لاہور کے مختلف علاقوں کی تاریخی کہانیاں

لاہور میں میری رہائش ٹیمپل روڈ لاہور پر ہے جو مزنگ سے براستہ صفانوالا چوک ۔ ریگل چوک اور پھر ہال روڈ سےمیو اسپتال کی طرف جانے والی سڑک ہے۔ یہاں موجود ایک گورودوارہ جو سکھوں کی عبادت گاہ ہے کی تاریخ اور ماضی کی تلاش میں مجھے چسکا پڑا کہ لاہور کے گلی کوچوں میں موجود تاریخی اہمیت کی عمارات پر کچھ ریسرچ کی جا سکے۔ اس ریسرچ کے نتیجے میں بہت سی کہانیاں سامنے آئیں اور ان کہانیوں میں کچھ سینہ بسینہ اور کچھ کتابوں میں پائی گئیں۔ یہاں انہی کہانیوں کا ذکر ہوگا اور مختلف ورژنز پر گفتگو بھی ہوگی کیا خیال ہے شروع کریں ۔۔؟؟
یاد رہے کہ مجھے مورخ کہلانے کا دعویٰ نہیں ہے ۔ نہ ہی فکشن تحریر کرنے کا شوق ہے۔ خواہش صرف ان جگہوں سے منسوب کہانیوں کو دستاویزی شکل میں لانا اور اس سلسلے میں مختلف نقطہ نظر جو اگر کہیں تاریخ کی کتابوں میں ملے تو ان کا بیان ہے اور ان کے مقابلے میں مقامی سینہ گزٹ کی کہانیوں کا بیان ہے تاکہ دونوں کا تقابل ہو سکے
 
گورو دوارہ چھٹی بادشاہی مزنگ لاہور

ٹیمپل روڈ لاہور کا نام ٹیمپل روڈ کیوں ہے ۔۔؟؟
سوال ذہن میں اٹھتا ہے اور جب اس کے جواب کی تلاش کرتے ہیں تو ماما کبابوں والے کے ساتھ گورمے بیکری کے قریب ہمیں یہ ایک پیلی سی عمارت نظر آتی ہے۔ جس کے دروازے پر سکھوں کا مذھبی نشان بنا ہوا ہے۔ اور کچھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانا ہوتا ہے۔ یہ گورودوارہ چھٹی بادشاہی کہلاتا ہے جو اب متروکہ وقف املاک بورڈ کے زیر اہتمام ہے اور سکھ زائرین کے لیئے کھولا جاتا ہے۔ اس میں ایک فیملی کو اس عمارت کے کیئر ٹیکر کے طور پر رہنے کی اجازت دی گئی ہے جو اپنا کام ۔۔۔بخوبی۔۔۔ کر رہی ہے۔

B-C6RjMCEAAIXWx.jpg

Chevinpatshshgurdwara.jpg

Chevinpatshahigyurdwarachanduu.jpg
 
آخری تدوین:
جب سوال کیا گیا تو سوائے اس گورودوارے کے نام کے اس گھر کے کیئر ٹیکرز کچھ نہ بتا سکے کیونکہ انہیں اس گورودوارے کی تاریخی اہمیت کا پورا ادراک تھا اور علمی سطح پر بھی انکی معلومات اس قدر مکمل تھیں کہ انہیں کریدنا تک ممکن نہ تھا-البتہ اس کی آن لائن سرچ ممکن تھی۔ اس سرچ کے دوران ایک پرانا آرٹیکل جس میں کچھ مرچ مصالحہ لگا کر ایک کہانی بیان کی گئی تھی ملا۔ لیکن اس سے تشنگی رفع ہونا ممکن نہ ہو سکا۔ مزید ڈھونڈنے پر اسی کہانی کے مختلف ورژنز نظر میں آئے ۔ ہر ایک میں اپنے مطابق تبدیلیاں کی گئی تھیں ۔ ان سب کو ملا کر ایک کہانی بنا کر پیش کرنے کی سعی ہے امید ہے پسند آئے گی
 
