لاکھ دشمن ہیں مگر کوئی طرفدار نہیں

سر الف عین
سید عاطف علی
محمد احسن سمیع:راحل اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے




پیچھے ہٹ جاؤں مَیں ایسا بھی گنہگار نہیں
آگے بڑھنے کو مگر وہ ہے کہ تیار نہیں

دل مرا ضد پہ اڑا ہے کسی بچے کی طرح
اِس کو معلوم ہے کیا مَیں ترا معیار نہیں

ایسا لگتا ہے تجھے میری ضرورت نہ رہی
چھوڑ یہ بات کہ مَیں تیرا وفادار نہیں

تپتے صحرا میں اکیلا ہی کھڑا ہوں کب سے
کوئی غمخوار نہیں سایۂ دیوار نہیں

اک جھلک تیری مجھے کر گئی دیوانہ یوں
آنکھ پتھر ہے زباں قابلِ گفتار نہیں

آج یوسف کے خریدار ہزاروں ہیں یہاں
ہاں مگر کوئی زلیخا سا خریدارنہیں

اس لئے درد سبھی دل میں چھپائے کیونکہ
میری عادت میں تماشا سر بازار نہیں

شہر ویران ہے سنسان ہیں رستے سارے
طولِ ہجراں کے سمٹ جانے کے آثار نہیں

یوں تو سجاد مرے گرد ہے لوگوں کا ہجوم
لاکھ دشمن ہیں مگر کوئی طرفدار نہیں

شکریہ
 
آخری تدوین:
سر الف عین
سید عاطف علی
محمد احسن سمیع:راحل اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے




پیچھے ہٹ جاؤں مَیں ایسا بھی گنہگار نہیں
آگے بڑھنے کو مگر وہ ہے کہ تیار نہیں

دل مرا ضد پہ اڑا ہے کسی بچے کی طرح
اِس کو معلوم ہے کیا مَیں ترا معیار نہیں

ایسا لگتا ہے تجھے میری ضرورت نہ رہی
چھوڑ یہ بات کہ مَیں تیرا وفادار نہیں

تپتے صحرا میں اکیلا ہی کھڑا ہوں کب سے
کوئی غمخوار نہیں سایۂ دیوار نہیں

اک جھلک تیری مجھے کر گئی دیوانہ یوں
آنکھ پتھر ہے زباں قابلِ گفتار نہیں

آج یوسف کے خریدار ہزاروں ہیں یہاں
ہاں مگر کوئی زلیخا سا خریدارنہیں

اس لئے درد سبھی دل میں چھپائے کیونکہ
میری عادت میں تماشا سر بازار نہیں

شہر ویران ہے سنسان ہیں رستے سارے
طولِ ہجراں کے سمٹ جانے کے آثار نہیں

یوں تو سجاد مرے گرد ہے لوگوں کا ہجوم
لاکھ دشمن ہیں مگر کوئی طرفدار نہیں

شکریہ
سر الف عین
 
پیچھے ہٹ جاؤں مَیں ایسا بھی گنہگار نہیں
آگے بڑھنے کو مگر وہ ہے کہ تیار نہیں
پیچھے ہٹنے، پیٹھ دکھانے وغیرہ سے عموماً کم ہمتی و بزدلی مراد ہوتے ہیں، سو یہاں گنہگار کی معنویت مجہول ہے۔

دل مرا ضد پہ اڑا ہے کسی بچے کی طرح
اِس کو معلوم ہے کیا مَیں ترا معیار نہیں
بندش مزید چست ہوسکتی ہے۔ یوں کہا جائے تو کیسا ہے؟
دل کہ بچوں کی طرح ضد پر اڑا بیٹھا ہے
اس کو معلوم کہاں میں ترا میعار نہیں!

