وہاب اعجاز خان
محفلین
میراجی کے بغیر جدید اردو شاعری کا ذکر نامکمل ہے۔ انھوں نے جس خوبصورتی سے جنسی نفسیات اور تجربات کو اردو نظم میں شامل کیا ہے شاید ہی کوئی اور کر سکے۔ درجِ ذیل نظم ان کی مشہور نظموں میں سے ایک جسے اردو کی ایک بدنام ترین نظم بھی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اسلوب ،ابہام ،تخیل ، جنس اور نفسیات کے حوالے سے یہ نظم ایک اعلیٰ اور بہترین شہ پارہ ہے۔
لبِ جوئیبارے
اک ہی پل کے لیے بیٹھ کے پھر اُٹھ بیٹھی
آنکھ نے صرف یہ دیکھا کہ نشتہ بت ہے
یہ بصارت کو نہ تھی تاب کہ وہ دیکھ سکے
کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ
ایک لمحے کے لیے چشمے کی مانند بنا
پیچ کھاتے ہوئے یہ لہر اُٹھی دل میں مرے
کاش یہ یہ جھاڑیاں اک سلسلہء کوہ بنیں
دامنِ کوہ میں ، میں جاکے ستادہ ہو جاوں
ایسی انہونی جو ہوجائے تو کیوں یہ بھی نہ ہو
خشک پتوں کا زمیں پر جو بچھائے بستر
وہ بھی اک ساز بنے، ساز تو ہے! ساز تو ہے!
نغمہ بیدار ہوا تھا جو ابھی، کان ترے
کیوں اُسے سن نہ سکے! سننے سے مجبور رہے
پردہء چشم نے صرف ایک نشتہ بت کو
ذہن کے دائرہء خاص میں مرکوز کیا
آنکھ نے صرف یہ دیکھا کہ نشتہ بت ہے
یہ بصارت کو نہ تھی تاب کہ وہ دیکھ سکے
کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ
ایک لمحے کے لیے چشمے کی مانند بنا
پیچ کھاتے ہوئے یہ لہر اُٹھی دل میں مرے
کاش یہ یہ جھاڑیاں اک سلسلہء کوہ بنیں
دامنِ کوہ میں ، میں جاکے ستادہ ہو جاوں
ایسی انہونی جو ہوجائے تو کیوں یہ بھی نہ ہو
خشک پتوں کا زمیں پر جو بچھائے بستر
وہ بھی اک ساز بنے، ساز تو ہے! ساز تو ہے!
نغمہ بیدار ہوا تھا جو ابھی، کان ترے
کیوں اُسے سن نہ سکے! سننے سے مجبور رہے
پردہء چشم نے صرف ایک نشتہ بت کو
ذہن کے دائرہء خاص میں مرکوز کیا
یاد آتا ہے مجھے، کان ہوئے تھے بیدار
خشک پتوں سے جب آئی تھی تڑپنے کی صدا
اور دامن کی ہر اک لہر چمک اٹھی تھی
پڑ رہا تھا اُسی تلوار کا سایہ شاید
جو نکل آئی تھی اک پل میں نہاں خانے سے
جیسے بے ساختہ انداز میں بجلی چمکے
لیکن اُس دامنِ آلودہ کہ ہر لہر مٹی
جل پری دیکھتے ہی دیکھتے روپوش ہوئی
میں ستادہ ہی رہا میں نے نہ دیکھا (افسوس!)
کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ
ایک لمحے کے لیے چشمے کی مانند بنا
خشک پتوں سے جب آئی تھی تڑپنے کی صدا
اور دامن کی ہر اک لہر چمک اٹھی تھی
پڑ رہا تھا اُسی تلوار کا سایہ شاید
جو نکل آئی تھی اک پل میں نہاں خانے سے
جیسے بے ساختہ انداز میں بجلی چمکے
لیکن اُس دامنِ آلودہ کہ ہر لہر مٹی
جل پری دیکھتے ہی دیکھتے روپوش ہوئی
میں ستادہ ہی رہا میں نے نہ دیکھا (افسوس!)
کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ
ایک لمحے کے لیے چشمے کی مانند بنا
دامن کوہ میں استادہ نہیں ہوں اس وقت
جھاڑیاں سلسلہء کوہ نہیں، پردہ ہیں
جس کے اُس پار جھلکتا نظر آتا ہے مجھے
منظر انجان، اچھوتی سی دلہن کی صورت
جھاڑیاں سلسلہء کوہ نہیں، پردہ ہیں
جس کے اُس پار جھلکتا نظر آتا ہے مجھے
منظر انجان، اچھوتی سی دلہن کی صورت
ہاں تصور کو میں اب اپنے بنا کر دولہا
اسی پردے کے نہاں خانے میں جاوں گا کبھی
کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ
دلِ بے تاب کی مانند تڑپ اُٹھا تھا!
اسی پردے کے نہاں خانے میں جاوں گا کبھی
کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ
دلِ بے تاب کی مانند تڑپ اُٹھا تھا!
زندگی گرم تھی ہر بوند میں آبی پاوں
خشک پتوں پہ پھسلتے ہوئے جا پہنچے تھے!
میں بھی موجود تھا، اک کرمک بے نام و نشاں
میں نے دیکھا کہ گھٹا شق ہوئی، دھارا نکلی
برق رفتاری سے اک تیر کماں نے چھوڑا
اور وہ خم کھا کے لچکتا ہوا تھرا کے گرا
قلہء کوہ سے گرتے ہوئے پتھر کی طرح
کوئی بھی روک نہ تھی اُس کے لیے، اُس کے لیے
خشک پتوں کا زمیں پر ہی بچھا تھا بستر!
اُسی بستر پہ وہ انجان پری لیٹ گئی!
اور میں کرمک بے نام ، گھٹا کی صورت
اسی امید پہ تکتارہا ، تکتا ہی رہا
اب اسی وقت کوئی جل کی پری آجائے
بنسری ہاتھ میں لے کر میں گوالا بن جاوں
جل پری نے دیکھا ابھی آسودہ ہوئی لیٹ گئی
لیکن افسوس کہ میں اب بھی کھڑاہوں تنہا١
ہاتھ آلودہ ہے، نمدار ہے، دھندلی ہے نظر
ہاتھ سے آنکھوں کے آنسوں تو نہیں پونچھے تھے!
خشک پتوں پہ پھسلتے ہوئے جا پہنچے تھے!
میں بھی موجود تھا، اک کرمک بے نام و نشاں
میں نے دیکھا کہ گھٹا شق ہوئی، دھارا نکلی
برق رفتاری سے اک تیر کماں نے چھوڑا
اور وہ خم کھا کے لچکتا ہوا تھرا کے گرا
قلہء کوہ سے گرتے ہوئے پتھر کی طرح
کوئی بھی روک نہ تھی اُس کے لیے، اُس کے لیے
خشک پتوں کا زمیں پر ہی بچھا تھا بستر!
اُسی بستر پہ وہ انجان پری لیٹ گئی!
اور میں کرمک بے نام ، گھٹا کی صورت
اسی امید پہ تکتارہا ، تکتا ہی رہا
اب اسی وقت کوئی جل کی پری آجائے
بنسری ہاتھ میں لے کر میں گوالا بن جاوں
جل پری نے دیکھا ابھی آسودہ ہوئی لیٹ گئی
لیکن افسوس کہ میں اب بھی کھڑاہوں تنہا١
ہاتھ آلودہ ہے، نمدار ہے، دھندلی ہے نظر
ہاتھ سے آنکھوں کے آنسوں تو نہیں پونچھے تھے!