


عجب بہار کا ہے دن بنا دیوالی کا


جہاں میں یارو، عجب طرح کا ہے یہ تہوار

کسی نے نقد لیا اور کوئی کرے ہے ادھار

کھلونے ، کلیوں ، بتاشوں کا گرم ہے بازار

ہر ایک دکان میں چراغوں کی ہو رہی ہے بہار


سبھوں کو فکر ہے جا بجا دیوالی کا


مٹھائیوں کی دکانیں لگا کے حلوائی

پکارتے ہیں کہ : لالہ ! دیوالی ہے آئی

بتاشے لے کوئی ، برفی کسی نے تُلوائی

کھلونے والوں کی اُن سے زیادہ بن آئی


گویا انہوں کے واں راج آ گیا دیوالی کا


صرف حرام کی کوڑی کا جن کا ہے بیوپار

انہوں نے کھایا ہے اس دن کے واسطے ہی ادھار

کہے ہیں ہنس کے قرض خواہ سے ہر ایک ، اک بار

"دیوالی آئی ہے ، سب دے چلیں گے اے یار

خدا کے فضل سے ہے آسرا دیوالی کا"


مکان لیپ کے ، ٹھیلیاں جو کوری رکھوائی

جلا چراغ کو ، کوڑی وہ جلد جھنکائی

اصل جواری تھے ، اُن میں تو جان سی آئی

خوشی سے خود اچھل کر پکارتے : او بھائی !

شگن پہلے کرو تم ذرا دیوالی کا


کسی نے گھر کی حویلی گرو رکھا ہاری

جو کچھ تھی جنس میسر ، بنا بنا ہاری

کسی نے چیز کسی کی چرا چھپا ، ہاری

کسی نے گٹھری پڑوسن کی اپنی لا ہاری


یہ ہار جیت کا چرچا پڑھا دیوالی کا


جہاں میں یہ دیوالی کی سیر ہوتی ہے

تو زر سے ہوتی ہے ، اور زر بغیر ہوتی ہے

جو ہارے ، اُن پہ خرابی کی پھیر ہوتی ہے

اور اُن میں آن کے جن جن کی خیر ہوتی ہے


تو آڑے آتا ہے اُن کے دِیا دیوالی کا


یہ باتیں سچ ہیں ، نہ جھوٹ تم ان کو جانیو یارو

نصیحتیں ہیں ، انہیں دل میں ٹھانیو یارو

جہاں کو جاؤ ، یہ قصہ بکھانیو یارو

جو جواری ہو ، نہ برا اس کو مانیو یارو


نظیر آپ بھی ہے جواریا دیوالی کا​
 

الف عین

لائبریرین
کل کہاں حیدرآبادی۔ آج دیوالی منائی جا رہی ہے۔ اس وقت مستقل پٹاخوں کی گونجوں کے سوا کوئی آواز نہیں ہے۔ تہوار روشنی کا ہوتا ہے لیکن اب تو آوازوں اور شور کا مانا جاتا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا نے بھاری کیمپین چلا رکھا ہے کہ اس بار "خاموش اور سبز" دیوالی منائی جائے۔ لیکن نقار خانہ ہے یہ۔۔۔۔۔
ہندوستانی ہندو بھائیوں کو دیوالی مبارک ہو۔
ویسے حیدر آبادی کے پیغام سے ہم کو علی گڑھ یاد آگیا۔ دیوالی کے دن اپنے محبوب استاد شری واستو صاحب کے گھر ضرور جاتے تھے۔ پنڈت بھاردواج بھی اچھے بزرگ تھے جن کو ہم طلباء بھی پنڈت جی کہتے تو برا نہیں مانتے تھے۔ ابھی مارچ میں ہی ان سے علی گڑھ کے شعبۂ ارضیات میں ہی ملاقات ہوئی لیکن دو ہفتے بعد ہی معلکوم ہواس کہ انتقال کر گئے۔ شاید علی گڑھ کی میری پکاسا البم میں ان کی بھی تصویر ہو گی۔
اور ہمارے کلاس فیلو۔۔ راجیو اور اودھیش ماتھر۔۔ ہر عید پر ہمارے گھر بھی آتے تھے۔ بلکہ محض ایسے تہواروں کے ،وقع پر یاد آا تھا کہ ایک دوسرے کو السلام علیکم کہنے والے یہ دوست غیر مسلم ہیں، کلاسوں میں تو احساس بھی نہی‫‫ں ہوتا تھا۔ مذاق میں ان دوستوں کو مونہہ پر بھی یوں ’کاندو‘ کہ دیتے تھے۔
ویسے حالات اب بھی اتنے خراب بھی نہیں ہوئے ہیں حیدر آبادی۔۔فسادات وغیرہ تو فرقہ پسند پارٹیاں کراتی ہیں، اور یہی پارٹیاں منافرت کا زہر بھی گھولتی ہیں۔
 
Top