محمد اجمل خان
محفلین
لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد
وہ تشدد جو زبانی، جسمانی، جنسی یا نفسیاتی طور پر جنس مخالف پر جنس مخالف کی طرف سے گھر کی چار دیواری کے اند کی جائے یا کسی خاندان کے کسی فرد کا معاشی، نفسیاتی، جنسی یا جذباتی استحصال جو اسی خاندان کے کسی فرد یا افراد کی طرف سے کی جائے گھریلو تشدد کہلاتا ہے۔
دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ کر گھریلو تشدد کے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ میں گھریلو تشدد کے واقعات کا کوئی باضابطہ ریکارڈ تو نہیں کیا جاتا لیکن ان ممالک میں گھریلو تشدد اور گھریلو سیاست کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔
حالیہ لوک ڈاؤن میں خاندان کے سارے افراد کا 24 گھنٹے گھر کے اندر ہی مقید رہنے اور ہر طرف سے کورونا وائرس کی اعصاب شکن خبریں سننے کی وجہ کر بعض لوگ ذہنی دباؤ، ڈپریسن، ہائی یا لو بلڈ پریشر جیسی ذہنی و جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوں گے۔ جس کی وجہ کر لوگوں کی قوت برداشت میں کمی ہوگی اور ان میں غصہ بڑھے گا جو کہ گھریلو تشدد کا باعث بنے گا۔
ہمارے یہاں اکثر گھرانوں میں ساس اور بہو کے جھگڑے تو چلتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور محاورہ بھی مشہور ہے کہ جب شوہر گھر میں رہتا ہے تو ساس بن جاتا ہے یا جہاں ساس نہیں ہوتی وہاں شوہر ساس کا کردار ادا کرتا ہے۔ لہذا جب شوہر صاحب 24 گھنٹے گھر میں ہوں گے تو گھریلو تشدد میں اضافہ ہوگا۔
بڑے جوئنٹ فیملی میں جہاں پردے کے اسلامی اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا اور جہاں جیٹھ، دیور، نندوئی وغیرہ کا گھر کی خواتین کے ساتھ آزادانہ خلط ملط ہے وہاں جنسی استحصال، جنسی بے راہروی اور تشدد بڑھنے کا بھی امکان ہے۔
ایسی جوئنٹ فیملی میں لوگوں کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے جہاں کوئی بھائی دوسرے شہر یا دوسرے ملک میں جاب یا تجارت کی وجہ کر مقیم ہو اور دیگر (شادی شدہ یا غیر شادی شدہ) بھائی اپنی بھابی یا بھابیوں کے ساتھ رہتے ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لاک ڈاؤن میں جب ہر وقت ساتھ رہنا ہو تو شیطان گناہوں میں ملوث کر دے۔
اس کے علاوہ بڑے گھرانوں میں جہاں دو تین یا چار بھائیوں کی فیملی ایک ساتھ رہتی ہیں وہاں بچوں کی لڑائیاں اور پھر بچوں کو لیکر بڑوں کے درمیان جھگڑے اور تشدد بڑھنے کا بھی امکان ہے۔
مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر اس لاک ڈاؤن میں جو لوگ اسلامی اصولوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھیں گے ان کے گھروں میں گھریلو تشدد شروع ہونے اور بڑھنے کا بہت زیادہ امکان ہے۔
انسان تشدد کا راستہ عدم برداشت، طاقت کو توازن میں نہ رکھنے، احساس کمتری یا احساس برتری کی وجہ کر اپناتا ہے۔ جب طاقتور کے سامنے کمزور ہو اور طاقتور انصاف کو ملحوظ خاطر نہ رکھے تب ہی وہ کمزور پر ظلم کرتا ہے۔ چیونکہ مرد طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ گھر کا سربراہ بھی ہوتا ہے اور اس کی سربراہی میں کمزور بیوی بچے اور کمزور والدین ہوتے ہیں، اسلئے زیادہ تر مرد ہی اپنی بیوی بچوں پر تشدد کرتے ہیں لیکن کہیں کہیں عورتیں بھی اپنے خاوند کو یا پھر خاوند کے والدین کو تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔
مغربی ممالک نے گھریلو تشدد سے اپنے شہریوں کو بچانے کیلئے قانون سازی کی ہیں اور تشدد کرنے والوں کیلئے سخت سزائیں مقرر کر رکھی ہیں لیکن پھر بھی وہاں گھریلو تشدد کی ریکارڈ میں کوئی کمی نہیں بلکہ روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے اور حالیہ لاک ڈاؤن میں بہت زیادہ ہی ہو گیا ہے۔
دین اسلام انسانی اخلاق و کردار سازی کے ذریعے گھریلو تشدد اور اس جیسے دیگر مسائل کو حل کرنے کا طریقۂ کار وضع کر رکھا ہے اور اپنے ماننے والوں کو برداشت اور عدم تشدد کی راہ اپنانے کا درس دیتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
إِنَّ اللَّ۔هَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿٩٠﴾ سورۃ النحل
