لال زادہ

سنہ انیس سو ستانوے کی بات ہے، مجھے ایبٹ آباد کے نواح میں ایک پہاڑی سڑک پر تعمیراتی کام کرنے والی کمپنی کے کنسلٹنٹ آفس میں ایک پوسٹ پر تعیناتی ملی۔ کنسلٹنٹ آفس کمپنی کے مرکزی دفاتر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا اور پیدل ہی وہاں آتے جاتے تھے۔ ابھی نئی جگہ گئے چار ہی دن ہوئے تھے کہ اختتام ہفتہ آ گیا۔ دو اڑھائی بجے کے قریب میں اپنے دفتر سے گھر جانے کے لیے نکل پڑا اور دفاتر کے ساتھ ہی سڑک پر جا کھڑا ہوا کہ وہیں ویگن یا سوزوکی وغیرہ ایبٹ آباد شہر جانے کے لیے مل جاتیں تھیں۔ دس بارہ منٹ بعد ایک ویگن آ گئی اور میں اس میں سوار ہو گیا۔کچھ دیر بعد کنڈیکٹر نے سب سے کرایہ اکٹھا کرنا شروع کر دیا جو ساڑھے تین روپے تھا۔ اب سارے مسافر کرایہ دیتے جارہے تھے ، اپنی باری پر میں نے بھی دے دیا۔ ایک موٹے تازے کوئی تیس بتیس سال کے مسافر سے کنڈیکٹر نے کرایہ مانگا تو اس نے جواب دیا کہ اور مسافروں سے لے لو پھر دیتا ہوں۔ کنڈیکٹردیگر مسافروں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ جب سب سے کرایہ اکٹھا کر لیا تو پھر اس مسافر سے کرایہ مانگا، اب دونوں میں کیا گفتگو ہوئی :-
کنڈیکٹر : بھائی صاحب کرایہ دے دو۔
مسافر : سب سے لے لیا ہے؟
کنڈیکٹر : ہاں جی سب سے لے لیا۔
اچھا۔کوئی رہ تو نہیں گیا، پھر دیکھ لو۔
کنڈیکٹر : بھائی سب سے لے لیا ہے۔
مسافر : اچھا۔۔۔۔ اور پھر اپنا دھیان باہر کی طرف کر لیا
کنڈیکٹر نے کوئی ایک آدھ منٹ دیکھا اورپھر کرایہ مانگا۔
مسافر تھوڑی دیر سوچنے کے بعد : میرے پاس ٹوٹے (کھلے) نہیں ہیں۔
کنڈیکٹر : کتنے کا نوٹ ہے، لاؤ میں کھلے کر دیتا ہوں۔
مسافر : بھائی کچھ دیر صبر کرو میں ایبٹ آباد اتر کر دے دوں گا۔
کنڈیکٹر کو بھی جیسے ضد ہو گئی ۔۔۔ کہنے لگا کہ تم ابھی کرایہ دو میں تمھیں کھلا دوں گا بھلے ہزار کا ہی نوٹ کیوں نا ہو، لیکن مسافر تو جیسے تہیہ کر کے آیا ہوا تھا۔۔۔۔۔مسلسل ہولے ہولے یہی دہرا رہا ۔۔۔ اتر کر دوں گا۔ اتر کر دوں گا۔
اب اس بحث کو تقریباً سب ہی سن رہے تھے۔آخر تنگ آ کر ایک بندہ بول ہی پڑا کہ بھائی صاحب وہ کہہ جو رہا ہے کہ میں کھلا دے دوں گا تو آپ کرایہ دے دیں۔ لیکن مسافر بھی انکار میں مسلسل سر ہلاتا جائے اور یہی جواب د ہرائے کہ بھائی اتر کر دوں گا۔ اس آدمی نے جب یہ صورتحال دیکھی تو جیب سے پیسے نکال کر جس میں کافی سارے، ایک دو، پانچ، دس، پچاس اور سو کے نوٹ تھے اس کے سامنے کر دئیے کہ یہ لیں جتنے کھلے چاہیے لے لیں اور مہربانی کر کے اسے کرایہ دیں اوریہ چخ چخ بند کریں۔

مسافر نے نہایت اطمینان سے اس کے ہاتھ پر پڑے سارے نوٹوں کو دیکھا اور بڑے ہی معصومانہ انداز میں بولا۔ بھائی جان آپ کے پاس بھی کھلا نہیں ہے۔ آپ یہ سارے پیسے جیب میں ڈال لیں، کہیں ہوا سے اڑ ہی نہ جائیں۔

اب باقی سب مسافر تماش بین بنے اس ساری گفتگو سے لطف اندوز ہورہے اور کنڈیکٹر اور وہ مسافر اس سے بحث کر رہے کہ تمھارے پاس کونسا ایسا نوٹ ہے جس کا کھلا دستیاب نہیں۔ لیکن جناب صاحب نوٹ کی بابت تو بات ہی نہ کریں، بس 'اتر کر دوں گا'، 'اتر کر دوں گا'۔

یوں ہی ہلکے پھلکے بحث مباحثے میں ایبٹ آباد آ گیا۔ ایک ایک کر کے مسافر اترتے جا رہے تھے ۔ مجھے بندے میں تھوڑی سی انٹریسٹ پیدا ہو گئی تھی تو میں ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا کہ دیکھوں اب کیا کرتا ہے۔

وہ نیچے اترا ، پھر اپنا بیگ کنڈیکٹر کو پکڑایا اور بولا 'یہ پکڑو اور نیچے نہیں رکھنا، میں ابھی آیا'۔ کنڈیکٹر بیچارہ بیگ پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ چلتا چلتا دوکانوں کی طرف نکل گیا ، پھر کچھ دیر بعد واپس آیا اور کنڈیکٹر کو پورے ساڑھے تین روپے کرایہ ادا کرکے اپنا بیگ لے کرمین بس اسٹینڈ کی طرف جانے والے رستے پر ہو لیا۔

