لاہور میں بک سٹریٹ بنے گی

نبیل

تکنیکی معاون
آج جیو نیوز میں ایک خوشگوار خبر سننے کو ملی کہ لاہور میں تھارنٹن روڈ، جو کہ مال روڈ کی ایک سائیڈ لین ہے، پر ایک بک سٹریٹ کھولنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جہاں پر عوام اور خاص طور پر سٹوڈنٹس کو کم قیمت کتابیں مل سکیں گی۔ اس ربط پر اس سے متعلق کچھ تفصیل بھی موجود ہے۔ مجھے کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ اس طرح پورے شہر میں موجود کتابوں کی جمبو سیلز اور سیکنڈ ہینڈ بک ڈیلرز کو کاروبار کی ایک مرکزی جگہ فراہم کی جا رہی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت اچھی پیشرفت ہے۔ لاہور میں جہاں جگہ جگہ فوڈ سٹریٹس کھلنے رواج شروع ہوا ہوا ہے، وہاں بک سٹریٹ کا شروع ہونا ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو سکتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ارے واہ، کیا اچھی خبر سنائی ہے نبیل بھیا۔

مال، پرانی انار کلی اور اسطرح کی دوسری 'فٹ پاتھ' شاپس سے میں کوئی پچھلے بارہ تیرہ سال سے کتابیں خرید رہا ہوں، خاص طور پر اتوار اور چھٹی والے دن تو مال پر کتابوں کا میلہ لگا ہوتا ہے اور مجھے بہت سی نایاب کتب ملیں ہیں وہاں سے۔ اور ہاں ان پرانی کتابیں بیچنے والوں سے کم قیمتوں پر کتابیں حاصل کرنا بھی ایک فن ہے۔

بہر حال اس سٹریٹ کے بن جانے سے واقعی طالب علموں، اور 'اونچی دکانوں' کے ڈسے ہوؤں کو ایک ہی جگہ مناسب قیمت پر کتابیں حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا۔

اور شاید وہیں کہیں سے 'طلسم ہوشربا' بھی مل جائے کہ بقول عمار کے نئے سیٹ کی قیمت ساڑھے چار ہزار ہے۔ ;)
 

نبیل

تکنیکی معاون
وارث، اورینٹل کالج اور اولڈ کیمپس کے سامنے پرانی کتابوں کی فروخت تو تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ آپ کچھ معلومات فراہم کریں کہ آپ کو کون کون سی کتابیں یہاں سے ملی ہیں۔ طلسم ہوشربا کا تو یہاں سے ملنا مشکل ہے۔
 

arshadmm

محفلین
او جی اللہ لاہوریوں‌ کو ہمیشہ خوش رکھے، سوہنے کام ہی کرتے ہیں۔۔۔ اب دیکھتے جائے کیسے سارے شہروں میں بک سٹریٹس کھلتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ان شاء اللہ ہمارے شہر بے وفا میں بھی
 

تلمیذ

لائبریرین
اب تو لاہور کے کتب فروشی کے کاروبار سے منسلک لوگوں نے پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی پارکوں اور دیگر کھلی جگہوں پر شامیانے وغیرہ لگا کر کتابیں بیچنے کا کاروبار شروع کر دیا ہے جن کے نرخ بہرحال شہر کے بک سٹالوں پر موجود کتابوں سے کم ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں، بالخصوص نوجوان طبقے میں کتابیں پڑھنے کے شوق کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کمپیوٹر یا آن لائن لائبریریوں کا آغاز اپنی جگہ ، روایتی کتابیں پٕھنے کی اہمیت کم نہیں ہو سکتی۔
 