’’بے شک اللہ عدل و انصاف اور احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برُی بات اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو‘‘(90) سورۃ النحل
درج بالا آیت ہر جمعہ کو خطبے میں اور ہر مسلمان مرد کو نکاح کے وقت سنایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے معنی و مفہوم نہیں بتائے جاتے اس لئے ہماری عوام جاہل اور ایک دوسرے کے حقوق سے غافل ہی رہتی ہے۔ مرد اپنے آپ کو حاکم تو سمجھتا ہے لیکن حکمت اور انصاف سے کام نہیں لیتا اور تشدد کی راہ اپناتا ہے۔
ویسے تو اس آیت میں انسان کو معاشرے میں زندگی گزارنے کی بنیادی اصول بتائی گئی ہے۔ لیکن نکاح کے وقت ایک مرد کو جو یہ آیت سنائی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی اسے بیوی کے ساتھ عدل و انصاف سے نباہ کرنے کا اور احسان یعنی اس کے جو حقوق ہیں اس سے زیادہ اسے دینے کا حکم دے رہا ہے۔ ایک مرد اپنی بیوی کی رہائش، لباس و خوراک، دینی تعلیم و تربیت اور ہر جائز ضروریات پوری کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اسلام یہ حق اخلاقی نہیں بلکہ قانونی طور پر مرد پر عائد کرتا ہے۔
اسی طرح یہاں یہ بھی سمجھایا جا رہا ہے کہ بیوی سے بے وفائی نہ کرنا، کسی غیر عورت سے بے حیائی اور برائی میں ملوث ہوکر اپنی بیوی کو ذہنی و نفسیاتی اذیت میں ملوث نہ کرنا۔ ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر گھریلو ناچاکی اسی برائی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس آیت میں آخری ہدایت یہ کی گئی ہے کہ بیوی پر ظلم و زیادتی نہ کرنا اور تشدد کا راستہ نہ اپنانا۔
آج کل مردوں کی اکثریت ٹی وی اور سوشل میڈیا پر بے حیا عورتوں کی ویڈیوز دیکھتے ہیں جس کی وجہ کر اچھی لگنے والی بیوی بری لگنے لگتی ہے۔ اول تو نامحرم عورتوں کی ویڈیوز دیکھنا ہی گناہ کا کام ہے، پھر اگر بیوی میں کوئی برائی نظر بھی آئے تو مردوں کو اللہ کا یہ پیغام یاد رکھنا چاہئے:
فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّ۔هُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ﴿١٩﴾ سورة النساء
’’اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘(21) سورة النساء
ازدواجی بندھن میں بندھے مرد اور عورت دونوں کے مزاج، ذہن اور سوچ سمجھ مختلف ہوتے ہیں۔ عورت کی مزاج میں نرمی جبکہ مرد کی مزاج گرمی نمایا ہوتی ہے۔ مرد کو جلد غصہ آتا ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے مرد کو اپنے غصۃ پر کنٹرول کرنے کی تعلیم دینے کیلئے فرمایا:
” بہادر وه نہیں ہے جو کشتی میں لوگوں کو پچهاڑ دے، بہادر وه ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو (کنٹرول) رکھ سکے“۔ (صحيح البخاري، حدیث نمبر: 6114)
اور فرمانِ الٰہی ہے:
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّ۔هُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾ سورة آل عمران
’’جو لوگ آسانی میں سختی میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے‘‘ ﴿١٣٤﴾ سورة آل عمران
اس لاک ڈاؤن میں پہلے سے کہیں زیادہ عفو و درگزر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان دنوں میں مردوں کی اکثریت کو غصہ زیادہ آئے گا۔ ایسے میں بہادری کا ثبوت دیجئے اور اپنے غصے پر کنٹرول رکھئے۔ اسی طرح عورت بھی نرمی اختیار کرے۔ اگر شوہر غصے میں ہو تو خاموش رہے اور شوہر کو تشدد پر نہ ابھارے بلکہ شوہر کی زیادتی کو بھی عفو و درگزر کا مظاہرہ کیجئے۔ اپنے گھروں کو جنت نما بنائے رکھئے اور اللہ کی جنت میں جانے کیلئے اللہ کی رحمت و مغفرت کی طلب گار رہئے۔
وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّ۔هَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٤﴾ سورة التغابن
’’اگر تم معاف کر دو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ (14) سورة التغابن
اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی مغفرت فرمائے۔ اس کورونا کی وبا سے ہم سب کو محفوظ فرمائے اور جلد از جلد ہمیں اس سے نجات دے۔ آمین۔ تحریر: محمد اجمل خان۔ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھئے۔