مجھے بھی اسی طرف جانا تھا ، میں بھی آہستہ آہستہ اس کے پیچھے چل پڑا اور کچھ ہی دیر میں اسے جا لیا۔ سلام دعا کی اور اس سے پوچھا کہ آخر اس نے ویگن میں کرایہ کیوں نہیں دیا ؟ پہلے تو اس نے میری طرف دیکھا، پھر سوال کیا، 'اچھا تو آپ بھی اس ویگن سے اترے ہیں ؟' میں نے کہا 'ہاں جی اور میں آپ کی ساری گفتگو سن رہا تھا اسی لیے اب پوچھ رہا ہوں'۔ کہنے لگا 'میرے پاس پانچ روپے کا نوٹ تھا، میں کنڈیکٹر کو دیکھ رہا تھا کہ وہ سب سے پیسے لیکر انھیں آٹھ آنے سمیت بقایا واپس کر رہا ہے، لیکن جب اس نے آخری دو سواریوں سے کرایہ لیا تو انھیں اٹھنی واپس نہیں کی اور انھیں کہا کہ میرے پاس چینج نہیں ہے اور مسافروں نے بھی چپ سادھ لی' ۔ اب اگرمیں اسے ویگن میں پانچ روپے دے دیتا تو مجھے بھی اٹھنی واپس نہیں ملنی تھی اس لیے میں بار بار کہہ رہا تھا کہ اتر کر دوں گا۔ پھر کچھ فخریہ سے انداز میں بات کو آگے بڑھاتا ہوا بولا، 'اب میں نے ایک دوکان سے چینج کروا کر اسے پورے ساڑھے تین روپے دے دئیے ہیں اور مجھے اٹھنی کا نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔'
میں زور زور سے ہنسنے لگا کہ ایک اٹھنی کے لیے بندے نے آدھا پونا گھنٹہ اتنے لوگوں کو وختہ ڈالے رکھا ہے۔ یونہی چلتے چلتے ہم مین سٹینڈ کے نزدیک آتے جا رہے تھے۔ میں نے پوچھا بھائی آپ کا نام کیا ہے ؟
مسافر : جی میرا نام لال زادہ ہے ۔
میں : اچھا۔۔۔۔ کیا کرتے ہیں ؟
لال زادہ : جی ڈرلر ہوں۔
میں : کہاں پر ؟
لال زادہ : فلانی کنسٹریکشن کمپنی میں۔
اب میں نے اسے بتایا کہ میں بھی وہیں پر کنسلٹنٹ آفس میں نیا آیا ہوں ۔ اسٹینڈ آ گیا تو اس نے مجھے بتایا کہ میں نے مردان والی ویگن پر جانا ہے، اور میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔ اللہ حافظ ۔
میں نے ہاتھ ملاتے ہوئے، چند لمحے کے لیے اسکا ہاتھ تھاما اور پھر کہا۔ 'لال زادہ، جن دو مسافروں کو بقایا اٹھنی نہیں ملی تھی، ویگن سے اترتے ہوئے کنڈیکٹر نے انھیں ایک ایک روپیہ واپس کیا ہے۔'
یہ سنتے ہی لال زادہ نے ہاتھ چھڑایا اور زور سے ماتھے پر مارا اور بیگ کو جھولی میں رکھتے ہوئے وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر کسی انجانی زبان میں کچھ بولا، جو مجھے پلے نہیں پڑا۔۔لیکن مجھے یوں ہی سمجھ آئی جیسے کہہ رہا ۔۔۔ 'ہائے او میریا ربا، میں تے لٹیا گیا۔'

۔۔۔
لال زادہ کے ساتھ چار سال گزرے، اس کے کچھ اور دلچسپ قصے وقت ملا تو ضرور شئیر کروں گا۔

 
آخری تدوین:
اختتام ہفتہ کے تین چار روز بعد ایک دن میں کمپنی کے کوانٹٹی سروئیر کے آفس کسی کام سے گیا۔ پہاڑ پر پگڈنڈی سی بنی تھی چلتے چلتے جب ان کے دفتر کے قریب پہنچ گیا تو ایک اور پگڈنڈی سے لال زادہ ہاتھ میں کیتلی اور تین چار کپ پکڑے اسی طرف آتا دیکھائی دیا۔ میں اپنی روانی میں چلتا جا رہا تھا، اور لال زادہ اپنے خیالات میں۔ بالکل نزدیک پہنچ کر اچانک اس نے اوپر دیکھا ایک سرسری سی نگاہ ڈالی اور پھر چند ملی سیکنڈز کے لیے نظر نیچے کی اور پھر ہڑبڑا کر اوپر دیکھتے ہوئے ہاتھوں کو بھی جھٹکا دیا اور کیتلی بمعہ چائے اور کپوں کے اس کے ہاتھوں سے نکل کر زمین پر جاپڑی اور کپ لڑھکتے ہوئے کافی نیچے چلے گئے۔
کچھ چائے میری پتلون پر گری، کچھ جوتوں پر اور کچھ نے لال زادہ کی ڈانگری بھگو کر رکھ دی۔
میں نے ایک نظر پتلون اور جوتوں پر ڈالی اور لال زادہ سے پوچھا کیا ہوا ؟
لال زادہ : صابا تم کو پہلے کہیں دیکھا ہے۔ کدھر دیکھا ہے یہ یاد نہیں آ رہا۔
میں : بھائی ابھی پانچ دن پہلے ہی تو ایبٹ آباد شہر میں لاری اڈے کے پاس ملے تھے۔ اتنا کہہ کر میں چپ کر گیا۔
لال زادہ نے ماتھے پر ہاتھ رکھا ، پھر آسمان کی طرف دیکھا، پھر مجھے، کوئی چار پانچ مرتبہ یوں ہی کرنے کے بعد بولا۔ صابا میں تو لاری اڈے گیا ہی نہیں تم ایویں مارتا ہے۔
میں : اچھا تو ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو آپ نے مجھے کہا ہے کہ صابا تم کو کہیں دیکھا ہے تو بھائی وہیں دیکھا تھا نا۔۔
لال زادہ تیزی سے سر کو دائیں بائیں ہلانے لگ پڑا اور ساتھ ہی دہرائے جائے۔ نا صابا نا ۔ بالکل ہی انکاری ہو گیا کہ وہ لاری اڈے گیا تھا یا مجھ سے ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن یہ ضرور مان رہا تھا کہ آپ کو دیکھا ہے۔ خیر مجھے جلدی تھی، اسے کہا اچھا بعد میں ملیں گے، اور اپنے راستے کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا۔۔۔ لیکن ۔۔۔لال زادہ راستہ روک کر کھڑا ہو گیا، میں نے کہا اب کیا ہے ؟
لال زادہ : تمھاری وجہ سے ہمارا چینک نیچے گرا، چائے کا نقصان ہوا، ابھی تاوان بھرو۔
اس دوران کمپنی کے ایک دو ڈرائیور اور نائب قاصد صاحبان نزدیک آ چکے تھے اور اس گفتگو کو سن رہے تھے۔ جب لال زادہ نے آخری جملہ بولا تو ان میں سے ایک نے اسے کندھوں سے پکڑ کر سائیڈ پر کیا اور پشتو میں کچھ سمجھانے لگا۔ ایک آدھ منٹ بعد لال زادہ برتنوں سمیت غائب ہو چکا تھا۔ اور میں واپس کمرے کی طرف کہ پتلون سے چائے کے داغ اتار لوں
 
ہفتے بھر کی مصروفیت کے بعد کچھ فراغت ملی تو میں کمپنی کے مینجر آپریشنز سے ملنے گیا۔ وہیں باتوں باتوں میں ان سے لال زادہ کا ذکر چھڑ گیا۔مینجر صاحب کو کمپنی میں 25 سال سے زائد ہو گئے تھے اور لیبر سے ترقی کرتے کرتے اس عہدے تک پہنچے تھے۔

