عبدالقیوم چوہدری
محفلین
سنہ انیس سو ستانوے کی بات ہے، مجھے ایبٹ آباد کے نواح میں ایک پہاڑی سڑک پر تعمیراتی کام کرنے والی کمپنی کے کنسلٹنٹ آفس میں ایک پوسٹ پر تعیناتی ملی۔ کنسلٹنٹ آفس کمپنی کے مرکزی دفاتر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا اور پیدل ہی وہاں آتے جاتے تھے۔ ابھی نئی جگہ گئے چار ہی دن ہوئے تھے کہ اختتام ہفتہ آ گیا۔ دو اڑھائی بجے کے قریب میں اپنے دفتر سے گھر جانے کے لیے نکل پڑا اور دفاتر کے ساتھ ہی سڑک پر جا کھڑا ہوا کہ وہیں ویگن یا سوزوکی وغیرہ ایبٹ آباد شہر جانے کے لیے مل جاتیں تھیں۔ دس بارہ منٹ بعد ایک ویگن آ گئی اور میں اس میں سوار ہو گیا۔کچھ دیر بعد کنڈیکٹر نے سب سے کرایہ اکٹھا کرنا شروع کر دیا جو ساڑھے تین روپے تھا۔ اب سارے مسافر کرایہ دیتے جارہے تھے ، اپنی باری پر میں نے بھی دے دیا۔ ایک موٹے تازے کوئی تیس بتیس سال کے مسافر سے کنڈیکٹر نے کرایہ مانگا تو اس نے جواب دیا کہ اور مسافروں سے لے لو پھر دیتا ہوں۔ کنڈیکٹردیگر مسافروں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ جب سب سے کرایہ اکٹھا کر لیا تو پھر اس مسافر سے کرایہ مانگا، اب دونوں میں کیا گفتگو ہوئی :-
کنڈیکٹر : بھائی صاحب کرایہ دے دو۔
مسافر : سب سے لے لیا ہے؟
کنڈیکٹر : ہاں جی سب سے لے لیا۔
اچھا۔کوئی رہ تو نہیں گیا، پھر دیکھ لو۔
کنڈیکٹر : بھائی سب سے لے لیا ہے۔
مسافر : اچھا۔۔۔۔ اور پھر اپنا دھیان باہر کی طرف کر لیا
کنڈیکٹر نے کوئی ایک آدھ منٹ دیکھا اورپھر کرایہ مانگا۔
مسافر تھوڑی دیر سوچنے کے بعد : میرے پاس ٹوٹے (کھلے) نہیں ہیں۔
کنڈیکٹر : کتنے کا نوٹ ہے، لاؤ میں کھلے کر دیتا ہوں۔
مسافر : بھائی کچھ دیر صبر کرو میں ایبٹ آباد اتر کر دے دوں گا۔
کنڈیکٹر کو بھی جیسے ضد ہو گئی ۔۔۔ کہنے لگا کہ تم ابھی کرایہ دو میں تمھیں کھلا دوں گا بھلے ہزار کا ہی نوٹ کیوں نا ہو، لیکن مسافر تو جیسے تہیہ کر کے آیا ہوا تھا۔۔۔۔۔مسلسل ہولے ہولے یہی دہرا رہا ۔۔۔ اتر کر دوں گا۔ اتر کر دوں گا۔
اب اس بحث کو تقریباً سب ہی سن رہے تھے۔آخر تنگ آ کر ایک بندہ بول ہی پڑا کہ بھائی صاحب وہ کہہ جو رہا ہے کہ میں کھلا دے دوں گا تو آپ کرایہ دے دیں۔ لیکن مسافر بھی انکار میں مسلسل سر ہلاتا جائے اور یہی جواب د ہرائے کہ بھائی اتر کر دوں گا۔ اس آدمی نے جب یہ صورتحال دیکھی تو جیب سے پیسے نکال کر جس میں کافی سارے، ایک دو، پانچ، دس، پچاس اور سو کے نوٹ تھے اس کے سامنے کر دئیے کہ یہ لیں جتنے کھلے چاہیے لے لیں اور مہربانی کر کے اسے کرایہ دیں اوریہ چخ چخ بند کریں۔
مسافر نے نہایت اطمینان سے اس کے ہاتھ پر پڑے سارے نوٹوں کو دیکھا اور بڑے ہی معصومانہ انداز میں بولا۔ بھائی جان آپ کے پاس بھی کھلا نہیں ہے۔ آپ یہ سارے پیسے جیب میں ڈال لیں، کہیں ہوا سے اڑ ہی نہ جائیں۔
