لاہور! لاہور اے (شریف کنجاہی)

غدیر زھرا

لائبریرین
ادھی راتیں ایس ویلے ڈھا کنھے ماری اے؟
آہ لے ! بھاویں جنتے دا منڈا مر گیا اے
زندگی دے دکھاں توں کنارہ کر گیا اے

روگ ! ایہہ روگ !! کوئی جان والا نہیں سی
سوچناں واں ہن بڈھی ماں کی کرے گی
کہڑی آس جیوے گی تے کہڑی آس مرے گی

زندگی دے ڈنگ وی مُکایاں نہیں مُکدے
کرماں دے مارے کھوبھے،
آپ تے سُکایاں نہیں سُکدے ۔

پنڈ سارا جاندا اے
جہڑے حالَ اوس نے رنڈیپے وچ
جپھر جال جال کے تے منڈے نوں پڑھایا سی
پھیر کنے وختاں تے کھیچلاں دے نال اوہنوں نوکر کرایا سی
سہرے گانے بنھے
جدوں ڈولی لے کے آیا سی

کِنے ایس جنتے نوں چا ارمان سَن
بڈھی جہی جند سی تے سدھراں جوان سَن
پتہ نہیں سی پَکیاں تے گڑے پے جاندے نے
رحمتاں دے بدلاں 'چ کوٹھے ڈھیہہ جاندے نے
اج پئی بیٹھ کے تے روندی اے نصیباں نوں
خوشیاں نہ پَچدیاں ڈٹھیاں غریباں نوں

مینوں ڈاڈھا یاد اے
سَنے نونہہ لاہور جدوں پُت کول گئی سی
چِڑی گھر، اجائب گھر
ملکہ دا بتّ نالے داتا صاحب تکیا
اوہ کہڑی تھاں سی
جہڑی بھُلی رہی سی
نت ایہا کار سی
منڈا بڑا ساؤُ
بتری 'چوں کڈھی ہوئی ہر گلّ منن نوں تیار سی

لاہور ! لاہور اے
نونہہ سسّ کول جدوں بیٹھدا تے آنہدا سی
اوہدا بڑا شکر اے، جے
پنڈ دیاں پھستیاں توں ایتھے ٹر آئے ہاں
چلو کی ہویا بھاویں سوڑا ای مکان جے
نھیرا ذرا ہے- پر
بجلی دے بٹنے 'چ چاننے دی جان ایں
بھادروں 'چ پتہ اے جو پنڈ حال ہوندا اے
ہر کوئی پِت ہتھوں
کھرک کھرک پنڈا پیا کھونہدا اے
ایتھے پکھے چلدے نے شان جہی شان اے
ربا تیرا شکر جنھیں ایتھے لے آندا اے

تاہیئیں پتہ لگا جدوں
اک دن گھر آ کے آنہدا اے
"اج میرا پِنڈا کجھ ماندا اے ۔"
اوس دن مَنجی تے اجیہا پیا پھیر نہیں اٹھیا
جھوٹھی ہوا اتے جھوٹھے چاننے دا مٹھیا !!

(شریف کنجاہی)
 
بہت خوبصورت اور بہترین:)
ان کو نہیں سمجھ پائی۔
اس کا مطلب ہوتا ہے اپنے وجود، جسم پر کسی اذیت کو بہت عرصے تک برداشت کیے رکھنا۔ یہاں ممکنہ طور پر بھوک کاٹنا یا پیٹ کاٹنا
پتہ نہیں سی پَکیاں تے گڑے پے جاندے نے
باوجود کوشش کے میں بھی اسے سمجھ نہیں پایا۔ لیکن یہاں استعارہ تیار شدہ فصل اور اس پر ہوئے کسی نقصان کے بارے میں ہے۔
 

یاز

محفلین
بوہت اعلیٰ شراکت اے جی۔

ویسے ایہہ اندازہ نئیں ہویا کہ منڈے نوں ہویا کی سی۔ نشانیاں تے کج ڈینگی ورگیاں لگدیاں نیں۔
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
پتہ نہیں سی پَکیاں تے گڑے پے جاندے نے
ان کو نہیں سمجھ پائی۔
باوجود کوشش کے میں بھی اسے سمجھ نہیں پایا۔ لیکن یہاں استعارہ تیار شدہ فصل اور اس پر ہوئے کسی نقصان کے بارے میں ہے۔

