نیرنگ خیال
لائبریرین
لاکھ ملتے ہیں ہم بہانے سے
پیار چھپتا نہیں چھپانے سے
عمر گزری ہے در بدر اپنی
ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے
ایک جادو سا کر گئے مجھ پر
کچھ مکان تھے پرانے سے
بات کرتا رہا میں اس سے مگر
بات بنتی نہیں بنانے سے
ہو جو ممکن تو یہ بھی کر دیکھو
تم نکالو ہمیں فسانے سے
میری چاہت میں بھی وہ بات نا تھی
وہ بھی رخصت ہوا بہانے سے
یہ بھی رکھا ہے دھیان میں ہم نے
تیر پلٹا اگر نشانے سے
نوٹ: شاعر کا نام معلوم نہیں