لشکرِ بلوچستان نامی تنظیم نےمنگل کی شام لاہور ریلوے سٹیشن پر ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ لشکرِ بلوچستان نامی تنظیم نے پہلی بار صوبہ بلوچستان سے باہر کسی حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
لاہور دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے لشکر بلوچستان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ کراچی میں بلوچ خواتین کی ہلاکتوں اور بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں ملنے کا ردعمل ہے۔‘
کوئٹہ سے بی بی سی کے نامہ نگار ایوب ترین کے مطابق لشکرِ بلوچستان کے ترجمان لونگ خان بلوچ نے نامعلوم مقام سے کوئٹہ میں اخبارات کے دفاترکو منگل کی رات گئے فون کر کے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ’لاہور کے ریلوے سٹیشن پر دھماکہ کراچی میں بلوچ خواتین اور بچوں کو ہلاک کرنے، بلوچستان میں مسخ شدہ لاشیں ملنے، بزرگوں اور نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ ڈیرہ بگٹی میں بلوچ خواتین کو زندہ جلانے کا ردعمل ہے۔‘
ترجمان نے کہا کہ ہم عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنانا چاہتے تھے لیکن سیکورٹی فورسز نے کراچی اور بلوچستان میں بلوچو ں کے خلاف وحشیانہ کارروائیاں کرکے ہمیں اس عمل پر مجبور کر دیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بلوچستان کے علاقے خضدار، وڈھ، قلات اور سوراب میں سیکورٹی فورسز پر ہونے والے زیادہ ترحملوں کی ذمہ داری لشکرِ بلوچستان نے قبول کی ہے لیکن پہلی بار لاہور میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی ہے۔
لشکرِ بلوچستان نامی تنظیم بلوچستان کی آزادی کے لیے کئی سالوں سے سرگرم عمل ہے اس مقصد کے لیے اس تنظیم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے علاوہ مختلف ویب سائٹس بھی بنائیں ہوئی ہیں۔
ان ویب صفحات پر زیادہ تر لشکر کی جانب کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کی خبریں اور تصاویر موجود ہیں۔
اس کے علاوہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے بلوچوں کے خلاف ہونے والے کاروائیوں کی رپورٹس بھی موجود ہیں۔
اس کے علاوہ لشکر کی ویب سائٹ پر پاکستان کی ان تنظیموں کی بھی حمایت کی گئی ہے جو پاکستان سے حقوق اور آزادی چاہتے ہیں۔
ان میں سرفہرست سندھودیش کے لیے متحرک تنظمیں ہیں۔
تاہم اس ویب سائٹ سے یہ واضع نہیں ہو رہی ہے کہ لشکر بلوچستان کب وجود میں آئی اور اس کی سرپرستی کون کررہا ہے۔
بی بی سی