ایسا لگتا ہے تجھے میری ضرورت نہ رہی
چھوڑ یہ بات کہ مَیں تیرا وفادار نہیں
پہلے مصرعے میں ’’اب‘‘ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
صاف کہہ دے کہ تجھے اب نہیں میری حاجت
چھوڑ یہ بات ۔۔۔

آج یوسف کے خریدار ہزاروں ہیں یہاں
ہاں مگر کوئی زلیخا سا خریدارنہیں
خریدار تو عزیزِ مصر تھا، زلیخا نہیں۔

اس لئے درد سبھی دل میں چھپائے کیونکہ
میری عادت میں تماشا سر بازار نہیں
اس لیے اور کیونکہ کی تکرار اچھی نہیں، دونوں ایک ہی معنی دیتے ہیں۔
دوسرے مصرعے میں بیان خلاف محاورہ محسوس ہوتا ہے۔ اگر اس کی نثر بنائیں تو یوں کہا جائے کہ ’’سرِ بازار تماشا کرنا (یا لگانا) میری عادت نہیں‘‘۔ گویا آپ کے مصرعے میں فعل موجود نہیں۔

شہر ویران ہے سنسان ہیں رستے سارے
طولِ ہجراں کے سمٹ جانے کے آثار نہیں
دوسرا مصرع جاندار ہے، پہلا اس کا ساتھ نہیں دے رہا جس کی وجہ سے شعر دولخت معلوم ہوتا ہے۔ طولِ ہجر کا شہر کی ویرانی اور سنسان راستوں سے کیا واسطہ؟ دوبارہ فکر کرکے دیکھے۔

یوں تو سجاد مرے گرد ہے لوگوں کا ہجوم
لاکھ دشمن ہیں مگر کوئی طرفدار نہیں
’’یوں تو‘‘ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے بعد کوئی متضاد امر بیان کیا جائے۔ مثلاً یہ کہاں جائے کہ یوں تو مرے گرد لوگوں کا ہجوم ہے مگر ان میں کوئی میرا طرفدار نہیں۔ بیچ میں ’’لاکھ دشمن‘‘ اس تاثر کو زائل کر رہا ہے۔
یوں تو سجادؔ مرے گرد ہے لوگوں کا ہجوم
حیف! ان سب میں کوئی میرا طرفدار نہیں
 
پیچھے ہٹنے، پیٹھ دکھانے وغیرہ سے عموماً کم ہمتی و بزدلی مراد ہوتے ہیں، سو یہاں گنہگار کی معنویت مجہول ہے۔


بندش مزید چست ہوسکتی ہے۔ یوں کہا جائے تو کیسا ہے؟
دل کہ بچوں کی طرح ضد پر اڑا بیٹھا ہے
اس کو معلوم کہاں میں ترا میعار نہیں!


پہلے مصرعے میں ’’اب‘‘ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
صاف کہہ دے کہ تجھے اب نہیں میری حاجت
چھوڑ یہ بات ۔۔۔


خریدار تو عزیزِ مصر تھا، زلیخا نہیں۔


اس لیے اور کیونکہ کی تکرار اچھی نہیں، دونوں ایک ہی معنی دیتے ہیں۔
دوسرے مصرعے میں بیان خلاف محاورہ محسوس ہوتا ہے۔ اگر اس کی نثر بنائیں تو یوں کہا جائے کہ ’’سرِ بازار تماشا کرنا (یا لگانا) میری عادت نہیں‘‘۔ گویا آپ کے مصرعے میں فعل موجود نہیں۔


دوسرا مصرع جاندار ہے، پہلا اس کا ساتھ نہیں دے رہا جس کی وجہ سے شعر دولخت معلوم ہوتا ہے۔ طولِ ہجر کا شہر کی ویرانی اور سنسان راستوں سے کیا واسطہ؟ دوبارہ فکر کرکے دیکھے۔


’’یوں تو‘‘ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے بعد کوئی متضاد امر بیان کیا جائے۔ مثلاً یہ کہاں جائے کہ یوں تو مرے گرد لوگوں کا ہجوم ہے مگر ان میں کوئی میرا طرفدار نہیں۔ بیچ میں ’’لاکھ دشمن‘‘ اس تاثر کو زائل کر رہا ہے۔
یوں تو سجادؔ مرے گرد ہے لوگوں کا ہجوم
حیف! ان سب میں کوئی میرا طرفدار نہیں
شکریہ سر کوشش کرتا ہوں
 
