arifkarim
معطل
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہائی کورٹ کے باہر پسند کی شادی کرنے پر ایک خاتون کو اس کے گھر والوں نے اینٹوں کے وار کر کے قتل کر دیا۔
30 سالہ فرزانہ کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ سے تھا اور اس نے کچھ عرصہ پہلے گھر سے بھاگ کر محمد اقبال سے پسند کی شادی کی تھی۔
فرازانہ اپنے میاں اقبال کے ساتھ منگل کی صبح لاہور ہائی کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے لیے آ رہی تھی کہ ججز گیٹ کے پاس پہلے سے ہی ان کے بھائی والد اور ان کا ماموں زاد جو کہ فرزانہ کا سابقہ منگیتر بھی تھا گھات لگائے بیٹھے تھے۔
جونہی فرزانہ احاطہ عدالت میں داخل ہونے لگیں یہ لوگ انھیں گھسیٹ کر دوسری طرف لے گئے اور چند ہی لمحوں میں ان کے سر پر اینٹیں مار مار کر انھیں قتل کر دیا۔
ایس پی سول لائنز عمر چیمہ کے مطابق آس پاس موجود پولیس اہلکار فرازانہ کو چھڑوانے کے لیے دوڑے بھی لیکن چار حملہ آوروں کے علاوہ بھی کچھ لوگ ان کے ساتھ تھے جن کے پاس اسلحہ بھی تھا۔ انھوں نے پولیس سے مزاحمت کی اور جتنی دیر میں پولیس اہلکار نے پستول چھینا فرزانہ مر چکی تھیں۔
پاکستان میں خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے خلاف کئی مظاہرے ہو چکے ہیں
’وہ لوگ فرازانہ اور اس کے خاوند کا تعاقب بظاہرگاؤں سے کرتے آ رہے تھے۔ ان کے پاس پستول بھی تھا۔ وہ باقیوں کو بھی مارنا چاہتے تھے۔ لیکن پولیس پہنچی تو کچھ لوگوں نے پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی شروع کر دی۔ پہلے پولیس اہلکاروں نے پستول چھینا اور اس دوران ایک فائر بھی ہوا۔ لیکن جتنی دیر میں باقی لوگوں پر قابو پایا گیا۔ فرزانہ کے خاندان والے اسے قتل کر چکے تھے۔‘
پولیس نے فرزانہ کے والد عظیم کو گرفتار کر لیا جبکہ باقی لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس فرار ہونے والوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔ فرزانہ کے خاوند اقبال نے ان کے والد دو بھائیوں سابقہ منگیتر اور 15 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دے دی ہے۔
فرزانہ کی شادی کے بعد ان کے گھروالوں نے ان کے اغوا کا مقدمہ درج کروایا لیکن فرازنہ نے پولیس کو بیان دیا کہ محمد اقبال کے ساتھ انھوں نےاپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ جس کے بعد فرزانہ کے شوہر نے ہائی کورٹ میں درخواست دے تھی کہ ان کے خلاف اغوا کا مقدمہ ختم کیا جائے۔ اسی سلسلے میں منگل کو وہ عدالت آ رہے تھے کہ ان پر حملہ کر دیا گیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/05/140527_lahore_honor_killing_zz.shtml
30 سالہ فرزانہ کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ سے تھا اور اس نے کچھ عرصہ پہلے گھر سے بھاگ کر محمد اقبال سے پسند کی شادی کی تھی۔
فرازانہ اپنے میاں اقبال کے ساتھ منگل کی صبح لاہور ہائی کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے لیے آ رہی تھی کہ ججز گیٹ کے پاس پہلے سے ہی ان کے بھائی والد اور ان کا ماموں زاد جو کہ فرزانہ کا سابقہ منگیتر بھی تھا گھات لگائے بیٹھے تھے۔
جونہی فرزانہ احاطہ عدالت میں داخل ہونے لگیں یہ لوگ انھیں گھسیٹ کر دوسری طرف لے گئے اور چند ہی لمحوں میں ان کے سر پر اینٹیں مار مار کر انھیں قتل کر دیا۔
ایس پی سول لائنز عمر چیمہ کے مطابق آس پاس موجود پولیس اہلکار فرازانہ کو چھڑوانے کے لیے دوڑے بھی لیکن چار حملہ آوروں کے علاوہ بھی کچھ لوگ ان کے ساتھ تھے جن کے پاس اسلحہ بھی تھا۔ انھوں نے پولیس سے مزاحمت کی اور جتنی دیر میں پولیس اہلکار نے پستول چھینا فرزانہ مر چکی تھیں۔
پاکستان میں خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے خلاف کئی مظاہرے ہو چکے ہیں
’وہ لوگ فرازانہ اور اس کے خاوند کا تعاقب بظاہرگاؤں سے کرتے آ رہے تھے۔ ان کے پاس پستول بھی تھا۔ وہ باقیوں کو بھی مارنا چاہتے تھے۔ لیکن پولیس پہنچی تو کچھ لوگوں نے پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی شروع کر دی۔ پہلے پولیس اہلکاروں نے پستول چھینا اور اس دوران ایک فائر بھی ہوا۔ لیکن جتنی دیر میں باقی لوگوں پر قابو پایا گیا۔ فرزانہ کے خاندان والے اسے قتل کر چکے تھے۔‘
پولیس نے فرزانہ کے والد عظیم کو گرفتار کر لیا جبکہ باقی لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس فرار ہونے والوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔ فرزانہ کے خاوند اقبال نے ان کے والد دو بھائیوں سابقہ منگیتر اور 15 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دے دی ہے۔
فرزانہ کی شادی کے بعد ان کے گھروالوں نے ان کے اغوا کا مقدمہ درج کروایا لیکن فرازنہ نے پولیس کو بیان دیا کہ محمد اقبال کے ساتھ انھوں نےاپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ جس کے بعد فرزانہ کے شوہر نے ہائی کورٹ میں درخواست دے تھی کہ ان کے خلاف اغوا کا مقدمہ ختم کیا جائے۔ اسی سلسلے میں منگل کو وہ عدالت آ رہے تھے کہ ان پر حملہ کر دیا گیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/05/140527_lahore_honor_killing_zz.shtml