آخری تدوین:
لاہور کا ایک قاضی تھا جسکا نام قاضی رستم خان تھا ۔ یہ قاضی بادشاہ جہانگیر کے دور میں یہاں پر اپنے فرائض سرانجام دیا کرتا تھا۔ اس کے دور میں کسی مغل فوجی افسر نے ایک سکھ سردار سے اس کا گھوڑا جبرا چھین لیا۔ سکھوں کے اس وقت کے پانچویں گرو ارجن سنگھ کا دور چل رہا تھا۔ گرو ارجن سنگھ وہ گرو ہیں جنہوں نے گرو گرنتھ صاحب کو اکٹھا کیا اور سری ہرمندر صاحب کے مقام پر اسے رکھنے کا انتظام کیا۔ اسی دور میں ترن تارن شہر کی بنیاد رکھی گئی جو گووندوال شہر کے قریب واقع ہے اور سکھوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
وہ گھوڑا ہوتے ہوتے قاضی صاحب تک پہنچ گیا۔اور قاضی صاحب کی حویلی 1 مزنگ میں واقع تھی-ارجن سنگھ جو سکھوں کے پانچویں گرو تھے ان کے ایک قریبی شاگر د تھے جو بعد میں سکھوں کے چھٹے گرو بنے انہیں تاریخ گرو ہرگوبند سنگھ کے نام سے جانتی ہے-یہ گرو لاہور کے حضرت میاں میر صاحب کے دوست تھے اور ان سے ملنے آتے جاتے رہتے تھے-
(سکھ روایت کے مطابق) قاضی صاحب کی ایک بیٹی تھی جبکہ مسلمان اور عیسائی روایات کے مطابق ان کی بیٹی نہیں بلکہ ایک خریدی ہوئی باندی تھی جو چھوٹی عمر میں خرید کر قاضی صاحب نے اپنے پاس رکھ لی تھی- اس کا نام کنول رکھا گیا ۔ جو پنجابی میں بگڑ کر کولاں (بتلفظ کاؤلاں) بن گیا۔ یہ کاؤلاں چھوٹی عمر میں سکھوں کے مذہبی گیت جنہیں سکھ بانیاں کہتے ہیں سنا کرتی تو بہت خوش ہوتی اور اسے ان سے انس ہوگیا-اس پر قاضی صاحب کی حمیت جاگی اور انہوں نے اس بچی کو مذہبی تعلیم دینے کی کوشش کی ۔ بچی کی عمر کم تھی لہذا اس پر زیادہ سختی نہ کر سکتے تھے لیکن بچی کا لگاؤ سکھ بانیوں کی طرف بڑہتا گیا۔نتیجتا انہوں نے یہ بچی حضرت میاں میر کے حوالے کر دی تاکہ وہ نتیجتا انہوں نے یہ بچی حضرت میاں میر کے حوالے کر دی تاکہ وہ اسکی تربیت اسلامی تعلیمات کی طرف کر سکیں (یہاں یہ قصہ مسلمان اور عیسائی مورخین کے موقف کی تائید کرتا ہے کیونکہ اگر وہ بیٹی ہوتی تو اسے کبھی خانقاہ پر رہنے نہ بھیجا جاتا)-حضرت میاں میر کی خانقاہ پر سکھوں کے گرو ہرگوبند سنگھ کی آمد اور ان کی ملاقاتوں کو دیکھ کر کاؤلاں کا رجحان سکھ مت کی طرف ہوا اور اس کی ہرگوبند سنگھ کے ساتھ ہیلو ہائے ہوگئی ۔