کہنے لگے لال زادہ کمال کا ڈرلر تھا اور بقول ان کے اس جیسا بہادر اور جری ڈرلر انھوں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ۔ بتانے لگے کہ تین سال پہلے لال زادہ ایک پہاڑ پر ڈرلنگ کر رہا تھا کہ جس پہاڑی جھاڑی سے اس نےسیفٹی والی رسی باندھی ہوئی تھی وہ جڑ سے اکھڑ گئی اور لال زادہ نیچے گر گیا۔ 4 ماہ کومے میں اور پھر ہوش میں آنے کے بعد کچھ کچھ بہکا ہوا سا رہنے لگا۔ لیکن اب کافی بہتر ہے پھر بھی اکثر بھول جاتا ہے۔ اس کی ذہنی حالت کی وجہ سے اورکچھ ہیوی موونگ ڈرلنگ مشینری کے آنے کی وجہ سے لال زادہ اب ڈرلنگ کا کام نہیں کرتا اور اسے کمپنی میں چھوٹے موٹے ایڈمنسٹریشن کاموں میں مصروف رکھا ہوا ہے کہ کمپنی کا پرانا اور وفادار ملازم ہے۔

کھڑی چٹانوں پر اپنا توازن قائم رکھتے ہوئے 25 سے 30 کلو کی تھرتھراتی مشین کو قابو میں رکھ کے پہاڑوں پرڈرلنگ کیے جانا ایک نہایت مشکل کام ہے۔ میں نے دو سے تین بار شوقیہ کوشش کی لیکن ایک آدھ منٹ میں ہی بس ہو جاتی تھی۔

لال زادہ کی سرخ و سپید رنگت اور مضبوط جثہ دیکھ کر میں اسے تیس بتیس سال کا سمجھا تھا وہیں منکشف ہوا کہ لال زادہ بیالیس سال کا ہو چکا ہے۔
 
لال زادہ کے آباء چترال سے تھے، اور اس کے دادا ہجرت کر کے مردان کے پاس رشکئی (پشتو تلفظ میں رشا کئی) نامی جگہ پر آباد ہو گئے تھے۔ تب مجھے یاد پڑا کہ پہلی ملاقات کے اختتام پر اس نے کسی زبان میں کچھ کہا تھا جو مجھے سمجھ ہی نہیں آئی تھی دراصل چترالی تھی۔

کچھ دنوں کے مسلسل آمنے سامنے آنے اور کچھ میری اور شاید لال زادہ کی پسندیدگی کی وجہ سے بھی میری اس کی دوستی ہو گئی۔ لال زادہ کمپنی دفاتر سے تھوڑا دور خیمہ بستی (کیمپ سائیٹ) میں رہتا تھا تو اکثر کام کے اوقات کے دوران بھی اور بعد میں بھی میرے کنٹینٹر میں آتا جاتا رہتا۔ دن میں کم از کم ایک چکر تو لازمی تھا۔ وقت چاہے کچھ بھی ہو، آتے ساتھ سلام دعا کے بعد جو بات سب سے پہلے اس نے پوچھنی ہوتی تھی 'صابا ٹی بریک لاؤں' ؟

شروع شروع میں تو مجھے حیرت ہوتی کہ دوپہر ہو، سہ پہر ہو یا شام وہ ہمیشہ یہی کیوں پوچھتا ہے ؟ لیکن میرے پاس اس کے اس سوال کی کوئی وضاحت نہیں تھی سو میں نے بھی غور کرنا چھوڑ دیا اور خود بھی یہ سوال اس سے نہ کیا کہ وہ ایسا کیوں کہتا ہے ؟ کوئی دو سالوں کے بعد اس نے میرے لیے معمہ بنے اس سوال کا خود ہی جواب دے دیا۔ ایک دن ناجانے کیسے باتوں باتوں میں کہنے لگا کہ میرا ابو بولتا ہے 'ان صاحب لوگوں کو چائے پانی پوچھتے رہو تو سیٹ رہتے ہیں، ورنہ کوئی نا کوئی پنگا ڈالے آپ کو تنگ کیے رکھتے ہیں' ۔ میں تھوڑا حیران ہوا۔ اس سے کہا لال زادہ مجھے بھی تو روزانہ ہی پوچھتے ہو اور میں اس کمپنی کا بھی نہیں ہوں، اس میں کیا مصلحت ہے؟ جواباً بولا، آپ آج کنسلٹنٹ آفس میں ہو، ہو سکتا ہے کل کلاں کو ہماری کمپنی میں آ جاؤ، اس لیے پوچھتا ہوں، تاکہ ہاتھ میں رہو' :laughing:
 
ایک روز بہت زیادہ مصروفیت رہی اور سارا دن سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ملی۔ شام گئے مجھے احساس ہوا کہ آج کچھ مسنگ مسنگ سا ہے لیکن سمجھ نہ آئے کہ کیا ہے ؟ کافی دیر ذہن الجھا لیکن کوئی جواب بھی اپنے آپ کو مطمئن نہ کر پایا۔ رات دس بجے کے قریب اچانک یہ بات ذہن میں آئی کہ دو دن ہوئے لال زادہ نے چکر نہیں لگایا ۔ انہونی بات تھی، تھوڑی فکرمندی ہوئی۔ موبائل وغیرہ تو ہوتے نہیں تھے، لیکن مختلف سائیٹس اور کیمپس میں رابطے کے لیے موٹرولا کا کمیونیکشن نظام موجود تھا۔ پہلے سوچا رہائشی کیمپ میں وائیرلیس کرتا ہوں، پھر خود ہی اپنے خیال پر ہنسنے لگا کہ ایسی بھی کونسی ایمرجنسی ہے۔ خیر رات گزر گئی۔

صبح دفتری اوقات میں جب رہائشی کیمپ سے لوگ آنا شروع ہوئے تو میں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر اکا دکا لوگوں سے پوچھا کہ لال زادہ کدھر ہے ؟ ایک ڈرائیور نے بتایا کہ وہ کل سے خیمے میں پڑا ہوا ہے اور ماسوائے ایک آدھ بار ضرورت کے بالکل بھی باہر نہیں نکل رہا۔ میں نے پوچھا، کیا بیمار ہے ؟ ڈرائیور نے کہا، کوئی پتہ نہیں۔ میرے منہ سے نکلا، اللہ خیر۔

