ام اویس
محفلین
خالق کائنات نے ہر جاندار کو الگ الگ خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا جو اس سے جدا نہیں ہو سکتیں۔ انسان کی پیدائش بھی بہت سی خوبیوں اورنفس کی کمزوریوں کے ساتھ ہوئی۔ انسان بحیثیت ذات لذت کا متلاشی ہے۔ ہمیشہ اس چیز کی تلاش میں رہتا ہے جو اسے خوشی اور لذت بخشتی ہے اور اس سے اجتناب کرتا ہے جو اسے رنج والم میں مبتلا کرتی ہے ۔
خواہش کرنا اور کرتے ہی رہنا پھر تکمیل خواہش پر لذت کا حصول اس کے مزاج میں شامل ہے ۔ یہی لذت اسے نئے سے نیا کرنے، اپنی ذات کو منوانے ، آگے بڑھنے اور دنیا میں مشغول ہوجانے پر اکساتی ہے ۔ اسی لذت کے حصول کے لیے مصور کینوس پر رنگوں سے کھیلتا ہے،ادیب دماغ کی ساری قوت خرچ کرکے نت نئے الفاظ میں اثرات کی چاشنی پیدا کرتا ہے، واعظ زورِ خطابت آزماتا ہے، فنکار و گلوکار اپنے فن کی بلندی حاصل کرنے کے جتن کرتا ہے، دلکش نظاروں کا متلاشی اپنے ذوق ونظر کی تسکین کے لیے دوردراز کے سفرکی مشقت برداشت کرتا ہے۔ غرض ہر شخص کسی نہ کسی سطح پر لذت کا طلبگارہے اور اس طلب میں خواہش کی غلامی اختیار کرتا ہے۔ شہرت و عزت کی چاہت کے سبب ملنے والی لذت بڑی سے بڑی مشقت آسان کر دیتی ہے۔ سیاست کا میدان ہو یا ثقافت کا ، صحافت کا شعبہ ہویا عبادت کا انسان شہرت و عزت کی طلب میں مبتلا ہوجائے تو لذت کے حصول کے لیے سخت محنت کے ساتھ دنیاوی آسائشوں سے گریزمیں بھی ذرہ برابر تنگی محسوس نہیں کرتا۔ لوگوں کی عقیدت و ستائش کے اظہار سے جو لذت حاصل ہوتی ہےاس سے نفس سرشار رہتا ہے۔ خواہشات نفسانی کی لذت گو لخطہ بھر کے لئے ہوتی ہے لیکن نفس اس کی طلب میں بے قرار رہتا ہے۔ خواہش کی پیروی کرنے والا لاشعوری طور پر ہر وقت مال ، جنس ، جھوٹی شان وشوکت اورشہرت کے مزے لینے میں لگا رہتا ہے۔
دنیا کی زندگی مختصراورفنا ہوجانے والی ہے۔ اس امتحان گاہ میں لامتناہی خواہشات ہیں۔ ایک کی تکمیل ایک نئی خواہش کی ابتدا ہے۔ یہاں کی حاصل شدہ لذتیں بھی اسی کی طرح فانی اور تشنہ رہنے والی ہیں اس کے مقابل آخرت کی زندگی ابدی اور لازوال ہے۔ خواہشات کی تکمیل اورلذات کی انتہا کے لیے اخروی زندگی میں ابدیت رکھ دی گئی۔ درحقیقت فرشتے اور انسان میں فرق خواہش و لذت کا ہی ہے۔ اگر انسان میں خواہش اور لذت کی حرص نہ ہوتی تو وہ فرشتہ ہوتا۔ یہی چیز اسے فرشتوں کی صف سے نکال کر انسان کے درجے میں لاتی ہے۔ لیکن اسے خواہشات ولذات میں مبتلا رہنے کے لیے نہیں بنایا گیا کیونکہ انسان ہونے سے پہلے وہ الله کا بندہ ہے اوربندگی کا تقاضہ ہے کہ اس کی ہر خواہش اور لذت مالک و خالق حقیقی کے تابع ہو۔