arshadmm

محفلین
واقعی سردیوں کی راتوں میں‌ گرم بستر میں‌گھس کر داستانیں پڑھنے کا اپنا مزہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گو کہ اس وقت میں اس مشین سے سر کھپا رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔اور مشین تو مشین ہی ہوتی ہے ۔۔۔۔ اس سے محبت نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ بے حس گو کہ سارے کام کرتی ہے حسوں‌ والے مگر پھر بھی مشین ہی لگتی ہے۔۔۔۔۔۔ اور کتاب ایک ساتھی کی طرح‌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب کبھی کتاب لانی اسے سینت سینت کر رکھنا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھولوں سے بھرا ہوا کور چڑھانا۔۔۔۔۔۔ پھر ایسی جگہ رکھنا جہاں محفوظ رہے۔۔۔۔۔۔ محبت سے اٹھانا اور بستر میں‌ گھس کر چپکے چپکے پڑھنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اچانک ماں کا دیکھ لینا کہ امتحان کے دنوں‌ میں یہ کیسی پڑھائی ہو رہی ہے اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث، اورینٹل کالج اور اولڈ کیمپس کے سامنے پرانی کتابوں کی فروخت تو تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ آپ کچھ معلومات فراہم کریں کہ آپ کو کون کون سی کتابیں یہاں سے ملی ہیں۔ طلسم ہوشربا کا تو یہاں سے ملنا مشکل ہے۔

بلا مبالغہ میں نے وہاں سے سینکڑوں کتابیں خریدی ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک کتب فروش کہنے لگا کہ آپ بہت دنوں بعد چکر لگاتے ہیں یوں کرتے ہیں کہ ہم اپنی کتابیں لیکر آپ کے گھر سیالکوٹ آ جاتے ہیں۔ اب میں اسے کیا بتاتا کہ وہ گھر میں گھستے تو مجھے بھی ان کے ساتھ ہی واپس جانا پڑتا۔ :)

وہاں کے کتب فروش بھی اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر ہیں مثلاً کسی کے پاس صرف فلسفے یا انگلش کی کتب ہونگی، کسی کے پاس صرف اردو کی وغیرہ وغیرہ۔

مجھے جو وہاں سے نایاب کتب ملیں ان برٹینیکا سمیت پانچ چھ انسائیکلوپیڈیاز، ہسٹری اور سوئیلائزیشن کی کتابیں، رسل کی کتابیں، ول ڈیورانٹ کی کتابیں بشمول گیارہ جلدوں پر مشتمل ہسٹری آف سوئیلائزیشن، فلسفے کی بے شمار کتابیں وغیرہ۔

فرہنگ آصفیہ مکمل چار جلدوں میں (جو کہ اردو لغات کی سب سے مستند لغت ہے)، امیر اللغات، سیرتِ رسول کی کتب، نقوش اور فنون کے کئی پرانے شمارے، باغ و بہار، فسانۂ عجائب، رتن ناتھ سرشار کی 'فسانہ آزاد' کلیات سعدی (نظم و نثر) مطبوعہ تہران اور فارسی کی دیگر کتب، غالبیات کی کئی کتب، شبلی نعمانی کی کتب بشمول شعر العجم، حالی اور دیگر کلاسیکی مصنفین کی کتب۔

کیا بتاؤں، بس جتنے پروفیسر یا ذاتی لائبرریوں کے مالک مرتے ہیں ان سب کی کتب انکے بچے وہاں بیچ جاتے ہیں ابھی چھ مہینے پہلے گوجرانوالہ کے کسی مرحوم صاحبِ ذوق کی کولیکشن وہاں آئی تھی، کم و بیش پانچ چھ سو کتابیں تو ہونگی اور ایک سے بڑھ کر ایک۔ مجھے بھی اپنی کتابوں کا انجام یہی نظر آتا ہے۔ :)
 

نبیل

تکنیکی معاون
بہت شکریہ وارث۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی دریافتوں کی تفصیل پڑھ کر جویریہ نے لاہور کی فلائٹ بک کرا لی ہوگی۔ :)

آپ نے صاحبان ذوق کی کتابوں کے فروخت ہونے کا جو ذکر کیا ہے وہ تلخ حقیقت ہے۔ ایک لائبریری بنانے میں پوری عمر لگ جاتی ہے اور آدمی کے گزر جانے کے بعد یہی کتابیں کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دی جاتی ہیں۔ کئی لوگ اسی وجہ سے اپنی کتابوں کی کلیکشن کسی لائبریری کو ڈونیٹ کر دیتے ہیں جو شاید بہتر راستہ بھی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ وارث۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی دریافتوں کی تفصیل پڑھ کر جویریہ نے لاہور کی فلائٹ بک کرا لی ہوگی۔ :)

