ساجداقبال
محفلین
مجھے نہیں معلوم کہ یہ بینڈ کتنا پرانا ہے، میرے لیے تو نیا ہی ہے۔ اب تک میں نے ان کے دو گیت سنے ہیں جو دونوں ہی ترقی پسند شعراء فیض اور جالب کی نظمیں ہیں۔
میں نے اس سے یہ کہا (حبیب جالب)
[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=XPsr1RnEfWo[/youtube]
میں نے اُس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہو گئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اُس سے یہ کہا
............
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
تو ہے مہرِصبحِ نو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ لے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا
میں نے اُس سے یہ کہا
............
جن کو تھا زَباں پہ ناز
چُپ ہیں وہ زَباں دراز
چَین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اُس کی بخش دے خطا
میں نے اُس سے یہ کہا
............
چِین اپنا یار ہے
اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام
اس طرف نہ جائیو
اس کو دُور سے سلام
دس کروڑ یہ گدھے
جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تُو ”یقیں“ ہے یہ ”گماں“
اپنی تو دُعا ہے یہ
صدر تو رہے سدا
میں نے اُس سے یہ کہا
بشکریہ ملت
امید سحر (فیض احمد فیض)
[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=OjaNQFChkCY[/youtube]
جگر دریدہ ہوں،
چاک جگر کی بات سنو
امیدِ سحر کی بات سنو
الم رسیدہ ہوں
دامانِ تر کی بات سنو
امیدِ سحر کی بات سنو
زباں بریدہ ہوں
زخمِ گلو سے حرف کرو
امیدِ سحر کی بات سنو
شکستہ پا ہوں
ملالِ سفر کی بات سنو
امیدِ سحر کی بات سنو
مسافری رہِ صحرائے ظلمتِ شب سے
اب التفاتِ نگارِ سحر کی بات سنو
سحر کی بات
امیدِ سحر کی بات
امیدِ سحر کی بات
امیدِ سحر کی بات
امیدِ سحر کی بات
امیدِ سحر کی بات
بشکریہ عمار(درستگی کر کے )
یہ آخری والا تو مجھے بیحد پسند ہے، ویڈیو بھی اچھی ہے۔ دن میں، میں کم ازکم چھ مرتبہ سنتا ہوں۔
میں نے اس سے یہ کہا (حبیب جالب)
[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=XPsr1RnEfWo[/youtube]
میں نے اُس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہو گئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اُس سے یہ کہا
............
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
تو ہے مہرِصبحِ نو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ لے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا
میں نے اُس سے یہ کہا
............
جن کو تھا زَباں پہ ناز
چُپ ہیں وہ زَباں دراز
چَین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اُس کی بخش دے خطا
میں نے اُس سے یہ کہا
............
چِین اپنا یار ہے
اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام
اس طرف نہ جائیو
اس کو دُور سے سلام
دس کروڑ یہ گدھے
جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تُو ”یقیں“ ہے یہ ”گماں“
اپنی تو دُعا ہے یہ
صدر تو رہے سدا
میں نے اُس سے یہ کہا
بشکریہ ملت
امید سحر (فیض احمد فیض)
[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=OjaNQFChkCY[/youtube]
جگر دریدہ ہوں،
چاک جگر کی بات سنو
امیدِ سحر کی بات سنو
الم رسیدہ ہوں
دامانِ تر کی بات سنو
امیدِ سحر کی بات سنو
زباں بریدہ ہوں
زخمِ گلو سے حرف کرو
امیدِ سحر کی بات سنو
شکستہ پا ہوں
ملالِ سفر کی بات سنو
امیدِ سحر کی بات سنو
مسافری رہِ صحرائے ظلمتِ شب سے
اب التفاتِ نگارِ سحر کی بات سنو
سحر کی بات
امیدِ سحر کی بات
امیدِ سحر کی بات
امیدِ سحر کی بات
امیدِ سحر کی بات
امیدِ سحر کی بات
بشکریہ عمار(درستگی کر کے )
یہ آخری والا تو مجھے بیحد پسند ہے، ویڈیو بھی اچھی ہے۔ دن میں، میں کم ازکم چھ مرتبہ سنتا ہوں۔