پیچھے ہٹنے، پیٹھ دکھانے وغیرہ سے عموماً کم ہمتی و بزدلی مراد ہوتے ہیں، سو یہاں گنہگار کی معنویت مجہول ہے۔


بندش مزید چست ہوسکتی ہے۔ یوں کہا جائے تو کیسا ہے؟
دل کہ بچوں کی طرح ضد پر اڑا بیٹھا ہے
اس کو معلوم کہاں میں ترا میعار نہیں!


پہلے مصرعے میں ’’اب‘‘ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ یوں سوچ کر دیکھیں
صاف کہہ دے کہ تجھے اب نہیں میری حاجت
چھوڑ یہ بات ۔۔۔


خریدار تو عزیزِ مصر تھا، زلیخا نہیں۔


اس لیے اور کیونکہ کی تکرار اچھی نہیں، دونوں ایک ہی معنی دیتے ہیں۔
دوسرے مصرعے میں بیان خلاف محاورہ محسوس ہوتا ہے۔ اگر اس کی نثر بنائیں تو یوں کہا جائے کہ ’’سرِ بازار تماشا کرنا (یا لگانا) میری عادت نہیں‘‘۔ گویا آپ کے مصرعے میں فعل موجود نہیں۔


دوسرا مصرع جاندار ہے، پہلا اس کا ساتھ نہیں دے رہا جس کی وجہ سے شعر دولخت معلوم ہوتا ہے۔ طولِ ہجر کا شہر کی ویرانی اور سنسان راستوں سے کیا واسطہ؟ دوبارہ فکر کرکے دیکھے۔


’’یوں تو‘‘ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے بعد کوئی متضاد امر بیان کیا جائے۔ مثلاً یہ کہاں جائے کہ یوں تو مرے گرد لوگوں کا ہجوم ہے مگر ان میں کوئی میرا طرفدار نہیں۔ بیچ میں ’’لاکھ دشمن‘‘ اس تاثر کو زائل کر رہا ہے۔
یوں تو سجادؔ مرے گرد ہے لوگوں کا ہجوم
حیف! ان سب میں کوئی میرا طرفدار نہیں

بھول جاؤں تجھے اتنا مَیں گنہگار نہیں
دل بنا تیرے دھڑکنے کو بھی تیار نہیں

دل کہ بچوں کی طرح ضد پہ اڑا بیٹھا ہے
اِس کو معلوم ہے کیا مَیں ترا معیار نہیں


تپتے صحرا میں اکیلا ہی کھڑا ہوں کب سے
کوئی غمخوار نہیں سایۂ دیوار نہیں

اک جھلک تیری مجھے کر گئی دیوانہ یوں
آنکھ پتھر ہے زباں قابلِ گفتار نہیں


صاف کہہ دے کہ تجھے اب نہیں میری حاجت
چھوڑ یہ بات کہ مَیں تیرا وفادار نہیں

آج یوسف کے خریدار ہزاروں ہیں یہاں
ہاں مگر مصر کے والی سا خریدارنہیں

میں نہ چاہوں گا سر بزم تماشا کرنا
تُو نہ یہ سوچ کہ میں ظلم سے دوچار نہیں

شہر ویران ہے سنسان ہیں رستے سارے
ہے عجب خوف کہیں رونقِ بازار نہیں

وصل تیرا مرے جینے کا سبب ہے لیکن
طولِ ہجراں کے سمٹ جانے کے آثار نہیں

یوں تو سجادؔ مرے گرد ہے لوگوں کا ہجوم
حیف! ان سب میں کوئی میرا طرفدار نہیں

سر نظر ثانی فرما دیجئیے
 

الف عین

لائبریرین
نظر ثانی راحل کے لئے چھوڑ رہا ہوں مگر وہ بات کہہ دوں جس سے راحل صرف نظر کر گئے ہیں
تپتے صحرا میں اکیلا ہی کھڑا ہوں کب سے
کوئی غمخوار نہیں سایۂ دیوار نہیں
غمخوار ہونے کا تعلق صحرا سے سمجھ میں نہیں آتا
یہاں اس کی بجائے کسی دریا یا سراب کی بات کی جائے، کوئی سراب تک نہیں لا سکو تو شعر بہت بلند ہو جائے گا