ایک اندازہ یہ ہے کہ شاعر نے مثال دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے گنا پک جائے (یعنی تیار ہو جائے) تو گڑ بنانے میں استعمال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی فصل یا پھل جب تیار ہو جاتا ہے تو اس سے محروم ہونے کا وقت آ جاتا ہے یعنی یا کھا لیا جائے گا یا بیچ دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ
اس کو نظم میں شاید اس پیرائے میں استعمال کیا ہے کہ جیسے بھی جتن کر کے بچے کو پالا پوسا، پڑھایا لکھایا۔ لیکن جوان ہونے کے بعد اس کی جدائی (بوجہ موت) سہنا پڑی۔
 
ایک اندازہ یہ ہے کہ شاعر نے مثال دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے گنا پک جائے (یعنی تیار ہو جائے) تو گڑ بنانے میں استعمال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی فصل یا پھل جب تیار ہو جاتا ہے تو اس سے محروم ہونے کا وقت آ جاتا ہے یعنی یا کھا لیا جائے گا یا بیچ دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ
اس کو نظم میں شاید اس پیرائے میں استعمال کیا ہے کہ جیسے بھی جتن کر کے بچے کو پالا پوسا، پڑھایا لکھایا۔ لیکن جوان ہونے کے بعد اس کی جدائی (بوجہ موت) سہنا پڑی۔
جناب عالی بہت اچھا اندازہ ہے۔ زبردست
اس استعارے کو سمجھنے کے لیے کسی خالص پنڈ کے وسینک سے رابطہ کرنا پڑے گا۔
 
بہت خوبصورت اور بہترین:)
ان کو نہیں سمجھ پائی۔
ایک اندازہ یہ ہے کہ شاعر نے مثال دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے گنا پک جائے (یعنی تیار ہو جائے) تو گڑ بنانے میں استعمال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی فصل یا پھل جب تیار ہو جاتا ہے تو اس سے محروم ہونے کا وقت آ جاتا ہے یعنی یا کھا لیا جائے گا یا بیچ دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ
اس کو نظم میں شاید اس پیرائے میں استعمال کیا ہے کہ جیسے بھی جتن کر کے بچے کو پالا پوسا، پڑھایا لکھایا۔ لیکن جوان ہونے کے بعد اس کی جدائی (بوجہ موت) سہنا پڑی۔
گڑے۔۔۔۔۔۔۔۔ اولوں یا ژالہ باری کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد یہی ہے کہ تیار فصل ژالہ باری سے تباہ ہو گئی ہے۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
بہت خوبصورت اور بہترین:)
ان کو نہیں سمجھ پائی۔
شکریہ رومانہ :) یاز صاحب اور عبدالقیوم چوہدری صاحب نے درست وضاحت کی۔۔ پنجابی میں "گڑا یا گڑے" مصیبت کےلیے استعمال ہوتا ہے بلکہ کسی کو کوسنا ہو تو بھی کہا جاتا ہے "گڑا پے جاوی" یعنی تم پر مصیبت ہو :)
 
اس کا مطلب ہوتا ہے اپنے وجود، جسم پر کسی اذیت کو بہت عرصے تک برداشت کیے رکھنا۔ یہاں ممکنہ طور پر بھوک کاٹنا یا پیٹ کاٹنا

باوجود کوشش کے میں بھی اسے سمجھ نہیں پایا۔ لیکن یہاں استعارہ تیار شدہ فصل اور اس پر ہوئے کسی نقصان کے بارے میں ہے۔

ایک اندازہ یہ ہے کہ شاعر نے مثال دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے گنا پک جائے (یعنی تیار ہو جائے) تو گڑ بنانے میں استعمال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی فصل یا پھل جب تیار ہو جاتا ہے تو اس سے محروم ہونے کا وقت آ جاتا ہے یعنی یا کھا لیا جائے گا یا بیچ دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ
اس کو نظم میں شاید اس پیرائے میں استعمال کیا ہے کہ جیسے بھی جتن کر کے بچے کو پالا پوسا، پڑھایا لکھایا۔ لیکن جوان ہونے کے بعد اس کی جدائی (بوجہ موت) سہنا پڑی۔

گڑے۔۔۔۔۔۔۔۔ اولوں یا ژالہ باری کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد یہی ہے کہ تیار فصل ژالہ باری سے تباہ ہو گئی ہے۔

شکریہ رومانہ :) یاز صاحب اور عبدالقیوم چوہدری صاحب نے درست وضاحت کی۔۔ پنجابی میں "گڑا یا گڑے" مصیبت کےلیے استعمال ہوتا ہے بلکہ کسی کو کوسنا ہو تو بھی کہا جاتا ہے "گڑا پے جاوی" یعنی تم پر مصیبت ہو :)
آپ احباب کا بہت شکریہ:)
 
Top