یہی “بندگی” کا اصل جوہر ہے۔
لذت ۔ - نزہت وسیم - Daleel.Pk
خواہش کرنا اور کرتے ہی رہنا پھر تکمیل خواہش پر لذت کا حصول اس کے مزاج میں شامل ہے ۔ یہی لذت اسے نئے سے نیا کرنے، اپنی ذات کو منوانے ، آگے بڑھنے اور دنیا میں مشغول ہوجانے پر اکساتی ہے ۔ اسی لذت کے حصول کے لیے مصور کینوس پر رنگوں سے کھیلتا ہے،ادیب دماغ کی ساری قوت خرچ کرکے نت نئے الفاظ میں اثرات کی چاشنی پیدا کرتا ہے، واعظ زورِ خطابت آزماتا ہے، فنکار و گلوکار اپنے فن کی بلندی حاصل کرنے کے جتن کرتا ہے، دلکش نظاروں کا متلاشی اپنے ذوق ونظر کی تسکین کے لیے دوردراز کے سفرکی مشقت برداشت کرتا ہے۔ غرض ہر شخص کسی نہ کسی سطح پر لذت کا طلبگارہے اور اس طلب میں خواہش کی غلامی اختیار کرتا ہے۔ شہرت و عزت کی چاہت کے سبب ملنے والی لذت بڑی سے بڑی مشقت آسان کر دیتی ہے۔ سیاست کا میدان ہو یا ثقافت کا ، صحافت کا شعبہ ہویا عبادت کا انسان شہرت و عزت کی طلب میں مبتلا ہوجائے تو لذت کے حصول کے لیے سخت محنت کے ساتھ دنیاوی آسائشوں سے گریزمیں بھی ذرہ برابر تنگی محسوس نہیں کرتا۔ لوگوں کی عقیدت و ستائش کے اظہار سے جو لذت حاصل ہوتی ہےاس سے نفس سرشار رہتا ہے۔ خواہشات نفسانی کی لذت گو لخطہ بھر کے لئے ہوتی ہے لیکن نفس اس کی طلب میں بے قرار رہتا ہے۔ خواہش کی پیروی کرنے والا لاشعوری طور پر ہر وقت مال ، جنس ، جھوٹی شان وشوکت اورشہرت کے مزے لینے میں لگا رہتا ہے۔
دنیا کی زندگی مختصراورفنا ہوجانے والی ہے۔ اس امتحان گاہ میں لامتناہی خواہشات ہیں۔ ایک کی تکمیل ایک نئی خواہش کی ابتدا ہے۔ یہاں کی حاصل شدہ لذتیں بھی اسی کی طرح فانی اور تشنہ رہنے والی ہیں اس کے مقابل آخرت کی زندگی ابدی اور لازوال ہے۔ خواہشات کی تکمیل اورلذات کی انتہا کے لیے اخروی زندگی میں ابدیت رکھ دی گئی۔ درحقیقت فرشتے اور انسان میں فرق خواہش و لذت کا ہی ہے۔ اگر انسان میں خواہش اور لذت کی حرص نہ ہوتی تو وہ فرشتہ ہوتا۔ یہی چیز اسے فرشتوں کی صف سے نکال کر انسان کے درجے میں لاتی ہے۔ لیکن اسے خواہشات ولذات میں مبتلا رہنے کے لیے نہیں بنایا گیا کیونکہ انسان ہونے سے پہلے وہ الله کا بندہ ہے اوربندگی کا تقاضہ ہے کہ اس کی ہر خواہش اور لذت مالک و خالق حقیقی کے تابع ہو۔
یہی “بندگی” کا اصل جوہر ہے۔
لذت ۔ - نزہت وسیم - Daleel.Pk