کچھ روایات کے مطابق کاؤلاں بی بی نے ہر گوبند سنگھ کو سکھ سردار کے چھنے ہوئے گھوڑے کا بھی بتایا اور اپنے سکھوں میں دلچسپی لینے کے متعلق بھی بتایا۔ ہرگوبند سنگھ نے گھوڑا چرانے کے لیئے کنول بی بی سے مل کر پلان بنایا اور قاضی صاحب کے گھر اپنے گھوڑے پر پہنچ گیا۔ رات کا اندھیرا سنسان علاقہ مزنگ گاؤں سے باہر کی حویلی ۔ گاؤں سے باہر ایک درخت کے پاس ہرگوبند سنگھ نے اپنا گھوڑا باندھا اور وہاں سے پیدل مزنگ گاؤں کی پچھلی جانب ایک کنواں جسے چاہ پچھواڑہ کہا جاتا تھا کے پاس سے حویلی کی دیوار پھاند کر داخل ہوا۔ یہ چاہ پچھواڑہ نام کی آبادی آج بھی مزنگ میں موجود ہے اور میرے ایک سسرال وہیں رہتے ہیں۔ اندر کنول اس گھوڑے کی نشان دہی کے لیئے موجود تھی۔ اور وہاں سے جب گھوڑا لے کر ہرگوبند سنگھ نکلنے لگا -تو اسے یاد آیا کہ اس گھوڑے کو میں لے کر کیسے جاؤں گا۔۔؟؟ لہذا کنول بی بی نے اپنی خدمات پیش کیں اور گھوڑے پر سوار ہو کر اس کے ساتھ ہو لی۔ اس طرح دونوں مل کر فرار ہوئے۔ گھوڑا بھی وصول پایا اور کنول بی بی عرف کاؤلاں بھی ساتھ میں مل گئی۔ وہاں سے کنول بی بی اور ہر گوبند سنگھ جب نکلے تو (سکھ روایات کے مطابق) وہ حضرت میاں میر کے پاس حاضر ہوئے جنہوں نے ہر گوبند سنگھ کو ہدایت کی کہ یہ پاک روح ہے اس کا خیال رکھنا اور پھر یہ دونوں امرتسر چلے گئے جہاں سے ترن تارن جا کر پناہ لی۔ قاضی رستم خان نے بادشاہ جہانگیر سے مدد مانگی تو بادشاہ جہانگیر نے اس کی درخواست کو نظر انداز کر دیا کیونکہ وہ خود حضرت میاں میر کا معتقد تھا اور کسی طرح کا ایسا کام جس سے میاں میر صاحب ناراض ہوتے کرنے کا روادار نہ تھا-
یہ مائی کاؤلاں بعد میں سکھوں میں ماتا کاؤلاں کے نام سے مشہور ہوئی اور اس کے نام کے گورودوارے بعد کے سکھ حکمرانوں نے بنائے۔ کیونکہ گورو ہر گوبند سنگھ سکھوں کے چھٹے گورو تھے اسی عقیدت میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس مقام پر جہاں گورو ہرگوبند سنگھ نے اپنا گھوڑا باندھا تھا ایک گورو دوارہ تعمیر کیا جسے چھٹے گورو کی نسبت سے چھٹی بادشاہی کا گورودوارہ نام دیا گیا۔ اس گورو دوارے کے باہر جب لنگر بانٹا جاتا تو دور دور تک صفیں بچھائی جاتیں اور جہاں یہ صفیں رکھی جاتیں اس چوک کا نام صفانوالہ چوک پڑا۔ اور اس گورودوارے کی نسبت سے اس سڑک کا نام انگریزوں نے ٹیمپل روڈ رکھا-
یہ ہے کہانی ٹیمپل روڈ لاہور اور صفانوالے چوک کی