میں رہائشی کیمپ میں بالکل بھی نہیں جاتا تھا اور اس کی کچھ ذاتی وجوہات تھیں، خیر اس روز میں نے وہاں جانے کا فیصلہ کر لیا اور کوئی گیارہ بجے لال زادہ کے خیمے میں جا پہنچا۔ لال زادہ چادر لیے فرشی بستر پر لیٹا ہوا لیکن جاگ رہا تھا۔ پھر میری اور اس کی گفتگو ہوئی :-
میں : لال زادہ کیا ہوا ہے ؟ بیمار ہو ؟
لال زادہ : نہیں صابا
میں : اچھا۔۔۔ تو دو دن سے آئے کیوں نہیں ہو ؟
لال زادہ : صابا، تارڑ صاب (مینجر آپریشنز) سے تمھارا یاری ہے اس کو بولو مجھے بس دو دن کی چھٹی دے دیوے۔
میں نے پوچھا کچھ تھا، لال زادہ نے جواب کچھ دیا، خیر سوال دہرایا نہیں۔
میں : لیکن تمھیں چھٹی کیوں چاہیے اور یہ بات تم اپنی کمپنی کے ڈائیریکٹر ایڈمن سے خود کیوں نہیں کہتے کہ چھٹی کے معاملات وہ دیکھتا ہے۔
لال زادہ : نہیں نا صابا، وہ پوچھے گا کیوں چاہیے اور میں اسے تو کیا کسی کو بھی بتانا نہیں چاہتا کہ کیوں چاہیے۔
میں : اچھا تو پھر مجھے وجہ بتاؤ گے یا مجھے بھی نہیں ؟
لال زادہ : آپ کو بھی نہیں بتاؤں گا۔
میں تھوڑا حیران ہوا اور پھر مزاقاً کہا کہ کوئی قتل وتل کرنا ہے یا اغواء، جو اتنا چھپا رہےہو۔۔۔۔!
لال زادہ نے فرشی بستر چھوڑا ، اٹھ کر بیٹھا، اور میرے گھٹنے پکڑ لیے، پھر نہایت ہی رونی صورت بنا کر بولا ' صابا مجھے چھٹی لے دو قسم سے ساری عمر، تمھیں اور تمھارے بچوں کو دعائیں دوں گا' بس دو دن، زیادہ نہیں۔
لال زادہ کے انداز اور شکل پر بجے بارہ نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے بڑھک ماری کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمھیں دو نہیں چار دن کی چھٹی لے کر دوں گا اور کوئی تم سے پوچھے گا بھی نہیں کہ کیوں چاہیے لیکن تمھیں مجھے وجہ بتانی ہو گی۔
لال زادہ کے چہرے پر جملے کا پہلا حصہ سن کر جہاں خوشی کی لہر دوڑی وہیں دوسرے پر پھر سے فکر مندی طاری ہو گئی۔ خیر تھوڑی دیر کے بحث مباحثے کے بعد وہ اس بات پر راضی ہو گیا کہ مجھے وجہ بتائے گا لیکن پہلے میں اس کی چھٹی کرواوں۔
میں کمپنی دفاتر میں آیا اور سیدھا تارڑ صاحب کے دفتر میں۔ انھیں صورتحال بتائی اور مدد مانگی۔ انھیں علم تھا کہ میری لال زادہ سے خوب گاڑھی چھنتی ہے اور انھیں خود بھی لال زادہ سے محبت تھی، کہنے لگے کوئی مسئلہ نہیں ابھی کروا دیتا ہوں۔ انٹرکام پر مینجر ایڈمن کو بتایا اور تھوڑی دیر میں لال زادہ کی چھٹی منظور ہوگئی۔
میں واپس کیمپ میں گیا اور اسے بتایا کہ چھٹی ہو گئی ہے اور اب جانے کی تیاری کرے اور اپنے وعدے کے مطابق مجھے وجہ بھی بتائے۔ لال زادہ خوشی سے چھلانگیں لگانے لگ پڑا اور بیگ نکال، کپڑے رکھ، بھاگم بھاگ منہ ہاتھ دھو کر پانچ منٹ میں تیار بھی ہو گیا۔
تیار ہونے کے بعد اپنے خیمے سے باہر نکلا، پہلے دائیں والےخیموں کو باری باری دیکھ کر آیا کہ کوئی ہے تو نہیں اور پھر بائیں والوں کو ۔ پھر میرے پاس آ کر وعدہ لیا کہ کیمپ میں کسی کو نہیں بتاؤں گا اور جب اسے یقین ہو گیا تو کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔۔۔

صابا، مجھے اپنی بیوی کا نام بھول گیا ہے، ابھی گھر جاتا ہوں تو پوچھ کر آتا ہوں
 
آخری تدوین:
جس شاہراہ پر کام چل رہا تھا اس کا بڑا حصہ قومی اسمبلی کے اس حلقے میں آتا تھا جہاں سے وزیراعظم نواز شریف صاحب انتخابات جیتے تھے، اور انھوں نے یہ سیٹ رکھ لی تھی۔ اس وقت طالبانی عفریت بھی اس طرح سر عام نہیں دندناتی تھی اور سیکوریٹی کے بے تحاشہ مسائل بھی نہیں تھے۔ نواز شریف صاحب اکثر مری، ایوبیہ اور نتھیا گلی وغیرہ آتے رہتے اورکبھی کبھار بغیر کسی پروٹوکول کے ان علاقوں کی سیر کو بھی نکل پڑتے تھے۔

کمپنی نے پشاور یونیورسٹی کا کیمپس ( بیرکس نما عمارتیں) جو باڑہ گلی میں تھا، کا کچھ حصہ معمولی کرائے پر لے رکھا تھا اور شدید برفباری والے موسم کے دنوں میں باڑہ گلی کی خیمہ بستی سمیٹ لی جاتی اور مسقتل قیام والی لیبر کو وہاں منتقل کر دیا جاتا۔ کبھی کبھار میں بھی بمعہ دو ساتھیوں کے اپنے ایک روزہ ہائیکنگ ٹورز کے دوران وہاں رات کو قیام کر لیا کرتا تھا۔
43047892.jpg

ایسے ہی کچھ ٹورز میں لال زادہ بھی شامل ہوجاتا تھا۔ وہ پہاڑوں وغیرہ پر تو نہ چڑھتا لیکن اردگرد گھومنے کے لیے نکل جاتا۔ ایک صبح ہم تینوں ہائیکرز تیاری کر کے کیمپ سے باہر نکلے تو لال زادہ سڑک کے ساتھ بنی ایک چھوٹی سی پارکنگ سپیس میں کنسٹرکشن مشینری کے چار پانچ آپریٹرز کے ساتھ بیٹھا لکڑیاں جلائے آگ سینک رہا تھا۔ ہم بھی اسی طرف جا رہے تھے کہ اچانک ایک سفید کار نتھیا گلی والی طرف سے آ کر سڑک پر رک گئی۔ اس میں سے نواز شریف صاحب اور ان کے دو ساتھی اتر ے اور دھیرے دھیرے آپریٹرز کی طرف بڑھنے لگے، وہ سارے ایک دم اٹھ کر کھڑے ہوئے اور ان سے ہتھ پنجا کرنے لگ گئے۔ ہم اچانک اپنے سامنے وزیر اعظم کو دیکھ کر حیران اور سُن ہوئے پڑے کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ نواز شریف صاحب باری باری سب سے حال احوال پوچھتے جا رہے تھے، جب لال زادہ کی طرف ہاتھ کیا تو وہ پشتو لہجے میں پنجابی الفاظ ادا کرتا ہوا یوں گویا ہوا 'صابا، ہتھ وی ملاساں پر میں چھاتی لانی' نوازشریف صاحب نے مسکراتے ہوئے دونوں ہاتھ وا کر دئیے:bighug: اور لال زادہ کو چھاتی لگا لیا۔