اب باقی سب مسافر تماش بین بنے اس ساری گفتگو سے لطف اندوز ہورہے اور کنڈیکٹر اور وہ مسافر اس سے بحث کر رہے کہ تمھارے پاس کونسا ایسا نوٹ ہے جس کا کھلا دستیاب نہیں۔ لیکن جناب صاحب نوٹ کی بابت تو بات ہی نہ کریں، بس 'اتر کر دوں گا'، 'اتر کر دوں گا'۔
یوں ہی ہلکے پھلکے بحث مباحثے میں ایبٹ آباد آ گیا۔ ایک ایک کر کے مسافر اترتے جا رہے تھے ۔ مجھے بندے میں تھوڑی سی انٹریسٹ پیدا ہو گئی تھی تو میں ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا کہ دیکھوں اب کیا کرتا ہے۔
وہ نیچے اترا ، پھر اپنا بیگ کنڈیکٹر کو پکڑایا اور بولا 'یہ پکڑو اور نیچے نہیں رکھنا، میں ابھی آیا'۔ کنڈیکٹر بیچارہ بیگ پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ چلتا چلتا دوکانوں کی طرف نکل گیا ، پھر کچھ دیر بعد واپس آیا اور کنڈیکٹر کو پورے ساڑھے تین روپے کرایہ ادا کرکے اپنا بیگ لے کرمین بس اسٹینڈ کی طرف جانے والے رستے پر ہو لیا۔
مجھے بھی اسی طرف جانا تھا ، میں بھی آہستہ آہستہ اس کے پیچھے چل پڑا اور کچھ ہی دیر میں اسے جا لیا۔ سلام دعا کی اور اس سے پوچھا کہ آخر اس نے ویگن میں کرایہ کیوں نہیں دیا ؟ پہلے تو اس نے میری طرف دیکھا، پھر سوال کیا، 'اچھا تو آپ بھی اس ویگن سے اترے ہیں ؟' میں نے کہا 'ہاں جی اور میں آپ کی ساری گفتگو سن رہا تھا اسی لیے اب پوچھ رہا ہوں'۔ کہنے لگا 'میرے پاس پانچ روپے کا نوٹ تھا، میں کنڈیکٹر کو دیکھ رہا تھا کہ وہ سب سے پیسے لیکر انھیں آٹھ آنے سمیت بقایا واپس کر رہا ہے، لیکن جب اس نے آخری دو سواریوں سے کرایہ لیا تو انھیں اٹھنی واپس نہیں کی اور انھیں کہا کہ میرے پاس چینج نہیں ہے اور مسافروں نے بھی چپ سادھ لی' ۔ اب اگرمیں اسے ویگن میں پانچ روپے دے دیتا تو مجھے بھی اٹھنی واپس نہیں ملنی تھی اس لیے میں بار بار کہہ رہا تھا کہ اتر کر دوں گا۔ پھر کچھ فخریہ سے انداز میں بات کو آگے بڑھاتا ہوا بولا، 'اب میں نے ایک دوکان سے چینج کروا کر اسے پورے ساڑھے تین روپے دے دئیے ہیں اور مجھے اٹھنی کا نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔'
میں زور زور سے ہنسنے لگا کہ ایک اٹھنی کے لیے بندے نے آدھا پونا گھنٹہ اتنے لوگوں کو وختہ ڈالے رکھا ہے۔ یونہی چلتے چلتے ہم مین سٹینڈ کے نزدیک آتے جا رہے تھے۔ میں نے پوچھا بھائی آپ کا نام کیا ہے ؟
مسافر : جی میرا نام لال زادہ ہے ۔
میں : اچھا۔۔۔۔ کیا کرتے ہیں ؟
لال زادہ : جی ڈرلر ہوں۔
میں : کہاں پر ؟
لال زادہ : فلانی کنسٹریکشن کمپنی میں۔
اب میں نے اسے بتایا کہ میں بھی وہیں پر کنسلٹنٹ آفس میں نیا آیا ہوں ۔ اسٹینڈ آ گیا تو اس نے مجھے بتایا کہ میں نے مردان والی ویگن پر جانا ہے، اور میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ اللہ حافظ ۔