۔
وہ تشدد جو زبانی، جسمانی، جنسی یا نفسیاتی طور پر جنس مخالف پر جنس مخالف کی طرف سے گھر کی چار دیواری کے اند کی جائے یا کسی خاندان کے کسی فرد کا معاشی، نفسیاتی، جنسی یا جذباتی استحصال جو اسی خاندان کے کسی فرد یا افراد کی طرف سے کی جائے گھریلو تشدد کہلاتا ہے۔
دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ کر گھریلو تشدد کے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ میں گھریلو تشدد کے واقعات کا کوئی باضابطہ ریکارڈ تو نہیں کیا جاتا لیکن ان ممالک میں گھریلو تشدد اور گھریلو سیاست کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔
حالیہ لوک ڈاؤن میں خاندان کے سارے افراد کا 24 گھنٹے گھر کے اندر ہی مقید رہنے اور ہر طرف سے کورونا وائرس کی اعصاب شکن خبریں سننے کی وجہ کر بعض لوگ ذہنی دباؤ، ڈپریسن، ہائی یا لو بلڈ پریشر جیسی ذہنی و جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوں گے۔ جس کی وجہ کر لوگوں کی قوت برداشت میں کمی ہوگی اور ان میں غصہ بڑھے گا جو کہ گھریلو تشدد کا باعث بنے گا۔
ہمارے یہاں اکثر گھرانوں میں ساس اور بہو کے جھگڑے تو چلتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ایک اور محاورہ بھی مشہور ہے کہ جب شوہر گھر میں رہتا ہے تو ساس بن جاتا ہے یا جہاں ساس نہیں ہوتی وہاں شوہر ساس کا کردار ادا کرتا ہے۔ لہذا جب شوہر صاحب 24 گھنٹے گھر میں ہوں گے تو گھریلو تشدد میں اضافہ ہوگا۔
بڑے جوئنٹ فیملی میں جہاں پردے کے اسلامی اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا اور جہاں جیٹھ، دیور، نندوئی وغیرہ کا گھر کی خواتین کے ساتھ آزادانہ خلط ملط ہے وہاں جنسی استحصال، جنسی بے راہروی اور تشدد بڑھنے کا بھی امکان ہے۔
ایسی جوئنٹ فیملی میں لوگوں کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے جہاں کوئی بھائی دوسرے شہر یا دوسرے ملک میں جاب یا تجارت کی وجہ کر مقیم ہو اور دیگر (شادی شدہ یا غیر شادی شدہ) بھائی اپنی بھابی یا بھابیوں کے ساتھ رہتے ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لاک ڈاؤن میں جب ہر وقت ساتھ رہنا ہو تو شیطان گناہوں میں ملوث کر دے۔
اس کے علاوہ بڑے گھرانوں میں جہاں دو تین یا چار بھائیوں کی فیملی ایک ساتھ رہتی ہیں وہاں بچوں کی لڑائیاں اور پھر بچوں کو لیکر بڑوں کے درمیان جھگڑے اور تشدد بڑھنے کا بھی امکان ہے۔
مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر اس لاک ڈاؤن میں جو لوگ اسلامی اصولوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھیں گے ان کے گھروں میں گھریلو تشدد شروع ہونے اور بڑھنے کا بہت زیادہ امکان ہے۔
انسان تشدد کا راستہ عدم برداشت، طاقت کو توازن میں نہ رکھنے، احساس کمتری یا احساس برتری کی وجہ کر اپناتا ہے۔ جب طاقتور کے سامنے کمزور ہو اور طاقتور انصاف کو ملحوظ خاطر نہ رکھے تب ہی وہ کمزور پر ظلم کرتا ہے۔ چیونکہ مرد طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ گھر کا سربراہ بھی ہوتا ہے اور اس کی سربراہی میں کمزور بیوی بچے اور کمزور والدین ہوتے ہیں، اسلئے زیادہ تر مرد ہی اپنی بیوی بچوں پر تشدد کرتے ہیں لیکن کہیں کہیں عورتیں بھی اپنے خاوند کو یا پھر خاوند کے والدین کو تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔
مغربی ممالک نے گھریلو تشدد سے اپنے شہریوں کو بچانے کیلئے قانون سازی کی ہیں اور تشدد کرنے والوں کیلئے سخت سزائیں مقرر کر رکھی ہیں لیکن پھر بھی وہاں گھریلو تشدد کی ریکارڈ میں کوئی کمی نہیں بلکہ روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے اور حالیہ لاک ڈاؤن میں بہت زیادہ ہی ہو گیا ہے۔
دین اسلام انسانی اخلاق و کردار سازی کے ذریعے گھریلو تشدد اور اس جیسے دیگر مسائل کو حل کرنے کا طریقۂ کار وضع کر رکھا ہے اور اپنے ماننے والوں کو برداشت اور عدم تشدد کی راہ اپنانے کا درس دیتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
إِنَّ اللَّ۔هَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴿٩٠﴾ سورۃ النحل