سب سے ملنے کے بعد پھر شاہراہ کے بارے میں بات کرنے لگے کہ کہاں تک پہنچے ہو بھئی؟ آپریٹرز نے مختلف سائیٹس کے نام لیے اور بتایا کہ وہاں اتنا کام ہو گیا اور فلاں جگہ اتنا۔ وزیراعظم سر ہلاتے رہے، پھر کہا کہ یہاں آپ لوگوں کو کیا کچھ مشکلات ہیں؟ ابھی میں اور ایک اور ہائیکر ساتھی جواب دینے کے لیے الفاظ کا چناؤ ہی کر رہے تھے کہ لال زادہ اپنے پشتو لہجے اور پنجابی الفاظ کے ساتھ ایک بار پھر بول پڑا۔ 'صابا، آپ تے اسلام آباد بیٹھے آ او، اسی ایتھے سردی نال مر گئے آں' اے ویکھو لکڑاں بال بال کے سردی پئے لانے آں'۔

لال زادہ کی باتیں سن کر نواز شریف صاحب نے ساتھ کھڑے آدمی سے کچھ بات چیت کی جو مجھے سمجھ نہیں آئی۔ پھر ہم سب سے پوچھا کہ یہاں کوئی انچارج وغیرہ ہے؟تو ہم سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگ گئے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ کوئی ایگزیکٹو پوسٹ والا بندہ نہیں ہے تو پھر ساتھ کھڑے آدمی سے ذرا بلند آواز میں کہا کہ اس سڑک کے پی سی ون میں ترمیم کرائیں اور ان کام کرنے والے لوگوں کو مٹی کا تیل اور چولہے مہیا کروائیں۔ اس کے اخراجات حکومت دے گی۔ پھر ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا، کچھ اور ؟

لال زادہ پھر بول پڑا، 'صابا، ایتھے ٹھنڈ بڑی لگدی اے کج کھان نوں وی دیو'۔ نواز شریف صاحب ہنس پڑے، اور پھر مزاح میں کہا، گرما گرم حلوہ کیسا رہے گا ؟ لال زادہ نے فوراً سر ہلایا اور بولا 'ٹھیک اے صابا، پر دیسی گھی اچ پکیا ہووے تے سواد آ جائے'۔

نواز شریف صاحب نے سر ہلایا اور ہمیں اللہ حافظ کہتے ہوئے دوبارہ گاڑی میں جا بیٹھے۔ یہ سارا قصہ شام سے پہلے پہلے پوری کمپنی میں پھیل چکا تھا اور اگلے دن ہی مٹی کا تیل، چولہے، سوجی و دیگر لوازمات ہر خیمہ بستی کے میس کے لیے لازمی قرار دئیے جا چکے تھے بمعہ مکھن کے۔ :cool2: اس کے بعد شاید پوری سردیاں لال زادہ جس طرف بھی نکلتا، فضا 'لال زادہ زندہ باد' کے نعروں سے گونج اٹھتی۔
 
ایبٹ آباد اور اس کے گردونواح سیر و سیاحت کے لیے مشہور ہیں۔ جہاں عام بپلک اس علاقے میں بہت زیادہ آتی تھی وہیں فلمی یونٹس بھی اکثر و بیشتر کہیں نا کہیں شوٹنگ کرتے نظر آ جاتے تھے۔

سردیوں کی ایک یخ بستہ کہر آلود صبح اور چھٹی والے دن میں ایک پہاڑ پر چڑھائی کے لیے تیاری (جس میں پانی گرم کرنا، فلاسک میں ڈالنا، کپ، گلاس، چینی، پتی، بسکٹ اور ایک آدھ کوئی اور شے چھوٹے سے رک سیک میں اکٹھی کرنا) کر رہا تھا۔ کہ ساتھیوں کے آنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ اچانک میرے کنٹینٹر کا دروازہ بجا۔ میں نے وقت دیکھا اور سوچا کہ یہ کون اتنی صبح صبح آ گیا ! اٹھا، دروازہ کھولا تو پتلون کوٹ پہنے ایک سانولا سا آدمی کھڑا نظر آیا ۔ السلام علیکم کہتے ہوئے بندے نے ہاتھ آگے کر دیا، میں نے ہاتھ ملایا اور سوالیہ نظروں سےاس کی طرف دیکھا۔ کہنے لگے میرا نام ناصر ادیب ہے، اور میں اس علاقے میں ایک فلم کی شوٹنگ کے لیے آیا ہوا ہوں۔ ان کا اتنا کہنا تھا کہ مجھے فلم مولا جٹ یاد آ گئی۔ میں نے انھیں فوراً اندر بلا لیا۔ حال احوال، چائے پانی کا پوچھا۔ کہنے لگے بہت شکریہ، دراصل میں صبح صبح یہاں شوٹنگ کے لیے آیا ہوں اور اوڑھنے والی گرم چادر لانا بھول گیا ہوں کہ مجھے منظر میں یہ دکھانا تھا کہ ایک دیہاتی آدمی شدید ٹھنڈ میں صبح صبح پہاڑ سے اتر رہا ہے۔ اگر آپ کے پاس چادر ہے تو کچھ دیر کے لیے دے دیجیے۔ میرے پاس چادر تھی، اٹھا کر دے دی اور انھیں کہا کہ کوئی اور شے ضرورت ہو اور میرے پاس ہوئی تو ضرور ملے گی۔ شکریہ ادا کر کے اٹھے تو میں نے کہا، میں آپ کو فلموں کے علاوہ ایک اورحوالے سے بھی جانتا ہوں۔ کہنے لگے وہ کیسے ؟ میں نے کہا آپ کے ایک کزن ہیں اکبر نام کے۔۔۔ اور فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ وہ جاتے جاتے مڑے اور میری طرف دیکھا۔ اچھا۔۔۔ تو آپ۔۔۔ ؟ میں نے کہا جی ہم دونوں کچھ عرصہ اکٹھے بلوچستان کی خاک چھانتے رہے ہیں۔ ناصر صاحب باہر نکلے تو میں نے کہا اب آپ کو وقت نکال کر میرے ساتھ کم از کم ایک کپ چائے کا ضرور پینا پڑے گا۔ انھوں نے حامی بھر لی کہ میں اگلے دو تین ہفتے اسی علاقے اور گردونواح میں شوٹنگ کر رہا ہوں، اگر آپ فارغ ہوں تو آ جائیے گا کہیں چند منٹ بیٹھ جائیں گے ورنہ میں کہیں آتے جاتے رک جاؤں گا اور چادر لیکر چلے گئے۔

میں کنٹینر کے دروازے میں کھڑا انھیں دیکھتا رہا، بالکل نیچے سڑک کے پاس چار، پانچ لوگ نظر آ رہے تھے، کچھ دیر انھوں نے شوٹنگ کی، اور پھر ایک آدمی چادر واپس کر گیا۔ اس شوٹنگ کے دوران ہی میرے دونوں ساتھی اور لال زادہ بھی وہاں پہنچ گیا۔ میں نے انھیں سارا قصہ سنایا۔ باقی تو سر ہلاتے رہے، لیکن لال زادہ نے کہا،' صابا، یہ تو تمھارا واقف بن گیا ہے، اسے کہو مجھے ریما سے ایک بار ملا دے' منوں بڑی سوہنی لگدی اے' ۔ ہم تینوں ہنسنے لگے اور میں نے اس سے وعدہ کیا کہ اگر کسی شوٹنگ سائیٹ پر جانے کا وقت ملا اور ریما وہاں ہوئی تو میں تمھاری سفارش کردوں گا۔
 
