محمد تابش صدیقی
منتظم
لاہور ہائی کورٹ: قانون کی طالبہ کو زخمی کرنے والا حملہ آور بری
لاہور ہائی کورٹ نے قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر حملہ کرنے والے سزا یافتہ شخص کی جانب سے سزا کے خلاف دائر کی گئی اپیل منظور کرتے ہوئے انھیں بری کردیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد مختصر فیصلہ ملزم کے حق میں سنا دیا۔
واضح رہے کہ خدیجہ صدیقی کو ان کے ساتھی طالب علم شاہ حسین نے 3 مئی 2016 کو شملہ ہلز کے قریب اس وقت چھریوں کے وار سے زخمی کر دیا تھا جب وہ اپنی چھوٹی بہن کو اسکول چھوڑنے جارہی تھی۔
خدیجہ اپنی سات سالہ بہن صوفیہ کو اسکول سے گھر واپس لانے کے لیے گئی تھی اور ابھی اپنی گاڑی میں بیٹھنے ہی والی تھی کہ ہیلمٹ پہنے شاہ حسین ان کی جانب بڑھے اور خدیجہ کو 23 بار خنجر سے تشدد کا نشانہ بنایا۔
خدیجہ قانون کے امتحان میں اپنے حملہ آور کا سامنا کرنے سے خوفزدہ
بعد ازاں 29 جولائی 2017 کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے شاہ حسین کو 7 برس کی سزا سنادی تھی تاہم رواں سال مارچ میں سیشن کورٹ نے ان کی اپیل پر سزا کم کرکے 5 سال کردی تھی جس پر مجرم نے دوسری اپیل دائر کردی تھی۔
سینئر وکیل کے بیٹے شاہ حسین نے سیشن عدالت کے پانچ سال قید کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس پر لاہور ہائی کورٹ جسٹس نے ان کی بریت کا فیصلہ سنا دیا۔
'ہائی کورٹ سے اس فیصلے کی توقع نہیں تھی'
ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے خدیجہ صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ ہائی کورٹ سے اس فیصلے کی توقع نہیں کررہی تھیں کہ ان پر حملہ کرنے والے ملزم کو ثبوت کے باوجود شک بنیاد پر رہا کردیا جائے گا۔
خدیجہ صدیقی نے ٹویٹر میں اپنے پیغام میں کہا کہ ‘انصاف کا قتل ہوا، شاہ حسین بری ہوگئے’۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر ازخود نوٹس لیں اور انھیں براہ راست سن لیں۔
خدیجہ صدیقی نے کہا کہ ‘ملزم کی جانب سے صرف ایک دفاع تھا کہ کیچڑ اچھالا جائے’۔
انھوں نے کہا کہ آج کا فیصلہ نہ صرف ان کے مقدمے کے پریشان کن ہے بلکہ معاشرے میں خواتین کی سیکیورٹی کے لیے بڑا اہم ہے کیونکہ ان پر دن کی روشنی میں حملہ کیا گیا تھا۔
خدیجہ نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
لاہور ہائی کورٹ نے قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر حملہ کرنے والے سزا یافتہ شخص کی جانب سے سزا کے خلاف دائر کی گئی اپیل منظور کرتے ہوئے انھیں بری کردیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد مختصر فیصلہ ملزم کے حق میں سنا دیا۔
واضح رہے کہ خدیجہ صدیقی کو ان کے ساتھی طالب علم شاہ حسین نے 3 مئی 2016 کو شملہ ہلز کے قریب اس وقت چھریوں کے وار سے زخمی کر دیا تھا جب وہ اپنی چھوٹی بہن کو اسکول چھوڑنے جارہی تھی۔
خدیجہ اپنی سات سالہ بہن صوفیہ کو اسکول سے گھر واپس لانے کے لیے گئی تھی اور ابھی اپنی گاڑی میں بیٹھنے ہی والی تھی کہ ہیلمٹ پہنے شاہ حسین ان کی جانب بڑھے اور خدیجہ کو 23 بار خنجر سے تشدد کا نشانہ بنایا۔
خدیجہ قانون کے امتحان میں اپنے حملہ آور کا سامنا کرنے سے خوفزدہ
بعد ازاں 29 جولائی 2017 کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے شاہ حسین کو 7 برس کی سزا سنادی تھی تاہم رواں سال مارچ میں سیشن کورٹ نے ان کی اپیل پر سزا کم کرکے 5 سال کردی تھی جس پر مجرم نے دوسری اپیل دائر کردی تھی۔
سینئر وکیل کے بیٹے شاہ حسین نے سیشن عدالت کے پانچ سال قید کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس پر لاہور ہائی کورٹ جسٹس نے ان کی بریت کا فیصلہ سنا دیا۔
'ہائی کورٹ سے اس فیصلے کی توقع نہیں تھی'
ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے خدیجہ صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ ہائی کورٹ سے اس فیصلے کی توقع نہیں کررہی تھیں کہ ان پر حملہ کرنے والے ملزم کو ثبوت کے باوجود شک بنیاد پر رہا کردیا جائے گا۔
خدیجہ صدیقی نے ٹویٹر میں اپنے پیغام میں کہا کہ ‘انصاف کا قتل ہوا، شاہ حسین بری ہوگئے’۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر ازخود نوٹس لیں اور انھیں براہ راست سن لیں۔
خدیجہ صدیقی نے کہا کہ ‘ملزم کی جانب سے صرف ایک دفاع تھا کہ کیچڑ اچھالا جائے’۔
انھوں نے کہا کہ آج کا فیصلہ نہ صرف ان کے مقدمے کے پریشان کن ہے بلکہ معاشرے میں خواتین کی سیکیورٹی کے لیے بڑا اہم ہے کیونکہ ان پر دن کی روشنی میں حملہ کیا گیا تھا۔
خدیجہ نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