لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے پانچ مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا

حسینی

محفلین
لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے پانچ مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا
251255_39308591.jpg

لاہور(دنیا نیوز)لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے دہشتگردی کے مقدمے میں پانچ مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد سے روک دیا ، فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے جسٹس ارشد تبسم نے پانچ مجرموں کے ورثاء کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی، مجرمان میں احسان عظیم، عمر ندیم، آصف ادریس، کامران اسلم اور عامر یوسف شامل ہیں جو کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید ہیں ۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فوجی عدالت نے پانچ مجرموں کو سزائے موت سنا دی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کس الزام میں سزا دی گئی ۔ فوجی عدالت کی جانب سے سزا کے بعد اپیل کا حق نہیں دیا گیا ۔ کسی فورم پر داد رسی نہیں کی جا رہی ، عدالت عالیہ نے پانچوں مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد سے روکتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر کے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا ہے۔
 

حسینی

محفلین
لوجی۔۔۔
اتنا آسان نہیں مجرموں کو پھانسیاں دینا۔۔۔ وہ بھی پاکستان جیسے ملک میں۔
جہاں عدلیہ، فوج اور حکومت کا اک پیج پر نظر آنا معجزہ ہی لگتا ہے۔
ہرکوئی اب روڑے اٹکائے گا۔۔۔ جب تک عمل در آمد نہ ہو کوئی بات نہیں۔۔ ۔ جونہی عمل در آمد شروع تو ہر کوئی بے چین نظر آتا ہے۔
دو ہفتے کا مطلب ہے۔۔۔ شاید اب کبھی نہیں۔۔۔۔
 

حسینی

محفلین
کیا جج صاحب نے غیر قانونی حکم صادر فرمایا ہے؟
دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں یقینا میڈیا، حکومت ، عوام کے علاوہ عدلیہ کو بھی فوج کا ساتھ دینا ہوگا۔۔۔
ماضی میں آپ خود ملاحظہ کرتے رہے ہیں۔۔۔ کہ ہماری انہی عدالتوں نے "ناکافی شہادت" کا بہانہ بہا کر بہت سارے دہشت گردوں کو چھوڑ دیا تھا۔ جو کہ بعد میں دوبارہ دہشت گردی کے وارداتوں میں پائے گئے۔
ایسے ایسے لوگوں کو بھی چھوڑ دیا گیا۔۔ جنہوں نے اپنی آزادی کے بعد عدالت کی گیٹ پر ہی سو قتل کا اعتراف کیا۔۔۔ اور آئندہ بھی اس "فعل خیر" کو جاری رکھنے کا عزم بالجزم کیا۔
ایسے دہشت گرد جو خودکشی کے آلات، ناجائز اسلحہ وبارود یا موقعہ واردات سے ہی پکڑے گئے ہوں ان کے لیے مزید ثبوت کی ضرورت کیا ہے؟؟؟
 

ساقی۔

محفلین
دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں یقینا میڈیا، حکومت ، عوام کے علاوہ عدلیہ کو بھی فوج کا ساتھ دینا ہوگا۔۔۔
ماضی میں آپ خود ملاحظہ کرتے رہے ہیں۔۔۔ کہ ہماری انہی عدالتوں نے "ناکافی شہادت" کا بہانہ بہا کر بہت سارے دہشت گردوں کو چھوڑ دیا تھا۔ جو کہ بعد میں دوبارہ دہشت گردی کے وارداتوں میں پائے گئے۔
ایسے ایسے لوگوں کو بھی چھوڑ دیا گیا۔۔ جنہوں نے اپنی آزادی کے بعد عدالت کی گیٹ پر ہی سو قتل کا اعتراف کیا۔۔۔ اور آئندہ بھی اس "فعل خیر" کو جاری رکھنے کا عزم بالجزم کیا۔
ایسے دہشت گرد جو خودکشی کے آلات، ناجائز اسلحہ وبارود یا موقعہ واردات سے ہی پکڑے گئے ہوں ان کے لیے مزید ثبوت کی ضرورت کیا ہے؟؟؟

میرے خیال سے عدالتیں اپنا کام باخوبی جانتی ہیں ۔اگر وہ میرے، آپ کے یا کسی اور کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے فیصلے کرنے لگیں تو چوں چوں کا مربہ بن جائیں گی جس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گا ۔
اپیل کرنا ایک قانونی حق ہے ۔اور اگر اپیل خارج کر دی جائے اور جرم ثابت رہے تو ایسے لوگوں کو چوکوں میں پھانسی دینی چاہیے اور لاش کو چوکوں میں ہی لٹکتے رہنے دینا چاہیے۔تا کہ عبرت حاصل ہو ۔
 
Top