فلم 'دشمن زندہ رہے' کی شوٹنگ ہو رہی تھی اور نہایت سرعت سے ہو رہی تھی کہ اگلی بقر عید پر اسے ریلیز کرنے کا پروگرام تھا اور بمشکل 3 ماہ رہ گئے تھے۔ مختلف سائیٹس پر آتے جاتے روزانہ کہیں نا کہیں شوٹنگ ہوتے دکھائی نظر آجاتی، لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے میں رک نہ پاتا اور نکل جاتا۔ اُدھر لال زادہ روز ہی دنیاجہاں کا درد اور یاس اپنے لہجے میں سمو کر 'صابا، ریما نال ملا دے نا' کے فقرے سے مجھے میرا کہا یاد کرواتا۔

ناصر صاحب سے پہلی ملاقات ہوئے تقریباً دس دن ہو چکے تھے، کہ ایک دن مجھے فرصت مل ہی گئی۔ میرے کنٹینٹر کی بالکل دوسری طرف سڑک سے کافی نیچے کر کے کچھ گھر بنے ہوئے تھے، وہاں کے دو تین لڑکے روزانہ شوٹنگ دیکھنے جاتے تھے کہ انھیں سکولوں سے چھٹیاں تھیں اور انھیں پتہ ہوتا تھا کہ آج شوٹنگ کہاں ہو رہی۔ میں نےگیارہ بجے ایک نائب قاصد کو ادھر بھیجا اور ایک لڑکے کو بلا لیا۔ اس نے بتایا کہ آج ایک ڈیڈھ بجے فلاں جگہ پر شوٹنگ ہے۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور لال زادہ کو پیغام بھجوایا کہ آ جاؤ۔ جگہ کوئی دو تین کلومیٹر ہی دور تھی، میں اور لال زادہ 2 بجے وہاں پہنچ گئے۔

سین شوٹ ہو رہا تھا اور ایک پہاڑی رستے سے ریما اور معمر رانا نیچے اتر رہے تھے۔ ہم دونوں بھی دیکھتے رہے۔ سین فلمبند ہو گیا تو ریما و دیگر اکا دکا فنکار آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگے۔ اترتے ہوئے ایک دم ریما کا پاؤں سلپ ہوا اور وہ تھوڑا لڑکھڑا کر نیچے گر گئی۔ چوٹ وغیرہ تو نہ لگی لیکن اس کے ہاتھوں کی کچھ چوڑیاں ٹوٹ گئیں۔ بہرحال وہ نیچے اترے اور ایک چھولداری کے نیچے جہاں پانچ چھ فولڈنگ کرسیاں پڑیں تھیں، وہاں جا کر بیٹھ گئے۔ اس دوران فلم کریو بابرعلی کے کسی سین کی تیاری میں لگ گیا۔

ریما نیچے کیا آئی وہاں لڑکوں بالوں کا رش بن گیا۔ لیکن دو تین گارڈ وہاں نہایت مستعدی سے ہجوم کو پرے رکھے ہوئے تھے۔ میں بھی ادھر ہی کھڑا تھا۔ میں نے ایک گارڈ کو پرچی پر کچھ لکھ کر دیا کہ ناصر صاحب کو دے آئیں۔ پرچی پہنچی تو ناصر صاحب اٹھ کر اسی طرف آ گئے اور مجھے اپنے ساتھ چھولداری کے نیچے لے گئے اور بابر علی کے ساتھ بیٹھا دیا۔ ہیلو ہائے ہوئی۔ ناصر صاحب نے تھوڑا سا تعارف کروایا اور پھر کہا آپ آ گئے ہیں اب چائے یہیں پی لیتے ہیں۔ تھوڑی بہت گفتگو کے بعد میں نے ہجوم کی طرف دیکھا تو لال زادہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ باتوں باتوں میں، میں نے ریما سے کہا کہ یہ سب آپ کی وجہ سے یہاں آئے ہوئے، انھیں کوئی آٹو گراف ہی دے دیں۔ اس نے ناصر صاحب سے پوچھا کہ آیا ایسا کر لوں۔ انھوں نے کہا کہ اگلے سین میں ابھی کچھ دیر ہے، ایک ایک کر کے بلائیں اور جنھوں نے آٹو گراف لینا ہے، انھیں دے دیں، بس رش نہیں بننے دینا۔

گارڈز کو ہدایات پاس ہوئیں اور ایک ایک کر کے کے لڑکے آنے لگ گئے۔ کوئی پانچ کے نوٹ پر، کوئی دس کے نوٹ پر، کوئی کاغذ پراور کچھ نے اپنی گالیں پیش کیں۔ پندرہ بیس منٹ میں کافی سارے لوگ بھگت گئے۔ لیکن جس کو میں ملانے لایا تھا وہ نظر نہ آیا۔ کچھ دیر بعد وہ مجھے ہجوم میں دکھائی دے گیا تو میں نے ایک گارڈ سے کہا کہ وہ جو لال سرخ سا بندہ کھڑا ہے اس کو بلا لاؤ۔ لال زادہ آ گیا۔

ریما کے پاس کھڑے ہونے کی بجائے سیدھا زمین پر ریما کی کرسی کے عین سامنے بیٹھ گیا۔ کوئی آدھا منٹ تو وہ چپ کر کے بیٹھی رہی پھر کہا کچھ دیں آپ کو آٹو گراف دے دوں۔ لیکن لال زادہ مبہوت ہوا بس اسے دیکھے جا رہا ہے۔ اس نے پھر کہا کہ کوئی کاغذ نوٹ دیں، آٹو گراف دوں۔ لال زادہ نے کہا میرے پاس نہ کاغذ ہے نا نوٹ اور پھر اپنے بائیں بازو سے قمیض کو اوپر کرتے ہوئے کہا کہ اس پر آٹو گراف دیں۔ ریما شاید عادی تھی ایسی باتوں کی اس نے بازو پکڑا اور اس پر پنسل سے ابھی کچھ لکھنے ہی لکھی تھی کہ لال زادہ بول پڑا، نا۔۔ پنسل سے نہیں لکھنا اوراپنی دائیں ہتھیلی اس کے سامنے کر کے کھول دی، اور بولا اس سے۔

اس کے ہاتھ میں ان چوڑیوں کے ٹکڑے تھے جو سلپ ہوتے ہوئے ریما کے کلائی سے ٹوٹی تھیں۔ ریما اور بابر علی زور زور سے ہنسنے لگے کہ اس زاویے سے انھیں ہی نظر آ رہا تھا۔ پھر بابر علی نے وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیاں ہم سب کو دکھائیں۔ ہم بھی ہنس پڑے۔ بابر علی نے کہا، ریما تم نے بڑے بڑے عاشق دیکھے ہوں گے لیکن اس سے بڑھ کر نہیں۔ لال زادہ نے ضد کی کہ میری بازو پر ان ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نوک سے اپنا آٹو گراف دو اور کافی بحث مباحثے کے بعد ریما کو ایسا کرنا ہی پڑا۔
 
