عبدالقیوم چوہدری
محفلین
جانے نام کیا تھا...لیکن "لاٹ صاحب" کہلاتے تھے۔ انگریز تھے...وہ بھی برطانوی نژاد۔ خوشاب اس وقت تحصیل تھی اور یہ اس کے لاٹ صاحب بن کر آئے.....علاقے بھر میں خوب دبدبہ تھا....اور خوشامدی سدا انکی نگاہ التفات کے منتظر رہتے۔
ایک سال وادی میں اتنا سوکھا پڑا کہ یہاں کی گہری جھیل بھی سوکھ گئی...اور اسکی گہرائی کے بارے میں مشہور سارے افسانے طشت از بام ہو گئے۔ جانور مرنے لگے اور لوگ بھی۔
پتا نہیں کسی مولوی صاحب نے مشورہ دیا یا لاٹ صاحب کا اپنا فیصلہ تھا....... ایک دن آس پاس کی بستیوں میں اعلان کروا دیا کہ آج بارش کے واسطے قران خوانی لاٹ صاحب کے بنگلے پر ہو گی۔ آس پاس گاؤں سے لوگ سیپارے اٹھائے دوڑے چلے آئے .... بنگلے کے باہر تمبو قناتیں لگادی گئیں....... شربت کی سبیلوں ...... اور دیگ ہائے بریانی کی کھڑکھڑاہٹ میں......لوگ لہک لہک کر تلاوت کرنے لگے.....لاٹ صاحب بار بار باہر نکلتے......پریشانی میں آسمان کی طرف دیکھتے....اور ....still no chance کہتے اندر چلے جاتے....شام تک لوگ کھا پی کر چلے گئے...لیکن بارش کے آثار تک نمودار نہ ہوئے۔ اگلے دو دن تک یہی حال رہا.......لوگ پہلے سے زیادہ آنے لگے.....تلاوت کرتے....بریانی اڑاتے...اور گھر کی راہ لیتے۔
تیسرے یا چوتھے دن جب لوگ آئے تو تمبو قنات، دیگیں غائب تھیں.....لوگ واپس مڑنے لگے تو بتایا گیا کہ قران خوانی ہوگی...لیکن دھوپ میں بیٹھ کر ..... چنانچہ اکثر تو واپس لوٹ گئے اور معدودے چند چاروناچار بیٹھ گئے۔ لاٹ صاحب باہر تشریف لائے اور کہا کہ جب تک بارش نہیں ہو گی...... نہ تو پانی دیا جائے گا .... نہ کھانا .... اور نہ ہی کوئی اٹھ کے جائے گا۔ جو واپس جانا چاہتا ہے ابھی چلا جائے...کوئی زبردستی نہیں ہے .....چنانچہ کچھ اور لوگ کپڑے جھاڑتے اٹھ کے واپس چل دیے اور آٹھ دس آدمی میدان کارزار میں ... جم کر بیٹھ گئے ..... تلاوت شروع ہوئی...آسمان پر بادل کا نام و نشان نہیں تھا .... پیاس سے پپڑیاں جمنی شروع ہوئیں...لوگ نہ تو اس پیاس میں واپس جا سکتے تھے اور نہ ہی آج لاٹ صاحب سے کچھ امیدتھی ..... ہمت و حوصلہ جواب دے رہا تھا ...آج آسمان کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھنے کا فریضہ لاٹ صاحب کی بجائے یہی لوگ سرانجام دے رہے تھے .... نگاہیں بار بار آسمان کی طرف اٹھتیں اور پھر تلاوت و دعا میں مستغرق ہو جاتیں ... دعاؤں کے لیے بار بار ہاتھ اٹھتے ... آنکھوں سے آنسو رواں تھے ...... تب جا کر کہیں سے ایک ٹکڑا بادل کا نمودار ہوا.... باد نسیم چلی ..... اور وہ موسلادھار بارش ہوئی کہ چہار سو جل تھل ہو گیا ...............!!!
لاٹ صاحب بھیگتے ہوئے بنگلہ سے نمودار ہوئے اور مسکراتے ہوئے گویا ہوئے.....
" ام جانتا تھا....گاڈ......کے لیے...بارش....کوئی......پرابلم نہیں....پرابلم.... ٹم...لوگ ..ہو جو گاڈ سے دو ڈراپ واٹر کے لیے بی دو منٹ "سیریس" ہو کر بات نئیں کر سکتا........!!!!
