لب پہ شکوہ بھی نہیں ، آنکھ میں آنسو بھی نہیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لب پہ شکوہ بھی نہیں ، آنکھ میں آنسو بھی نہیں
مجھ سے دل کھول کے لگتا ہے مِلا تو بھی نہیں

اُن کی آنکھوں کے ستارے توبہت دور کی بات
ہم وہاں ہیں کہ جہاں یاد کے جگنو بھی نہیں

جب سے گردن میں نہیں ہے کوئی بانہوں کی کمان
میرے سینے میں کوئی تیر تراز و بھی نہیں

یا تو ماضی کی مہک ہے یا کشش مٹی کی
ورنہ اُن گلیوں میں ایسا کوئی جادو بھی نہیں

رات کی بات تھی شاید وہ نشہ اور جادو
دن چڑھے رات کی رانی میں وہ خوشبو بھی نہیں

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۶

ٹیگ: فاتح محمد تابش صدیقی سید عاطف علی کاشف اختر
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ کیا کہنے۔ ایک اور خوبصورت غزل
حیرت ہے مجھے ٹیگ کی اطلاع کیوں نہ موصول ہوئی۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ کیا کہنے۔ ایک اور خوبصورت غزل
حیرت ہے مجھے ٹیگ کی اطلاع کیوں نہ موصول ہوئی۔
فاتح بھائی قصور میرا ہی ہے ۔ جب ایک ساتھ دس دس غزلوں میں لوگوں کو ٹیگ کروں گا تو ایک آدھ کا ادھر ادھر ہوجانا عین ممکن ہے ۔ کوشش کررہا ہوں کہ جلد ازجلد اس کام سے فارغ ہوکر کوئی بہتر اور مفیدمطلب کام کیا جائے ۔
داد کے لئے ممنون ہوں ۔ بہت نوازش! خدا آپ کو خوش رکھے!
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ۔

کیا ہی اچھی غزل ہے۔

ایک ایک شعر موتی ہے۔

کب سے سوچے بیٹھا ہوں کہ ایک دن لگ کر آپ کا سارا کلام پڑھوں گا لیکن وہ ایک دن آ کر ہی نہیں دے رہا۔

اب سوچا ہے کہ ایک ایک کرکے ہی سہی لیکن ایسے اچھے کلام سے محرومی ٹھیک نہیں ہے۔

بہت سی داد خاکسار کی طرف سے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف
 
Top