سید شہزاد ناصر
محفلین
ٹریفک کی بھیڑ اور پیدل چلنے والوں کا ایک سمندر لاہور کے اندرون شہر میں دہلی دروازے تک پہچنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔
دہلی دروازے کے اردگرد درجنوں دکانیں ہیں جہاں پلاسٹک کے برتنوں، سستی چپلوں، مصالحوں، تولیوں اور مسواک سے لے کر عام زندگی کی ضرورت کی تقریباً ہر چیز سستے داموں خریدی جا سکتی ہے یعنی اس جگہ کو غریب آدمی کی لبرٹی مارکیٹ ہی سمجھ لیجیے۔
یہی وجہ ہے کے یہاں سال کے بارہ مہینے رونق لگی رہتی ہے اور تو اور دروازے کے اندر بھی کئی دکاندار اپنی رہڑیاں سجائے بیٹھے ہیں۔
دہلی دروازے سے شروع ہونے والی سڑک شاہی گزر گاہ کہلاتی ہے۔ یہ سڑک ڈیڑھ کلومیٹر طویل ہے اور کوتوالی پہنچ کر ختم ہوتی ہے۔ شاہی گزر گاہ پر مسجد وزیر خان، شاہی حمام اور سنہری مسجد سمیت کئی اہم تاریخی عمارتیں قائم ہیں۔
آرکیٹیکٹ نعیم محمود
"اگر آپ تین منزلہ عمارت پر کام کر رہے ہیں تو پہلی منزل والا آپ کو کام کرنے دے گا لیکن دوسری منزل والا اعتراض کرے گا اور ہوسکتا ہے کہ تیسری منزل والا اپنے حصے کو تالہ لگا کر کہیں چلا جائے۔ ایسے حالات میں دکانوں محلوں اور مکانوں کی مرمت جوئے شیر لانے سے کم نہ تھی۔۔۔"
کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ قلعے سے نکل کر اسی راستے حمام اور جمعے کو سنہری مسجد نماز ادا کرنے کے لیے آتے تھے۔ اسی مناسبت سے اس سڑک کو شاہی گزر گاہ کا نام دیا گیا ہے۔
سڑک کے دونوں جانب جو بازار ہے وہ اتنا تنگ ہے کہ یہاں گاڑیوں کا داخلہ بند ہے جبکہ بازار کے دائیں اور بائیں جانب گلیوں کا ایک جال ہے جس میں سینکڑوں مکان ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس علاقے کی ہر عمارت ہی تاریخی ہے۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ لاہور کا یہ جیتا جاگتا ثقافتی ورثہ اپنے رہائشیوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب ورلڈ بینک کے اشتراک سے پنجاب حکومت نے پرانے شہر کے حسن کو محفوظ کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا ہے جس کے پہلے مرحلے پر ستر کروڑ لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
مقامی رہائشی طلعت
"ہم پہلے ایک ہی کمرے میں رہتے تھے یہاں ایک طرف باورچی خانہ اور غسل خانہ تھا۔ کھانہ پکانے کے لیے گرمی میں کمرے کا پنکھا بند کرنا پڑتا، بہت دقت ہوتی تھی لیکن اب انھوں نے دو کمرے کچن اور غسلخانہ بھی الگ بنا دیے ہیں۔ ہماری تو زندگی میں سکون میں آیا ہے"
منصوبے کے آرکیٹیکٹ زیغم محمود بتاتے ہیں کہ کئی نسلوں سے آباد رہائشیوں اور دکانداروں کو بحالی کے منصوبے میں تعاون کے لیے تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
’اگر آپ تین منزلہ عمارت پر کام کر رہے ہیں تو پہلی منزل والا آپ کو کام کرنے دے گا لیکن دوسری منزل والا اعتراض کرے گا اور ہو سکتا ہے کہ تیسری منزل والا اپنے حصے کو تالہ لگا کر کہیں چلا جائے۔ ایسے حالات میں دکانوں محلوں اور مکانوں کی مرمت جوئے شیر لانے سے کم نہ تھی۔ لیکن ہماری سوشل موبیلایزیشن ٹیموں نے بہت محنت کی اور لوگوں کو قائل کیا کہ یہ منصوبہ ان کے فائدے کے لیے ہے۔ ان مسائل کے باعث ابتدا میں یہ منصوبہ تاخیر کا شکارہوا‘۔
طلعت چار بچوں کی ماں ہیں۔ ان کا سسرالی خاندان دہلی دروازے کے سرجن سنگھ سٹریٹ میں قیام پاکستان سے بھی پہلے سےرہائش پذیر ہے ۔ بحالی کے منصوبے کے دوران طلعت اور اس کے محلے میں دوسرے مکانوں کی مرمت بھی کی گئی۔
قدیم شہر کی بحالی کے لیے پرانی طرز کا تعمیراتی میٹریل استمعال کیا جا رہا ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے اس سارے کام کے لیے محض رسمی سا معاوضہ ادا کیا ہے۔ سرجن سنگھ سٹریٹ کے ایک اور رہائشی شیخ جہانگیر کہتے ہیں ’مکان کی حالت بہت خراب تھی۔ پیسے ہم نے کیا دینے تھے صرف فارمیلٹی پوری کی ہے۔ لاکھ دو لاکھ روپیہ کیا چیز ہے۔ اتنا پیسہ تو اگر ہم خود بنواتے تو ملبہ اٹھانے والوں نے لے لینا تھا‘۔
شاہی گزرگاہ پر مسجد وزیر خان کے ارد گرد سیوریج لائنوں کی مرمت اور یہاں سے تجاوزات ہٹانے کا کام بھی منصوبے کا حصہ ہے۔
قدیم شہر کی بحالی کے لیے پرانی طرز کا تعمیراتی میٹریل استمعال کیا جا رہا ہے جسے دلی دروازے کے قریب ہی ایک ورکشاپ میں خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے۔
اس ورکشاپ میں لکڑی کی جالیاں روایتی دروازے اور جھروکے بنائے جاتے ہیں جبکہ سرخ مٹی کی ٹائلیں جو قدیم شہر کی عمارتوں کا اہم جز ہیں یہیں تیار ہو رہی ہیں۔ عمارتوں کی مرمت چونے اور کنکر سے بنے خاص آمیزے سے کی جا رہی ہے۔
"جب کبھی ہم نے اپنی تاریخ کو دکھایا بھی ہے تو اسے یادگاروں عمارتوں اور عجائب گھروں جیسی بے جان چیزوں تک محدود رکھا ہے۔ لیکن ہماری ثقافت کا ایک جیتا جاگتا رخ بھی ہے اور وہ ہے اندرون لاہور کی زندگی، وہاں کا رسم و رواج، بازار، گلیاں، کھیل تماشے اور کھانے جسے ہم دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں"
اولڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کامران لاشاری
دہلی دروازے کے اردگرد درجنوں دکانیں ہیں جہاں پلاسٹک کے برتنوں، سستی چپلوں، مصالحوں، تولیوں اور مسواک سے لے کر عام زندگی کی ضرورت کی تقریباً ہر چیز سستے داموں خریدی جا سکتی ہے یعنی اس جگہ کو غریب آدمی کی لبرٹی مارکیٹ ہی سمجھ لیجیے۔
یہی وجہ ہے کے یہاں سال کے بارہ مہینے رونق لگی رہتی ہے اور تو اور دروازے کے اندر بھی کئی دکاندار اپنی رہڑیاں سجائے بیٹھے ہیں۔
دہلی دروازے سے شروع ہونے والی سڑک شاہی گزر گاہ کہلاتی ہے۔ یہ سڑک ڈیڑھ کلومیٹر طویل ہے اور کوتوالی پہنچ کر ختم ہوتی ہے۔ شاہی گزر گاہ پر مسجد وزیر خان، شاہی حمام اور سنہری مسجد سمیت کئی اہم تاریخی عمارتیں قائم ہیں۔
آرکیٹیکٹ نعیم محمود
"اگر آپ تین منزلہ عمارت پر کام کر رہے ہیں تو پہلی منزل والا آپ کو کام کرنے دے گا لیکن دوسری منزل والا اعتراض کرے گا اور ہوسکتا ہے کہ تیسری منزل والا اپنے حصے کو تالہ لگا کر کہیں چلا جائے۔ ایسے حالات میں دکانوں محلوں اور مکانوں کی مرمت جوئے شیر لانے سے کم نہ تھی۔۔۔"
کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ قلعے سے نکل کر اسی راستے حمام اور جمعے کو سنہری مسجد نماز ادا کرنے کے لیے آتے تھے۔ اسی مناسبت سے اس سڑک کو شاہی گزر گاہ کا نام دیا گیا ہے۔
سڑک کے دونوں جانب جو بازار ہے وہ اتنا تنگ ہے کہ یہاں گاڑیوں کا داخلہ بند ہے جبکہ بازار کے دائیں اور بائیں جانب گلیوں کا ایک جال ہے جس میں سینکڑوں مکان ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس علاقے کی ہر عمارت ہی تاریخی ہے۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ لاہور کا یہ جیتا جاگتا ثقافتی ورثہ اپنے رہائشیوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب ورلڈ بینک کے اشتراک سے پنجاب حکومت نے پرانے شہر کے حسن کو محفوظ کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا ہے جس کے پہلے مرحلے پر ستر کروڑ لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
مقامی رہائشی طلعت
"ہم پہلے ایک ہی کمرے میں رہتے تھے یہاں ایک طرف باورچی خانہ اور غسل خانہ تھا۔ کھانہ پکانے کے لیے گرمی میں کمرے کا پنکھا بند کرنا پڑتا، بہت دقت ہوتی تھی لیکن اب انھوں نے دو کمرے کچن اور غسلخانہ بھی الگ بنا دیے ہیں۔ ہماری تو زندگی میں سکون میں آیا ہے"
منصوبے کے آرکیٹیکٹ زیغم محمود بتاتے ہیں کہ کئی نسلوں سے آباد رہائشیوں اور دکانداروں کو بحالی کے منصوبے میں تعاون کے لیے تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
’اگر آپ تین منزلہ عمارت پر کام کر رہے ہیں تو پہلی منزل والا آپ کو کام کرنے دے گا لیکن دوسری منزل والا اعتراض کرے گا اور ہو سکتا ہے کہ تیسری منزل والا اپنے حصے کو تالہ لگا کر کہیں چلا جائے۔ ایسے حالات میں دکانوں محلوں اور مکانوں کی مرمت جوئے شیر لانے سے کم نہ تھی۔ لیکن ہماری سوشل موبیلایزیشن ٹیموں نے بہت محنت کی اور لوگوں کو قائل کیا کہ یہ منصوبہ ان کے فائدے کے لیے ہے۔ ان مسائل کے باعث ابتدا میں یہ منصوبہ تاخیر کا شکارہوا‘۔
طلعت چار بچوں کی ماں ہیں۔ ان کا سسرالی خاندان دہلی دروازے کے سرجن سنگھ سٹریٹ میں قیام پاکستان سے بھی پہلے سےرہائش پذیر ہے ۔ بحالی کے منصوبے کے دوران طلعت اور اس کے محلے میں دوسرے مکانوں کی مرمت بھی کی گئی۔
قدیم شہر کی بحالی کے لیے پرانی طرز کا تعمیراتی میٹریل استمعال کیا جا رہا ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے اس سارے کام کے لیے محض رسمی سا معاوضہ ادا کیا ہے۔ سرجن سنگھ سٹریٹ کے ایک اور رہائشی شیخ جہانگیر کہتے ہیں ’مکان کی حالت بہت خراب تھی۔ پیسے ہم نے کیا دینے تھے صرف فارمیلٹی پوری کی ہے۔ لاکھ دو لاکھ روپیہ کیا چیز ہے۔ اتنا پیسہ تو اگر ہم خود بنواتے تو ملبہ اٹھانے والوں نے لے لینا تھا‘۔
شاہی گزرگاہ پر مسجد وزیر خان کے ارد گرد سیوریج لائنوں کی مرمت اور یہاں سے تجاوزات ہٹانے کا کام بھی منصوبے کا حصہ ہے۔
قدیم شہر کی بحالی کے لیے پرانی طرز کا تعمیراتی میٹریل استمعال کیا جا رہا ہے جسے دلی دروازے کے قریب ہی ایک ورکشاپ میں خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے۔
اس ورکشاپ میں لکڑی کی جالیاں روایتی دروازے اور جھروکے بنائے جاتے ہیں جبکہ سرخ مٹی کی ٹائلیں جو قدیم شہر کی عمارتوں کا اہم جز ہیں یہیں تیار ہو رہی ہیں۔ عمارتوں کی مرمت چونے اور کنکر سے بنے خاص آمیزے سے کی جا رہی ہے۔
"جب کبھی ہم نے اپنی تاریخ کو دکھایا بھی ہے تو اسے یادگاروں عمارتوں اور عجائب گھروں جیسی بے جان چیزوں تک محدود رکھا ہے۔ لیکن ہماری ثقافت کا ایک جیتا جاگتا رخ بھی ہے اور وہ ہے اندرون لاہور کی زندگی، وہاں کا رسم و رواج، بازار، گلیاں، کھیل تماشے اور کھانے جسے ہم دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں"
اولڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کامران لاشاری
اولڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کامران لاشاری کہتے ہیں کہ اس منصوبے کا مقصد ایک جیتی جاگتی تاریخ اور ثقافت کو محفوظ بنانا ہے۔
’جب کبھی ہم نے اپنی تاریخ کو دکھایا بھی ہے تو اسے یادگاروں عمارتوں اور عجائب گھروں جیسی بے جان چیزوں تک محدود رکھا ہے۔ لیکن ہماری ثقافت کا ایک جیتا جاگتا رخ ایک اور بھی ہے اور وہ ہے اندرون لاہور کی زندگی، وہاں کا رسم و رواج، بازار، گلیاں، کھیل تماشے اور کھانے جسے ہم دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔
منصوبے کے پہلے مرحلے پر ساٹھ فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ سو برس میں پہلی بار یہاں گلیوں میں ٹائلیں لگانے اور نئی سیوریج لائنیں بچھانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ بجلی کی تاریں بھی زیرزمین بچھائی جا رہی ہیں۔
توقع ہے کہ منصوبہ اس سال کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا۔
ربط
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/08/130807_lahore_old_city_rk.shtml
’جب کبھی ہم نے اپنی تاریخ کو دکھایا بھی ہے تو اسے یادگاروں عمارتوں اور عجائب گھروں جیسی بے جان چیزوں تک محدود رکھا ہے۔ لیکن ہماری ثقافت کا ایک جیتا جاگتا رخ ایک اور بھی ہے اور وہ ہے اندرون لاہور کی زندگی، وہاں کا رسم و رواج، بازار، گلیاں، کھیل تماشے اور کھانے جسے ہم دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔
منصوبے کے پہلے مرحلے پر ساٹھ فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ سو برس میں پہلی بار یہاں گلیوں میں ٹائلیں لگانے اور نئی سیوریج لائنیں بچھانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ بجلی کی تاریں بھی زیرزمین بچھائی جا رہی ہیں۔
توقع ہے کہ منصوبہ اس سال کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا۔
ربط
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/08/130807_lahore_old_city_rk.shtml