آپ نے صاحبان ذوق کی کتابوں کے فروخت ہونے کا جو ذکر کیا ہے وہ تلخ حقیقت ہے۔ ایک لائبریری بنانے میں پوری عمر لگ جاتی ہے اور آدمی کے گزر جانے کے بعد یہی کتابیں کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دی جاتی ہیں۔ کئی لوگ اسی وجہ سے اپنی کتابوں کی کلیکشن کسی لائبریری کو ڈونیٹ کر دیتے ہیں جو شاید بہتر راستہ بھی ہے۔



لیکن کتابیں بیچنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہم جیسوں کو اچھی اور سستی کتابیں مل جاتی ہیں۔

ڈونیٹ کرنے والی بات بہت اچھی ہے نبیل۔ میرے پیارے پیارے شہر میں ایک ہی پبلک لائبریری ہے، کوئی پندرہ سولہ سال پہلے کی بات ہے میں کالج میں پڑھتا تھا، 'اداس نسلیں' ہاتھ میں تھی کہ لائبریری چلا گیا۔ لائبررین نے میرے پاس 'اداس نسلیں' دیکھی تو کہنے لگا یار بہت سارے لوگ یہ کتاب مانگتے ہیں، ہمارے پاس نہیں ہے دے دو۔ بہانہ بنا کر میرا وہاں سے نکل لیا اور پھر شاید ہی کبھی ادھر کا رخ کیا ہو۔ لیکن اب اس بارے میں سوچوں گا کہ میرے بچوں میں سے شاید ہی کوئی میری کتابوں کا 'وارث' بنے۔
 

جیہ

لائبریرین
بہت شکریہ وارث۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی دریافتوں کی تفصیل پڑھ کر جویریہ نے لاہور کی فلائٹ بک کرا لی ہوگی۔ :)

نبیل بھائی یقین کریں کہ میں بھی لاہور کے ان فٹ پاتھ پر بکنے والے ان سستی کتابوں سے مستفید ہو چکی ہوں۔
انارکلی بازار میں ایک بابے سے نہایت ہی قیمتی اور ضخیم کتاب بالکل درست حالت میں ملی تھی جس کا نام ہے۔Reader Digest's Encyclopedic Dictionary ۔ مجھے صرف 120 روپے میں ملی تھی۔ یہ کوئی 3 سال پہلے کی بات ہے
 

تلمیذ

لائبریرین
ایک لائبریری بنانے میں پوری عمر لگ جاتی ہے اور آدمی کے گزر جانے کے بعد یہی کتابیں کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دی جاتی ہیں۔ کئی لوگ اسی وجہ سے اپنی کتابوں کی کلیکشن کسی لائبریری کو ڈونیٹ کر دیتے ہیں جو شاید بہتر راستہ بھی ہے۔

کتابوں سے شغف رکھنے والے کافی لوگوں کا یہ المیہ ہے۔ لیکن میرے خیال میں کسی بندے کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بہت خوش نصیب ہوتا ہے وہ جو اس کی اولاد یا پیاروں میں سے خوش ذوق نکل آئے اور مرحوم ی امرحومہ کی محنت سے بنائی ہوئی اس لائبریری سے خود فائدہ اٹھائے یا پھر کم از کم اتنا ضرور کرے کہ اس خزانے کو ردی میں فروخت کرنے کی بجائے کسی ایسے ادارے کو عطیہ کردے جہاں سے پڑھنے والے ان کتابوں سے مستفیذ ہو سکیں۔
 

طالوت

محفلین
کچھ عرصہ ہوا مجھے بولنے ےسے کم اور پڑھنے سے زیادہ دلچسپی ہوئی ہے تو کافی اچھی اچھی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ کراچی سے متعلق کسی نے بتایا تھا کہ "فرئیر ہال" میریٹ ہوٹل کے سامنے پرانی کتابوں کا بازار پھر سے شروع ہو گیا علاوہ اس کے اگر کسی کو کراچی میں اس طرح کی سرگرمیوں کی اطلاع ہو تو ضرور بتائیں ، لاہور جانا (خصوصا ریلوے کی موجودہ حالت کے سبب) خاص اس مقصد کے لئے قدرے دشوار ہے۔
 
Top