میر لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے
نکلی نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے

برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے
روتا گیا ہے ہر ایک جوں ابر میرے گہر سے

جو لوگ چلتے پھرتے یاں چھوڑ کر گئے تھے
دیکھا نہ ان کو اب کے آئے جو ہم سفر سے

قاصد کسو نے مارا خط راہ میں سے پایا
جب سے سنا ہے ہم نے وحشت ہے اس خبر سے

سوبار ہم تو تم بن گھر چھوڑ چھوڑ نکلے
تم ایک بار یاں تک آئے نہ اپنے گھر سے

چھاتی کہ جلنے کی ہے شاید کہ آگ سلگے
اٹھنے لگا دھواں اب میرے دل و جگر سے

نکلا سو سب چلا ہے نومید ہی چلا ہے
اپنا نہالِ خواہش برگ و گل و ثمر سے

جھڑ باندھنے کا ہم بھی دینگے دکھا تماشا
ٹک ابر قبلہ آ کر آگے ہماری بر سے

سو نامہ بر کبوتر کر ذبح اُن نے کھائے
خط چاک اڑے پھرے ہیں اس کی گلی میں پر سے

آخر گرسنہ چشمِ نظارہ ہو گئے ہم
ٹک دیکھنے کو اسکی برسوں مہینوں ترسے

اپنا وصول مطلب اور ہی کسو سے ہو گا
منزل پہونچ رہیں گے ہم ایسی رہ گزر سے

سردے دے مارتے ہیں ہجراں میں میر صاحب
یارب چھڑا تو ان کو چاہت کے دردِ سر سے

(میر تقی میر)
 
Top