جس راستے پر ٹریفک بھی رواں دواں ہو اور کوئی متبادل راستہ بھی نہ ہو، وہاں تعمیرات کا کام کرنا کافی مشکل ہوتا ہے اور پھر یہ سڑک توتھی ہی مکمل پہاڑی علاقے میں۔ پہلی اور دوسری بیس ڈالتے وقت سڑک کو معمولی سے وقت کے لیے بند کر دیا جاتا اور جب اس پر ہیوی رولر ایک چکر لگا جاتا تو پھر ٹریفک کو گزرنے دیا جاتا اور یہ کام نہایت سرعت سے ہوتا تاکہ ٹریفک جام نہ ہو۔ لیکن جب اس بیس پر اسفالٹ ڈالنے کا کام کرنا ہوتا تو سڑک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک طرف سے ٹریفک روک دی جاتی تھی۔ پھر دس سے پندرہ منٹ کے وقفوں میں دونوں اطراف سے ٹریفک روکی اور چلائی جاتی۔ اس طرح ٹریفک بھی تھوڑی بہت تکلیف کے ساتھ رواں رہتی اور اسفالٹ ڈالنے کا کام بھی ساتھ ساتھ ہوتا جاتا۔

ایسے ہی اسفالٹ کے کسی کام کے دوران پندرہ منٹ کی روانی کے بعد ایک طرف سے ٹریفک روکی گئی تو کچھ دیر میں ایک کار والے صاحب جو رکی ہوئی ٹریفک میں پانچویں یا چھٹے نمبر پر کھڑے تھے، نے آ کر ضد شروع کر دی کہ اس طرف کا راستہ کھولو، مجھے جلدی ہے۔ جس مزدور کے ذمے ٹریفک روکنے کی ڈیوٹی تھی اس نے بتایا کہ جناب ابھی دس منٹ اس طرف سے ٹریفک رکی رہے گی اور پھر ہم یہ والی سائیڈ کھول دیں گے آپ دس منٹ صبر کریں۔ لیکن بندہ بھی کوئی ڈھیٹ تھا اس نے مزدور سے بحث مباحثہ شروع کر دیا اور بات تلخی تک بڑھ گئی۔ مزدور نے جب دیکھا کہ گفتگو میرے بس سے باہر ہو رہی ہے تو اس نے آدمی کو وہیں چھوڑا اور اپنے انچارج کے پاس چلا گیا۔ انچارج آیا اور ان صاحب کو سمجھانے لگا کہ جناب دس منٹ رہ گئے ہیں اب انتظار کریں اور ان مزدوروں سے بحث نہ کریں۔ وہ آدمی بڑبڑاتا ہوا اپنی کار کی طرف بڑھ گیا اور جیسے ہی کار کے پاس پہنچا تو ایک زوردار گالی نکال دی جو انچارج کے کانوں تک پہنچ گئی۔ انچارج صاحب کافی صحتمند اور سابقہ پروفیشنل باکسر تھے، اور تارکول
کا سپرے کرواتے کرواتے اس طرف آئے تھے۔ گالی سنتے ہی ان کا پارہ جو پہلے ہی گرم گرم تارکول اور اس کی بدبو سے کافی ہائی ہوا پڑا تھا، مزید بلند ہو گیا۔ انھوں نے ایک جست بھری اور کار کا دروازہ کھولتے تقریباً اندر گھسے بندے کو گھیسٹ کر باہر نکال لیا اور ایک ڈیڈھ منٹ میں ہی اس کی درگت بنا دی۔ کار میں موصوف کی بیگم بھی بیٹھی تھیں، شوہر کو پٹتا دیکھ کر انھوں نے چیخ پکار شروع کر دی، اسی اثنا میں باقی کھڑی گاڑیوں والوں نے فوراً باہر نکل کر اس بندے کو باکسر صاحب سے بچایا۔ باقی بچے پانچ چھ منٹ وہ بندہ چپ کر کے گاڑی میں بیٹھا رہا۔ ٹریفک کھلی اور گاڑیاں چل پڑیں اور کچھ دیر میں بات آئی گئی ہو گئی۔

ایسے اور اس سے ملتے جلتے واقعات کیونکہ ہر دوسرے تیسرے روز ہوتے رہتے تھے، اس لیے اسے بھی معمول کا واقعہ سمجھا گیا۔ لیکن اگلے دن صبح صبح ہی عسکریوں کی پانچ چھ گاڑیوں کوکمپنی کے دفاتر کے باہر لائین اپ دیکھا تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ سن گن لی تو پتہ لگا کہ کل گالی نکالنے اور پھر مار کھانے والا بندہ سابقہ COAS جنرل کاکڑ کا داماد ہے اور رات گئے پنڈی پہنچ کر اس نے سسر جی کو اپنے ساتھ بیتی بڑھا چڑھا کر سنائی تھی اور اگلی صبح ہی عسکریوں نے ایک انکوائری ٹیم بھیج دی ہے۔

دو ہفتے کے قریب انکوائری چلی۔ عسکریوں کے مختلف صیغوں کے لوگ وقوعے والے روز سائیٹ پر موجود لوگوں کے بیانات وغیرہ قلمبند کرتے رہے۔ انکوائری اپنے اختتامی مراحل میں تھی کہ خبر ملی کہ انکوائری ٹیم کا سربراہ جو ایک میجر جنرل ہے کل کمپنی دفاتر کا وزٹ کرے گا۔ کمپنی انتظامیہ کی میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ یہ عسکری پروٹوکول وغیرہ کے عادی ہوتے ہیں تو ایک آدمی کی ڈیوٹی اس بیرئیر پر لگائی جائے جہاں دفاتر کی پارکنگ ہے اور وہ آدمی جنرل کی گاڑی کو کسی ٹریفک پولیس والے کی طرح گائیڈ کر کے اندر پارکنگ میں لائے۔