لاٹ صاحب قیام پاکستان کے بعد یہیں بس گئے اور واپس برطانیہ نہیں گئے یا شاید "میم صاحب" کی قبر چھوڑ کر جانا گوارا نہ ہوا- اور 56 میں فوت ہوئے- اب کی قبر ادھر ہی سرکی موڑ کے پاس ہے-
۔۔۔۔
از ظفر اعوان
دوہا، قطر
ایک سال وادی میں اتنا سوکھا پڑا کہ یہاں کی گہری جھیل بھی سوکھ گئی...اور اسکی گہرائی کے بارے میں مشہور سارے افسانے طشت از بام ہو گئے۔ جانور مرنے لگے اور لوگ بھی۔
پتا نہیں کسی مولوی صاحب نے مشورہ دیا یا لاٹ صاحب کا اپنا فیصلہ تھا....... ایک دن آس پاس کی بستیوں میں اعلان کروا دیا کہ آج بارش کے واسطے قران خوانی لاٹ صاحب کے بنگلے پر ہو گی۔ آس پاس گاؤں سے لوگ سیپارے اٹھائے دوڑے چلے آئے .... بنگلے کے باہر تمبو قناتیں لگادی گئیں....... شربت کی سبیلوں ...... اور دیگ ہائے بریانی کی کھڑکھڑاہٹ میں......لوگ لہک لہک کر تلاوت کرنے لگے.....لاٹ صاحب بار بار باہر نکلتے......پریشانی میں آسمان کی طرف دیکھتے....اور ....still no chance کہتے اندر چلے جاتے....شام تک لوگ کھا پی کر چلے گئے...لیکن بارش کے آثار تک نمودار نہ ہوئے۔ اگلے دو دن تک یہی حال رہا.......لوگ پہلے سے زیادہ آنے لگے.....تلاوت کرتے....بریانی اڑاتے...اور گھر کی راہ لیتے۔
تیسرے یا چوتھے دن جب لوگ آئے تو تمبو قنات، دیگیں غائب تھیں.....لوگ واپس مڑنے لگے تو بتایا گیا کہ قران خوانی ہوگی...لیکن دھوپ میں بیٹھ کر ..... چنانچہ اکثر تو واپس لوٹ گئے اور معدودے چند چاروناچار بیٹھ گئے۔ لاٹ صاحب باہر تشریف لائے اور کہا کہ جب تک بارش نہیں ہو گی...... نہ تو پانی دیا جائے گا .... نہ کھانا .... اور نہ ہی کوئی اٹھ کے جائے گا۔ جو واپس جانا چاہتا ہے ابھی چلا جائے...کوئی زبردستی نہیں ہے .....چنانچہ کچھ اور لوگ کپڑے جھاڑتے اٹھ کے واپس چل دیے اور آٹھ دس آدمی میدان کارزار میں ... جم کر بیٹھ گئے ..... تلاوت شروع ہوئی...آسمان پر بادل کا نام و نشان نہیں تھا .... پیاس سے پپڑیاں جمنی شروع ہوئیں...لوگ نہ تو اس پیاس میں واپس جا سکتے تھے اور نہ ہی آج لاٹ صاحب سے کچھ امیدتھی ..... ہمت و حوصلہ جواب دے رہا تھا ...آج آسمان کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھنے کا فریضہ لاٹ صاحب کی بجائے یہی لوگ سرانجام دے رہے تھے .... نگاہیں بار بار آسمان کی طرف اٹھتیں اور پھر تلاوت و دعا میں مستغرق ہو جاتیں ... دعاؤں کے لیے بار بار ہاتھ اٹھتے ... آنکھوں سے آنسو رواں تھے ...... تب جا کر کہیں سے ایک ٹکڑا بادل کا نمودار ہوا.... باد نسیم چلی ..... اور وہ موسلادھار بارش ہوئی کہ چہار سو جل تھل ہو گیا ...............!!!
لاٹ صاحب بھیگتے ہوئے بنگلہ سے نمودار ہوئے اور مسکراتے ہوئے گویا ہوئے.....
" ام جانتا تھا....گاڈ......کے لیے...بارش....کوئی......پرابلم نہیں....پرابلم.... ٹم...لوگ ..ہو جو گاڈ سے دو ڈراپ واٹر کے لیے بی دو منٹ "سیریس" ہو کر بات نئیں کر سکتا........!!!!
لاٹ صاحب قیام پاکستان کے بعد یہیں بس گئے اور واپس برطانیہ نہیں گئے یا شاید "میم صاحب" کی قبر چھوڑ کر جانا گوارا نہ ہوا- اور 56 میں فوت ہوئے- اب کی قبر ادھر ہی سرکی موڑ کے پاس ہے-
۔۔۔۔
از ظفر اعوان
دوہا، قطر