ام نور العين
معطل
شام میں باغی جنگجوؤں کے خلاف لڑائی میں مارے گئے حزب اللہ کے تیس جنگجوؤں کی لاشیں واپس لبنان پہنچا دی گئی ہیں۔
العربیہ نے اپنے ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ شام میں جھڑپوں کے دوران حزب اللہ کے القدس بریگیڈ کے کمانڈر ابو عجیب بھی مارے گئے ہیں۔شام سے حزب اللہ کی لاشوں کی واپسی کی اطلاع ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اس تنظیم پر صدر بشارالاسد کی حمایت میں جیش الحر کے خلاف لڑنے کے الزامات عاید کیے جارہے ہیں۔
حزب اللہ کے سابق سربراہ صبحی آل طفیلی نے اسی ہفتے العربیہ کے ساتھ انٹرویو میں بتایا تھا کہ شام میں جاری لڑائی کے دوران اب تک لبنانی تنظیم کے ایک سو اڑتیس جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایران نے حزب اللہ کو شام میں صدر بشارالاسد کے وفادار فوجیوں کے شانہ بشانہ باغی جنگجوؤں کے خلاف لڑنے کا کہا تھا۔تاہم ان کے فراہم کردہ اعدادوشمار کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں اور شیعہ جنگجو تنظیم بھی ان اطلاعات کی تردید کرتی چلی آرہی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجو ہرگز بھی شام میں نہیں لڑرہے ہیں۔
لیکن حزب اللہ کے اس انکار کے باوجود ناقابل تردید شواہد کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ اس تنظیم کے تربیت یافتہ جنگجو تزویراتی اہمیت کے حامل صوبے حمص میں شامی باغی جنگجوؤں پر مشتمل جیش الحر کے مقابلے میں برسرپیکار ہیں۔
اس صوبے میں جیش الحر کے کمانڈر کرنل فاتح حسون نے بتایا ہے کہ شامی فوج حزب اللہ کے جنگجوؤں کو چھپنے میں مدد دینے کے لیے بعض علاقوں پر مسلسل بمباری کررہی ہے اور یہ اس کا آخری حربہ ہے جو وہ باغیوں کے خلاف آزما رہی ہے۔
صوبہ حمص کے ایک شہر القصیر میں گذشتہ کئی روز سے شامی فوج اور باغی جنگجوؤں کے درمیان لڑائی جاری ہے اور وہاں شامی فوج کی مدد کے لیے حزب اللہ کے جنگجو بھی موجود ہیں۔یہ شہر دارالحکومت دمشق سے شامی ساحل کی جانب جانے والی شاہراہ پر واقع ہے۔
گذشتہ ہفتے حزب اللہ کے ایک ہزار سے زیادہ جنگجوؤں کی شامی صدر بشارالاسد کی حمایت میں باغیوں سے لڑنے کے لیے آبی راستوں کے ذریعے شام پہنچنے کی اطلاع سامنے آئی تھی اور وہ شام کی بندرگاہ طرطوس پہنچے تھے۔اس کے علاوہ عراق سے بھی اسد حکومت کی وفادار سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے جنگجو شامی علاقے میں داخل ہوئے ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے روز حمص میں باغی جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپوں میں حزب اللہ کے چالیس جنگجو اور فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔شامی صدر بشارالاسد کے خلاف گذشتہ دوسال سے جاری مسلح عوامی تحریک کے دوران یہ پہلا موقع تھا کہ حزب اللہ کے جنگجو شامی حدود میں اتنی زیادہ تعداد میں لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔
واضح رہے کہ امریکا ،کینیڈا اور اسرائیل نے حزب اللہ کو بلیک لسٹ قرار دے رکھا ہے اور ان ممالک نے اپنے ہاں اس کے بنک اثاثے منجمد کردیے تھے۔یورپ میں صرف نیدرلینڈز نے حزب اللہ کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے جبکہ برطانیہ نے اس کے عسکری ونگ کو بلیک لسٹ کردیا تھا۔
اس ماہ کے اوائل میں خلیجی ریاست بحرین نے بھی لبنانی شیعہ تنظیم کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔اس نے حزب اللہ پر الزام عاید کیا تھا کہ وہ بحرین سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع کو حکومت کے خلاف محاذ آراء کرنے کے لیے تربیت دے رہی ہے۔بحرین پہلا عرب ملک ہے جس نے لبنانی تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔
http://urdu.alarabiya.net/ur/middle...0-جنگجوؤں-کی-لاشوں-کی-شام-سے-لبنان-واپسی.html
العربیہ نے اپنے ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ شام میں جھڑپوں کے دوران حزب اللہ کے القدس بریگیڈ کے کمانڈر ابو عجیب بھی مارے گئے ہیں۔شام سے حزب اللہ کی لاشوں کی واپسی کی اطلاع ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اس تنظیم پر صدر بشارالاسد کی حمایت میں جیش الحر کے خلاف لڑنے کے الزامات عاید کیے جارہے ہیں۔
حزب اللہ کے سابق سربراہ صبحی آل طفیلی نے اسی ہفتے العربیہ کے ساتھ انٹرویو میں بتایا تھا کہ شام میں جاری لڑائی کے دوران اب تک لبنانی تنظیم کے ایک سو اڑتیس جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایران نے حزب اللہ کو شام میں صدر بشارالاسد کے وفادار فوجیوں کے شانہ بشانہ باغی جنگجوؤں کے خلاف لڑنے کا کہا تھا۔تاہم ان کے فراہم کردہ اعدادوشمار کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں اور شیعہ جنگجو تنظیم بھی ان اطلاعات کی تردید کرتی چلی آرہی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجو ہرگز بھی شام میں نہیں لڑرہے ہیں۔
لیکن حزب اللہ کے اس انکار کے باوجود ناقابل تردید شواہد کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ اس تنظیم کے تربیت یافتہ جنگجو تزویراتی اہمیت کے حامل صوبے حمص میں شامی باغی جنگجوؤں پر مشتمل جیش الحر کے مقابلے میں برسرپیکار ہیں۔
اس صوبے میں جیش الحر کے کمانڈر کرنل فاتح حسون نے بتایا ہے کہ شامی فوج حزب اللہ کے جنگجوؤں کو چھپنے میں مدد دینے کے لیے بعض علاقوں پر مسلسل بمباری کررہی ہے اور یہ اس کا آخری حربہ ہے جو وہ باغیوں کے خلاف آزما رہی ہے۔
صوبہ حمص کے ایک شہر القصیر میں گذشتہ کئی روز سے شامی فوج اور باغی جنگجوؤں کے درمیان لڑائی جاری ہے اور وہاں شامی فوج کی مدد کے لیے حزب اللہ کے جنگجو بھی موجود ہیں۔یہ شہر دارالحکومت دمشق سے شامی ساحل کی جانب جانے والی شاہراہ پر واقع ہے۔
گذشتہ ہفتے حزب اللہ کے ایک ہزار سے زیادہ جنگجوؤں کی شامی صدر بشارالاسد کی حمایت میں باغیوں سے لڑنے کے لیے آبی راستوں کے ذریعے شام پہنچنے کی اطلاع سامنے آئی تھی اور وہ شام کی بندرگاہ طرطوس پہنچے تھے۔اس کے علاوہ عراق سے بھی اسد حکومت کی وفادار سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے جنگجو شامی علاقے میں داخل ہوئے ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے روز حمص میں باغی جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپوں میں حزب اللہ کے چالیس جنگجو اور فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔شامی صدر بشارالاسد کے خلاف گذشتہ دوسال سے جاری مسلح عوامی تحریک کے دوران یہ پہلا موقع تھا کہ حزب اللہ کے جنگجو شامی حدود میں اتنی زیادہ تعداد میں لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔
واضح رہے کہ امریکا ،کینیڈا اور اسرائیل نے حزب اللہ کو بلیک لسٹ قرار دے رکھا ہے اور ان ممالک نے اپنے ہاں اس کے بنک اثاثے منجمد کردیے تھے۔یورپ میں صرف نیدرلینڈز نے حزب اللہ کو دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے جبکہ برطانیہ نے اس کے عسکری ونگ کو بلیک لسٹ کردیا تھا۔
اس ماہ کے اوائل میں خلیجی ریاست بحرین نے بھی لبنانی شیعہ تنظیم کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔اس نے حزب اللہ پر الزام عاید کیا تھا کہ وہ بحرین سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع کو حکومت کے خلاف محاذ آراء کرنے کے لیے تربیت دے رہی ہے۔بحرین پہلا عرب ملک ہے جس نے لبنانی تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔
http://urdu.alarabiya.net/ur/middle...0-جنگجوؤں-کی-لاشوں-کی-شام-سے-لبنان-واپسی.html