اب جناب یہ ڈیوٹی لال زادہ کے ذمہ لگ گئی کہ اس سے زیادہ فارغ بندہ کمپنی میں کوئی نہیں تھا۔ اگلے روز لال زادہ کو سمجھا کر بیرئیر کے پاس بیٹھا دیا گیا کہ ایسے ایسے دس بجے ایک جنرل آئے گا اور آپ نے بیرئیر کو اٹھانا ہے اور اس کی گاڑی کو پارکنگ تک گائیڈ کرنا ہے۔ لال زادہ اپنی ڈیوٹی پر بیٹھ گیا۔ دس، سوا دس، ساڑھے دس بج گئے لیکن جنرل کی کوئی خیر خبر نہیں۔ مینجر آپریشنز نے جب دیکھا کہ کافی وقت ہو گیا تو دفتر سے باہر آئے اور چلتے چلتے پارکنگ میں پہنچ گئے۔ بیرئیر نیچے بندھا ہوا اور لال زادہ غائب۔ ایک دو بندے آگے پیچھے دوڑائے کہ پتہ کرو لال زادہ کدھر ہے؟ کچھ دیر میں لال زادہ کسی طرف سے آ نکلا۔
مینجر آپریشن : تمھاری یہاں ڈیوٹی لگائی تھی، تم کدھر غائب ہو گئے تھے ؟
لال زادہ : صابا، چائے پینے گیا تھا۔
مینجر آپریشن کو غصہ آ گیا، پہلے تو لال زادہ کو کچھ نرم گرم سنا ئیں پھر پوچھا، جنرل صاحب نہیں آئے ؟
لال زادہ : آیا تھا، لیکن میں نے بیرئیر نہیں اٹھایا۔
مینجر آپریشن کی آنکھیں حیرت سے ابل پڑیں پھر غصے سے بولے، او کیوں نہیں اٹھایا ؟
لال زادہ : صابا آپ نے بولا تھا کہ جنرل صاحب دس بجے آئے گا، میں نے دس بجنےکے بعد پندرہ منٹ انتظار کیا، لیکن کوئی نہیں آیا پھر ایک سبز جیپ آئی اور یہاں رکی اس میں خاکی وردی والے فوجی بیٹھے تھے۔ ڈرائیور نے میرے کو بولا کہ بیرئیر اٹھاؤ تو میں نے اسے کہا کہ نہیں اٹھاتا اور تمھیں اندر نہیں جانے دوں گا۔ جب میں نے یہ بات کہی تو دوسری سیٹ پر بیٹھے بندے نے مجھے اپنی طرف بلایا اور پوچھا کہ بھئی اندر کیوں نہیں جانے دو گے ؟ تو میں نے کہا کہ میں بچپن سے سنتا آیا ہوں کہ فوجی وقت کے بہت پابند ہوتے ہیں، اور پھر فوج کا جنرل تو وقت کا بہت ہی پابند ہوتا ہے۔ جس جنرل نے آنا تھا اس کا وقت دس بجے تھا، وہ دس بجے نہیں پہنچا اورآپ وہ نہیں ہو جس نے دس بجے پہنچنا تھا۔ بیرئیر نہیں کھلے گا۔ میری بات سن کر اس نے سر ہلایا لیکن بولا کچھ نہیں اور وہ گاڑی لیکر کر اس طرف کو نکل گئے ہیں اور میں چائے پینے چلا گیا۔

مینجر آپریشن بیچارے کے چہرے پر ایک رنگ آئے اور ایک جائے۔ اتنی دیر میں ایک نائب قاصد بھاگتا ہوا آیا اور مینجر آپریشنز کو بتایا کہ نہایت ضروری کال ہے فوراً دفتر آئیں۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ بھاگتے بھاگتے دفتر گئے۔ جنرل کے پی اے کی کال تھی اور اس نے بتایا کہ جنرل صاحب دس نہیں گیارہ بجے پہنچیں گے۔ گیارہ بجنے میں کچھ ہی وقت تھا مینجر صاحب خود بیرئیر پر جا کھڑے ہوئے اور جنرل کو ٹھیک گیارہ بجے ریسو کیا۔ جنرل نے اترتے ہی مینجر صاحب سے کہا کہ جو بندہ پہلے یہاں کھڑا تھا اسے بلائیں۔ مینجر آپریشن صاحب تقریباً گھگیاتے ہوئے معذرت کرنے لگے، پھر بولے سر وہ بیوقوف سا آدمی ہے، اسے معاف کر دیں۔ لیکن جنرل نے کہا معذرت کی کوئی بات نہیں آپ بس اس بندے کو بلائیں۔ دو تین منٹ میں لال زادہ حاضر ہو گیا۔ جنرل نے پہلے تو لال زادہ کا شکریہ ادا کیا کہ تم نے مجھے ایک بھولا ہوا سبق یاد کروایا ہے اور پھر جیب سےکچھ روپے (شاید دو یا تین سو) نکال کر انعام بھی دیا۔
 
اکثر ہم احباب خود سے کچھ نہ کچھ ککنگ کرتے رہتے تھے، جب بھی کوئی ایسا موقع آتا تو لال زادہ کی ایک ہی فرمائش ہونی، صابا میٹھے میں حلوہ ہو تو مزا آ جائے۔ لال زادہ حلوہ بہت شوق سے کھاتا تھا، بلکہ کھاتا کیا تھا، سب بچا کچھا چٹ کرجاتا تھا۔ عموماً سیلف ککنگ والے پروگراموں میں ہر دوسرے یا تیسرے پروگرام میں ہم احباب مینو میں حلوے کو بطور سویٹ ڈش رکھ لیا کرتے تھے اور اس روز لال زادہ کا جوش بھی دیدنی ہوتا تھا۔ بھاگ بھاگ کر چیزیں لیکر آتا، تاکہ سب کچھ جلدی جلدی تیار ہو جائے۔

ایک روز لال زادہ نے عجیب فرمائش کی۔ کہنے لگا صابا سب لوگ جمعہ کو چھٹی کرتے ہیں، لیکن میں نہیں کرنا چاہتا، میں ہفتے والے دن چھٹی کرنا چاہتا۔ اگر آپ میری سفارش کرو تومیری چھٹی ہفتے والے دن ہو جائےگی۔ میں یہ سن کر تھوڑا حیران ہوا۔ لال زادہ سے کہا، یہ کیا بات ہوئی بھئی ؟ سرکاری چھٹی جمعہ کی ہے تو تم بھی اسی دن چھٹی کرو اور چھٹی جمعہ کی ہو یا ہفتے کی اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ لیکن وہ حسب معمول رونی صورت بنائے ایک ہی تکرار، کچھ کرو نا صابا۔۔۔۔ دو تین دن گزر گئے لیکن لال زادہ کی سوئی اسی پر اٹکی ہوئی، ہر تیسری چوتھی بات کے بعد میری چھٹی ہفتے والے دن کروا دو۔

جب اس کی لگاتار ریں ریں میری برداشت سے باہر ہونے لگی تو میں نے کہا، پہلے مجھے وجہ بتاؤ کہ تمھیں ہفتے کو چھٹی کیوں چاہیے، پھر میں سوچوں گا اور اگر وجہ نہیں بتاؤ گے تو دوبارہ بات بھی نہیں کرنی۔ تین دن تو ڈر کے چپ رہا لیکن وجہ بھی نہیں بتائی۔ چوتھے دن پھر بولا تو میں نے سختی سے جواب دیا کہ جب تک وجہ نہیں بتاؤ گے اس وقت تک اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنی۔ جب اس نے دیکھا کہ اس طرح جان نہیں چھوٹنی تو کہنے لگا؛ صابا جمعہ والے دن صبح میس پر ناشتہ کرنے والے بہت کم ہوتے کہ اکثر چھٹی والے دن اٹھتے ہی نہیں اس طرح بہت سا ناشتہ بچ جاتا۔ میں نے کہا اچھا پھر ؟ تو صابا جمعہ کو بہت سا ناشتہ ضائع ہو جاتا جس میں حلوہ بھی ہوتا۔ اگر میری چھٹی ہفتے والے دن ہو جائے تو میں وہ بچا ہوا سارا حلوہ گھر لے جایا کروں۔ :laughing:

لال زادہ کی دو ہفتہ (حلوہ:cool2:) وار چھٹیاں ہم دو لوگوں نے جھوٹ بول کر ہفتے والے دن کروا دیں۔ کیسے کروائیں وہ ایک الگ قصہ ہے۔
 
Top