تشکراعلیٰ جناب۔
لال زادہ صاحب ایک کمال ہستی معلوم پڑتے ہیں۔
ضروردلچسپ کردار ہے
مزید بھی لکھیے گا
ہاہاہاہا۔جب میں پڑھ رہا تھا تو ایک زبردست اداکار ، نانا پاٹیکر کا ایک کلپ ذہن میں آ رہا تھا ڈھونڈا تو مل بھی گیا ۔
پھر تو عنوان "کمال زادہ" ہونا چاہیے تھاباکمال ہستی۔
بجا فرمایاپھر تو عنوان "کمال زادہ" ہونا چاہیے تھا
ہاں جی۔ آج اگلا واقعہ شراکت کرنے کی کوشش کرتا ہوںبہت دلچسپ کردار ہے۔
ممنونطرزِ تحریر بھی بہت پیارا ہے
انشااللہ جی۔ ضروربہت خوب جاری رکھیں اسے ۔
ہاہاہا بہت دلچسپ
آداب۔ شکریہ
پھر آپ سیٹ رہے؟لال زادہ کے آباء چترال سے تھے، اور اس کے دادا ہجرت کر کے مردان کے پاس رشکئی (پشتو تلفظ میں رشا کئی) نامی جگہ پر آباد ہو گئے تھے۔ تب مجھے یاد پڑا کہ پہلی ملاقات کے اختتام پر اس نے کسی زبان میں کچھ کہا تھا جو مجھے سمجھ ہی نہیں آئی تھی دراصل چترالی تھی۔
کچھ دنوں کے مسلسل آمنے سامنے آنے اور کچھ میری اور شاید لال زادہ کی پسندیدگی کی وجہ سے بھی میری اس کی دوستی ہو گئی۔ لال زادہ کمپنی دفاتر سے تھوڑا دور خیمہ بستی (کیمپ سائیٹ) میں رہتا تھا تو اکثر کام کے اوقات کے دوران بھی اور بعد میں بھی میرے کنٹینٹر میں آتا جاتا رہتا۔ دن میں کم از کم ایک چکر تو لازمی تھا۔ وقت چاہے کچھ بھی ہو، آتے ساتھ سلام دعا کے بعد جو بات سب سے پہلے اس نے پوچھنی ہوتی تھی 'صابا ٹی بریک لاؤں' ؟
شروع شروع میں تو مجھے حیرت ہوتی کہ دوپہر ہو، سہ پہر ہو یا شام وہ ہمیشہ یہی کیوں پوچھتا ہے ؟ لیکن میرے پاس اس کے اس سوال کی کوئی وضاحت نہیں تھی سو میں نے بھی غور کرنا چھوڑ دیا اور خود بھی یہ سوال اس سے نہ کیا کہ وہ ایسا کیوں کہتا ہے ؟ کوئی دو سالوں کے بعد اس نے میرے لیے معمہ بنے اس سوال کا خود ہی جواب دے دیا۔ ایک دن ناجانے کیسے باتوں باتوں میں کہنے لگا کہ میرا ابو بولتا ہے 'ان صاحب لوگوں کو چائے پانی پوچھتے رہو تو سیٹ رہتے ہیں، ورنہ کوئی نا کوئی پنگا ڈالے آپ کو تنگ کیے رکھتے ہیں' ۔ میں تھوڑا حیران ہوا۔ اس سے کہا لال زادہ مجھے بھی تو روزانہ ہی پوچھتے ہو اور میں اس کمپنی کا بھی نہیں ہوں، اس میں کیا مصلحت ہے؟ جواباً بولا، آپ آج کنسلٹنٹ آفس میں ہو، ہو سکتا ہے کل کلاں کو ہماری کمپنی میں آ جاؤ، اس لیے پوچھتا ہوں، تاکہ ہاتھ میں رہو'
چار سال اکٹھے رہے اور دوستی بھی رہی تو سیٹ ہی سیٹپھر آپ سیٹ رہے؟
تجربہ کا کوئی نعم البدل نہیں.لال زادہ کے آباء چترال سے تھے، اور اس کے دادا ہجرت کر کے مردان کے پاس رشکئی (پشتو تلفظ میں رشا کئی) نامی جگہ پر آباد ہو گئے تھے۔ تب مجھے یاد پڑا کہ پہلی ملاقات کے اختتام پر اس نے کسی زبان میں کچھ کہا تھا جو مجھے سمجھ ہی نہیں آئی تھی دراصل چترالی تھی۔