میں نے ہاتھ ملاتے ہوئے، چند لمحے کے لیے اسکا ہاتھ تھاما اور پھر کہا۔ 'لال زادہ، جن دو مسافروں کو بقایا اٹھنی نہیں ملی تھی، ویگن سے اترتے ہوئے کنڈیکٹر نے انھیں ایک ایک روپیہ واپس کیا ہے۔'
یہ سنتے ہی لال زادہ نے ہاتھ چھڑایا اور زور سے ماتھے پر مارا اور بیگ کو جھولی میں رکھتے ہوئے وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر کسی انجانی زبان میں کچھ بولا، جو مجھے پلے نہیں پڑا۔۔لیکن مجھے یوں ہی سمجھ آئی جیسے کہہ رہا ۔۔۔ 'ہائے او میریا ربا، میں تے لٹیا گیا۔'
۔۔۔
لال زادہ کے ساتھ چار سال گزرے، اس کے کچھ اور دلچسپ قصے وقت ملا تو ضرور شئیر کروں گا۔
کنڈیکٹر : بھائی صاحب کرایہ دے دو۔
مسافر : سب سے لے لیا ہے؟
کنڈیکٹر : ہاں جی سب سے لے لیا۔
اچھا۔کوئی رہ تو نہیں گیا، پھر دیکھ لو۔
کنڈیکٹر : بھائی سب سے لے لیا ہے۔
مسافر : اچھا۔۔۔۔ اور پھر اپنا دھیان باہر کی طرف کر لیا
کنڈیکٹر نے کوئی ایک آدھ منٹ دیکھا اورپھر کرایہ مانگا۔
مسافر تھوڑی دیر سوچنے کے بعد : میرے پاس ٹوٹے (کھلے) نہیں ہیں۔
کنڈیکٹر : کتنے کا نوٹ ہے، لاؤ میں کھلے کر دیتا ہوں۔
مسافر : بھائی کچھ دیر صبر کرو میں ایبٹ آباد اتر کر دے دوں گا۔
کنڈیکٹر کو بھی جیسے ضد ہو گئی ۔۔۔ کہنے لگا کہ تم ابھی کرایہ دو میں تمھیں کھلا دوں گا بھلے ہزار کا ہی نوٹ کیوں نا ہو، لیکن مسافر تو جیسے تہیہ کر کے آیا ہوا تھا۔۔۔۔۔مسلسل ہولے ہولے یہی دہرا رہا ۔۔۔ اتر کر دوں گا۔ اتر کر دوں گا۔
اب اس بحث کو تقریباً سب ہی سن رہے تھے۔آخر تنگ آ کر ایک بندہ بول ہی پڑا کہ بھائی صاحب وہ کہہ جو رہا ہے کہ میں کھلا دے دوں گا تو آپ کرایہ دے دیں۔ لیکن مسافر بھی انکار میں مسلسل سر ہلاتا جائے اور یہی جواب د ہرائے کہ بھائی اتر کر دوں گا۔ اس آدمی نے جب یہ صورتحال دیکھی تو جیب سے پیسے نکال کر جس میں کافی سارے، ایک دو، پانچ، دس، پچاس اور سو کے نوٹ تھے اس کے سامنے کر دئیے کہ یہ لیں جتنے کھلے چاہیے لے لیں اور مہربانی کر کے اسے کرایہ دیں اوریہ چخ چخ بند کریں۔
مسافر نے نہایت اطمینان سے اس کے ہاتھ پر پڑے سارے نوٹوں کو دیکھا اور بڑے ہی معصومانہ انداز میں بولا۔ بھائی جان آپ کے پاس بھی کھلا نہیں ہے۔ آپ یہ سارے پیسے جیب میں ڈال لیں، کہیں ہوا سے اڑ ہی نہ جائیں۔
اب باقی سب مسافر تماش بین بنے اس ساری گفتگو سے لطف اندوز ہورہے اور کنڈیکٹر اور وہ مسافر اس سے بحث کر رہے کہ تمھارے پاس کونسا ایسا نوٹ ہے جس کا کھلا دستیاب نہیں۔ لیکن جناب صاحب نوٹ کی بابت تو بات ہی نہ کریں، بس 'اتر کر دوں گا'، 'اتر کر دوں گا'۔
یوں ہی ہلکے پھلکے بحث مباحثے میں ایبٹ آباد آ گیا۔ ایک ایک کر کے مسافر اترتے جا رہے تھے ۔ مجھے بندے میں تھوڑی سی انٹریسٹ پیدا ہو گئی تھی تو میں ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا کہ دیکھوں اب کیا کرتا ہے۔
