ربیع م
محفلین
’20 ہلاکتوں کی تصدیق، ملبے تلے دبے افراد کی تلاش جاری‘
عنبر شمسی بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بدھ کی رات منہدم ہونے والے کارخانے کے ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کی کارروائیاں جمعرات کی رات کو بھی جاری ہیں۔عنبر شمسی بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
ریسکیو 1122 کے ڈائریکٹر جنرل ارشد ضیا نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 ہوگئی ہے جبکہ خدشہ ہے کہ متعدد افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
ریسکیو 1122 کے ایک اہلکار کے مطابق ملبے کو احتیاط سے ہٹایا جا رہا ہے کیونکہ اب بھی اس کے نیچے متعدد افراد دبے ہوئے ہیں۔
حادثے کے بعد لاہور کے سروسز، جناح اور شریف میڈیکل سٹی میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی
یہ واقعہ بدھ کو شہر کے نواح میں واقع صنعتی علاقے سندر انڈسٹریل سٹیٹ میں پیش آیا تھا جب چار منزلہ کارخانے کی پہلے چھت اور پھر پوری عمارت منہدم ہوگئی تھی۔
جائے وقوعہ پر امدادی سرگرمیوں میں 400 سے زائد افراد حصہ لے رہے ہیں جن میں ریسکیو 1122، پاک فوج، ایدھی فاؤنڈیشن کے علاوہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن سمیت متعدد تنظیموں کے کارکنان شامل ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے بی بی سی کو بتایا کہ حادثے کے بعد اب تک 103 افراد کو ملبے میں سے نکالا جا چکا ہے۔
بھاری مشینری کی مدد سے عمارت کی اوپری منزل کا ملبہ ہٹایا جا رہا ہے
اس سے قبل آئی ایس پی آر نے حادثے کے وقت عمارت میں موجود افراد کی تعداد اندازاً 100 سے 150 کے درمیان بتائی تھی۔
موقع پر موجود ریسکیو 1122 کے ایک اہلکار نے بتایا کہ چند گھنٹے قبل ملبے سے آوازیں سنے جانے کی اطلاعات کے بعد ملبہ ہٹانے کا عمل روکا گیا تاہم اب دوبارہ بھاری مشینری کی مدد سے عمارت کی اوپری منزل کا ملبہ ہٹایا جا رہا ہے۔
آئی ایس پی آر نے بی بی سی کو بتایا کہ حادثے کے بعد اب تک 103 افراد کو ملبے میں سے نکالا جا چکا ہے
حادثے کے بعد لاہور کے سروسز، جناح اور شریف میڈیکل سٹی میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے شریف میڈیکل سٹی اور جناح ہسپتال میں موجود زخمیوں کی عیادت کی۔ انھوں نے جائے حادثہ کا دورہ بھی کیا اور اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
حادثے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین جائے حادثہ پر جمع تھے
خیال کیا جاتا ہے کہ حال ہی میں آنے والے زلزلے سے اس عمارت کو جزوی نقصان بھی پہنچا تھا۔
خیال رہے کہ لاہور میں ماضی میں بھی بوسیدہ رہائشی اور صنعتی عمارتوں کے انہدام کے واقعات میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