کچھ دنوں کے مسلسل آمنے سامنے آنے اور کچھ میری اور شاید لال زادہ کی پسندیدگی کی وجہ سے بھی میری اس کی دوستی ہو گئی۔ لال زادہ کمپنی دفاتر سے تھوڑا دور خیمہ بستی (کیمپ سائیٹ) میں رہتا تھا تو اکثر کام کے اوقات کے دوران بھی اور بعد میں بھی میرے کنٹینٹر میں آتا جاتا رہتا۔ دن میں کم از کم ایک چکر تو لازمی تھا۔ وقت چاہے کچھ بھی ہو، آتے ساتھ سلام دعا کے بعد جو بات سب سے پہلے اس نے پوچھنی ہوتی تھی 'صابا ٹی بریک لاؤں' ؟
شروع شروع میں تو مجھے حیرت ہوتی کہ دوپہر ہو، سہ پہر ہو یا شام وہ ہمیشہ یہی کیوں پوچھتا ہے ؟ لیکن میرے پاس اس کے اس سوال کی کوئی وضاحت نہیں تھی سو میں نے بھی غور کرنا چھوڑ دیا اور خود بھی یہ سوال اس سے نہ کیا کہ وہ ایسا کیوں کہتا ہے ؟ کوئی دو سالوں کے بعد اس نے میرے لیے معمہ بنے اس سوال کا خود ہی جواب دے دیا۔ ایک دن ناجانے کیسے باتوں باتوں میں کہنے لگا کہ میرا ابو بولتا ہے 'ان صاحب لوگوں کو چائے پانی پوچھتے رہو تو سیٹ رہتے ہیں، ورنہ کوئی نا کوئی پنگا ڈالے آپ کو تنگ کیے رکھتے ہیں' ۔ میں تھوڑا حیران ہوا۔ اس سے کہا لال زادہ مجھے بھی تو روزانہ ہی پوچھتے ہو اور میں اس کمپنی کا بھی نہیں ہوں، اس میں کیا مصلحت ہے؟ جواباً بولا، آپ آج کنسلٹنٹ آفس میں ہو، ہو سکتا ہے کل کلاں کو ہماری کمپنی میں آ جاؤ، اس لیے پوچھتا ہوں، تاکہ ہاتھ میں رہو'
ہا ہا ہالال زادہ کے آباء چترال سے تھے، اور اس کے دادا ہجرت کر کے مردان کے پاس رشکئی (پشتو تلفظ میں رشا کئی) نامی جگہ پر آباد ہو گئے تھے۔ تب مجھے یاد پڑا کہ پہلی ملاقات کے اختتام پر اس نے کسی زبان میں کچھ کہا تھا جو مجھے سمجھ ہی نہیں آئی تھی دراصل چترالی تھی۔
کچھ دنوں کے مسلسل آمنے سامنے آنے اور کچھ میری اور شاید لال زادہ کی پسندیدگی کی وجہ سے بھی میری اس کی دوستی ہو گئی۔ لال زادہ کمپنی دفاتر سے تھوڑا دور خیمہ بستی (کیمپ سائیٹ) میں رہتا تھا تو اکثر کام کے اوقات کے دوران بھی اور بعد میں بھی میرے کنٹینٹر میں آتا جاتا رہتا۔ دن میں کم از کم ایک چکر تو لازمی تھا۔ وقت چاہے کچھ بھی ہو، آتے ساتھ سلام دعا کے بعد جو بات سب سے پہلے اس نے پوچھنی ہوتی تھی 'صابا ٹی بریک لاؤں' ؟
شروع شروع میں تو مجھے حیرت ہوتی کہ دوپہر ہو، سہ پہر ہو یا شام وہ ہمیشہ یہی کیوں پوچھتا ہے ؟ لیکن میرے پاس اس کے اس سوال کی کوئی وضاحت نہیں تھی سو میں نے بھی غور کرنا چھوڑ دیا اور خود بھی یہ سوال اس سے نہ کیا کہ وہ ایسا کیوں کہتا ہے ؟ کوئی دو سالوں کے بعد اس نے میرے لیے معمہ بنے اس سوال کا خود ہی جواب دے دیا۔ ایک دن ناجانے کیسے باتوں باتوں میں کہنے لگا کہ میرا ابو بولتا ہے 'ان صاحب لوگوں کو چائے پانی پوچھتے رہو تو سیٹ رہتے ہیں، ورنہ کوئی نا کوئی پنگا ڈالے آپ کو تنگ کیے رکھتے ہیں' ۔ میں تھوڑا حیران ہوا۔ اس سے کہا لال زادہ مجھے بھی تو روزانہ ہی پوچھتے ہو اور میں اس کمپنی کا بھی نہیں ہوں، اس میں کیا مصلحت ہے؟ جواباً بولا، آپ آج کنسلٹنٹ آفس میں ہو، ہو سکتا ہے کل کلاں کو ہماری کمپنی میں آ جاؤ، اس لیے پوچھتا ہوں، تاکہ ہاتھ میں رہو'