1- (اب اس حویلی کا نام و نشان نہیں پایا جاتا اوراس کی وجہ زمانہ کی گردش تو ہے ہی لیکن ہمارے محبوب وطن میں قبضہ مافیا اور آزادی کے دنوں میں ہونے والی اقرباء پروری اور ظلم کے نتیجے میں یہ حویلی کسی کو الاٹ ہوئی الاٹمنٹ کے بعد اس میں رہائش بنی پھر وہ حویلی گرا کر اس میں دکانیں مکانات فلیٹس اور جدید آبادیاں قائم کر دی گئیں اس طرح وہ حویلی جو چار سو برس نکال گئی آزادی کے بعد چالیس سال بھی نہ نکال سکی)
 
آخری تدوین:
رائے بہادر لال کنہیا نے ’’تاریخِ لاہور‘‘ میں مزنگ کا احوال یوں بیان کیا ہے۔ ’’یہ آبادی بھی ایک محلہ محلہ ہائے بیرونی شہر لاہور سے تھی جس کو ایک بزرگ پیر عزیز مزنگ نے کابل سے آکر آباد کیا تھا۔ مزنگ ایک گوت مغلوں کی قوم میں سے ہے۔ مدت العمر خود بھی وہ اس میں آباد رہا۔ من بعد اس کی اولاد قابض ہوئی۔ اسلامی سلطنت کے انقراض کے وقت اس محلے کے مغل بکمالِ استقلال یہاں مقیم رہے۔ غارت گروں کے ہاتھ سے کبھی بخوشامدو منت، کبھی برشوت، کبھی بزور ِشجاعت بچتے رہے۔ جب لنگرخان کا محلہ جو اس کی دیوار بدیوار آباد تھا اُجڑ گیا تو قوم بلوچ بھی وہاں سے اٹھ کر اسی محلے میں آرہی اور دونوں قوموں نے مل کر اس جگہ کو غارت گروں کے حملوں سے بچائے رکھا اور یہ بستی دو فریق میں مشترک ہوگئی۔ پھر جب چالیسی قحط میں لوگ تنگ آکر یہاں سے بھاگ گئے اور مکانات بہت سے خالی ہوگئے تو ارائیں لوگ متفرق مواضعات سے اٹھ کر یہاں آگئے اور یہ بستی تین اقوا م میں مشترک ہوئی۔ آخر قوم مغل کا صرف اس قدر اقتدار رہ گیا کہ کوئی کاغذ بیعنامہ یا گرونامہ ان کی مہر و دستخط کے بغیر جائز گنا نہ جاتا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت اس گائوںمیں بلوچوں کی قوموں کا غلبہ ہوگیا۔ مغل اور ارائیں محکوم رہے۔ بلوچوں میں سے اچھے اچھے ذی عزت لوگ مثل عزت خان وبولے خان و بہادر خان و شہادت خان ووریام خان و قاسم خان وغیرہ پیدا ہوئے، جو سکھی سرکار میں ملازم تھے۔ عبداللہ شاہ نام ایک بلوچ ایسا صاحبِ باطن فقیر ہوا جس کے لاہور کے علماء و فضلاء مرید تھے۔ اخیر سلطنت سکھی و ابتدائی سلطنت انگریزی میں سردار خان بلوچ ایسا ذی رعب و صاحب حکومت اس گائوں میں ہوا جس کی اطاعت میں تمام بستی تھی۔ اس کی یادگار ایک پختہ مسجد اب تک موجود ہے۔ وہ مرگیا تو بلوچ کی قوم میں سے کوئی صاحب اقبال نہ رہا۔ ارائیں زبردست ہوگئے۔ اب بلوچوں میں سے صرف ایک لمبردار ہے اور سب لمبردار ارائیں ہیں۔ اعلیٰ لمبردار بھی شادی ارائیں ہے۔ یہ بستی اب بہت بستیوں میں منقسم ہے۔ خاص مزنگ کی بستی بھی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ دوم، بستی کوٹ عبداللہ شاہ، اس کو عبداللہ شاہ بلوچ نے آباد کیا تھا۔ پختہ فصیل اور پختہ اس کے مکانات ہیں۔ سوم، قلعہ مہر مادو، یہ بستی مراد بخش المشہور مادوارائیں نے آباد کی تھی جس کا بیٹا نظام الدین ٹھیکہ دار موجود ہے۔ چہارم، قلعہ مہرا: یہ بستی اگرچہ ارائیوں نے مل کر آباد کی تھی، مگر سب سے پہلے مہرا نام ایک ترخان اس میں آکر آباد ہوا تھا، اس لئے یہ بستی اس کے نام سے مشہور ہوگئی۔ پنجم، تاج پورہ، اس کو ایک شخص مسمی تاجانے آباد کیا تھا، جو فقیر تھا اور اس کی قبر بستی کے اندر ہے۔ ششم، مڈہر، یہ بستی قوم ارائیں گوت مڈہر سے موسوم ہے اور انہوں نے مل کر اس کو آباد کیا تھا۔ ہفتم، بھونڈ پورہ، یہ بستی انگریزوں کے وقت آباد ہوئی ہے جو خاص موضع سے جنوب مشرق کے گوشے پر ہے جو مسمی کماالمشہور بھونڈے کے نام سے آباد ہے اور سب سے پہلے وہی اس جگہ آکر آباد ہوا۔ اس واسطے یہ بستی اس کے نام سے مشہور ہوگئی۔ موضع میں اچھے اچھے علماء و شعراء ہوگزرے ہیں۔ سکھی وقت میں سراج الدین نام ایک بزرگ و فاضل و عابد تھے۔ دوسرے، عبداللہ شاہ قادری۔ تیسرے، مفتی غلام محمد جو بلوچوں کی مسجد کے امام تھے۔ وہ طبابت کا کام کرتے تھے۔ اکثر بیمار ان کے معالجہ سے اچھے ہوجاتے تھے۔ چہارم، میاں ساون شاعر۔ یہ شاعر قوم کا بلوچ تھا۔ اس کے پنجابی اشعاراب تک مشہور ہیں۔ پنجم، میاں فرید شاعر، جو پنجاب کے شعراء میں سے استاد شمار ہوتا ہے، اسی موضع کا رہنے والا ہے۔ ششم، مفتی غلام سرور، جو مصنف و شاعر تمام زمانہ میں مشہور ہے، اسی موضع کے رہنے والوں میں سے ہے۔ اب تک اٹھارہ کتابیں نظم و نثر لکھ چکا ہے۔ مثل، خزینۃ الاصفیا و گنجیہ سروری وغیرہ‘‘۔ (حوالہ: تاریخ لاہور۔ مصنف: رائے بہادر کنہیا لال، اشاعت اول، صفحہ 80 و 81 سن اشاعت 1884ء مطبع: وکٹوریا پریس لاہور)
 

اکمل زیدی

محفلین
لاہور میں میری رہائش ٹیمپل روڈ لاہور پر ہے جو مزنگ سے براستہ صفانوالا چوک ۔ ریگل چوک اور پھر ہال روڈ سےمیو اسپتال کی طرف جانے والی سڑک ہے۔ یہاں موجود ایک گورودوارہ جو سکھوں کی عبادت گاہ ہے کی تاریخ اور ماضی کی تلاش میں مجھے چسکا پڑا کہ لاہور کے گلی کوچوں میں موجود تاریخی اہمیت کی عمارات پر کچھ ریسرچ کی جا سکے۔ اس ریسرچ کے نتیجے میں بہت سی کہانیاں سامنے آئیں اور ان کہانیوں میں کچھ سینہ بسینہ اور کچھ کتابوں میں پائی گئیں۔ یہاں انہی کہانیوں کا ذکر ہوگا اور مختلف ورژنز پر گفتگو بھی ہوگی کیا خیال ہے شروع کریں ۔۔؟؟
یاد رہے کہ مجھے مورخ کہلانے کا دعویٰ نہیں ہے ۔ نہ ہی فکشن تحریر کرنے کا شوق ہے۔ خواہش صرف ان جگہوں سے منسوب کہانیوں کو دستاویزی شکل میں لانا اور اس سلسلے میں مختلف نقطہ نظر جو اگر کہیں تاریخ کی کتابوں میں ملے تو ان کا بیان ہے اور ان کے مقابلے میں مقامی سینہ گزٹ کی کہانیوں کا بیان ہے تاکہ دونوں کا تقابل ہو سکے
اچھا سلسہ شروع کیا فیصل بھائی۔۔۔
 
مجھے روضہ ابو اسحاق رحمتہ اللہ علیہ اور ساتھ ہی اسی گلی میں آگے مزنگ مین بازار کی طرف جاتے ہوئے ایک اور چھوٹی سی زیارت ہے، کی تفصیلات کا انتظار رہے گا۔
 
مجھے روضہ ابو اسحاق رحمتہ اللہ علیہ اور ساتھ ہی اسی گلی میں آگے مزنگ مین بازار کی طرف جاتے ہوئے ایک اور چھوٹی سی زیارت ہے، کی تفصیلات کا انتظار رہے گا۔
روضہ ابو اسحاق اور اس کے ساتھ کی زیارت کی تفاصیل درج ذیل ہیں جبکہ اگر آپ کا اشارہ ان دو قبروں کیجانب ہےجو کلچے والے کے سامنے گلی میں ہیں تو معلومات ڈھونڈنی پڑیں گی

ابو اسحاق قادری لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت شیخ داؤد چونی وال شیر گڑھی کے بزرگ ترین مرید اور خلیفۂ اعظم تھے۔ جامع علومِ ظاہری و باطنی تھے۔ عرفان و اِتقا میں درجۂ علیا رکھتے تھے۔ حضرت شاہ ابوالمعالی جو شیخ داؤد کے حقیقی برادر زادہ اور مرید و خلیفہ تھے اُن سے بڑی الفت و محبت تھی۔ دونوں حضرات ایک ہی جگہ پر عبادت و ریاضت اور ذکر و فکر میں بیٹھا کرتے تھے۔ جب شیخ داؤد نے شاہ ابوالمعالی﷫ کو لاہور جاکر قیام کرنے کا حکم دیا تو آپ بھی اپنے مرشد سے اجازت لے کر لاہور آگئے اور محلہ مغل پیر مزنگ میں سکونت اختیار کرلی۔ تمام عمر ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ اپنی خانقاہ میں علومِ فقہ و حدیث و تفسیر کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے بہرۂ وافر حاصل کیا۔ آپ کے بزرگ قوم مغل غوری سے ہیں۔ ۹۸۵ھ میں بعہدِ اکبر وفات پائی اور اپنی قیام گاہ میں مدفون ہوئے۔ آپ کے تین صاحبزادوں محمد حسین، ملک حسین اور یار حسین کے مزارات بھی آپ کے روضہ کے قریب ہی ایک گنبد کے اندر ہیں۔ شیخ بو اسحاق پیرِ رہنما! ۹۸۵ھ رحلتش گفتم فقیہ معرفت شد چو از دنیائے دوں اندر جناں ۹۸۵ھ ہم ‘‘ابو اسحاق تاجِ عارفاں’’
 
Top