لاوارث بلی
تفسیر احمد
ہم نےاُسے دست بردار کئے ہوئےجانوروں کےگھر میں پایا۔ ایک سفید اور شتری رنگ کی نیلی آنکھوں والی ننھی بلی ۔گلی میں پیدا ہونے والی بلی، جس کا نہ کوئی نام اورنہ ہی کوئی گھرانہ تھا۔ جو اب بھی رکابی سےدودھ نہیں پی سکتی تھی۔ہم نے ایک بچوں کی دودھ والی بوتل سےاُسےدودھ پلایا۔
ہم اس کے لئے اجنبی تھے۔ وہ پلنگ کے نیچے چُھپ کر بہت روئی۔ ہم ہنسے اور اِس رونے والی بلی کا نام فغاں رکھ دیا۔
کچھ ہی د نوں میں وہ ہم سےمل جل گئی۔ وہ دن کا زیادہ حصہ سوتی اور تھوڑا حصہ اُون کےگولا سے کھیلتی۔ دوسری بلیوں کی طرح اس نے کبھی بھی اپنی دُم پکڑنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ توگولا ہی پکڑنے میں خوش تھی!
بلیوں کےجسامت کے لحاظ سے اب بھی چھوٹی تھی۔ گھر کے پیچھے وہ اونچی گھانس میں پرندوں کا پیچھا کرتی۔ دو دفعہ ہمیں دکھانے کے لئے چوہے پکڑ کرلائی اور ایک دفعہ پرندہ۔ پرندہ زخمی تھا، مردہ نہیں ہم نے پرندہ اُڑا دیا۔ اس کے چہرے سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ سمجھ نہیں پائی کہ ہم نے پرندہ کیوں چھین لیا، اور چوہا نہیں۔ منطق کے لحاظ سے وہ صحیح تھی۔
اُن دنوں میں وہ ہم سے دور دور رہنے لگی۔ اگر ہم اُس کو محبت سے چھوئیں توخوش نہیں ہوتی تھی۔ کم عمری میں اس نے ماں بننے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن دوسری بلیوں کی طرح وہ ہم سے نہیں چُھپی بلکہ ہمیشہ ہمارے قریب رہی۔ شاید اس لیےکےاس کو پتہ ہو، بچے کی پیدائش دشوار ہوگی۔ اُس کی ایک ہی بچی ہوئی۔ بچی کی پیدائش سخت تکلیف دہ ثابت ہوئی اور یہ کام اس کے لئے بغیر مدد کے مشکل تھا۔ مجھےاس کی بچی کو باہرلانےمیں پوری قوت لگانا پڑی۔ ڈر تھا کہ وہ مجھے کاٹ لےگی مگر وہ خاموشی سےمجھےدیکھتی رہی۔ اس کی نیلی آنکھیں درد کا ایک سمندر تھیں۔ پیدائش کے بعد اس نے میرے ہاتھ پیار سے چانٹے۔
بچی مری ہوی پیدا ہوئی۔۔۔
سب نے باری باری اس کوگود میں لے کرتسلی دینے کی کوشش کی ۔۔۔ اگلی بار سب ٹھیک ہوجائےگا۔
اس نے کئی دنوں تک کھانا پینا چھوڑ دیا لیکن وہ ایک چیز نہیں بھولی۔۔۔ میری مدد ۔۔۔
ایک کمرے سےدوسرے کمرے وہ میرا پیچھا کرتی اور اگر میں بیٹھ جاؤں تو اُچھل کر میری گود میں آجاتی اور دونوں پاوں میرے سینے پر رکھ دیتی اور پھرافسردہ نگاہوں میرے چہرے کو دیکھتی۔
" بالکل پیٹ والی عورت“ اپنے obstetrician سے محبت کرتی ہے۔“ میری بیوی نے قہقہہ لگا کر کہا۔
" یہ صرف کچھ عرصے کے لئے ہے۔ جبسے ہی وہ ماں بنےگی۔ اسکی توجہ بدل جائے گی"۔ میں نے ہنس کر کہا۔
تھوڑے عرصہ میں وہ پھر پیٹ سے ہوگی۔ ہم نےسوچا کہ اس دفعہ اس کے زیادہ بچے ہوں گے۔ وہ خوش رہنے لگی۔ پھر ایک دن اس کو کھانسی ہوگی کیونکہ اس کی خوراک میں کمی نہیں آئی اس لئے ہم نےاس کی کھانسی نظر انداز کردیا۔ وہ سُست رہنے لگی۔۔۔۔
کل صبح وہ ہمارے کمرے میں آئی اور ہمارے پلنگ پر اُچھل کرچڑھی اور میری گود میں بیٹھ کرغمگین آواز میں میاؤں میاؤں کرنے لگی۔
" اِس بےوقوف بلی کو کیا مسئلہ ہے۔“ میں نے کہا۔
۞۞۞
سارا دن اُس نے کچھ نہیں کھایا۔ بلکہ پانی پینے سے بھی انکار کردیا۔ میں نےشام کو ایک پالتو جانوروں کے معالج کو دکھایا ۔ ڈاکٹراچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی۔ اُس ڈاکٹر نے کہا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ یہ ایک معمولی نزلہ زکام ہے۔ اِسے بخار بھی نہیں۔ چند دنوں میں ٹھیک ہوجائے گی۔۔۔