صاف کہہ دے کہ تجھے اب نہیں میری حاجت
اگرچہ راحل نے تجویز کیا ہے لیکن حاجت لفظ کہیں اور بھی دھیان جا سکتا ہے
صاف کہہ دے، تجھے اب میری ضرورت ہی نہیں
 
نظر ثانی راحل کے لئے چھوڑ رہا ہوں مگر وہ بات کہہ دوں جس سے راحل صرف نظر کر گئے ہیں
تپتے صحرا میں اکیلا ہی کھڑا ہوں کب سے
کوئی غمخوار نہیں سایۂ دیوار نہیں
غمخوار ہونے کا تعلق صحرا سے سمجھ میں نہیں آتا
یہاں اس کی بجائے کسی دریا یا سراب کی بات کی جائے، کوئی سراب تک نہیں لا سکو تو شعر بہت بلند ہو جائے گا

صاف کہہ دے کہ تجھے اب نہیں میری حاجت
اگرچہ راحل نے تجویز کیا ہے لیکن حاجت لفظ کہیں اور بھی دھیان جا سکتا ہے
صاف کہہ دے، تجھے اب میری ضرورت ہی نہیں
شکریہ سر
 
بھول جاؤں تجھے اتنا مَیں گنہگار نہیں
دل بنا تیرے دھڑکنے کو بھی تیار نہیں

دل کہ بچوں کی طرح ضد پہ اڑا بیٹھا ہے
اِس کو معلوم ہے کیا مَیں ترا معیار نہیں


تپتے صحرا میں اکیلا ہی کھڑا ہوں کب سے
کوئی غمخوار نہیں سایۂ دیوار نہیں

اک جھلک تیری مجھے کر گئی دیوانہ یوں
آنکھ پتھر ہے زباں قابلِ گفتار نہیں


صاف کہہ دے کہ تجھے اب نہیں میری حاجت
چھوڑ یہ بات کہ مَیں تیرا وفادار نہیں

آج یوسف کے خریدار ہزاروں ہیں یہاں
ہاں مگر مصر کے والی سا خریدارنہیں

میں نہ چاہوں گا سر بزم تماشا کرنا
تُو نہ یہ سوچ کہ میں ظلم سے دوچار نہیں

شہر ویران ہے سنسان ہیں رستے سارے
ہے عجب خوف کہیں رونقِ بازار نہیں

وصل تیرا مرے جینے کا سبب ہے لیکن
طولِ ہجراں کے سمٹ جانے کے آثار نہیں

یوں تو سجادؔ مرے گرد ہے لوگوں کا ہجوم
حیف! ان سب میں کوئی میرا طرفدار نہیں

سر نظر ثانی فرما دیجئیے

سر محمّد احسن سمیع :راحل:
 
نظر ثانی راحل کے لئے چھوڑ رہا ہوں مگر وہ بات کہہ دوں جس سے راحل صرف نظر کر گئے ہیں
تپتے صحرا میں اکیلا ہی کھڑا ہوں کب سے
کوئی غمخوار نہیں سایۂ دیوار نہیں
غمخوار ہونے کا تعلق صحرا سے سمجھ میں نہیں آتا
یہاں اس کی بجائے کسی دریا یا سراب کی بات کی جائے، کوئی سراب تک نہیں لا سکو تو شعر بہت بلند ہو جائے گا
استاذی، میرا خیال تھا کہ غمخوار کی نسبت اکیلے پن سے ہے، اسی لیے میرا دھیان نہیں گیا.
 
Top