’’بے شک اللہ عدل و انصاف اور احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برُی بات اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو‘‘(90) سورۃ النحل
درج بالا آیت ہر جمعہ کو خطبے میں اور ہر مسلمان مرد کو نکاح کے وقت سنایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے معنی و مفہوم نہیں بتائے جاتے اس لئے ہماری عوام جاہل اور ایک دوسرے کے حقوق سے غافل ہی رہتی ہے۔ مرد اپنے آپ کو حاکم تو سمجھتا ہے لیکن حکمت اور انصاف سے کام نہیں لیتا اور تشدد کی راہ اپناتا ہے۔
ویسے تو اس آیت میں انسان کو معاشرے میں زندگی گزارنے کی بنیادی اصول بتائی گئی ہے۔ لیکن نکاح کے وقت ایک مرد کو جو یہ آیت سنائی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی اسے بیوی کے ساتھ عدل و انصاف سے نباہ کرنے کا اور احسان یعنی اس کے جو حقوق ہیں اس سے زیادہ اسے دینے کا حکم دے رہا ہے۔ ایک مرد اپنی بیوی کی رہائش، لباس و خوراک، دینی تعلیم و تربیت اور ہر جائز ضروریات پوری کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اسلام یہ حق اخلاقی نہیں بلکہ قانونی طور پر مرد پر عائد کرتا ہے۔
اسی طرح یہاں یہ بھی سمجھایا جا رہا ہے کہ بیوی سے بے وفائی نہ کرنا، کسی غیر عورت سے بے حیائی اور برائی میں ملوث ہوکر اپنی بیوی کو ذہنی و نفسیاتی اذیت میں ملوث نہ کرنا۔ ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر گھریلو ناچاکی اسی برائی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس آیت میں آخری ہدایت یہ کی گئی ہے کہ بیوی پر ظلم و زیادتی نہ کرنا اور تشدد کا راستہ نہ اپنانا۔
آج کل مردوں کی اکثریت ٹی وی اور سوشل میڈیا پر بے حیا عورتوں کی ویڈیوز دیکھتے ہیں جس کی وجہ کر اچھی لگنے والی بیوی بری لگنے لگتی ہے۔ اول تو نامحرم عورتوں کی ویڈیوز دیکھنا ہی گناہ کا کام ہے، پھر اگر بیوی میں کوئی برائی نظر بھی آئے تو مردوں کو اللہ کا یہ پیغام یاد رکھنا چاہئے:
فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّ۔هُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ﴿١٩﴾ سورة النساء
’’اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘(21) سورة النساء
ازدواجی بندھن میں بندھے مرد اور عورت دونوں کے مزاج، ذہن اور سوچ سمجھ مختلف ہوتے ہیں۔ عورت کی مزاج میں نرمی جبکہ مرد کی مزاج گرمی نمایا ہوتی ہے۔ مرد کو جلد غصہ آتا ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے مرد کو اپنے غصۃ پر کنٹرول کرنے کی تعلیم دینے کیلئے فرمایا:
” بہادر وه نہیں ہے جو کشتی میں لوگوں کو پچهاڑ دے، بہادر وه ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو (کنٹرول) رکھ سکے“۔ (صحيح البخاري، حدیث نمبر: 6114)
اور فرمانِ الٰہی ہے:
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّ۔هُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾ سورة آل عمران
’’جو لوگ آسانی میں سختی میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے‘‘ ﴿١٣٤﴾ سورة آل عمران
اس لاک ڈاؤن میں پہلے سے کہیں زیادہ عفو و درگزر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان دنوں میں مردوں کی اکثریت کو غصہ زیادہ آئے گا۔ ایسے میں بہادری کا ثبوت دیجئے اور اپنے غصے پر کنٹرول رکھئے۔ اسی طرح عورت بھی نرمی اختیار کرے۔ اگر شوہر غصے میں ہو تو خاموش رہے اور شوہر کو تشدد پر نہ ابھارے بلکہ شوہر کی زیادتی کو بھی عفو و درگزر کا مظاہرہ کیجئے۔ اپنے گھروں کو جنت نما بنائے رکھئے اور اللہ کی جنت میں جانے کیلئے اللہ کی رحمت و مغفرت کی طلب گار رہئے۔
وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّ۔هَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٤﴾ سورة التغابن
’’اگر تم معاف کر دو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ (14) سورة التغابن
اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی مغفرت فرمائے۔ اس کورونا کی وبا سے ہم سب کو محفوظ فرمائے اور جلد از جلد ہمیں اس سے نجات دے۔ آمین۔ تحریر: محمد اجمل خان۔ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھئے۔
۔