آج فغاں اپنے آپ کو گھسیٹے ہوے میرے پاس آئی وہ اُچھل کر پلنگ پرنہ چڑھ سکی۔ بہت کمزور تھی۔ اس نے میری طرف دیکھا اور اپنا منہ کھول دیا۔ اس کا تلوہ مکمل پیلا ہوچکا تھا۔ اس کی آنکھیں دُھندلائی سی تھیں۔ آج چھٹی کا دن ہے۔اورصبح کا وقت ۔۔۔۔۔
میں نے ایک دوسرے ڈاکٹر کوگھر پرٹیلی فون کیا۔ اس نے کہا یہ ایمرجنسی معلوم ہوتی ہے ۔میں کلنک کھول دیتا ہوں آپ اسے لے کر کلنک پہنچیں۔ ڈاکٹر نےاحتیاط سےفغاں کا مکمل معائنہ کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اسےاپنے پیشہ پرعبور حاصل ہے۔
" مجھے بہت افسوس ہے۔" ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد کہا۔ " آپ کی بلی کو Uterine Infection ہے۔ اور بچےمرچکے ہیں"۔
“ کیا آپ آپریش کر کےفغاں کو بچا سکتے ہیں۔" میں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
" میں کوشش کرسکتا ہوں۔ لیکن یہ صرف اس کی تکلیف کو اور طویل کردے گا۔" اس نے میرے چہرے پرنظر ڈالتے ہوئے کہا۔
" اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو میں اس کو ہمشہ کےلئے آرام سے سونےدیتا " ۔ڈاکٹر نےمیرے لئےاس کی موت کو آسان بنانے کی کوشش کی۔
میں کچھ دیر بیٹھا خلا میں دیکھتا رہا۔ اور پھر اپنا سرہلادیا۔
" ابھی۔ یا جب آپ جاچکے ہوں گے۔" ڈاکٹر نے ہمدردی سے پوچھا۔
" میں فغاں کے پاس رہوں گا۔"
ڈاکٹر نے نمبوٹال کا ایک انجیکشن بنا کر فغاں کو لگادیا۔
میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ فغاں نے آخری بار پیار سے میرے ہاتھ پر زبان لگائی۔ لیکن وہ اسے چاٹ نہ سکی وہ اب بھی سر اٹھا کر میری طرف دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
۞۞۞
۔۔۔ وہ ایک معمولی بلی تھی۔ اس کے پاس کوئی دل کو لبھانے والے کراتب نہیں تھے۔ مگر مجھے یاد ہے کہ جب میں کام سےگھر آتا تو وہ دوڑ کر میرے پاس آتی اور میرے پاس اس طرح کھڑی ہوجاتی جیسےمیں اسی کے لئے گھر آیا ہوں۔
بیوی ہنس کر کہتی " ارے تو کیا میری سوکن ہے"۔
مجھے یاد ہے کہ جب ہم آم کو چوس رہے ہوتے ۔وہ ہماری نقل کرنے کوشش کرتی۔ مجھے یاد ہے میرا اس کے کانوں کو سہلانا کتنا پسند تھا! اور جب میں نےاس کے مرے ہوئے بچے کواس کےجسم سے علیحدہ کیا تھا۔ تواس نے کتنی خوشی سے میرے ہاتھ چانٹتے تھے۔۔۔۔۔
۞۞۞
میں نے پیار سےاس کے بدن کو چھوا ۔ تاکہ وہ خوف زدہ نہ ہو۔
" میری پیاری فغاں ۔تم اب سوجاؤ۔"
وہ پیار بھری نظروں سےمیری طرف دیکھ رہی تھی۔جسے اسے مجھ پر مکمل بھروسہ ہے کہ اس بار سب ٹھیک ہوجائےگا۔۔۔
میری فغاں نےاپنا سر اپنے ننھے سے پنجہ پر رکھ دیا اور آنکھیں بند کرلیں۔۔۔
میں نے آخری بار اس کے ننھے منے کانوں کو چھوا اور ڈاکٹر کی فیس ادا کرنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر نےانکار کردیا۔۔۔
ڈاکٹر کے آفس سے نکل کر میں کار میں میں بیٹھااور میں نےاسےتیز چلانے کی کوشش کی مگر میری ہمت جواب دے دی گی اور میں نے کار روک کر اپنا سر اسٹیرینگ ویل پر رکھ دیا میری آنکھیں آنسوؤں سے بھرگیں اور میں رونے لگا۔۔۔
کیونکہ وہ ننھی تھی۔ وہ میری ننھی تھی۔
کیونکہ اس نے مجھے بتانے کی کوشش کی تھی کہ میں سخت تکلیف میں ہوں، میری مدد کرو اور میں اس کی مدد نہیں کرسکا۔
جب میں نے مدد کی تو بہت دیر ہوچکی تھی۔
میں نے اپنے آپ کو کھوکھلا محسوس کیا ۔۔۔
کسی نے سچ کہا ہے۔ اپنی محبت کی گہرائی کا اسی وقت احساسں ہوتا ہے جب تم سے محبت کرنے والا ، تمہیں چھوڑ کر جاچکا ہوتا ہے۔