وہ نیچے اترا ، پھر اپنا بیگ کنڈیکٹر کو پکڑایا اور بولا 'یہ پکڑو اور نیچے نہیں رکھنا، میں ابھی آیا'۔ کنڈیکٹر بیچارہ بیگ پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ چلتا چلتا دوکانوں کی طرف نکل گیا ، پھر کچھ دیر بعد واپس آیا اور کنڈیکٹر کو پورے ساڑھے تین روپے کرایہ ادا کرکے اپنا بیگ لے کرمین بس اسٹینڈ کی طرف جانے والے رستے پر ہو لیا۔
مجھے بھی اسی طرف جانا تھا ، میں بھی آہستہ آہستہ اس کے پیچھے چل پڑا اور کچھ ہی دیر میں اسے جا لیا۔ سلام دعا کی اور اس سے پوچھا کہ آخر اس نے ویگن میں کرایہ کیوں نہیں دیا ؟ پہلے تو اس نے میری طرف دیکھا، پھر سوال کیا، 'اچھا تو آپ بھی اس ویگن سے اترے ہیں ؟' میں نے کہا 'ہاں جی اور میں آپ کی ساری گفتگو سن رہا تھا اسی لیے اب پوچھ رہا ہوں'۔ کہنے لگا 'میرے پاس پانچ روپے کا نوٹ تھا، میں کنڈیکٹر کو دیکھ رہا تھا کہ وہ سب سے پیسے لیکر انھیں آٹھ آنے سمیت بقایا واپس کر رہا ہے، لیکن جب اس نے آخری دو سواریوں سے کرایہ لیا تو انھیں اٹھنی واپس نہیں کی اور انھیں کہا کہ میرے پاس چینج نہیں ہے اور مسافروں نے بھی چپ سادھ لی' ۔ اب اگرمیں اسے ویگن میں پانچ روپے دے دیتا تو مجھے بھی اٹھنی واپس نہیں ملنی تھی اس لیے میں بار بار کہہ رہا تھا کہ اتر کر دوں گا۔ پھر کچھ فخریہ سے انداز میں بات کو آگے بڑھاتا ہوا بولا، 'اب میں نے ایک دوکان سے چینج کروا کر اسے پورے ساڑھے تین روپے دے دئیے ہیں اور مجھے اٹھنی کا نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔'
میں زور زور سے ہنسنے لگا کہ ایک اٹھنی کے لیے بندے نے آدھا پونا گھنٹہ اتنے لوگوں کو وختہ ڈالے رکھا ہے۔ یونہی چلتے چلتے ہم مین سٹینڈ کے نزدیک آتے جا رہے تھے۔ میں نے پوچھا بھائی آپ کا نام کیا ہے ؟
مسافر : جی میرا نام لال زادہ ہے ۔
میں : اچھا۔۔۔۔ کیا کرتے ہیں ؟
لال زادہ : جی ڈرلر ہوں۔
میں : کہاں پر ؟
لال زادہ : فلانی کنسٹریکشن کمپنی میں۔
اب میں نے اسے بتایا کہ میں بھی وہیں پر کنسلٹنٹ آفس میں نیا آیا ہوں ۔ اسٹینڈ آ گیا تو اس نے مجھے بتایا کہ میں نے مردان والی ویگن پر جانا ہے، اور میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ اللہ حافظ ۔
میں نے ہاتھ ملاتے ہوئے، چند لمحے کے لیے اسکا ہاتھ تھاما اور پھر کہا۔ 'لال زادہ، جن دو مسافروں کو بقایا اٹھنی نہیں ملی تھی، ویگن سے اترتے ہوئے کنڈیکٹر نے انھیں ایک ایک روپیہ واپس کیا ہے۔'
یہ سنتے ہی لال زادہ نے ہاتھ چھڑایا اور زور سے ماتھے پر مارا اور بیگ کو جھولی میں رکھتے ہوئے وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر کسی انجانی زبان میں کچھ بولا، جو مجھے پلے نہیں پڑا۔۔لیکن مجھے یوں ہی سمجھ آئی جیسے کہہ رہا ۔۔۔ 'ہائے او میریا ربا، میں تے لٹیا گیا۔'
۔۔۔
لال زادہ کے ساتھ چار سال گزرے، اس کے کچھ اور دلچسپ قصے وقت ملا تو ضرور شئیر کروں گا۔
آخری تدوین: