نور وجدان
لائبریرین
اک اِلٰہ (معبود) تھا! لا تھا سب!
مملکت تھی، مگر کوئی شریک نَہ تھا
خُدائی فوجدار نَہ تھے
دعویدار نہ تھا کوئی معبودیت کا
کسی نے موسی(ع) بن کے نَہ دکھایا تھا
کوئ مثلِ مثال یوسف (ع) نَہ تھا
کسی کا اوجِ کمال با جَمال خُدا نہ تھا،معراج بشریت نَہ ہُوئی تھی
یعنی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی نہ تھے
کوئ نوری خلق نہ تھا
نار بھی کوئی نہ تھی، گُلنار ہوتی
مگر اک اِلٰہ تھا ...
پھر یُوں ہوا، اس نے خود سے خود کو نکال کے دیکھا
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وجود آیا
اس کی ذات کی روشنی پھیلنے لگی، کائنات نور پانے لگی
ادھر ناری بھی پائے جانے لگے
نوریوں نے سکتہ ء حیرت، سکتہ میں سجدے، رکوع، قیام کی حالتیں پائیں
مگر اب بھی اطمینان نہ تھا اس کو ...
اس نے روح الامین سے روحی روحی ذاتیں بنائیں ..
الوہی صفاتیں بنائیں، الہیات کے جامے میں ذاتوں نے پایا اک وُجود.....
نمود ہست کے دیے جلنے لگے
قلندری کا وجود ظہور ہوا...
آدم (ع) اسم ذات کا کلمہ ہوئے
ساجد تھے، مگر مسجود ہوئے....
ابلیس کا وجود بھی مُشّکل ہوا....
کچھ اسکو اطمینان ہوا....!!
اب شُروع ہوا اسکے خیالات کا تسلسل
اب دیکھنا تھا کون کس کا ہے؟
کس نے اس کو پہچانا ہے،
کس نے اسکو دور جانا ہے،
آدم سے ہوگئی خطا،
جرم میں شامل تھی مگر حوّا
وساوس میں، گماں میں تھا شیطان
کھیل ہوا شُروع الہ کی ضرب الا اللہ کا ...
آدم معصوم، نہ جان پائے اس وساوس کے کھیل کو
ان شیطن لکم عدو مبین
قل اعوذ برب الناس سے الذی یوسوس فی صدور الناس کا کھیل سمجھ آیا آدم کو مگر، خطا نے فلک سے فرش پہ لاٹپکا
آدم کو حوّا سے جدا کیا گیا ...
لا ... لا ... لا... لا...
خَطا کی لا ....
جَفا کی لا ....
من کی میں کہ لا ....
آدم کو لا کا لباس پہنایا گیا،
حّوا نے اس لباس کو دیکھا اور پہچانا،
ارواح نے لباس لا، لباس مجاز جنت کے پتوں میں...
عشق نے دو قبائیں پہنیں، لا اور الہ کی قُبائیں ... حجاب تھیں اک دوسرے کا...پردے گرنے، جلوے کی بات تھی ...
آدم کو دوری نہ محسوس ہوئی اب
کس سے؟
اللہ سے...!
دل کے آئنے میں منقش اللہ تھا...
نبوت کا فرض سونپا گیا
قسم کھائی گئی
والتین، والزیتون ...
اور جب ذمہ داری سونپی گئی، کہا.
لقد خلقنا الانسان فی احسن التقویم
نظام قدرت نے بتایا...
لا اور الا اللہ کا فرق
دو قبائیں اک دوجے سے پیوست
دونوں اک دوجے کا لباس
آدم علیہ سلام سے نوح علیہ سلام تلک کا سفر آسمان نے لکھا
ہابیل سے قابیل کی نذر میں اک نشانی تھی
ابراہیم علیہ سلام آئے، فرمایا گیا دین حنیف لائے ہیں ...
فرق نہ رکھا گیا تھا پیمانوں میں ...
دیکھے تو یاد کرے صورت خُدا
ہابیل سے سفر اسماعیل علیہ سلام تک پُہنچا تھا
قربانی کیا تھی؟
لا تلک کا سفر،
جدائی ہی جدائی تھی
ہجرت کا سوگ تھا ...
روگ کی یاد تھی، جو بوقت نفخ سے دم ہجرت تک روح کا نالہ تھا
کیوں جدا کیا گیا ؟ کیوں جدا کیا گیا؟ کیوں جدا کیا گیا؟
بتایا گیا تھا کہ لا الہ الا اللہ کی مضمر کہانی ہے
کائنات کی داستان سننے کو کٹھ پتلیاں ہیں ..
آزاد تھیں کچھ روحیں، کچھ قید ِ قفس میں آہنی سلاخوں میں ...
ان روحوں نے لا اور اور اللہ کا فرق بتلا دیا
من و تو وجود یہی تھا!
لا الہ، الا اللہ کا میں مضمر کہانی ...
آزاد ہے روح!
جھک گئے، سجدے کیے، نہ اٹھائے سر
اللہ کے رنگ میں ڈھال دیے گئے تھے
رنگ پھر جدا نہ رہا
صبغتہ اللہ کی مورت بننی لگے...
موجود تھے ہم تب بھی جب داؤد (ع) کو خلیفہ بنایا گیا ..لحن داؤدی تھا دیکھا میں نے، اور صورت با جمال میں حال کو غائب پایا ...
تصویرِ خدا تھے، مصور نے اپنے الوہیت کے باجمال جامے سے ان کو تخلیق کیا تھا، گویا وہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خاص نور .....
جب سلیمان علیہ سلام کا وجود میں پایا گیا نشان. جلال تھا! جمال تھا. خطا کا وجود نہ تھا ...خدا تھا خدا تھا خدا تھا... خدا ہے! خدا ہے! خدا ہے!
خدا جس نے جان دی تھی وجود میں ...
سلیمان علیہ سلام نے پائی زمین میں خلقت سے کلامی
زبانی، زبانی روحی ،روحی ...
اللہ ... اللہ اللہ ...
یہی سب خود اس نے خود سے بات کی ...
راز نہ جان پایا تھا کوئی ...
سلیمان علیہ سلام کے سامنے سب چرند پرند اشجار کی غیبت ہوگئی تھا
لا الا اللہ کا رقص تھا کل کائنات میں
سماوات نے دیکھا تھا یہ نظام رشک سے
وقت ڈھلتا رہا تھا!
سسکیاں سنیں گئی تھیں
آہوں سے وجود کو ڈبویا گیا تھا
یعقوب علیہ سلام کا گریہ وجود میں آیا
اس نے جدائی ڈال دی دو اک جیسی ذاتوں میں ...
یوسف علیہ سلام کی محبت میں یعقوب(ع) نے کلمہ پڑھا تھا. ...
لا ... حق
لا ...حق
لا.... حق
گریہ یعقوب میں خُدا موجود ہوا ...
الا اللہ الا اللہ الا اللہ
بازار حُسن میں یوسف کو بیچا گیا
مصر کے شاہ نے قصر شاہی میں رکھا تھا
زُلیخا نے حسن یوسف دیکھا
غیبت ہوگئی زلیخا کی، کہا حاش للہ
لا الہ الا اللہ مکمل ہوگیا تھا زلیخا کی غیبت میں .....،
یوسف علیہ سلام نے نفی کردی تھی خود کی
رسوائی تھی، غم تھا، جدائی تھی ...
نفی نفی کرتے ترس آیا خدا کو بہت
دے دیا یوسف علیہ سلام کو سارا جہاں....!
حق ہوگیا تھا عیاں
لا الہ الا اللہ ...
کھیل چلتا رہا تھا سارا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم عرش سے فرش کو آئے .
ہم امتی ان کے، ساتھ ساتھ سفر کرتے رہے تھے
ہم نے دیکھتے ہی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کہا تھا....
آمنا باللہ والرسول ...
ہم مومنین میں تھے ...
یقین کامل پایا ...
فنا میں خدا کو دیکھا
فنا میں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جلوہ ....
عشق میں فنائیت تھی مقدر
عشق میں لذات ہست میں روحی روحی آزادی تھی ... غیبت میں نور محمد کا جلوہ تھا .. صلی اللہ علیہ والہ وسلم.....
پیش صحابہ وجود لم یزل سے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم تلک صفات ارض میں موجود ذیشان نے دیکھا کہ سو صفات ہیں قلندر میں.....! سو ذاتیں ہیں قلندر کی ... سو ٹکرے وجودیت کے مظہر سے ڈھلنے تھے ..اڑان بھری گئی تھی، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دم بہ اجازت سے فلک تک رسائی پائی تھی ..گویا شہید ہوئے تھے شاہد کے ...
بیعت رضوان سے مٹی پھینکنے کا سفر
ولکن اللہ رمی....
یہ جانا تھا پہچانا تھا ...
معراج تھی ، قبلے مقرر ہوئے تھے، ملاقاتیں تھیں ...دیکھیں ...سب نے جانا تھا ان کو...
قرار نہ تھا کسی روح کو ..
کسی کے پاس لوح مبین کی کنجی نہ تھا ..
محمد تھے اور خدا تھا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محمد ہیں اور خدا ہے .
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
آمنہ کے لعل باجمال نے زمانے کو لوح مبین سے روشن کردیا
ان کے دو نورِ خاص: حسنین (رضی تعالی عنہ)
حسن رضی تعالیٰ عنہ گویا جمال محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ...
علم و عمل میں کامل ...حلم میں مکمل شامل ... آہ! مشہد میں شہید کیے گئے تھے ...آہ! جمال کو نہ چھوڑا گیا تھا! خدا نے دیکھا تھا زمین کو سرخ تھی ...جمال کی نفی ہوئی ..جمال اٹھ گیا ...دنیا بے رونق ہوگئی تھی ...
احمریں احمریں وجود آیا دنیا میں
یاقوتی یا قوتی لب تھے جس کے
لعل جڑے تھے سینے میِں...
حسین (رض) تھے، خدا اور جلال ...
حسین (رض) ہیں، خدا اور جلال ...
خوشی بھی، آہ، غم بھی
جلال کی نمود ہونے جا رہی تھی ...
قربانی حسنین کی تھی، آسمان کی لالی دیکھی نہ تھی کسی نے
مگر علی اکبر (رض) کا خون سے لت پت لاشہ نہ دیکھا گیا کسی سے
اللہ کی مشیت کا اثبات ہوگیا اک بار پھر سے...
شہید ہوئے ...
اللہ ھو الشہید ...
نفی ..قربانی ..تسلسل قربانی چلتا.گیا تھا ...
کربل کا مقتل پھر سینوں میں سجایا گیا
حسینی و یزیدی لشکر کو لڑایا گیا ...
سر کٹ گیا گھا ... سر نہ جھکا تھا
غیبت ہوگئی تھی خاک کی ..حق اثبات! حق اثبات! الا اللہ ...
یہی کہانی ہے لا الہ الا اللہ کی
قربانی ہی قربانی یے.
یہ اسکی راجدھانی ہے.
ہم اس کے نوکر شاہی ہیں ..
یہی مری کہانی ہے
مملکت تھی، مگر کوئی شریک نَہ تھا
خُدائی فوجدار نَہ تھے
دعویدار نہ تھا کوئی معبودیت کا
کسی نے موسی(ع) بن کے نَہ دکھایا تھا
کوئ مثلِ مثال یوسف (ع) نَہ تھا
کسی کا اوجِ کمال با جَمال خُدا نہ تھا،معراج بشریت نَہ ہُوئی تھی
یعنی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی نہ تھے
کوئ نوری خلق نہ تھا
نار بھی کوئی نہ تھی، گُلنار ہوتی
مگر اک اِلٰہ تھا ...
پھر یُوں ہوا، اس نے خود سے خود کو نکال کے دیکھا
محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وجود آیا
اس کی ذات کی روشنی پھیلنے لگی، کائنات نور پانے لگی
ادھر ناری بھی پائے جانے لگے
نوریوں نے سکتہ ء حیرت، سکتہ میں سجدے، رکوع، قیام کی حالتیں پائیں
مگر اب بھی اطمینان نہ تھا اس کو ...
اس نے روح الامین سے روحی روحی ذاتیں بنائیں ..
الوہی صفاتیں بنائیں، الہیات کے جامے میں ذاتوں نے پایا اک وُجود.....
نمود ہست کے دیے جلنے لگے
قلندری کا وجود ظہور ہوا...
آدم (ع) اسم ذات کا کلمہ ہوئے
ساجد تھے، مگر مسجود ہوئے....
ابلیس کا وجود بھی مُشّکل ہوا....
کچھ اسکو اطمینان ہوا....!!
اب شُروع ہوا اسکے خیالات کا تسلسل
اب دیکھنا تھا کون کس کا ہے؟
کس نے اس کو پہچانا ہے،
کس نے اسکو دور جانا ہے،
آدم سے ہوگئی خطا،
جرم میں شامل تھی مگر حوّا
وساوس میں، گماں میں تھا شیطان
کھیل ہوا شُروع الہ کی ضرب الا اللہ کا ...
آدم معصوم، نہ جان پائے اس وساوس کے کھیل کو
ان شیطن لکم عدو مبین
قل اعوذ برب الناس سے الذی یوسوس فی صدور الناس کا کھیل سمجھ آیا آدم کو مگر، خطا نے فلک سے فرش پہ لاٹپکا
آدم کو حوّا سے جدا کیا گیا ...
لا ... لا ... لا... لا...
خَطا کی لا ....
جَفا کی لا ....
من کی میں کہ لا ....
آدم کو لا کا لباس پہنایا گیا،
حّوا نے اس لباس کو دیکھا اور پہچانا،
ارواح نے لباس لا، لباس مجاز جنت کے پتوں میں...
عشق نے دو قبائیں پہنیں، لا اور الہ کی قُبائیں ... حجاب تھیں اک دوسرے کا...پردے گرنے، جلوے کی بات تھی ...
آدم کو دوری نہ محسوس ہوئی اب
کس سے؟
اللہ سے...!
دل کے آئنے میں منقش اللہ تھا...
نبوت کا فرض سونپا گیا
قسم کھائی گئی
والتین، والزیتون ...
اور جب ذمہ داری سونپی گئی، کہا.
لقد خلقنا الانسان فی احسن التقویم
نظام قدرت نے بتایا...
لا اور الا اللہ کا فرق
دو قبائیں اک دوجے سے پیوست
دونوں اک دوجے کا لباس
آدم علیہ سلام سے نوح علیہ سلام تلک کا سفر آسمان نے لکھا
ہابیل سے قابیل کی نذر میں اک نشانی تھی
ابراہیم علیہ سلام آئے، فرمایا گیا دین حنیف لائے ہیں ...
فرق نہ رکھا گیا تھا پیمانوں میں ...
دیکھے تو یاد کرے صورت خُدا
ہابیل سے سفر اسماعیل علیہ سلام تک پُہنچا تھا
قربانی کیا تھی؟
لا تلک کا سفر،
جدائی ہی جدائی تھی
ہجرت کا سوگ تھا ...
روگ کی یاد تھی، جو بوقت نفخ سے دم ہجرت تک روح کا نالہ تھا
کیوں جدا کیا گیا ؟ کیوں جدا کیا گیا؟ کیوں جدا کیا گیا؟
بتایا گیا تھا کہ لا الہ الا اللہ کی مضمر کہانی ہے
کائنات کی داستان سننے کو کٹھ پتلیاں ہیں ..
آزاد تھیں کچھ روحیں، کچھ قید ِ قفس میں آہنی سلاخوں میں ...
ان روحوں نے لا اور اور اللہ کا فرق بتلا دیا
من و تو وجود یہی تھا!
لا الہ، الا اللہ کا میں مضمر کہانی ...
آزاد ہے روح!
جھک گئے، سجدے کیے، نہ اٹھائے سر
اللہ کے رنگ میں ڈھال دیے گئے تھے
رنگ پھر جدا نہ رہا
صبغتہ اللہ کی مورت بننی لگے...
موجود تھے ہم تب بھی جب داؤد (ع) کو خلیفہ بنایا گیا ..لحن داؤدی تھا دیکھا میں نے، اور صورت با جمال میں حال کو غائب پایا ...
تصویرِ خدا تھے، مصور نے اپنے الوہیت کے باجمال جامے سے ان کو تخلیق کیا تھا، گویا وہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا خاص نور .....
جب سلیمان علیہ سلام کا وجود میں پایا گیا نشان. جلال تھا! جمال تھا. خطا کا وجود نہ تھا ...خدا تھا خدا تھا خدا تھا... خدا ہے! خدا ہے! خدا ہے!
خدا جس نے جان دی تھی وجود میں ...
سلیمان علیہ سلام نے پائی زمین میں خلقت سے کلامی
زبانی، زبانی روحی ،روحی ...
اللہ ... اللہ اللہ ...
یہی سب خود اس نے خود سے بات کی ...
راز نہ جان پایا تھا کوئی ...
سلیمان علیہ سلام کے سامنے سب چرند پرند اشجار کی غیبت ہوگئی تھا
لا الا اللہ کا رقص تھا کل کائنات میں
سماوات نے دیکھا تھا یہ نظام رشک سے
وقت ڈھلتا رہا تھا!
سسکیاں سنیں گئی تھیں
آہوں سے وجود کو ڈبویا گیا تھا
یعقوب علیہ سلام کا گریہ وجود میں آیا
اس نے جدائی ڈال دی دو اک جیسی ذاتوں میں ...
یوسف علیہ سلام کی محبت میں یعقوب(ع) نے کلمہ پڑھا تھا. ...
لا ... حق
لا ...حق
لا.... حق
گریہ یعقوب میں خُدا موجود ہوا ...
الا اللہ الا اللہ الا اللہ
بازار حُسن میں یوسف کو بیچا گیا
مصر کے شاہ نے قصر شاہی میں رکھا تھا
زُلیخا نے حسن یوسف دیکھا
غیبت ہوگئی زلیخا کی، کہا حاش للہ
لا الہ الا اللہ مکمل ہوگیا تھا زلیخا کی غیبت میں .....،
یوسف علیہ سلام نے نفی کردی تھی خود کی
رسوائی تھی، غم تھا، جدائی تھی ...
نفی نفی کرتے ترس آیا خدا کو بہت
دے دیا یوسف علیہ سلام کو سارا جہاں....!
حق ہوگیا تھا عیاں
لا الہ الا اللہ ...
کھیل چلتا رہا تھا سارا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم عرش سے فرش کو آئے .
ہم امتی ان کے، ساتھ ساتھ سفر کرتے رہے تھے
ہم نے دیکھتے ہی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کہا تھا....
آمنا باللہ والرسول ...
ہم مومنین میں تھے ...
یقین کامل پایا ...
فنا میں خدا کو دیکھا
فنا میں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جلوہ ....
عشق میں فنائیت تھی مقدر
عشق میں لذات ہست میں روحی روحی آزادی تھی ... غیبت میں نور محمد کا جلوہ تھا .. صلی اللہ علیہ والہ وسلم.....
پیش صحابہ وجود لم یزل سے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم تلک صفات ارض میں موجود ذیشان نے دیکھا کہ سو صفات ہیں قلندر میں.....! سو ذاتیں ہیں قلندر کی ... سو ٹکرے وجودیت کے مظہر سے ڈھلنے تھے ..اڑان بھری گئی تھی، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دم بہ اجازت سے فلک تک رسائی پائی تھی ..گویا شہید ہوئے تھے شاہد کے ...
بیعت رضوان سے مٹی پھینکنے کا سفر
ولکن اللہ رمی....
یہ جانا تھا پہچانا تھا ...
معراج تھی ، قبلے مقرر ہوئے تھے، ملاقاتیں تھیں ...دیکھیں ...سب نے جانا تھا ان کو...
قرار نہ تھا کسی روح کو ..
کسی کے پاس لوح مبین کی کنجی نہ تھا ..
محمد تھے اور خدا تھا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محمد ہیں اور خدا ہے .
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
آمنہ کے لعل باجمال نے زمانے کو لوح مبین سے روشن کردیا
ان کے دو نورِ خاص: حسنین (رضی تعالی عنہ)
حسن رضی تعالیٰ عنہ گویا جمال محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ...
علم و عمل میں کامل ...حلم میں مکمل شامل ... آہ! مشہد میں شہید کیے گئے تھے ...آہ! جمال کو نہ چھوڑا گیا تھا! خدا نے دیکھا تھا زمین کو سرخ تھی ...جمال کی نفی ہوئی ..جمال اٹھ گیا ...دنیا بے رونق ہوگئی تھی ...
احمریں احمریں وجود آیا دنیا میں
یاقوتی یا قوتی لب تھے جس کے
لعل جڑے تھے سینے میِں...
حسین (رض) تھے، خدا اور جلال ...
حسین (رض) ہیں، خدا اور جلال ...
خوشی بھی، آہ، غم بھی
جلال کی نمود ہونے جا رہی تھی ...
قربانی حسنین کی تھی، آسمان کی لالی دیکھی نہ تھی کسی نے
مگر علی اکبر (رض) کا خون سے لت پت لاشہ نہ دیکھا گیا کسی سے
اللہ کی مشیت کا اثبات ہوگیا اک بار پھر سے...
شہید ہوئے ...
اللہ ھو الشہید ...
نفی ..قربانی ..تسلسل قربانی چلتا.گیا تھا ...
کربل کا مقتل پھر سینوں میں سجایا گیا
حسینی و یزیدی لشکر کو لڑایا گیا ...
سر کٹ گیا گھا ... سر نہ جھکا تھا
غیبت ہوگئی تھی خاک کی ..حق اثبات! حق اثبات! الا اللہ ...
یہی کہانی ہے لا الہ الا اللہ کی
قربانی ہی قربانی یے.
یہ اسکی راجدھانی ہے.
ہم اس کے نوکر شاہی ہیں ..
یہی مری کہانی ہے
آخری تدوین: