ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
لب پہ شکوہ بھی نہیں ، آنکھ میں آنسو بھی نہیں
مجھ سے دل کھول کے لگتا ہے مِلا تو بھی نہیں
اُن کی آنکھوں کے ستارے توبہت دور کی بات
ہم وہاں ہیں کہ جہاں یاد کے جگنو بھی نہیں
جب سے گردن میں نہیں ہے کوئی بانہوں کی کمان
میرے سینے میں کوئی تیر تراز و بھی نہیں
یا تو ماضی کی مہک ہے یا کشش مٹی کی
ورنہ اُن گلیوں میں ایسا کوئی جادو بھی نہیں
رات کی بات تھی شاید وہ نشہ اور جادو
دن چڑھے رات کی رانی میں وہ خوشبو بھی نہیں
ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۶
ٹیگ: فاتح محمد تابش صدیقی سید عاطف علی کاشف اختر
مجھ سے دل کھول کے لگتا ہے مِلا تو بھی نہیں
اُن کی آنکھوں کے ستارے توبہت دور کی بات
ہم وہاں ہیں کہ جہاں یاد کے جگنو بھی نہیں
جب سے گردن میں نہیں ہے کوئی بانہوں کی کمان
میرے سینے میں کوئی تیر تراز و بھی نہیں
یا تو ماضی کی مہک ہے یا کشش مٹی کی
ورنہ اُن گلیوں میں ایسا کوئی جادو بھی نہیں
رات کی بات تھی شاید وہ نشہ اور جادو
دن چڑھے رات کی رانی میں وہ خوشبو بھی نہیں
ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۶
ٹیگ: فاتح محمد تابش صدیقی سید عاطف علی کاشف اختر