فرخ منظور
لائبریرین
لاہور کے لیے
۔۔۔۔۔گلناز کوثر۔۔۔۔۔۔
گرد سے اٹی ہوئی
شام کے پروں تلے
جی پی او کے چوک میں
سن رسیدہ پیڑ نے
آنکھ کی نمی چھپائی
نیم زرد پتیوں کو جھاڑتی
شاخ نے صدا اٹھائی
دل کو اک ملال سا چیر کر گزر گیا
مسکراتے، گیت گاتے شہر تجھ کو کیا ہوا
بدلیاں جلی ہوئی ہیں،
تتلیاں دھواں ہوئی ہیں،
جھاڑیوں کی گود میں جگنوؤں کی راکھ ہے
اک سیاہ دن کے بعد اک سیاہ رات ہے
چمچماتی دھوپ اور کہکشاں کی بات
جانے کس جنم کی بات ہے
باغ میں گھٹن بڑی ہے
اور گھروں میں بے کلی ہے
اک گلی کی لاش
دوسری گلی میں آ پڑی ہے
لوگ جانے کس سے منہ چھپا رہے ہیں
ایک ایک سانس پر گھٹی گھٹی
ہوا سےخوف کھا رہے ہیں
دھوپ اور چاندنی کا رنگ ہی بھلا دیا
دھول کے غبار نے شام اور رات کا فرق ہی مٹا دیا
دفتروں پہ قفل درسگاہ بند ہو گئی
گاڑیوں کی بھیڑ میں مال روڈ کھو گئی
رینگتے ہوؤں کو ۔۔۔،دیکھ
فیصلہ کٹھن ہوا
پھیپھڑوں میں زہر کو اتار کے
رزق کا گھڑا بھریں کہ گھر میں بند بیٹھ کر
چار تازہ سانس لیں
تیرے بہتے پانیوں کی، پنچھیوں کی خیر ہو
کچھ برس کی بات ہے
تیرے باغ اور کھیت، ڈالیاں بھی، پتیاں بھی
جھلملا رہی تھیں پاک صاف دن ترا نصیب تھے
اے دلٍ سیہ بتا
تیری پھیلتی رگوں میں
کس نے میل بھر دیا
تیرے سبز راستوں کو کیسا روگ کھا گیا۔۔۔
دور دیس میں کٹے دنوں کا رنج
تیرا حال دیکھ کر پھوٹ پھوٹ رو دیا۔۔۔۔
سوچتی ہوں کیا کہوں؟
پوچھنے کو کیا رہا؟
یہیں کہیں پہ بس رہی تھی
یاد ایک سوگ کی
چاپ ایک خواب کی ۔۔....
انہیں بھی دھند کھا گئی؟
یا دھواں نگل گیا؟
کیوں وہ رات بجھ گئی
کیوں وہ چاند مر گیا
میری روح میں بسے
میری جان سے جڑے
شہر تجھ کو کیا ہوا؟
۔۔۔۔۔گلناز کوثر۔۔۔۔۔۔
گرد سے اٹی ہوئی
شام کے پروں تلے
جی پی او کے چوک میں
سن رسیدہ پیڑ نے
آنکھ کی نمی چھپائی
نیم زرد پتیوں کو جھاڑتی
شاخ نے صدا اٹھائی
دل کو اک ملال سا چیر کر گزر گیا
مسکراتے، گیت گاتے شہر تجھ کو کیا ہوا
بدلیاں جلی ہوئی ہیں،
تتلیاں دھواں ہوئی ہیں،
جھاڑیوں کی گود میں جگنوؤں کی راکھ ہے
اک سیاہ دن کے بعد اک سیاہ رات ہے
چمچماتی دھوپ اور کہکشاں کی بات
جانے کس جنم کی بات ہے
باغ میں گھٹن بڑی ہے
اور گھروں میں بے کلی ہے
اک گلی کی لاش
دوسری گلی میں آ پڑی ہے
لوگ جانے کس سے منہ چھپا رہے ہیں
ایک ایک سانس پر گھٹی گھٹی
ہوا سےخوف کھا رہے ہیں
دھوپ اور چاندنی کا رنگ ہی بھلا دیا
دھول کے غبار نے شام اور رات کا فرق ہی مٹا دیا
دفتروں پہ قفل درسگاہ بند ہو گئی
گاڑیوں کی بھیڑ میں مال روڈ کھو گئی
رینگتے ہوؤں کو ۔۔۔،دیکھ
فیصلہ کٹھن ہوا
پھیپھڑوں میں زہر کو اتار کے
رزق کا گھڑا بھریں کہ گھر میں بند بیٹھ کر
چار تازہ سانس لیں
تیرے بہتے پانیوں کی، پنچھیوں کی خیر ہو
کچھ برس کی بات ہے
تیرے باغ اور کھیت، ڈالیاں بھی، پتیاں بھی
جھلملا رہی تھیں پاک صاف دن ترا نصیب تھے
اے دلٍ سیہ بتا
تیری پھیلتی رگوں میں
کس نے میل بھر دیا
تیرے سبز راستوں کو کیسا روگ کھا گیا۔۔۔
دور دیس میں کٹے دنوں کا رنج
تیرا حال دیکھ کر پھوٹ پھوٹ رو دیا۔۔۔۔
سوچتی ہوں کیا کہوں؟
پوچھنے کو کیا رہا؟
یہیں کہیں پہ بس رہی تھی
یاد ایک سوگ کی
چاپ ایک خواب کی ۔۔....
انہیں بھی دھند کھا گئی؟
یا دھواں نگل گیا؟
کیوں وہ رات بجھ گئی
کیوں وہ چاند مر گیا
میری روح میں بسے
میری جان سے جڑے
شہر تجھ کو کیا ہوا؟