ناصر علی مرزا
معطل
پاکستان کے قیام سے سات سال پہلے اُن کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ تقسیم کے بعد یہ خاندان ضلع گجرات کی تحصیل لالہ موسیٰ کے ایک نواحی گائوں میں آ بسا۔ نَومولود کا بچپن بھارتی کُوچوں میں گم ہو گیا ، تو نوجوانی پاکستان کے گلی محلوں میں کھو گئی۔ بالکل عنفوانِ شباب میں کہ جب یہ نوجوان صرف اکیس سال کا کڑیل تھا ، اس نے گھر بار کو چھوڑا اور تلاشِ روزگار کی غرض سے بیرونِ ملک کے لیے رختِ سفر باندھا۔ یہ وہ دَور تھا کہ جب برطانوی اپنے سابقہ غلاموں سے بہت خوش تھے اور انگلستان آنے کی کوئی پابندی نہیں تھی بلکہ دونوں حکومتوں کی طرف سے ایسی ’’ہجرت‘‘ کی حوصلہ افزائی ہو رہی تھی۔ غرضیں اور ضرورتیں انسانوں کے علاوہ حکومتوں کو بھی بہت قریب کر دیتی ہیں۔ پاکستان کو بیروزگاری کا سامنا تھا اور ولایت والوں کو مزدوروں کی ضرورت تھی ، طرفین غرض مند تھے اس لیے دھڑا دھڑ لوگ جانے لگے۔ اسی ہڑبونگ میں ایک مقامی شخص نے اس نوجوان کے پاسپورٹ کا انتظام کیا اور کسی ایسے فرد کا ایڈریس بھی لکھ دیا کہ جس نے پردیس میں اسے ٹھکانا دینا تھا۔ کراچی کے ہوائی اڈے پر اس بے آسرا مسافر کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے پانچ پائونڈ بطورِ زادِ راہ عطا کیے گئے ، تاکہ اچھا وقت آنے پر اس ’’احسانِ عظیم‘‘ کو یاد رکھ سکے۔ 1961ء میں جب یہ مسافر گلاسگو کے ہوائی اڈے پر اُترا ، تو اُس کے پاس سرکاری عطیے کے سوا کوئی پنس تھا اور نہ انگریزی سے ذرا آشنائی۔ پاسپورٹ بنا کر دینے والے نے وعدہ کیا کہ ٹیلی گراف ہو چکا ہے ۔اس لیے میرا کزن استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر موجود ہو گا۔ دیارِ غیر ، اجنبی زبان اور مختلف تہذیب والے اس شہر میں بھٹکا ہوا یہ نوجوان سوٹ کیس اُٹھائے جب ایئر پورٹ سے باہر نکلا ، تو وہ بالکل اکیلا تھا۔ استقبال کے لیے کوئی موجود تھا اور نہ کسی کو پیشگی اطلاع تھی۔ تنہا جان ، ہزار غم اور طویل زندگی تھی۔ پریشانی کے عالم میں ایک بس ڈرائیور اس کے پاس آیا اور کوئی بات کی کہ جسے وہ سمجھ نہیں پایا ، لیکن مسافر نے ایک چِٹ اُسے تھما دی کہ جس پر ’’کزن‘‘ کا پتہ لکھا تھا۔ ڈرائیور نے اُس کی طرف دیکھا اور ساتھ چلنے کو کہا۔ کرایہ اکٹھا کرتے ہوئے اُس نے پردیسی کو نظر انداز کر دیا۔ سٹی سنٹر پہنچ کر سبھی مسافر اُتر گئے ، تو یہ نوجوان اکیلا رہ گیا۔ ڈرائیور نے کاغذ کے ٹکڑے کو دوبارہ دیکھا اور بس کو چھوٹی سڑک کی طرف موڑ دیا۔ مطلوبہ مقام پراُس نے گھر کی گھنٹی بجائی اور اجنبی کو اُس کے ’’اپنوں‘‘ کے حوالے کر دیا۔ آخر کاربشیر احمد صاحب نے 1995ء میں سکاٹش نیشنل پارٹی کے ایشیائی وِنگ ’’سکاٹش ایشین فار انڈی پینڈنس‘‘ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور اس کے صدر منتخب ہوئے۔ سکاٹش کی آزادی کے حوالے سے ان کا جو اندازِ فکر تھا اُسے ایشیائی معاشرے میں بڑی پذیرائی ملی کیونکہ تقسیمِ ہند کے حوالے سے وہ جانتے تھے کہ آزادی کتنی اہم ہوتی ہے اور وہ کیا تقاضے کرتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ ایس این پی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر بن گئے۔ مرکزی شوریٰ کا رُکن اور ایشیائی کمیونٹی کی نمائندہ آواز ہونے کی وجہ سے سکاٹش اراکین کی نظر میں اہمیت بڑھ گئی۔ پاکستانی نژادوں کے علاوہ ایشیائی تارکینِ وطن بھی ان کے جذبہِ خدمت اور اخلاص کے معترف ہو گئے۔ اسی بدولت آپ ’’پاکستان ویلفئیر ٹرسٹ‘‘ کے پانچ مرتبہ صدر بھی بنے۔ سکاٹش نیشنل پارٹی میں شمولیت کے بعد ایک تقریب میں پارٹی کے سربراہ الیکس سالمنڈ نے ان کی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے اسے پارٹی کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ اس موقع پر پارٹی کے رہنما نکولا سٹرجن نے کہا کہ بشیر احمد سکاٹش پارلیمنٹ کے پہلے ایشیائی ممبر ہوں گے۔ بشیر احمد 2003ء میں پولک شیلڈز ، ایسٹ سے گلاسگو سِٹی کونسل کے کونسلر بھی منتخب ہوئے اور اس ضمن میں اپنی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔
(اشتیاق احمد گھمن کی کتاب’’برطانیہ:میری نظر میں‘‘ سے ماخوذ)٭…٭…٭
(اشتیاق احمد گھمن کی کتاب’’برطانیہ:میری نظر میں‘‘ سے ماخوذ)٭…٭…٭